باس کو قائل کیسے کیا جائے ؟

ہم اس باب کا آغاز پیٹریکا کوک کی مثال سے کرتے ہیں ۔ وہ امریکی ریاست میساچیوسٹ کے ایک ادارے میں ملازم تھی اور قبل ازوقت ترقی چاہتی تھی
۔ کوک کہتی ہے ’’ میرا باس میری ترقی پر رضامند نہ تھا لیکن میں نے دباؤ جاری رکھا‘‘۔

یوں ہم دونوںمیں بحث شروع ہو گئی جس نے جلدہی ناگوار صورت اختیار کر لی ۔ باس دوسرے لوگوں کی تنخواہوں کے ساتھ میری تنخواہ کا موازنہ کرنے لگا ۔ اس نے میری کارکردگی کا مقابلہ بھی دوسروں کے ساتھ کیا ۔بحث کے دوران ایسے الفاظ کا تبادلہ بھی ہوا جن کو میں کبھی بھول نہ پاؤں گی ۔ چند روز بعد میں نے اس کمپنی سے استعفیٰ دے دیا۔

ایسا کیوں ہوا؟ پیٹریکا صاحبہ ترقی چاہتی تھی مگر ان کو نوکری سے ہاتھ دھونے پڑے ۔ یہ اس لیے ہوا کہ پیٹریکا سے باس سے نمٹنے کے بنیادی اصول کی خلاف ورزی ہوگئی تھی ۔ وہ اصول یہ ہے کہ جو لڑائی آپ جیت نہیں سکتے ، اس کو کبھی شروع نہیں کرنا چاہئے ۔

کیا اس اصول کا مطلب یہ لیا جائے کہ ہم اپنے سے اعلیٰ تر افراد کے ساتھ تضاد سے ہمیشہ دامن بچائیں ، ان کی ہربات کو سرجھکا کر تسلیم کرتے جائیں ؟
ہرگز نہیں !

یاد رکھیں کہ باس کے ساتھ اختلاف کرنے کی اہلیت آپ کے کیرئیر کے لیے فیصلہ کن ثابت ہوسکتی ہے ۔ہم میں سے کون ہے جس کا اپنے باس کے ساتھ کبھی جھگڑا نہیں ہوا ۔کبھی نہ کبھی ،کسی نہ کسی موڑ پر ہمیں اس قسم کی صورتحال پیش آہی جاتی ہے ۔

ملازمین کے امور کے ایک ممتاز ماہر رابرٹ لیفٹن کا کہنا ہے کہ اختلافات سے بچنے کی کوشش کی جائے تو اس کا فائدہ صرف مختصر عرصے تک ہوتا ہے مگر اس کے اثرات ماتحت اور باس دونوں کے لیے اچھے نہیں ہوتے ۔

ماتحت کی عزت نفس کو دھچکا پہنچتا ہے ۔ اس کی نیندیں حرام ہوجاتی ہیں ۔ اپنی نظروں میں اس کا جو تصور ہے، وہ مجروع ہوتا ہے ۔ اس کی انا کو ٹھیس پہنچتی ہے۔

دوسری طرف باس ایسی معلومات سے محرو م ہوسکتا ہے جو اس کو اپنے فرائض اچھی طرح ادا کرنے میں مدد دے سکتی ہیں ۔اس کے علاوہ ادارے کا ماحول بھی تلخ ہوجاتا ہے ، جس سے کارکردگی متاثر ہوتی ہے ۔

یہاں ہم چند اصول درج کرتے ہیں ۔ جب باس کے ساتھ سینگ پھنسانے کا وقت آجائے تو ان اصولوں کو یاد رکھیں ۔

وقت کا خیال رکھیں

پیٹریکا کوک سے ایک بار یہ غلطی ہوگئی تھی مگر وہ تعلیم یافتہ اور سمجھدار دوشیزہ ہے ۔ اس نے غلطی دہرائی نہیں ۔ اب وہ ایک بین الاقوامی کمپنی میں اعلیٰ عہدیدار ہے ۔
پیٹریکا نے غلطی سے یہ سبق سیکھا ہے ۔ چنانچہ وہ دوسروں کو مشورہ دیا کرتی ہیں’’ جب آپ باس کے ساتھ دوٹوک بات کرنے جائیں تو پہلے اس کے سیکرٹری سے صاحب کے موڈ کے بارے میں پوچھنا نہ بھولیں ۔ اگر وہ پہلے ہی جلابھنا بیٹھا ہے تو پھر ارادہ ٹال دیں ۔ اس کا سامنا کسی اور وقت کریں‘‘ ۔

سیکرٹری سے معلومات حاصل کرنا اچھا ہے تاہم وقت کا تعین دوسری باتوں سے بھی ہوسکتا ہے۔ مثلا جب باس کام میں الجھا ہوا ہو تو اس سے ملنے کا کوئی فائدہ نہیں ۔

اسی طرح لنچ کا وقت ہو رہا ہو یا باس کو کسی ضروری میٹنگ میںجانا ہو ، وہ چھٹی پر جانے والا ہو ، چھٹیاں گزار کر آیا ہو تو بھی اس سے کوئی مطالبہ منوانا مشکل ہوتا ہے ۔لہذا قدم روک لیجئے ۔ اس سے ملاقات ملتوی کردیجئے ۔

ناراضی کی کیفیت میںمت جائیں

واشنگٹن کا ایک ماہر نفسیات رابرٹ سمتھ لوگوں کو ترقی حاصل کرنے کے گر بتایا کرتا ہے ۔ اس کے مفید مشوروں میں سے ایک یہ ہے ’’ آپ غصیلا یا ناراض چہرہ لے کر باس کے پاس جائیں تو نتیجہ بس یہ ہوگا کہ وہ بھی بھڑک اٹھے گا ۔ لہذا اس کے پاس جانے سے پہلے اپنی کیفیت پر قابو پائیں ۔ پرسکون ہوکر اس کے کمرے میں قدم رکھیں۔ممکن ہوتو چہرے پر مسکراہٹ سجا لیں۔

یہاں ایک اور بات بھی اہم ہے ۔ آپ کوئی خاص مسئلہ لے کر باس کے پاس جارہے ہیں تو اپنی تمام شکایتوں اور شکوؤں کا دفتر مت کھولیں ۔ جو خاص مسئلہ ہے ، صرف اس کا ذکرکریں ۔ اگر آپ ہر معاملے پرنکتہ چینی شروع کردیں گے تو اس سے منفی تاثر پیدا ہوگا۔

مسائل کی وضاحت کریں

جب ماتحت اور باس دونوں ابہام کا شکار ہوں اور ان کو معلوم نہ ہو کہ ایک دوسرے کے دل میں کیا ہے تو اس سے فضول جھگڑے شروع ہوجاتے ہیں ۔

اس کے برعکس جب معاملات صاف اور واضح ہوں تو اکثر اوقات کسی جھگڑے کے بغیر ہی ان کو حل کرنا ممکن ہوتا ہے ۔ چنانچہ ماتحت اپنے نکتے کی اچھی طرح وضاحت کردے اور اپنی بات معقول طریقے سے باس کو سمجھا دے تو الجھنیں یقینی طورپر کم ہوجاتی ہیں ۔

اسلام آباد کے ایک ملٹی نیشنل کمپنی کے دفتر میں نادرہ سٹاف آفیسر کے طور پر کام کرتی ہے ۔نادرہ نے اس سلسلے میں ایک طریقہ کار وضع کر رکھا ہے ۔ وہ اپنے باس سے کبھی کبھار تکرار کرتی ہے لیکن جب اس کو باس سے کسی اہم نکتے پر اختلاف ہوتا ہے تو اپنا موقف کاغذ پر لکھتی ہے اور باس کی میز پررکھ آتی ہے ۔

نادرہ کا کہناہے’’ اس طرح باس میرے موقف کو اچھی طرح سمجھ لیتا ہے اور اکثر اوقات کام بن جاتا ہے‘‘۔

حل تجویز کریں

نیویارک یونیورسٹی کے میڈیکل سنٹر سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر نارمن سوزمان کا کہنا ہے ’’ آپ باس کی الجھنیں نہ بڑھائیں تو بھی وہ کافی الجھا ہوا ہوتا ہے ۔ آپ کو اس کی مدد کرنی چاہئے اور مدد کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ آپ کوئی فوری حل تجویز نہ کرسکیں تو بھی کم از کم اس بارے میں رائے ضرور دیں کہ مسئلے سے کس طرح نمٹنا چاہئے ‘‘۔

سوزمان صاحب کی تنبیہ یہ ہے کہ اگر آپ حل بتائے بغیر باس کو مسائل ہی پیش کرتے رہیں گے تو جلد ہی آپ کی رسائی صرف سیکرٹری کی میز تک رہ جائے گی ۔

کیوں ؟ اس لیے کہ باس کو احساس ہوجائے گا کہ آپ جب بھی تشریف لاتے ہیں ،اس کا بوجھ بڑھا جاتے ہیں ۔ بوجھ کم کرنے کی کوئی تدبیر نہیں کرتے ۔ یوں وہ آپ سے پیچھا چھڑانا چاہے گا۔

خود کو باس کی جگہ رکھیں

باس سے اچھی طرح نمٹنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کے جو مقاصد ہیں اور جو دباؤ اس پر ہیں ، ان کو پیش نظر رکھا جائے ۔ اگر آپ خود کو اس کے مسائل میں ہمدردی رکھنے والے اور ان کے حل میں مدد دینے والے کے طور پر پیش کریں گے تو فطری بات ہے کہ وہ آپ کو ہمدرد سمجھے گا اور اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لیے آپ کے ساتھ کام کرنے پرمائل ہوگا۔

کارنیگی میلن یونیورسٹی کے پروفیسر اور ’’ گولڈ کالر ورکر‘‘ نامی کتاب کے مصنف رابرٹ کیلے ایک کمپیوٹر کمپنی کے سافٹ وئیر پروگرامر اور اس کے باس کا قصہ سناتے ہیں ۔

دونوں کسی سافٹ وئیر کے کسی خاص جزو کے فوائد پر بحث کررہے تھے اور کسی نتیجے تک نہ پہنچ پا رہے تھے ۔

کیلے نے دونوں سے کہا کہ وہ خود کو ایک دوسرے کی جگہ رکھ کر سوچیں ۔ انہوں نے ایسا ہی کیا ۔ پانچ منٹوںمیں ان کو احساس ہوگیا کہ وہ ایک دوسرے کو نرے احمق لگ رہے تھے ۔ چنانچہ وہ ہنسنے لگے اور فورا ہی کسی ایک نتیجے پر متفق ہوگئے ۔

سمجھداری سے کام لیں

یاد رکھیں کہ باس کے پاس سارے کارڈز ہوتے ہیں ۔ لہذا آپ کسی اختلاف کو بڑھاتے ہی چلے جائیں تو اس کے مضمرات زیر بحث اختلاف یا آپ کی توقع سے کہیں زیادہ دوررس ہوسکتے ہیں۔
باس کو برتری حاصل ہوتی ہے ۔ وہ آپ کے خلاف سارے اختیارات استعمال کرسکتا ہے ۔لہذا سمجھداری سے کام لینا چاہئے ۔ یہ اصول ہم دوبارہ آپ کو یاد دلا دیں ’’ جو لڑائی آپ جیت نہیںسکتے ، اس کو شروع ہی نہ کرنا چاہئے‘‘ ۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.