خوف اور وہم
زندگی کے کسی نہ کسی حصے میں ، کبھی نہ کبھی ہم سب ہی خوف کا شکار ہوجاتے ہیں ۔ یہ خوف وقتی ہو تو کوئی حرج نہیں مگر کبھی کبھی تصور میں اٹھتے خیال ، وہم میں تبدیل ہوتے ہیں اور آہستہ آہستہ ہم خوف میں مبتلا کرکے مفلوج کرکے رکھ دیتے ہیں ۔ہم خوف زدہ کیوں ہوتے ہیں اور عام طور پر ہمارا دماغ کیسے کام کرتا ہے ؟ ماہر نفسیات کے نزدیک اگر ہم یہ سمجھ لیں تو ہم مستقبل میں اپنے خوف اور دہشت پر قابو پانے کی پوزیشن میں آجاتے ہیں ۔
ہمارے دماغ میں دو قسم کے نظام کام کرتے ہیں ۔ ایک بھاگ دوڑ کا نظام ہے جسے ’’ گو سسٹم‘کہا جاتا ہے اور ایک سوچ بچار کا نظام ہے جسے ’’ نو سسٹم‘‘ کہتے ہیں ۔بھاگ دوڑ والا نظام یعنی ’’ گو سسٹم ‘‘ آج کے جدید دور میں زیادہ کارآمد نہیں رہا ہے کیونکہ وقت بدلنے کے ساتھ ساتھ ہمیں بھاگنے دوڑنے کی بجائے سوچ بچاریعنی ’’ نو سسٹم‘‘ کی ضرورت زیادہ پڑتی ہے۔
جیسا کہ نام سے ہی ظاہر ہے بھاگ دوڑ کرنے والا نظام ( گو سسٹم) کسی بھی ممکنہ خطرے کی صورت میں فوری طور پر کام شروع کر دیتا ہے۔اور ہمیں اس خطرے والی جگہ سے دور چلے جانے یا اس سے نبرد آزما ہونے کے لیے تیار کر دیتا ہے ( مثلا اگر اچانک کہیں گولی چلنے کی آواز آئے تو ہما را ’’ گو سسٹم ‘‘ چالو ہو جاتا ہے اور ہم سوچے سمجھے بغیر خطرے والی جگہ سے دور بھاگ اٹھتے ہیں ، اسی طرح ہمارا کسی سے جھگڑا ہو جائے تو ہمارا ’’ گو سسٹم ‘‘ چالو ہو کر جسم میں تنائو کی کیفیت پیدا کرکے ہمیں لڑنے مرنے کے لیے تیار کر دیتا ہے۔) یہ صورت حال صرف جسمانی خطرے کی صورت میں ہی پیدا نہیں ہوتی بلکہ کوئی جذباتی اتار چڑھائو بھی اس نظام ( گو سسٹم )کو فوری طور پر بیدار کر دیتا ہے ۔ اس میں باہمی تعلقات کے علاوہ میٹھی چیز کی طلب تک سب کچھ شامل ہے۔
جیسا کہ ہم نے اوپر ذکر کیا کہ ہمارا ’’ گو سسٹم ‘‘ کسی ایسے واقعے کی صورت میں بھی جس میں بظاہر کوئی خطرہ بھی نہ ہو، بیدار ہو جاتا ہے ۔ جیسے کہ اچانک کوئی غبارہ پھٹ جائے تو اس کی آواز سے بھی ہمارا بھاگ دوڑ کا نظام ( گو سسٹم )فوری طور پر بیدار ہو جاتا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سینکڑوں ، ہزاروں سالوں پہلے( جب انسان جنگلوں اور غاروں میں رہتا تھا اور بعد میں سماجی ترقی کے ابتدائی دور میں بھی جب حکومت کا کوئی واضح نظام نہیں تھا ، آئین ، قانون ، عدالتیں وغیرہ )سے یہی نظام ہمارے کام آرہا ہے اور اب نہ چاہتے ہوئے بھی ہم اسی کا استعمال کرتے ہیں۔ یعنی ہم لڑتے ہیں یا موقع سے بھاگ اٹھتے ہیں۔
جبکہ حقیقت یہ ہے کہ آج ہمیں سوچ بچار کرنے کی ضرورت زیادہ محسو س ہوتی ہے، اس لیے ہمیں اپنا ’’ نو سسٹم‘‘ بیدار کرنا ہو گا اور بھاگ دوڑ کے نظام سے چھٹکارا پانے کی شعوری کوشش کرنی پڑے گی۔ اس کے لیے ہمیں اپنی کیفیات اور محسوسات پر نظر رکھنا ہو گی اور دیکھنا ہو گا کہ ہمیں اس وقت کس سسٹم کو بیدار کرنے کی ضرورت ہے ۔جیسا کہ اگر آپ کی جسمانی کیفیت بھاگنے اور دوڑنے کے لیے تیار ہوجبکہ صورت حال ایسی خطرناک نہ ہو تو ایسے میں آپ شعوری طور پر اپنے آپ کو کسی اور کام کی طرف متوجہ کر سکتے ہیں مثال کے طور پر کوئی کھیل یا کوئی گھریلو کام وغیرہ۔ لیکن یہ تب ہی ہو سکتا ہے جب خطرے کی گھنٹی بجتے ہی آپ فوری طور پر اپنی کیفیت کو خود سمجھ لیں۔
اس کے علاوہ ’’ گو سسٹم ‘‘ کو بیدار ہونے سے روکنے کے لیے آپ کوئی سوچ بچار کرنے کا کام شروع کر دیں ۔ جیسے ہی آپ کچھ سوچنا شروع کریں گے خود بخود سوچ بچار کا نظام ’’ نو سسٹم ‘‘ بیدار ہو جائے گا اور بھاگ دوڑ کا نظام ’’ گو سسٹم ‘‘ سو جائے گا۔
یاد رکھیں !ہمیں اپنی زندگی میں تبدیلی لانے کے لیے نئے خیالات اپنانے پڑیں گے ۔ نئے زمانے میں پرانے خیالات ، عقائد اور طرز زندگی کے ساتھ آپ ترقی نہیں کر سکتے۔ نئی سوچ کو اپنانے کے لیے پہلے نئے علوم سیکھنے پڑیں گے اور جب علوم سیکھنے کے بعد آپ انہیں دوسرے لوگوں کو بھی سکھاتے ہیں تو خود بخود یہ علوم آپ کی زندگی کا حصہ بننے لگتے ہیںاور آپ ایک دوسرے سے جڑ کر بہتر زندگی کی طرف اپنا سفر شروع کر دیتے ہیں۔