متاثر کیسے کیا جائے ؟

راجرایلز تین امریکی صدور کے مشیر ابلاغ رہے ہیں ۔اپنی زندگی کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے ایلز صاحب کہتے ہیں’’ ایک بار نیویارک کے بد معاشوں پر ایک ٹیلی ویژن دستاویزی فلم بنا رہا تھا ۔ اس حوالے سے میں نے نوجوان بدمعاشوں کے ایک گروہ کے انٹرویو لئے ۔ اس کا سرغنہ ایک سترہ سالہ نوجوان تھا ۔ اس کا دعوی تھا کہ وہ ہرہفتے لوگوں سے ڈیڑہ ہزار ڈالر ہتھیا لیتا ہے ۔میں نے اس سے پوچھا کہ وہ اپنا شکار کیسے تلاش کرتا ہے ۔اس نے پورے اعتماد کے ساتھ جواب دیا کہ وہ ایسے راہگیروں کی تلاش میں رہتا ہے جو تنہا ہوں ، ان کا سرجھکا ہو اور وہ کسی سے نظریں ملائے بغیر اپنی راہ پر چل رہے ہوں ۔
اچھا یہ بتاؤ کیا میں تمہیں اچھا شکار دکھائی دیتا ہوں ؟
میں نے پوچھا۔
بابوجی کیوںمذاق کرتے ہو، میں آپ سے کوئی پھڈا نہیںکروں گا؟
کیوں۔میں نے پوچھا

اس لییکہ نوجوان بدمعاشوں کا سرغنہ قدر ے مسکرا کر کہنے لگا جب میں کمرے میں آیا تو تم نے میری آنکھوں میں آنکھیں گاڑ دیں ۔ سر سے پاؤں تک مجھے یوں دیکھا جیسے نظروں میں تولنا چاہتے ہو ۔ایسے لوگ تو بڑی مصیبت ہوتے ہیں۔

آپ نے دیکھا کہ لوگوں کو لوٹنے والا ان پڑھ بدمعاش کتنا ذہین نکلا ۔ وہ جسم کی زبان پڑھ لیتا ہے ۔ اسی مہارت کے باعث وہ اپنے شکار منتخب کرتا ہے ۔ راہ چلتے اجنبیوں کو چند لمحوں میں تول لیتا ہے۔
جدید تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ کسی اجنبی سے ملنے کے صرف سات سکینڈ کے اندر ہمارا ذہن اس کے متعلق رائے قائم کرنے کا عمل شروع کر دیتا ہے ۔یہ عمل لفظوں کے بغیر ہوتا ہے ۔ہم شعوری یا لاشعوری طور پراپنی آنکھوں ، چہرے ، جسم اور روئیے کے ذریعے اپنے سچے احساسات ظاہر کر دیتے ہیں۔ ساتھ ہی ہم ایک دوسرے میں جذباتی ردعمل کا سلسلہ بھی شروع کر دیتے ہیں،جو کبھی حوصلہ دیتا ہے اور کبھی خوف دلاتا ہے۔

تھوڑی دیر کے لیے اپنی یادگار ملاقاتوںکو یاد کیجئے ۔وہ لمحہ ذہن میں لائیں جب آپ نے پہلی بار مستقبل کے جیون ساتھی کو دیکھا تھا یا جب آپ پہلی ملازمت کے انٹرویو کے لئے گئے تھے ،کسی اجنبی سے مڈبھیڑ ہوئی تھی ۔ ان ملاقاتوں میں پہلے سات سکینڈز میں آپ پرکیا گزری تھی، آپ کے احساسات کیا تھے ، اور آپ کیا سوچ رہے تھے؟
دوسرے شخص کو آپنے کیسے ’’ پڑھا ‘‘ تھا ؟
آپ کے خیال میں اس نے آپ کو کیسے ’’ پڑھا ‘‘ تھا؟

آپ خود پیغام ہیں:

راجر ایلز لکھتے ہیں ’’ میں گزشتہ پچیس برسوں سے بڑی بڑی کارپوریشنوں کے اعلیٰ حکام ، سیاست دانوں ، شوبزنس کے نمایاں افراد اور دوسرے لوگوں کے ساتھ کام کرتا رہا ہوں ۔ یہ سب لوگ زندگی میں کامیابی کے تمنائی تھے ۔ میں نے ان کی شخصیت نکھارنے ، تلخ سوالوں کا مقابلہ کرنے اوراپنی بات زیادہ موثر انداز میں پیش کرنے کی تربیت دی ۔ میری تربیت کا راز ہمیشہ یہ رہا ہے کہ آپ (یعنی آپ کی پوری ذات) خود ہی پیغام ہیں۔

آپ اپنی عمدہ صفات استعمال کریں تو دوسرے لوگ آپ کے ساتھ رہنے اور آپ کے ساتھ تعاون پر مائل ہوں گے ۔لہذا سب سے پہلے اپنے ذاتی اثاثے کا جائزہ لیں ۔ میرا مطلب یہ ہے کہ اپنی شکل وصورت ، قد کاٹھ ، توانائی ، گفتگو کی اہلیت ، لہجے کا اتار چڑھاؤ ، اشاروں اور آنکھوں کے بھاؤ تاؤ اور دوسروں کی توجہ جذب کرنے کی صلاحیت کا جائزہ لیں ۔ یہی وہ چیزیں ہیں جن کی بنیاد پر دوسرے لوگ آپ کے بارے میں رائے قائم کرتے ہیں ۔

اچھا تو ذرا ان تین مواقع کو ذہن میں لائیں جب آپ کے خیال میں دوسروں پر آپ نے اچھا اثر ڈالا تھا ۔ سوچیئے کہ ان مواقع پر آپ کی کامیابی کا راز کیا تھا؟ مجھے یقین ہے کہ یہ کامیابی آپ کو اس لئے حاصل ہوئی کہ آپ کو اپنی بات پر پورا بھروسہ تھا ۔ دوسری بات یہ ہے کہ آپ جانتے تھے کہ اپنے موضوع پر آپ کو عبور حاصل تھا ۔ تیسری بات یہ ہے کہ آپ اپنی گفتگو میں اس قدر ڈوبے ہوئے تھے کہ خود آگاہی دب گئی تھی ۔

‘‘
سچی ذات کا اظہار کریں :

کامیابی کے راز بتانے والی اکثر کتابوں میں تلقین کی جاتی ہے کہ آپ دندناتے ہوئے کمرے میں داخل ہوں اور دوسروں پر چھا جانے کے لیے اپنی شخصیت کا بھرپور اظہار کریں ۔
ان کتابوں میں یہ بھی درج ہوتا ہے کہ پوری قوت سے دوسروں کے ساتھ مصافحہ کریں اور اپنی نگاہیں ان پر یوں گاڑ دیں جیسے آپ ہپناٹزم کے ماہر ہوں۔

آپ ان ہدایات پر عمل کریں تو سچی بات یہ ہے کہ دوسرے لوگ آپ پر ہنسنے لگیں گے ۔ شاید آپ بھی خود کو جوکر محسوس کرنے لگیں گے ۔

صحیح طریقہ یہ نہیں ۔ صحیح طریقہ یہ ہے کہ آپ چہرے پر کوئی نقاب نہ ڈالیں ۔ اپنی سچی ذات کو سامنے لائیں ۔ موثرترین افراد ایک صورتحال سے دوسری میں جاتے ہوئے کبھی اپنا کردار نہیں بدلتے ۔

وہ پیارومحبت کی باتیں کررہے ہوں ۔ گارڈن کلب میں تقریر کر رہے ہوں یا کسی جاب کے لیے انٹرویو دے رہے ہوں ، ہرجگہ وہ ایک سے رہتے ہیں ۔ وہ پورے وجود کے ساتھ ابلاغ کرتے ہیں ۔ ان کی باتوں ، اشاروں اور لہجے میں کوئی تضاد نہیں ہوتا۔

میںنے کئی عوامی مقرر دیکھے ہیں جن کے لفظوں اور اشاروں میں کوئی آہنگ نہیں ہوتا ۔ وہ کچھ کہتے ہیں اور ان کے اشارے کچھ اور ہی پیغام دے رہے ہوتے ہیں۔

آپ نے بھی کوئی مقرر دیکھا ہوگا جس کی نظریں سامعین کے جوتوں پر اٹکی ہوتی ہیں اور زبان سے کہہ رہا ہوتا ہے ’’ خواتین و حضرات مجھے اس تقریب میں شامل ہو کر بے حد مسرت ہوئی ہے ۔‘‘
سیدھی سی بات ہے کہ وہ کسی طور خوش دکھائی نہیں دیتا ۔ وہ ناراض لگتا ہے یا پھرپریشان اور سہما ہوا ہے ۔

سامعین مقرر کے الفاظ سے زیادہ اس کی حرکات وسکنات پر نگاہ رکھتے ہیں ۔ چنانچہ وہ یکدم جان جاتے ہیں کہ مقرر جھوٹ بول رہا ہے ۔ وہ کہتا ہے کہ میں خوش ہوں مگر خوش وہ نہیں ہے ۔

آنکھیں استعمال کریں :

چاہے آپ ایک شخص سے گفتگو کر رہے ہوں یا ایک ہزار کے مجمع سے مخاطب ہوں ، لوگوں کو دیکھنا ہرگز نہ بھولیں ۔
کئی لوگوں کی عادت ہے کہ بات شروع کرتے ہوئے وہ آپ کی طرف دیکھتے ہیں مگر دو تین لفظوں کے بعد ہی وہ نظروں کا رابطہ توڑ دیتے ہیں ۔ کھڑکی سے باہر دیکھنے لگتے ہیں یا خلاؤں میں گھورنے لگتے ہیں۔

جب آپ کمرے میں داخل ہوں تو سکون سے چاروں طرف کا جائزہ لیں ۔ کمرے میں موجود لوگوں کو براہ راست دیکھیں اور مسکرادیں ۔ اس سے یہ تاثر ملے گا کہ آپ پرسکون ہیں ۔ گھبراہٹ طاری نہیں ہے ۔ بعض افراد لوگوں سے بھرے ہوئے کمرے میں داخل ہونے کو شیر کی کچھار میں قدم رکھنے کے مترادف سمجھتے ہیں ۔ مجھے اس سے اتفاق نہیں ۔ اتفاق ہو بھی تو میں نہ اپنے جوتوں پر نظر جماؤں گا اور نہ ہی چھت کو دیکھنے لگوں گا ۔ اس کے بجائے میں اپنی نظریں شیر پر گاڑ دوں گا۔
مسکرانا اچھی بات ہے مگر بعض لوگوں نے اس کو ’’ کھل جاسم سم ‘‘ کا درجہ دے رکھا ہے ۔ وہ ہر تالا مسکراہٹ سے کھولنا چاہتے ہیں ۔ موقع بے موقع مسکرانا اپنا فرض سمجھتے ہیں ۔ یہ رویہ درست نہیں ۔ مسکراہٹیں یونہی ضائع نہیں کرنی چاہئیں ۔
مسکرانے اور نظریں ملانے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ وہ فطری محسوس ہوں اور پرسکون بھی ۔ مصنوعی ہرگز دکھائی نہ دیں ۔

دوسروں کی سنیں :

میرے والد نے مجھے اپنی بات کہنے سے پہلے دوسروں کی بات دھیان سے سننے کا درس دیا تھا ۔ انہوں نے کہا تھا’’ بیٹے اگر تمہاری زبان چلتی رہے گی تو پھر کچھ سیکھ نہ پاؤ گے ۔‘‘
کسی محفل میں ، تقریب یا انٹرویو میں فورا ہی اپنی آرا کی بمباری مت کریں ۔ لمحہ بھر کو رک جائیں ۔ صورتحال کا جائزہ لیں ۔ دوسروں کا موڈ دیکھیں ۔ کیا وہ خوش ہیں یا رنجیدہ ، بور ہو رہے ہیں یا چمک رہے ہیں ۔ کیا وہ آپ سے کچھ سیکھنے پر آمادہ ہیں یا بے زار بیٹھے ہیں۔ دوسروں کا جائزہ لے کر آپ ان سے نمٹنے میں آسانی محسوس کریں گے ۔

توانائی فوکس کریں :

جیک بینی نے مجھے ایک اہم سبق دیا ۔ وہ ہالی وڈ کا مشہور مزاحیہ اداکار ہے ۔ اپنے کیرئیر کے آخری دنوں میں وہ ایک ٹی وی شو میں مہمان تھا۔ میں اس پروگرام کا ایگزیکٹو پروڈیوسر تھا۔
بینی کو دیکھ کر مجھے مایوسی ہوئی ۔ وہ صوفے کے ایک کونے میں سمٹا ہوا ناتواں سا بوڑھا تھا۔ اس کی حالت دیکھ کر میرے دل میں وہم پیدا ہوا کہ خدایا یہ مریل کیا کرے گا،کہیں شو کے دوران مر ہی نہ جائے ۔

خیر شوکا وقت آگیا ۔ وہ سہما سہما ساتھا ۔ بینی نے گہرا سانس لیا ۔ لگتا تھا کہ ٹیوب میں ہوا کی طرح اس کے سارے بدن میںتوانائی بھرنے لگی ہے ۔وہ تن کر کھڑا ہوا ،مجھے چلنے کا اشارہ کیا اور مسکرانے لگا۔ دروازے اس کے لیے کھلے تو وہ اپنے مشہور انداز میں ہاتھ لہراتا ہوا سٹیج کی طرف بڑھنے لگا ۔ یوں پلک جھپکتے ہی میری آنکھوں کے سامنے نیا جیک بینی نمودار ہوگیا تھا۔ میں اس کا راز سمجھ گیا ۔ صوفے میں دبک کر وہ پرفارمنس کے لیے توانائی سمیٹ رہا تھا ۔

آپ اپنی توانائی کو کیونکر بیدار کر سکتے ہیں ؟

کسی سے ملنے سے پہلے میں عموما خاموش بیٹھ جاتا ہوں اور اپنے خیالات اکھٹے کرتا ہوں ۔ ملاقات کے مقاصد کے بارے میں سوچتا ہوں ۔ بسااوقات چند لمحوں کے لیے ٹہلتا ہوں ۔اپنی ذات پر توجہ ہٹاتا ہوں ۔ دوسرے شخص پرتوجہ مرکوز کرتا ہوں ۔ اس کے بارے میں غوروفکر کرتا ہوں۔
جب ہم کسی بات پر دل کی گہرائیوں سے یقین رکھتے ہیں تو یہ یقین توانائی پیدا کرتا ہے ۔
یقین کا ہونا ضروری ہے ۔ ہم اکثرا وقات دیکھتے ہیں کہ لوگ بولنا شروع کرتے ہیں اور پھر ان کی آواز ڈوبنے لگتی ہے ۔ ان پر گھبراہٹ طاری ہوجاتی ہے ۔ وہ کانپنے لگتے ہیں ۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ ان کو اپنی بات کی سچائی کا یقین نہیں ہوتا۔

یاد رکھیں کہ یقین سے محروم شخص کے پیچھے کوئی نہیں چلتا ۔ پرسکون اور محتاط ہونے میں کوئی حرج نہیں لیکن اعتماد اور یقین سے محروم ہونے سے بات نہیں بنتی ۔

جگمگائیں :

ایک مرتبہ میں ایک بڑی تجارتی کارپوریشن کے طاقتور چیئر مین کے ساتھ سٹاف میٹنگ میں شریک تھا ۔ وہ بڑا آمر قسم کا شخص تھا۔ سب اس سے ڈرتے تھے ۔ میٹنگ جاری تھی ۔ پروگرام میں مشورے سے رد وبدل پروہ یکدم غصے میں آگیا اور سب کو ڈانٹنے لگا۔ لگتا تھا کہ وہ دوسروں کا خون خشک کرنے کی اپنی صلاحیت سے لطف اٹھا رہا تھا۔

’’ اچھا تو جنا ب آپ کیا کررہے ہیں؟‘‘ میری باری آنے پر گرجا۔

’’ آپ مجھ سے اس وقت کی بات پوچھ رہے ہیں ، آج شام کی یا میری زندگی کے پروگرام کی ۔‘‘

میرے اس جواب پر اجلاس میں خاموشی چھا گئی ۔ سب لوگ سہم گئے لیکن چیئر مین نے سر پیچھے ہٹایا اور بے ساختہ ہنسنے لگا ۔ اس کو دیکھ کر دوسرے بھی ہنسنے لگے ۔ مزاح نے ایک بہت ہی ناخوشگوار منظر کو لمحہ بھر میںبدل دیا تھا۔

میں اکثر لوگوں کو مشورہ دیتا ہوں ، اس کو ایک لفظ میں یوں ادا کیا جاسکتا ہے کہ ’’جگمگائیے ۔‘‘
آپ ایسے لوگوں کو آسانی سے پہچان سکتے ہیں جو خود کو بہت ہی سنجیدگی سے لیتے ہیں ۔ عموما وہ کڑھتے رہتے ہیں یا پھر اپنے بارے میں بولتے رہتے ہیں۔
اپنی ذات پر کڑی نظر رکھیں ۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ آپ ’’ میں‘‘ بہت استعمال کرتے ہیں ؟
کیا آپ عموما اپنے مسائل میں ڈوبے رہتے ہیں ؟
کیا آپ اکثر شکوہ وشکایت کرتے ہیں ؟
جب کوئی نیا خیال پیش کرے تو کیا آپ اس کو رد کرنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں ؟

ان سوالوں میں سے کسی ایک کا بھی اگر آپ ’’ ہاں ‘‘ میں جواب دیتے ہیں تو پھر آپ کو جگمگانے کی ضرورت ہے ۔ یعنی اپنے آپ میں نئی توانائی پیداکرنے کی ضرورت ہے ،کیونکہ آپ دوستوں کو ، ساتھیوں اور گھروالوں کو زچ کررہے ہیں ۔

دوسروں کو پرسکون بنانے سے پہلے آپ کو خود کو پرسکون بنا نا ہوگا ۔ اپنی شخصیت میں کوئی ڈرامائی تبدیلی نہ لائیں ۔ کوئی مصنوعی نقاب مت اوڑھیں ۔ بس اتنا کریں کہ جو آپ کی شخصیت کی بہترین سطح ہے ،اس کو نمایاں کر دیں ۔ سیدھی سی بات ہے کہ آپ کے پاس دوسروں کو متاثر کرنے اور اپنا تاثر چھوڑنے کا جادو پہلے سے موجود ہے ۔ وجہ یہ ہے کہ آپ یکتا ہیں ۔کوئی دوسرا آپ جیسا نہیں ہوسکتا۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.