سرخرو ہونے والوں کے راز
ایلن سماجی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا کرتی تھی ۔وہ ایک کالج پروفیسر کی بیوی اور دو نوجوان بچوں کی ماں تھی ۔ وہ زندگی سے مطمئن ہنسی خوشی زندگی گزار رہی تھی ۔ اچانک ایک روز اس خاندان پر قیامت ٹوٹ پڑی ۔ ایلن کے شوہر نیڈ پر فالج کا حملہ ہوا ۔ اس کا توازن بگڑ گیا اور زبان پر اس کو قابونہ رہا ۔ طلبہ کی کئی نسلوں کو پڑھانے والے کی باتیں مشکل سے سمجھ میں آنے لگیں ۔ شروع میں اسے ہسپتال میں رکھا گیا مگر یہ مہنگا کام تھا ۔یہ سفید پوش خاندان ہسپتال کے اخراجات برداشت نہیں کرسکتا تھا۔
ایلن کی دنیا بکھر گئی مگر اس نے حوصلہ نہ ہارا۔ اس نے نیڈ کو وہیل چیئر پر وقت گزارنے کے ڈھنگ سکھائے ۔ اپنے خاندان کے اس ہول ناک تجربے پر ایک کتاب لکھی تاکہ اس قسم کے حالات سے دوچار ہونے والے دوسرے لوگوں کو حوصلہ مل سکے۔ اس کی زیادہ کوشش یہ تھی کہ نیڈ حوصلہ نہ ہارے ۔ وہ بدستور زندگی کا حصہ رہے ۔ وہ شوہر کو کھیلوں ، ڈراموں اور موسیقی کے پروگراموں میں لے جاتی ۔ نیڈ کو اس نے تھوڑا بہت چلنا بھی سکھا دیا اور وہ قدرے صاف انداز میں گفتگو کرنے لگا ۔
میاں بیوی دونوں ایک بار پھر آسٹریلیا کی سیا حت کے خواب دیکھنے لگے ۔ کئی برسوں سے وہ اس سیاحت کے منصوبے بنا رہے تھے۔
سڈنی کے بارے میں آپ کیا کہیں گے جو بہاماس کے کیٹ جزیرے کا رہنے والا تھا ۔ سولہ سال کی عمر میں وہ دو جماعتوں کی تعلیم اور جیب میں تین ڈالر لیے نیویارک پہنچا ۔ لاکھوں کی آبادی کے اس شہر میں کوئی اسے جاننے والا نہ تھا۔ پہلے پہل اس نے ایک ویران عمارت میں ڈیرہ لگایا اور ملازمت تلاش کرنے لگا، جلد ہی اسے برتن دھونے کا کام مل گیا۔
سڈنی کو اداکاری سے کچھ لگاؤ تھا مگر اس کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔ پھر بھی اخبار میں اس نے امریکن نیگرو تھیٹر کا جب اشتہار دیکھا تو انٹرویو دینے کے لیے چلا گیا ۔ڈائریکٹر نے اس کو اسکرپٹ پڑھنے کے لیے دیا مگر یہ اس کے بس کا روگ نہ تھا ۔ڈائریکٹر غصے سے چلایا ’’ دفع ہوجاؤ یہاں سے ، میرا وقت ضائع مت کرو۔‘‘
سڈنی بددلنہ ہوا ۔پہلے سے زیادہ عزم کے ساتھ وہ ڈائریکٹر کے کمرے سے نکلا ۔ اس نے ایک ریڈیو خریدا اور گھنٹوں تک لوگوں کی آوازیں سننے لگا ۔ وہ ان کے تلفظ سیکھتا اور پھر نقل اتارتا ۔ جس ریسٹورنٹ میں وہ ملازم تھا، وہاں کے ایک ویٹر سے پڑھنے میں مدد لینے لگا۔
کچھ عرصے بعد سڈنی دوبارہ امریکن نیگرو تھیٹر گیا اور وہاں کے دو تین فنکاروں کو اداکاری سکھانے پر آمادہ کرلیا اور روزانہ ان سے سبق لینے لگا ۔ وہ نہ صرف دنیا کا نامور سیاہ فام ایکٹر بننا چاہتا تھا بلکہ بہترین سیاہ فام ایکٹر بننے کے خواب دیکھ رہا تھا ۔برسوں کی محنت اور لگن کے بعد اب دنیا اس کو سڈن پوئٹر کے نام سے جانتی ہے ۔وہ اپنے خواب کو پانے کے لیے طویل فاصلہ طے کرچکا ہے۔
یہ سرخرو ہونے والے ،مہمات سر کرنے والے اور مشکلات پر قابو پانے والے لوگ ہیں ۔ یہ وہ ہیں جنہوں نے زندگی کے مصائب کا مردانہ وار مقابلہ کیا اور پھر ان کو شکست دی ۔ بیماریوں ،ناکامیوں اور بدقسمتیوں نے ان کو گرانا چاہامگر وہ اٹھ کھڑے ہوئے اور ڈٹ گئے ۔ انہوں نے زندگی کا سفر صبروتحمل ،وقار اور حوصلہ مندی کے ساتھ طے کرنے کا عزم کیا اور بالاخر کامیا ب رہے ۔
محققین اس امر پر اتفاق کرتے ہیں کہ زندگی کے امتحان اہم نہیں ہوتے ۔اہم بات یہ ہوتی ہے کہ ہم اس کا مقابلہ کس طرح کرتے ہیں ۔ مشکلات پر قابو پانے والے افراد بحران آنے سے پہلے ہی اس سے نمٹنے کی تیاری شروع کر دیتے ہیں ۔ ایسے لوگوں کا مخصوص تصور زندگی قبول کرکے ہم بھی ان کی فہرست میں شامل ہوسکتے ہیں ۔ان کے مندرجہ ذیل پانچ اصول خاص طور پر اہم ہیں ۔
خوشی کو عادت بنائیں
سرخرو ہونے والے لوگ ہر قسم کے مصائب میں زندگی کے لطف وکرم سے دستبردار نہیں ہوتے ۔ وہ ہر لمحے سے خوشی کے طلب گار ہوتے ہیں ۔وہ ہردن کو قبول کرتے ہیں اور جانتے ہیں کہ اس میں دکھ ہیں ، سکھ ہیں ، مایوسیاں ہیں اور حیرت انگیز باتیں بھی ۔ جب وہ کوئی شاندار کامیابی حاصل نہیں کرسکتے تو شکستہ دل ہونے کے بجائے چھوٹی چھوٹی کامیابیاں قبول کر لیتے ہیں۔ وہ ہر لمحے سے خوشیاں اور ولولے طلب کرتے ہیں ۔ حسن اور بصیرت کے آرزو مند رہتے ہیں ۔
نازی کیمپوں کانام ہی ہیبت طاری کردیتا ہے ۔ ہزاروں لوگوں نے ان کیمپوں میں تاریخ کے سب سے اذیت ناک دن گزارے ہیں اور جانیں دی ہیں۔ مگر ان کیمپوں میںبھی سرخرو ہونے والے لوگ شامل تھے۔ یقین کریں کہ وہ ان کیمپوں میں بھی زندگی کی خوبصورتیاں تلاش کر لیتے تھے ۔ کبھی وہ ڈوبتے ہوئے سورج کے منظر سے لطف اندوز ہوتے اور کبھی کیمپوں میں کھلنے والے جنگلی پھول ان کے لیے خوشی کا سبب بن جاتے ۔ کبھی کبھی وہ چاندنی رات سے لطف اندوز ہونے کے لیے تھکاوٹوں کے باوجود ساری ساری رات آنکھ میں کاٹ دیتے ۔
ٹیرنس ڈسپرس نامی ایک سابق یونیورسٹی پروفیسر نے نازی کیمپوں کے بند رہنے والے افراد کے رویوں کا گہرا مطالعہ کیا ہے ۔ وہ زندگی کی اس ناقابل شکست لگن کو ایسی قوت قرار دیتا ہے جو امید سے کہیں بڑھ کر ہے ۔ یہ ایسا جوش حیات ہے جس کو کوئی دبا نہیں سکتا ۔
ہماری ایک جاننے والی خاتون کو ڈاکٹر نے بتایا تھا کہ وہ ہڈیوں کے کینسر میں مبتلا ہے اور یہ بیماری موت کا سبب بن سکتی ہے ۔ یہ اطلاع خاتون کے لیے رونے دھونے کا سبب نہ بنی ۔ اس کے بجائے اس نے دستیاب وقت کو غنیمت جانا اور تیزی سے اپنی خواہشیں پوری کرنے کی ٹھان لی ۔ برسوں سے وہ دنیا کی سیا حت کی آرزو مند تھی ۔ چنانچہ اسے معلوم ہوا کہ وقت کم رہ گیا ہے اور زندگی موت کے پنجے میں آرہی ہے تو فورا ملک ملک گھومنے نکل کھڑی ہوئی ۔ وہ پہلے سے زیادہ تھیٹر جانے لگی اورسماجی تقریبوں میں اس کی دلچسپی بڑھ گئی ۔ اس کی عمر ستر سال ہونے کو تھی جب اس نے ایک اور شادی کرلی ۔ آپ اس کو زندگی کا بے مثال ولولہ کہہ لیں کہ ڈاکٹروں کی توقع کے برخلاف وہ اب بھی زندہ ہے اور کہا کرتی ہے ’’ وقت کم ہے مگر کرنے والے کام زیادہ ہیں۔‘‘
سرخرو افراد جوش حیات سے لبریز ہوتے ہیں۔ وہ اپنی تمام توانائیاں اور صلاحیتیں استعمال کرنے پر تلے رہتے ہیں ۔ وہ وقت کی قدر کرتے ہیں اور ہر آن خوشیاں سمیٹتے ہیں ، چاہے وہ بہت معمولی ہوں ۔
ماہر نفسیات ناتھانل برینڈن نے خوب ہی کہا ہے کہ رنجیدہ ہونا سب سے آسان کام ہے ،جب کہ خوش باش رہنا مشکل ترین کام ہے ۔ یہ دعوی بالکل درست ہے ۔ ہم میں سے کوئی بھی ہنستے ہوئے اس دنیامیں نہیں آتا ۔ہم نے اپنی خوشیاں خود حاصل کرنی ہوتی ہیں۔
تبدیلی کو قبول کریں
مصیبت نازل ہوتی ہے توہم میں سے اکثر اس کی ذمہ داری دوسروں پر ڈال دیتے ہیں۔پھر گلے شکوے کرنے لگتے ہیں لیکن جن لوگوں کو ہم نے ’’سرخرو‘‘ قرار دیا ہے ،وہ کبھی ایسا نہیں کرتے ۔ وہ جانتے ہیں کہ ہم چاہیں یا نہ چاہیں زندگی میں تبدیلیاں آتی رہتی ہیں اور نت نئے مسائل بھی پیدا ہوتے رہتے ہیں ۔زندگی میں میرا اپنا تجربہ یہ ہے کہ جب میں کسی غیر متوقع مصیبت پر غور کرتا ہوں تو اس کی وجہ سمجھ آجاتی ہے ۔اس پر قابو پانے کی راہیں بھی نظر آنے لگتی ہیں ۔ لہذا زندگی کا اصول یہ ہونا چاہئے کہ تبدیلیوں کو خندہ پیشانی سے قبول کیا جائے ۔ان سے سبق سیکھا جائے ۔ زندگی جب بکھرتی ہے تو نئی صورتیں پیدا ہوتی ہیں ۔
حوصلہ نہ ہاریں
مہم جو جب مصائب میں پھنس جائیں ، چاروں طرف رکاوٹیں ہی رکاوٹیں کھڑی ہوجائیں تو وہ ان سے مغلوب ہونے کے بجائے وقت ضائع کیے بغیر جوہی کچھ کرتے ہیں جو کچھ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔
بل گارگن ایک ایکٹر تھا ۔اس کا سب سے بڑا سرمایہ اس کی آواز تھی ۔ پھر وہ کینسر میں مبتلا ہوا اور ڈاکٹروں نے اس کا نرخرہ نکال دیا ۔ پرکشش آواز کی نعمت اس سے چھن گئی ۔پہلے تو گارگن بہت پریشا ن ہوا ۔ مگر اس نے سوچا کہ ساری زندگی افسوس اور پچھتاوے میں نہیں کاٹنی چاہئے ۔ چنانچہ اس نے بولنے کی مشق شروع کردی ۔ کئی برسوں کی محنت کے بعد وہ تقریریں کرنے کے قابل ہوگیا ۔اس نے ایک نئے انداز سے زندگی شروع کی اور اپنی بقیہ زندگی اپنے جیسے مصیبت زدہ افراد کی مدد کرنے میں بسر کر دی ۔
مانا کہ جدوجہد کے ذریعے ہر مصیبت کو ختم نہیں کیا جاسکتا ۔ بعض ایسی مصیبتیں ہیں کہ جن کو قبول کرنا پڑتا ہے ۔ خیر ، ہم ان کو ختم بھلے نہ کرسکیں لیکن کوششوں کے ذریعے ان کی شدت کو کم کرسکتے ہیں۔ ان کو قابل برداشت بنا سکتے ہیں ۔ مصیبت کی گھڑی میں یہ مت پوچھا کریں ’’ کیامیں ہار گیا؟‘‘ اس کی بجائے یہ پوچھا کریں’’ اب مجھے کیا کرنا ہے؟
‘‘
دوسروں سے رابطے بنائیں
چند ماہ پہلے میری ملاقات ایک ٹیکسی ڈرائیور سے ہوئی تھی ۔ وہ نیک دل اور دوست قسم کا آدمی ہے ۔ کتابیں اس کو اچھی لگتی ہیں ۔ اس نے مجھے بھی چند کتابوں کا تحفہ دیا ۔ میں نے شکریہ ادا کیا اور پوچھا کہ وہ اپنے کام سے خوش ہے ۔
’’ اب نہیں ہوں ۔‘‘ اس نے جواب دیا ۔ اس نے بتایا کہ چندروز پہلے اس کی جواں سال بیوی ایک حادثے میں مرگئی تھی ۔یہ سن کر مجھے تعجب ہوا کہ اس قدر تکلیف دہ واقعے سے گزرنے کے باوجود اس کی خوش اخلاقی قائم تھی۔
وہ کہنے لگا’’ میری بیوی کی موت میں آپ کا کوئی قصور نہیں ،لہذا میںآپ سے رنجیدگی سے کیوں پیش آؤں ۔‘‘
سرخرو ہونے والے دوسرے لوگوں کے ساتھ تعلقات کی قدر کرتے ہیں ۔ تعلقات انکے لیے خوشی کا باعث ہوتے ہیں ۔ ضرورت پڑے تو وہ دوسروں سے مدد ضرور مانگتے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ اپنا بوجھ دوسروں پر لادنے کے لیے تیار رہتے ہیں ۔ اس کے بجائے وہ اپنے مصائب کا اندازہ لگاتے ہیں اور ان کے دکھ درد بانٹنے پر آمادہ رہتے ہیں۔
ایسے لوگ لینے والے نہیں ، دینے والے ہوتے ہیں ۔ پال والیری کے نزدیک محبت کی حقیقی اہمیت یہ ہے کہ وہ زندگی کا جذبہ پیدا کرتی ہے ۔ امریکا کی ڈیوک یونیورسٹی کے محققین نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ جو لوگ دوسروں سے تعلقات بنانے میں تیار رہتے ہیں ، ان کے کام آکر خوش ہوتے ہیں ، وہ دوسروں کے مقابلے میں زیادہ صحت مند اور مسرور رہتے ہیں ۔ ان کی زندگی بڑھ جاتی ہے ۔لہذا آپ بھی یہ اصول اپنائیں کہ محض اپنی محرومیوں اور مصیبتوں میں نہیں ڈوبے رہنا چاہئے بلکہ ہمیں دوسروں کا خیال بھی رکھنا چاہئے ۔
بختاور کی عمر ساٹھ سال سے زیادہ ہے ۔ اس کا بچپن قابل رحم حالت میں بسر ہواتھا ۔ اس کے والدین بہت غریب تھے اور وہ اس کو کوئی خوشی نہ دے سکے تھے ۔
بختاور اس تاریک ماضی کو بھول نہیں سکی تھی اور آج بھی خودرحمی میں مبتلا ہے ۔ نتیجہ یہ ہوا ہے کہ وہ زندگی میں کوئی ڈھنگ کا کام نہیں کرسکی ۔ اس نے کوئی نمایاں کامیابی حاصل نہیں کی ۔ دوسرے لوگوں سے گہرے تعلقات بھی نہ بنا سکی ۔ ہروقت اس پرمردہ دلی چھائی رہتی ہے۔
اچھی زندگی کا تقاضا اس کے بالکل الٹ ہے۔ زندگی چاہتی ہے کہ ہم ماضی کو پیچھے چھوڑتے جائیں ۔اپنے دکھ درد اور محرومیاں بھولتے جائیں ۔ دوسروں کی غلطیاں معاف کرتے جائیں ۔ اس کے بجائے اگر ہم ساری عمر پچھتاوے کا شکار رہیں ،ماضی کا ماتم کرتے رہیں ، دوسروں کو معاف کرنے کے بجائے ان سے بدلہ لینے کی تاک میں رہیں ، زندگی کے ماہ وسال ان لوگوں کے ساتھ لڑنے جھگڑنے میں صرف کرتے رہیں جنہوں نے کبھی ہمیں مایوس کیا تھا یا جو کبھی ہمارے لیے تکلیف کا باعث بنے تھے تو پھر لمحہ حال کے تقاضے پورے کرنے کے لیے ہماری پاس توانائی بچے گی اور نہ ہی صلاحیتیں ۔
گزرے ہوئے کل کو ہم واپس نہیں لاسکتے ۔ نہ ہی ہم آنے والے کل کو آج بنا سکتے ہیں ۔ صرف آج کا دن ہمارا ہے مگر وہ ہمیشہ ہمارا نہ رہے گا ۔پل پل کرکے ہمارے ہاتھوں سے نکل جائے گا۔پھر کبھی ہماری گرفت میں نہ آئے گا۔لہذا آئیں جب تک وہ ہمارا ہے، ہم اس کی قدر کریں ۔ اس سے فائدہ اٹھائیں۔
خوابوںسے مت ڈریں
ٹیری کنگ نامی ایک امریکی فوجی ویت نام میں جنگ کی تربیت حاصل کررہا تھا۔ ایک شیل اس کے منہ پرلگا اور اس کی بینائی ہمیشہ کے لیے ختم ہوگئی ۔
کنگ امریکا واپس چلا گیا ۔ اس کا گھر دریا کے کنارے تھا۔ بچپن میں وہ ایک کشتی حاصل کرنے کا شدید خواہش مند تھا۔ اندھا ہونے کے باوجود اس کی خواہش کم نہ ہوئی ۔ مگر کشتی حاصل کرنے کے وسائل اس کے پاس نہ تھے۔ آخرکار کنگ نے خود ہی کشتی بنانے کا ارادہ کیا ۔ مگر اندھا آدمی کیونکر کشتی بنا سکتا تھا؟ کنگ نے اندھوں کی انجمن سے ایک رضاکار لیا جس نے ایک کتاب سے کشتی بنانے کے طریقے اسے ریکارڈ کر دئیے ۔
ٹیری کنگ وہ ریکارڈنگ سنتا رہا اور اس نے کام بھی شروع کرالیا ۔ کئی مہینوں کی محنت کے بعد وہ اپنے صحن میں تینتیس فٹ لمبی کشتی بنانے میں کامیاب ہوگیا ۔ وہ خود اسے چلا نہ سکتا تھا چنانچہ اس کو کسی اور کی مدد درکار رہتی تھی پھر بھی وہ خوش تھا ۔وہ کہتا ہے کہ ’’ یہ میری زندگی کا سب سے بڑا چیلنج تھا، میں اس میں کامیاب رہا ہوں ۔‘‘
ڈاکٹر آرنلڈ نے ’’ جینے کا ارادہ ‘‘ نامی کتاب میں لکھا ہے ’’ جب لوگوں کے پاس کوئی مقصد ہو اور اس کو اپنے آپ پر اعتماد ہو تو پھر وہ کسی رکاوٹ کو خاطر میں نہیں لاتے ۔منزل کی طرف اپنا سفر جاری رکھتے ہیں۔‘‘
بہت عرصہ ہوا میں نے کسی مصنف کا یہ جملہ پڑھا تھا ’’ میں نے خواب کے بغیر چلنا چاہا اور میں گر گیا ۔‘‘
سرخرو افراد کی قطار میں کھڑا ہونا آسان نہیں۔ لیکن زندگی کا تقاضا یہی ہے کہ ہم بھی ان جیسی خوبیاں پیدا کریں اور ان کی طرح جرات مندی سے رکاوٹوں کا مقابلہ کریں ۔ اگر ہم دکھ درد ،مصائب اور سختیوں کے باوجود اچھی زندگی گزار سکیں ، اپنی تمام صلاحیتیں اور جراتیں بروئے کار لائیں تو ہم زندگی میں ضرور کوئی نہ کوئی بڑا اور غیر معمولی کام کرسکتے ہیں ۔دوسروں کے کام کرسکتے ہیں اور ان کا دامن خوشیوں سے بھر سکتے ہیں ۔یاد رکھیں کہ اپنی کمزوریوں پر غالب آنے اور مشکلات پر قابوپانے کی جدوجہد نسل آسانی کو آگے ہی آگے لیے جاتی ہے ۔ہمیں بھی اسی راہ پر چلنا ہے۔