مشکل وقت میں پرسکون رہنے کا طریقہ

زندگی میں بدبختی کے دن بھی آتے ہیں جب لگتا ہے کہ ہرشے الٹ پلٹ گئی ہے ۔ آپ صبح اٹھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ بجلی غائب ہے ۔ دسمبر کی یخ سردی میں ٹھنڈے پانی سے نہاتے ہیں ۔ واپڈا والوں کو جلی کٹی سناتے ہوئے دفتر پہنچتے ہیں تو انکشاف ہوتا ہے کہ پچھلی رات عملے کی ڈاؤن سائزنگ ہوئی ہے ۔ سیکڑوں ملازم فارغ کردیئے گئے ہیں جن میں آپ کا نام بھی شامل ہے ۔ ابھی آپ برطرفی کا خط پڑھ رہے ہیں اور موبائل فون کی گھنٹی بجتی ہے اور خبر ملتی ہے کہ دیرینہ دوست فوت ہوگیا ہے ۔ میز پر ایک بل بھی پڑا ہے جو ورکشاپ نے گاڑی کی مرمت کرنے کے بعد بھیجا ہے ۔

آدمی پر جب اچانک اس قسم کے دباؤ پڑتے ہیں تو گویا نروس بریک ڈاؤن کے لیے سازگار صورت حال پیدا ہوجاتی ہے ۔ وہ خود کو بے بس سمجھنے لگتا ہے ۔ اس کیفیت میں شدت سے ہسپتال کا رخ کرنے کی ضرورت پڑتی ہے ۔ آج کی پیچیدہ اور تیزرفتار زندگی میں اس قسم کے مواقع غیر معمولی نہیں رہے ۔

امریکا کے ذہنی صحت کے قومی ادارے کے ڈاکٹر ملٹن سلور مین کا کہنا ہے کہ زندگی میں کبھی نہ کبھی ہم سب کو ایسی صورت حال سے دوچار ہونا پڑتا ہے جو ہمیں حواس باختہ کردیتی ہے ۔ ذہن ماؤف ہوجاتا ہے ۔ یہ صورت حال ذہنی امراض تک بھی لے جاسکتی ہے ۔ بعض معمولی جسمانی بیماریاں بھی ذہنی مسائل پیدا کرسکتی ہیں ۔ چنانچہ کیلی فورنیا یونیورسٹی کے ذہنی امراض کے علوم کے پروفیسر ملٹن گرین بلاٹ نے اس امر کی تصدیق کی ہے ۔ ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ ساٹھ سے ستر فی صد کیسوں میں جسمانی بیماریاں جذباتی اور ذہنی مشکلات کا سبب بنتی ہیں ۔ اس کا مطلب بالکل واضح ہے اور وہ یہ ہے کہ کسی نہ کسی حد تک ہم سب خطرے کی زد میں ہیں ۔ ہم سب خود کو محفوظ رکھنے کی خاطر ہاتھ پاؤں ماررہے ہیں ۔

یہی وجہ ہے کہ ذہنی صحت کے ماہرین کے نزدیک ہم سب کو ’’ نفسیاتی فرسٹ ایڈ ‘‘ کا طریقہ کار سیکھنا چاہیے ۔ یہ طریقہ کار ہمیں دباؤ اور تناؤ کی حالت میں اپنے آپ کو قابو رکھنے اور پرسکون رہنے میں مدد دیتا ہے ۔ پیشہ ورانہ مدد ضروری ہو تو بھی نفسیاتی فرسٹ ایڈ مفید ثابت ہوتی ہے ، کیونکہ وہ فوری طورپر تھوڑا بہت سکون دینے اور ڈاکٹروں کے آنے تک خود پر قابو رکھنے میں مدد دیتی ہے ۔ پھر یہ بھی ہے کہ ماہرانہ رہنمائی چاہے جس قدر بھی دستیاب ہوجائے ، بحران سے خود کو نکالنے کے لیے ہمیں خود ہی تگ ودو کرنی پڑتی ہے ۔

 

اس سلسلے میں لوگوں کی تربیت کرنے کے لیے ترقی یافتہ ممالک میں تیس ہزار سے زیادہ گروپ وجود میں آچکے ہیں ۔ آپ ان کو ذہنی صحت کے معاملے میں اپنی مدد آپ کرنے کی تربیت دینے والے گروپ کہہ سکتے ہیں ۔ یہ گروپ پانچ لاکھ سے زیادہ لوگوں کی خدمت کررہے ہیں ۔ ذہنی صحت کے ماہرین ان گروپوں کے کام کو پسند کرتے ہیں اور اس کو مفید سمجھتے ہیں ۔

اس شعبے سے دلچسپی رکھنے والی خاتون ، زینیا کلیگ نے ان میں سے بعض گروپوں کے کام ، طریقہ کار اور مقاصد کی تحقیق کی ہے ۔ وہ یہ جاننا چاہتی تھیں کہ یہ گروپ مشکل حالات میں نمٹنے کے لیے ہمیں کیا سکھا سکتے ہیں ۔ وہ مختلف گروپوں کی کھلی میٹنگوں میں شریک ہوئیں ، ان کے طریقہ کار اور مقاصد کے موضوع پر بحثیں کیں ۔ جس کے بعد انہوں نے ان گروپوں کو اس ترتیب سے بیان کیا۔

ان گروپوں میں ایک کا نام ’’ ریکوری ‘‘ ہے ۔ اس کا آغاز انیس سو سینتیس میں ہوا انیس سے باون میں اس کا سارا انتظام مریضوں کے سپرد کردیا گیا ۔ اب اس کے معاون گروپوں کی تعداد ایک ہزار سے زیادہ ہے اور وہ کئی ملکوں میں پھیلے ہوئے ہیں ۔ ان کی خاص سرگرمیاں امریکا ، پورٹوریکو ، برطانیہ ، کینیڈا اور آئر لینڈ میں ہیں ۔ یہ گروپ لوگوں کومختلف قسم کے خوف اور چھوٹی موٹی اعصابی بیماریوں کے باوجود نارمل زندگی گزارنے کی تربیت دیتے ہیں۔

ایک اور نمایاں گروپ کا نام ’’ گرو‘‘ ہے ۔ انیس سو ستاون میں آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں کان کیوگ نامی ایک کیتھولک پادری نے اس کی بنیاد رکھی تھی ۔ وہ خود بھی ذہنی مریض رہ چکا تھا ۔ ذہنی بریک ڈاؤن سے نجات پانے کی خاطر کیوگ نے اپنے جیسے دوسرے مریضوں کو ساتھ ملایا اور گروپ بنالیا۔ وہ ایک دوسرے کی مدد کرنا چاہتے تھے اور سمجھتے تھے کہ اس طرح سب صحت مندہوسکتے ہیں ۔ ان لوگوں کو جن طریقوں سے مدد ملی ، ان کو مرتب کرکے وہ دوسرے مریضوں کی بھی مدد کرنے لگے ۔ چند ہی برسوں میں انہوں نے کئی ملکوں میں چھ سو کے قریب ایک دوسرے کی مدد کرنے والے گروپ بنالیے ۔ آسٹریلیااور یورپ کے علاوہ ایشیائی ملکوں میں بھی یہ کام کررہے ہیں۔

ایموشنز انونی مس انٹرنیشنل ایک اور گروپ کا نام ہے ۔ جس کا آغاز انیس سو اکہتر میں ہوا تھا ۔ اس نے جذباتی مسائل کے شکار لوگوں کے لیے ایک بارہ نکاتی پروگرام شروع کررکھا ہے ۔ اس گروپ کا صدر دفتر امریکی ریاست منی سوٹا کے قصبے سینٹ پال میں ہے ۔ یہ بھی ایک بین الاقوامی گروپ ہے ۔ جو پاکستان میں بھی کام کررہا ہے ۔

زینیا کلیگ کہتی ہیں کہ ایک رات جب بارش ہورہی تھی ۔ وہ ریکوری گروپ کی ایک میٹنگ میں چلی گئیں ۔ یہ میٹنگ کیلی فورنیا کے شہر سان ڈیگو میں ہورہی تھی ۔ ایک چرچ کے ہال میں تقریبا پندرہ افراد اکٹھے ہوئے تھے ۔ ان میں سے کوئی بھی حواس باختہ یا غیر معمولی دکھائی نہیں دیتا تھا۔ مگر وہ مختلف جذباتی اور ذہنی الجھنوں کا شکات تھے ۔ مثلا ایک شخص کا مسئلہ یہ تھا کہ وہ دوستوں سے لڑتا جھگڑتا رہتا تھا۔

میٹنگ میں شریک ایک خاتون کانپتی آواز میں دوسروں کو بتانے لگی کہ وہ کسی دور دراز شہر میں مقیم اپنے بھائی سے ملنے کے لیے جانا چاہتی تھی ، لیکن اس کی ماں نے یہ پلان برباد کردیا ہے ۔’’ ماں میرے ساتھ ہمیشہ ہی براسلوک کرتی ہے ۔ ہروقت وہ کہتی رہتی ہیں کہ میں نااہل ہوں ۔‘‘ پہلے میں اس قسم کے حالات میں اپنے غصے پر قابو نہیں رکھ پاتی تھی ۔ میں آپے سے باہر ہوجایا کرتی تھی لیکن ریکوری گروپ سے میں نے یہ سبق سیکھا ہے کہ ہمیں سوجھ بوجھ سے کام لینا چاہیے ۔ ٹھنڈے دل سے سوچنا چاہیے اور بے مہار جذبوں کو خود پر طاری ہونے کی اجازت نہیں دینی چاہیے ۔ چنانچہ اس بار جب ماں نے میرے پلان کو برباد کیا تو پریشان ہونے کی بجائے میں نے ایک دوست کو سارا ماجرا سنایا اور یوں دل کا بوجھ ہلکا کرلیا۔

اس خاتون نے بات مکمل کرلی تو میٹنگ میں موجود دوسرے لوگوں نے اس کو مبارکباددی کہ اس نے حالات کے دباؤ میں آنے کے بجائے پرسکون طریقے سے ان کا مقابلہ کیا ہے ۔ ایک دوسری عورت جو وہاں بیٹھی تھی ، کھڑی ہوئی اور کہنے لگی کہ ’’ ہم نے دیکھا ہے کہ ہم اپنے خیالات اور جذبات پر قابو حاصل کرسکتے ہیں ۔‘‘ یہ عورت چند ہفتے پہلے ہی نروس بریک ڈاؤن کے اذیت ناک تجربے سے گزرنے کے بعد اس گروپ میں شامل ہوئی تھی ۔ اس نے اپنے تجربے کی بنیاد پر یہ بھی کہا کہ ’’ اب میں صحت مند ہوں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ میں نے ’’ نفسیاتی فرسٹ ایڈ ‘‘ کے طریقوں پر اچھی طرح عمل کیا تھا ۔ مجھے یقین ہے کہ میری طرح دوسرے لوگ بھی ان طریقوں سے بھرپور فائدہ اٹھا سکتے ہیں ‘‘۔

ہمارے ایک دوست ماہرنفسیات کا کہنا یہ ہے کہ شدید دباؤ کی حالت میں اکثر لوگوں کے لیے لمحاتی طور پر حواس کا معطل ہونا محض ایک عارضی مرحلہ ہے جس کی روک تھام کے لیے پیشہ ور ماہرین کی مدد حاصل کرنا ضروری نہیں ۔ تاہم اس قسم کی کیفیت باربار طاری ہوتو پھر ضرور ماہرین سے رجوع کرنا چاہیے ۔ ہم نے پہلے جن گروپوں کا ذکر کیا ہے ، وہ دباؤ کے حالات کا مقابلہ کرنے کی انسانی اہلیت بڑھانے میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں ۔ ان کا نقطہ نظر یہ ہے کہ اگر انسان کی قوت مزاحمت زیادہ مضبوط ہوجائے تو پھر وہ پریشان کن حالات میں بھی اپنے آپ پر قابو آسانی سے رکھ سکتا ہے ۔ ریکوری اور اس جیسے دوسرے گروپ شدید پریشانی ، غصہ یا ڈپریشن اور ان سے متعلقہ جسمانی علامتوں ، مثلا دل کی دھڑکن کا تیز ہونا ، کا مقابلہ کرنے کی تربیت دیتے ہیں ۔

سڈنی کے پادری کان کیوگ کا ابھی ہم نے ذکر کیا تھا ۔ اس کا کہنا یہ ہے کہ ’’ تمام ذہنی عارضوں میں ہوتا یہ ہے کہ ہم اپنا توازن کھو دیتے ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ہم کسی چیز یا معاملے کو اس قدر بڑھا چڑھا دیتے ہیں کہ ہمارے احساسات سوچنے سمجھنے اور اعتدال سے عمل کرنے کی صلاحیتوں کو منتشر کردیتے ہیں ۔ ان عارضوں سے بچنے کا طریقہ یہ ہے کہ ہم اپنی اعتدال پسندی کو پہلے سے زیادہ مضبوط کریں اور چیزوں کو معروضی انداز میں دیکھنے کی کوشش کریں ۔

ہرلین بس ہوائی میں گرو گروپ کی سربراہ ہیں ۔ انہوں نے ہونو لولو کے ایک اجلاس میں ذاتی کامیابی کا قصہ بیان کیا۔ انہوں نے کہ ’’ پچھلے جمعے کی رات ایک شخص نے میری سخت توہین کی ۔ میں اپنے آپ کو بہت ہی حقیر اور بے قدر محسوس کرنے لگی ۔ اس واقعے کی وجہ سے مجھے رات بھر نیند نہ آئی ۔ لیکن آخرکار میں نے اپنے آپ کو سمجھایا کہ میں ایک قابل قدر خاتون ہوں ۔ اپنے معاشرے کی مفید رکن ہوں ۔ میں ایسا کوئی کام نہیں کررہی جس سے دوسروں کو تکلیف پہنچے ۔ لہذا جس شخص نے میرے احساسات کو ٹھیس لگائی ہے ، وہ کسی مسئلے سے دوچار ہوگااور اس کی ذہنی کیفیت ٹھیک نہ ہوگی ۔ مجھے پریشان نہیں ہونا چاہیے ۔ ‘‘ ہرلین صاحبہ کہتی ہیں کہ اس کے بعد وہ اپنے بیڈ روم میں گئیں اور مزے سے سو گئیں ۔

بیٹی کینی سٹن نے انیس سو اٹھاون میں سان ڈیگو میں ریکوری کا گروپ بنایا تھا ۔ یہ ان دنوں کی بات ہے کہ جب اسے خوف وہراس کے دورے پڑتے تھے ۔ انہوں نے ایک ذہنی معالج سے رابطہ کیا مگر وہ یہ کیفیت دور کرنے میں کامیاب نہ ہوسکا۔ البتہ ریکوری گروپ میں ڈیڑھ سال گزارنے کے بعد بیٹی کینی سٹن کی تکلیف بڑی حد تک دور ہوگئی ۔ زینیا کلیگ کو انہوں نے بتایا کہ اب جب کبھی دورہ پڑتا ہے تو وہ اس سے کس طرح نمٹتی ہیں ۔ ’’ چند روز پہلے میری ایک ضروری میٹنگ تھی ، لیکن اس سے ایک شام پہلے میرے دل کی دھڑکن اچانک تیز ہوگئی اور سانس لینے میں دشواری ہونے لگی ۔ اس کے بعد وہی خوف وہراس کی کیفیت ذہن پر چھاگئی ۔ میں نے اپنے آپ سے سوال کیا کہ ایسا کیوں ہورہا ہے ۔ مجھے معلوم تھا کہ میرے دل میں خوف ہے کہ بزنس میٹنگ میں میری کارکردگی اچھی نہ رہے ۔ چنانچہ میں بسترپر بالکل بے حس وحرکت لیٹ گئی اور تمام اعضا ڈھیلے چھوڑ دیئے ۔ تھوڑی دیر میں دورے کی تمام علامتیں خود بخود غائب ہوگئیں ۔ ‘‘
کیا آپ کو بھی کبھی محسوس ہوا ہے کہ آپ حواس کھورہے ہیں ؟ یہاں ہم چند رہنما اصول دے رہے ہیں جو اس قسم کی کیفیت میں آپ کی مدد کریں گے ۔

سکون
ریکوری گروپ کے رہنما جو پہلا اصول تجویز کرتے ہیں ۔ وہ یہ ہے کہ دباؤ اور تناؤ کی کیفیت سے آپ دوچار ہوں تو فورا آرام سے بیٹھ جائیں اور مناسب ہو تو لیٹ جائیں ۔ جب تک آپ کے اعضاء میں کھچاؤ پیدا نہ ہو ، آپ پریشانی کا شکار نہیں ہوسکتے ، بیٹھنے یا لیٹنے کا مشورہ اس لیے دیا جاتا ہے کہ اعضاء کو سکون ملے اور وہ نارمل کیفیت میں آجائیں ۔ اس کے بعد آپ پارک میں سیر کے لیے جاسکتے ہیں یا گھر کے لان میں چہل قدمی سے لطف اندوز ہوسکتے ہیں ۔

دوسرا قدم یہ ہے کہ اپنے خیالات تبدیل کرنے کی کوشش کریں ۔ حافظے پر زور دیں ۔ کوئی پرانی نظم ، کوئی گیت جو آپ بھول چکے ہیں ، اس کو یاد کریں ۔ برسوں پہلے سنے ہوئے لطیفے دہرائیں یا کوئی نئی نظم یاد کرنے کی کوشش کریں ۔ یوں موجودہ مسئلے سے اپنی توجہ ہٹائیں ۔ اس کی وجہ ہرگز یہ نہیں کہ توجہ ہٹانے سے وہ مسئلہ حل ہوجائے گا۔ بلکہ اس مشورے کی وجہ یہ ہے کہ اس وقت آپ مسئلے کے ہاتھوں پریشان ہیں ۔ لہذا عقلی طور پر اس کو حل کرنے ی اہلیت وقتی طور پر کمزور ہوچکی ہے ۔

تھوڑا آرام کریں ، کچھ دیر بعد جب آپ ذرا پرسکون ہوں تو دوبارہ مسئلے پر غور کریں ۔ اس بات کا معروضی انداز میں تعین کریں کہ مسئلے میں کون سی ایسی بات ہے جو آپ کو پریشان کررہی ہے ۔ ممکن ہے کہ اس مرحلے پر آپ اپنے احساسات کو کنٹرول نہ کرسکیں ، لیکن آپ اپنے خیالات اور اضطراری تحریکوں پر قابو ضرور پاسکیں گے ۔

علامتیں
یاد رکھیں کہ علامتیں تکلیف دہ ہوتی ہیں مگر خطرناک نہیں ہوتیں ۔ جب دم گھٹنے کا احساس ہو تو سمجھیے کہ یہ کھچاؤ کی محض ایک علامت ہے اور کہ آپ کو نقصان نہیں پہنچاسکتی ۔ احساسات حقائق نہیں ہوا کرتے ۔ احساسات اور حقائق میں بہت سا فرق ہے ۔ اس فرق کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے ۔ بلکہ انہیں پیش نظر رکھنا چاہیے ۔

علامتوں کو جانے دیں
جب علامتیں نمایاں ہوں تو پریشان ہونے کے بجائے ، جہاں تک ممکن ہو ، ان کو نظرانداز کرکے معمول کے کام جاری رکھیں ۔ پریشان کرنے والے عوامل کا مقا بلہ کریں ۔ یوں کی مزاحمت ہوگی تو ان کا حملہ پسپا ہوجائے گا یا کم ازکم اس کی شدت ختم ہوجائے گی ۔ اطمینان کے ساتھ بستر سے اٹھیں ۔ روزمرہ کے معمولات میں مصروف ہوجائیں ۔ جو آپ اپنے اعضاء کو کہیں گے ، وہ وہی کچھ کریں گے ۔ اپنے رویئے ، طرز عمل اور کردار کو صحت مند رکھیں ۔ اس طرح آپ کی جذباتی حالت خودبخود سدھر جائے گی ۔

مبالغہ آمیز زبان سے گریز کریں
سردرد ہورہا ہوتو یہ مت کہیں کہ ’’ یہ درد مجھے مارے دے رہا ہے ۔‘‘ یہ نقصاندہ مبالغہ آرائی ہے ۔ درد آپ کو ہلاک نہیں کررہا ۔ بلاشبہ یہ تکلیف دہ ہے ، لیکن آخرکار اس نے ختم ہونا ہے ۔ اس کی وجہ سے نیند نہیں آرہی تو منفی خیالات ذہن میں نہ آنے دیں ۔ یہ مت کہیں کی ’’ میں مررہا ہوں ۔‘‘ یا یہ کہ ’’یہ تو کوئی خطرناک بیماری ہے ۔‘‘اس کے بجائے آرام سے بستر پر لیٹے رہیں ۔ نیند نہ آئی تو بھی کچھ سکون مل جائے گا۔

احساسات کے ناز نہ اٹھائیں
آپ خودرحمی میں مبتلا ہوجائیں ، خود کو بدنصیب اور قسمت کا مارا خیال کرنے لگیں ، خود پر بے بسی اور بے کسی طاری کرلیں تو اس سے آپ کو کوئی فائدہ نہ ہوگا۔ یہ منفی احساسات ہیں اور ان کے نتائج بھی ہمیشہ منفی ہی ہوا کرتے ہیں ۔ اسی طرح دوسروں سے نفرت کرنے ، ان سے بدلہ لینے ، ان کو تنگ کرنے کے خیالات اور اپنے مصائب کے لیے ان کو الزام دینے کی کوششیں خود آپ کو دق کرتی ہیں اور ہیجان میں مبتلا رکھتی ہیں ۔ ان سے بچنا چاہیے ۔ یہ آپ کے ذہنی توازن کے لیے نقصان دہ ہیں ۔

غلطیوں سے نہ ڈریں
اپنے آپ کو دنیا جہان سے منفرد اور غیر معمولی خیال کرنا اور دنیا کی ہربات کو جاننے کا دعوی کرنا بھی ذہنی صحت کے لیے اچھا نہیں ہوتا ۔ بلاشبہ آپ میں ایسی کئی خوبیاں ہوں گی جو عام نہیں ہیں اور بہت سے لوگ ان سے محروم ہوتے ہیں ۔ اسی طرح آپ میں کچھ خوبیاں بھی ہوسکتی ہیں جو بہت سے دوسرے لوگوں میں نہیں ہوتیں ۔ آپ باخبر ، باشعور اور باعلم ہوسکتے ہیں ۔ مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ سب کچھ جانتے ہیں ۔ لہذا اس قسم کے خیالات سے بچنا چاہیے ۔ آپ میں غلطیاں کرنے کا حوصلہ ہونا چاہیے ۔ البتہ غلطیوں کو سر پر سوار نہیں کرنا چاہیے ۔ یعنی یہ نہیں ہونا چاہیے کہ آپ سے کوئی غلطی ہوگئی ہے اور آپ اس کو لے کر بیٹھ گئے ہیں ۔ اس پر پچھتائے چلے جارہے ہیں ۔ وقتی ناکامیوں ، غلطیوں اور کوتاہیوں کو آپ کی شخصیت کو مسخ کرنے کی اجازت نہیں دینی چاہیے ۔ جب کوئی غلطی سرزد ہو تو اس کا اعتراف کریں مگر ساتھ ہی ساتھ خود کو کوشش کرنے کا کریڈٹ بھی دیں ۔

بحران سے نمٹنے کے یہ وہ چند اصول ہیں جن کو ریکوری گروپ زیادہ اہمیت دیتا ہے ۔ جیسا کہ ہم نے پہلے بتایا ’’ یہ سب آزمائے ہوئے اصول ہیں ۔ دنیا بھر میں پھیلے اس گروپ کے ہزاروں ارکان روزمرہ کی زندگی کے مشکل لمحات میں ان پر عمل کرتے یں ۔ ان اصولوں کے فائدہ مند ہونے کی تصدیق کرتے ہیں ۔ تو آئیے ریکوری گروپ کے بعد ہم گرو گروپ سے رجوع کرتے ہیں ۔ اس گروپ کا کہنا ہے کہ کسی بحران کی صورت میں ہمیں اپنے آپ سے چار سوال پوچھنے چاہئیں ۔

سب سے پہلے خود یہ پوچھیں کہ مجھے پریشان کرنے والی کون سی بات ہے ؟ اس سوال کے آسان سے جواب پر مطمئن نہیں ہونا چاہیئے ۔ جیساکہ ’’ میرے مقدر ہی خراب ہیں ۔ ‘‘ یا یہ کہ ’’ زمانہ ہی خراب ہے ۔‘‘ وغیرہ وغیرہ ۔ اس کے بجائے اپنی موجودہ پریشانی کا ٹھوس ، واضح اور صریح سبب تلاش کرنا ہوگا۔

پریشانی کا جو سبب آپ نے تلاش کیا ہے ، اس کے بارے میں پوچھیں کہ آیا وہ یقینی ہے یا محض امکانی ہے ۔ یادرکھیں کہ اکثر لوگوں کو اپنی پریشانی یا بحران کا حقیقی سبب معلوم نہیں ہوتا۔ وہ اس کو تلاش کرنے کی کوشش بھی نہیں کرتے ۔ بعض ماہرین نفسیات تو یہاں تک کہتے ہیں کہ اکثر لوگ اپنی پریشانی کا سبب تلاش کرنے کے بجائے اس سے لطف اٹھانے لگتے ہیں ۔ مسائل کا حقیقت پسندی سے تجزیہ کرنے کے بجائے وہ پریشان ہی رہنا چاہتے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ ایسے لوگوں کو کوئی علاج نہیں ۔

پریشانی کا سبب تلاش کرنے اور اس کی نوعیت کا تعین کرنے کے بعد یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ کس قدر اہم ہے اور اس کے نتائج کس قسم کے ہوسکتے ہیں ؟
خود سے پوچھنے والا آخری سوال یہ ہے کہ اس مسئلے کو حل کرنے کے آپ کو کیا کرنا چاہیے ؟
گرو گروپ نے بحران سے نمٹنے کے لیے جو طریقے وضع کررکھے ہیں ، ان میں چند یہ ہیں ۔

حقائق
پریشانی کی کسی کیفیت میں نادرست حقائق اور مسخ شدہ تخیل دونوں عام طورپر سرگرم ہوتے ہیں ۔ اس لیے گرو گروپ کی تلقین یہ ہے کہ اپنے احساسات کو ڈرامائی صورت نہ دیں ۔ ان کو قابو میں رکھیں ۔ اکثرلوگ کام کی زیادتی کی وجہ سے تھکاوٹ محسوس کرتے ہیں یا زندگی کی یک رنگی اور روٹین کی وجہ سے بور ہوجاتے ہیں ۔ ایسے لمحوں میں وہ سوچنے لگتے ہیں کہ زندگی بے لطف اور بے معنی ہے ۔ زندہ رہنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے ۔ مگر یاد رکھنے والی بات یہ ہے کہ تھکاوٹ تو تھکاوٹ ہی ہوتی ہے اور بوریت محض بوریت ہے ۔

سوچ کو بہتر بنائیں
دوسرا طریقہ یہ ہے کہ سوچ کو بہتر بنایا جائے ۔ اس طرح احساسات خودبخود بہتر ہوجائیں گے ۔ اگر سوچ درست ہو اور صحیح طرح سے کام کیے جائیں تو پھر فضول اور منفی قسم کے احساسات شخصیت پر غالب نہیں آسکتے ۔ وہ پیدا ہوں تو بھی جلد دم توڑ دیتے ہیں ۔

اندر کی محبت کو استعمال کریں
پریشانی ، بحران اور زندگی سے بے زاری کے لمحوں میں اپنے گردوپیش کے لوگوں ، گھر والوں ، دوستوں اور ساتھیوں کے ساتھ محبت سے پیش آئیں ۔ آپ کی زندگی میں ان کو جو اہمیت ہے ، اس کا اظہار کریں اور ان لوگوں کی زندگی میں آپ کی جو اہمیت ہے ، اس کو محسوس کریں ۔ اس طرح آپ دوسروں کے ساتھ تعلقات کی گرم جوشی کو محسوس کرسکیں گے ۔ الگ تھلگ کمرے میں بند ہو کر نہ بیٹھیں ۔ اس سے پریشانی اور بھی بڑھ جائے گی ۔ دوسروں کے ساتھ میل ملاپ بڑھائیں ۔ ان کی زندگی میں شرکت کریں اور ان کو اپنی زندگی میں شامل ہونے دیں ۔ یوں ایسے مضبوط رشتے وجود میں آئیں گے جو آپ کو منفی احساسات کی گرفت میں نہ جانے دیں گے ۔

انکار
تکلیف دہ اور پریشان کن خیالات کو مرکزی حیثیت دینے سے انکار کردیں ۔ ان کے بجائے مثبت اور صحت مند خیالات کو آگے لائیں ۔

نیت کے بجائے کردار
اکثر لوگوں کو اپنی نیت کا صاف طور پر علم نہیں ہوتا ۔ اس لیے اگر کوئی شخص عجیب سی نظروں سے آپ کو دیکھ رہا ہے تو اس سے دل ہی دل میں فسانہ طرازی شروع نہ کریں ۔ اس کی نیت اور ارادوں کے بارے میں تخیل کو آزاد نہ چھوڑیں ۔ محض عجیب انداز میں دیکھنے سے یہ مطلب اخذ نہ کریں کہ وہ شخص آپ کے بارے میں منفی قسم کے منصوبے بنارہا ہے اور آپ کو نقصان پہنچانے کے درپے ہے ۔ اکثر صورتوں میں بات صرف یہ ہوسکتی ہے کہ اس شخص کے دیکھنے کا انداز ہی ایسا ہے ۔ لہذا بات آگے بڑھانے کا کیا فائدہ ۔ اس کو وہیں ختم کردیں ۔ لوگ واقعی جو کچھ کہتے ہیں ، اس پر توجہ رکھیں ، ناکہ اس پر کہ آپ کے خیال میں وہ کیا کہنا چاہتے ہیں ۔ دوردراز کے اندیشوں سے صرف پریشانیوں میں اضافہ کرتے ہیں ، ان سے بچیں ۔

دوسرا رخ
اس حقیقت کو فراموش نہ کریں کہ انسان کی زندگی میں سکھ اور دکھ دونوں ہوتے ہیں ۔ بعض پریشانیاں ناگزیر ہوتی ہیں ۔ جب ہم ان سے دوچار ہوتے ہیں تو ہمیں تکلیف ہوتی ہے ۔ مگر یہ سب کچھ زندگی کے کھیل کا حصہ ہے ۔ ہم ہروقت خوش باش نہیں رہ سکتے ۔ اس کے ساتھ یہ بھی ہے کہ محض احساسات کسی کے لیے مصیبت نہیں بنتے ، لیکن جب آپ کی سوچ اور طرزعمل کا رابطہ حقیقت سے ٹوٹ جائے تو پھر اذیت ناک کیفیت پیدا ہوتی ہے ۔

آپ خود ذمہ دار ہیں
اپنی پریشانیوں کے لیے دوسروں کو موردالزام ٹھہرانا فضول ہے ۔ آپ خود اپنے ذمہ دار ہیں ۔ اس لیے اپنی ذمہ داریوں کو کھلے دل سے قبول کریں ۔

ہم ایک ہیں
ہم میں سے کون اس حقیقت کو نظرانداز کرسکتا ہے کہ جو کچھ ہمارے لیے تکلیف دہ ہے ، وہ دوسروں کے لیے بھی تکلیف دہ ہے ۔
رنج والم ہوں ، پریشانیاں یا ڈپریشن ہو ، ہماری طرح ان گنت دوسرے لوگ بھی ان کے تجربے سے گزرتے ہیں ۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.