بچوں کو ذمہ داریاں سونپیں
جان اور پیٹر کے بچپن میں دوسرے بچے ان کی حالت دیکھ کر افسوس کیا کرتے تھے ۔ بات یہ تھی کہ والدین ان دونوں بچوں کو ہروقت کام کاج میں لگائے رکھتے تھے ۔ وہ گھر کا سوداسلف لاتے ، کمروں کی صفائی اور کپڑوں کی دھلائی میں ماں کا ہاتھ بٹاتے ، کوڑاکرکٹ پھینکتے اور گھر کے دوسرے کام کرتے ۔ جب وہ ذرا بڑے ہوئے تو اخبار اور رسالے ڈلیور کرنے لگے ۔ اس کے علاوہ گھاس کاٹنے اور لان کی صفائی کا کام بھی کرنے لگے ۔ جان اور پیٹر کو دیکھ کر بعض اوقات دوسرے بچوں کے والدین رنجیدہ ہوجاتے ۔ وہ کہتے ’’ دیکھو ان بے چاروں پر کام کا کس قدر بوجھ ہے ۔ یہ ان کے ہنسنے کھیلنے کے دن ہیں ، لیکن وہ کام میں جتے رہتے ہیں ۔‘‘وہ یہ بھی کہتے کہ بچوں کو کھیل کود کا مناسب وقت اور سہولت نہ ملے تو ان کی زندگی ڈل ہوجاتی ہیں ۔
جان اور پیٹر جب جوان ہوئے تو صورت حال یکسر بدل گئی ۔ ان کی حالت بچپن کے ساتھیوں اور ہم جماعتوں سے بہتر تھی ۔ ان کی آمدن اپنے ان دوستوں سے زیادہ تھی اور اس کے ساتھ ہی ساتھ وہ دونوں اپنی ملازمتوں سے دوسروں کے مقابلے میں زیادہ مطمئن تھے ۔ ان کی ازدواجی زندگی بچپن کے اکثر ساتھیوں کی ازدواجی زندگی سے زیادہ خوش گوار اور مسرت انگیز تھی اور اپنے بچوں کے ساتھ ان کا تعلق بھی زیادہ گہرا تھا۔ جان اور پیٹر کے بارے میں ہم یہ بتادیں کہ وہ اپنے ہم عمر ساتھیوں کے مقابلے میں زیادہ صحت مند تھے اور زندگی کے بارے میں ان کا رویہ زیادہ مثبت تھا ۔ مجموعی طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ زیادہ کامیاب شخصیت ثابت ہوئے ۔
جان اور پیٹر کے بارے میں یہ کہانی ایڈون کیسٹر اور سالی کیسٹر نے ہارورڈ یونیورسٹی کے ایک پچاس سال پرانے مطالعے سے حاصل کی ہیں اور ’’ ریڈرز ڈائجسٹ ‘‘ میں شائع ہونے والے اپنے ایک مشترکہ مضمون میں ان کو درج کیا ہے ۔ ہارورڈ یونیورسٹی کا یہ مطالعہ انیس سو چالیس کے عشرے میں کیا گیا تھااور اس میں ایسے نتائج اجاگر کیے گئے تھے جو اتنے برس گزرجانے کے باوجود آج بھی خوش باش بچوں کی پرورش میں مدد دے سکتے ہیں ۔
ہارورڈ یونیورسٹی کے محقق اصل میں نوجوانوں کے جرائم کی طرف مائل ہونے کے اسباب کی چھان بین کرنا چاہتے تھے ۔ اس کام کے لیے انہوں نے بوسٹن شہر کی غریب بستیوں کے چارسو چھپن لڑکوں کی زندگی کا مطالعہ شروع کیا۔ ان میں سے اکثر غریب اور پسماندہ گھروں سے تعلق رکھتے تھے اور ان کی گھریلو زندگی خوش گوار نہ تھی ۔ بعض کے ماں باپ طلاق یا طالق کے بغیر ہی الگ تھلگ ہوچکے تھے ۔ کئی برس گزرنے کے بعد یہ لڑکے درمیانی عمر کے مرحلے میں داخل ہوگئے تو ہارورڈ یونیورسٹی کے ریسرچرز نے ایک بار پھر ان کا مطالعہ کیا ۔ اس سے جوباتیں سامنے آئیں ان میں سے ایک اہم بات یہ تھی کہ ذہانت ، خاندانی آمدنی ، نسلی پس منظر اور تعلیمی استداد سے قطع نظر جو لڑکے بچپن میں محنت مزدوری کرتے تھے یا دوسرے چھوٹے موٹے کام کرتے تھے ، ان کی زندگیاں دوسروں کے مقابلے میں زیادہ خوش باش ، تعمیری اور صحت مند تھیں ۔
یہ نتیجہ عمومی تاثر کے خلاف ہے ۔ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ جن بچوں کو گھر میں ہرقسم کی آسائشیں اور کھیل کود کے مناسب مواقع حاصل ہوتے ہیں وہ بہتر اور زیادہ کامیاب افراد ثابت ہوتے ہیں ۔ لیکن ہارورڈ یونیورسٹی کی تحقیق کچھ اور ہی کہانی سنارہی ہے ۔ اس لیے فطری طور پر ہمارے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں ہے ؟
بہت سے لوگوں نے اس سوال کا جواب دیا ہے ۔ مگر ہم یہاںنفسیاتی معالج جارج وایٔلنٹ سے رجوع کرتے ہیں ۔ جب نصف صدی پہلے ہارورڈ یونیورسٹی نے اوپر ذکر کیا گیا مطالعہ شروع کیا تھا تو وہ اس ٹیم کا حصہ تھے ۔ وائلنٹ کا کہنا ہے کہ اس سوال کا جواب مشکل نہیں ہے ۔ بات یہ ہے کہ اپنے گھر یا کمیونٹی میں لڑکوں کو بچپن میں ہی مہارت حاصل ہوگئی تھی۔ وہ یہ محسوس کرنے لگے تھے کہ وہ معاشرے کے قابل قدر رکن ہیں ۔ وہ کام کرتے ہیں ، محنت کرتے ہیں اور اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کی اہلیت رکھتے ہیں ۔ لہذا وہ اپنی ذات اور کارکردگی کے بارے میں خوش گوار احساس حاصل کرنے لگے تھے ۔ دوسرے لوگ بھی ان کے متعلق ایسا ہی محسوس کرنے لگے ۔
وائلنٹ کی اس توجیہ سے ڈاکٹر جان اوبدزنسکی کو اتفاق ہے ۔ ڈاکٹر صاحب کا تعلق کیلی فورنیا میں خاندانوں اور بچوں کے مرکز سے ہے ۔ ڈاکٹر زنسکی کا کہنا ہے کہ پانچ سال کی عمر کے بچے بھی گھر کے چھوٹے موٹے کام کرکے خوش ہوتے ہیں اوران کو فائدہ بھی پہنچتا ہے ۔ اس سے وہ محسوس کرتے ہیں کہ وہ اپنا کوئی رول ادا کررہے ہیں ۔ اس لیے وہ خاندان کا اہم رکن ہیں ۔ خاندان کو ان کی ضرورت ہے ۔
اس احساس کی اہمیت گھٹانے کی کوشش مت کریں ۔ جب بچہ یہ محسو س کرے کہ وہ غیر مطلوب نہیں ، اس کا وجود بے معنی اور دوسروں پر محض بوجھ نہیں ، اور یہ کہ اس کی کچھ ذمہ داریاں ہیں جن کو وہ ادا کررہا ہے تو اس سے اس کی شخصیت پر بہت ہی تعمیری اثر پڑتا ہے ۔
وائلنٹ صاحب کی تحقیق کا ذکر ابھی ہم نے کرنا ہے ۔ انہوں نے جو تحقیقی کام کیا ، وہ بہت اہم ہے ۔ جن لڑکوں کے نصف صدی پہلے انٹرویو کیے گئے تھے ۔ ان کے پچیس ، اکتیس اور سینتالیس برس کی عمر میں دوبارہ انٹرویو کیے گئے ۔ وائلنٹ کی قیادت میں ریسرچرز کے ایک گروپ نے ان لوگوں کی ذہنی صحت کے سکورزکا موازنہ ان کی لڑکپن کی سرگرمیوں سے کیا ۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ گروپ میں شامل ریسرچرز ان لوگوں کی زندگی کے بارے میں کچھ نہیں جانتے تھے ۔
اس مطالعے کے نتیجے میں ان افراد کے بچپن کی سرگرمیوں اوران کے بالغ ہونے کے بعد کی زندگی میں لنک بہت واضح صورت میں سامنے آیا۔ چنانچہ جو افراد بچپن کی سرگرمیوں میں دوسروں سے آگے تھے ۔ ان کے ذاتی تعلقات دوسروں کے مقابلے میں کم ازکم دگنے تھے ۔ ان کی آمدنی نسبتاً پانچ گنازیادہ تھی اور ان کی بے روزگاری کاامکان سولہ گنا کم تھا۔ یعنی وہ واضح طور پر بہتر شخصیت ثابت ہوئے اور زندگی کی دوڑ میں دوسروں سے آگے نکل گئے ۔ ان کا مقابلے میں دوسرا گروپ تھا جس میں شامل افراد میں بچپن میں کام نہ کیا تھا یا محض برائے نام کیا تھا۔ ان کے ذہنی طور پر بیمار ہونے کاامکان پہلے گروپ کے مقابلے میں دس گنا زیادہ تھااور اس طرح جیل جانے کا امکان بھی دوگنا تھا۔ اس تحقیق سے یہ بات بھی سامنے آئی کہ ذہانت ، تعلیمی استعداد اور خاندان کی مالی حالت نے ان افراد کی زندگی میں محض برائے نام کردار ادا کیا۔
ایک معروف ماہر نفسیات سٹیفن گلین نے حال ہی میں یہ مسئلہ دوبارہ اٹھایا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ جو والدین بچوں سے کوئی کام کروانا پسند نہیں کرتے اور سب کچھ خود کرتے ہیں ، وہ بظاہر محبت اور شفقت سے پیش آرہے ہوتے ہیں ۔ وہ بچوں کو ’’ تکلیف ‘‘ دینا نہیں چاہتے ۔ پھر وہ خود بھی ناز کرتے ہیں کہ وہ اچھے والدین ہیں اور بچوں کا حددرجہ خیال رکھتے ہیں ۔ لیکن اصل میں اس قسم کے والدین اپنے بچوں کو نقصان پہنچا رہے ہوتے ہیں ۔ ’’محبت کے جذبات سے بھرے ہوئے ‘‘ یہ والدین بچوں کو آئندہ کی ذمہ داریوں کے لیے تیار نہیں کرتے ک،ان کو زندگی کے مسائل اور مصائب سے بے خبر رکھتے ہیں ۔ بچے روزمرہ کے تقاضوں سے لاعلم رہتے ہیں اور ان کی شخصیت مناسب طورپر نشوونما نہیں پاتی ۔
بہت سے بچے والدین کے اس طرزعمل کو ناپسندیدہ سمجھتے ہیں ۔ میری ایک عزیزہ نے اپنے سات سالہ بچے کا قصہ سنایا ۔ اس بچے کا نام یاد نہیں ، لیکن گھر والے اس کو موٹو کہتے ہیں ۔اس موٹو نے اپنی ماں سے کہا تھا’’ آپ تین باتیں یاد رکھیں : بچوں کو مارنا نہیں چاہیے ، ان پر چیختنا نہیں چاہیے اور ان کا سارا کام خود نہیں کرنا چاہیے ۔‘‘
یہاں ہم کچھ نکات بتاتے ہیں ۔ بچوں سے کام لیتے ہوئے ان کو ذہن میں رکھیں ۔
حقیقی مقاصد کو سمجھیں
بچوں سے گھر کے چھوٹے موٹے کام کاج کرانے کا مقصد یہ نہیں ہے کہ آپ اپنے لیے فرصت کے لمحات چاہتے ہیں یا اپنی ذمہ داری ان کے سر تھوپنا چاہتے ہیں ۔ یہ بات بھی اہم نہیں کہ آپ ان کو گھر کے کام کرنے کی تربیت دینا چاہتے ہیں ۔ تھالیاں صاف کرنا یا صوفہ جھاڑنا اور ان کا طریقہ سیکھنا کم اہم باتیں ہیں ۔ اصل بات یہ ہے کہ بچوں کو یہ ذمہ داریاں سونپ کر آپ ان میں ذمہ داری ، آزادی ، عزت نفس ، اعتماد اور مسابقت کے احساسات پیدا کرتے ہیں ۔ کیا آپ اپنے بچوں میں اس قسم کے احساسات پیدا کرنا نہ چاہیں گے ؟ ظاہر ہے کہ اس کا جواب ’’نہیں ‘‘ میں نہ ہوگا۔ ہم سب اپنے بچوں میں یہ خوبیاں دیکھنا چاہتے ہیں ۔
یہاں ایک اور بات کی طرف بھی توجہ دلانی چاہیے ۔ وہ یہ ہے کہ گھریلو کام کرنے سے بچے کو یہ سمجھنے میں مددملتی ہے کہ مشترکہ مقاصد کے لیے لوگوں کو ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے اور مل جل کر کام کرنا چاہیے ۔ یہ وہ خوبی ہے جو انسانی تاریخ میں ہمیشہ اہم رہی ہے ۔ مگر ہماری آج کی دنیا میں اس کی اہمیت بہت بڑھ چکی ہے ۔
جلدی آغاز کریں
بہت کم والدین کو اس حقیقت کا علم ہے کہ جونہی بچہ چلنے کے قابل ہوتا ہے ، اس کے ننھے سے ذہن میں ’’ماں کی مدد‘‘ کرنے کی خواہش پیدا ہونے لگتی ہے ۔ دوسال کا بچہ بھی میز سے گلاس اٹھا کر آپ کو دے سکتا ہے ، گیراج سے اخبار اٹھا کر لاسکتا ہے ۔ گھر کی صفائی کو آپ اس کے لیے کھیل بناسکتے ہیں ۔ ’’منے آؤ، کپڑے اٹھائیں ، چابیاں دراز میں رکھیں ، جوتے پالش کریں ۔‘‘ چار پانچ سال کا بچہ چھوٹی موٹی ہدایات بخوبی سمجھ لیتا ہے اوران پر عمل بھی کرسکتا ہے ۔ وہ اپنے کھلونے سمیٹ سکتا ہے ۔ ان کو ڈبے میں سلیقے سے رکھ سکتا ہے یااپنے کھانے کے برتن اٹھا سکتا ہے ۔ سات برس کی عمر میں بچہ چاردیواری کے اندر بہت سے کام کرسکتا ہے ۔ اس کو کھانے کی میز یا دسترخوان بچھانا سکھائیں ۔ یا کوئی ایسا کام دیں جو وہ آسانی سے کرسکے اور اس کو خوشی بھی ہو۔
بچوں کے ساتھ پکنک کا پروگرام بنے تو اس کو تربیت کا اچھا موقع دیں ۔ یہ مت سوچین کہ جو کام آپ کریں گے صرف وہی سلیقے سے ہوگا۔ یہ سوچ غلط قسم کی خودپرستی سے پیدا ہوتی ہے ۔ اس کو مستردکردیں ۔ اس کے بجائے بچوں میں ذمہ داریاں تقسیم کریں ۔ وضاحت کے ساتھ ان کو ہدایات دیں ۔ اس کے باوجود ان سے غلطی ہوجائے ، توپھر کیا ہوا۔ اس پر لال پیلا ہونے کی ضرورت نہیں بلکہ بہت نرمی سے ، پیارسے ان کو غلطی کا احساس دلائیں ۔ ہاں یہ یاد رکھیں کہ غلطی کا احساس دلانے کا مقصد یہ نہیں کہ وہ شرمندہ ہوں اور معذرت کریں ۔ بلکہ اس کا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ وہ اپنی غلطی سے آگاہ ہوجائیں تاکہ آئندہ اس سے محفوظ رہ سکیں ۔
بالکل صاف بات ہے کہ بچوں کو ایسے کام نہیں دینے چاہیٔںجن کی وہ اہلیت نہ رکھتے ہوں ۔ پکنک کی مثال لیتے ہیں ۔ آپ دس سال کے بچے کو یہ کام تو دے سکتے ہیں کہ وہ کھانے کے لیے جگہ منتخب کرے اور کھانے کے بعد برتن سمیٹے ۔ لیکن یہ اس سے نہیں کہہ سکتے کہ وہ موٹر چلا کر سب کو پکنک کے لیے لے جائے ۔ اس سے آگے کی بات البتہ یہ ہے کہ بچے کو کوئی نیاکام ایسا سونپنا چاہیے جس میں اس کے لیے چیلنج ہو اور اس کو انجام دنے کے لیے صرف جسمانی مشقت درکار نہ ہوبلکہ اس میں تخلیقی انداز میں سوچنے کی گنجائش بھی موجود ہو اور ساتھ ہی ساتھ اس کی حوصلہ افزائی بھی ہو۔ بچوں کی کسی معاملے میں حوصلہ شکنی ہو تو پھر وہ وہی کام دوبارہ کرنے پر مشکل سے آمادہ ہوا کرتے ہیں ۔
حقیقت پسندی کے دائرہ میں رہیں
اس میں شبہ کی گنجائش نہیں کہ بالغ افراد اکثر کام بچوں کے مقابلے میں بہتر طورپر کرسکتے ہیں ۔ اس لیے بچوں او ربالغوں کی کارکردگی کا موازنہ نہیں کرنا چاہیے ۔موازنہ ضروری ہو تو اس انداز سے کریں کہ بچے کا حوصلہ بڑھے ۔ اس کو اپنی کارکردگی پر فخر کا احساس ہو۔ ایسا نہ کیاجائے تو بچے کا مہارت ، ذہانت اور عزت نفس کا احساس مجروع ہوتا ہے ۔
بچے کو کوئی نیا کام سکھانے کا اکثر اوقات بہترین طریقہ یہ ہوتا ہے کہ اس کو باربار وہ کام کرنے کا موقع دیا جائے ۔ پہلے اس کو کام کرنے کا سلیقہ بتائیں ۔ پھر وہی کام خودکرکے دکھائیں اور اس کے بعد بچوں کے ساتھ مل کر کریں ۔ ان مراحل سے گزرنے کے بعد ہی اس کو اکیلے وہ کام کرنے کو کہنا چاہیے ۔ اس موقع پر بچے کی رہنمائی کے لیے موجود رہیں ۔ مگر جابجا ٹانگ نہ اڑائیں ۔ بچہ اگراپنے طریقے سے وہ کام کرنا چاہتا ہے تواس کو موقع دیں ۔
رشوت مت دیں
بچہ کوئی کام سلیقے سے کرتا ہے ، اس کی کارکردگی اطمینان بخش ہے اورآپ اس کی حوصلہ افزائی چاہتے ہیں تو بہترین ’’معاوضہ ‘‘ یہ ہے کہ اس کو مسکراہٹ دیں ، گلے لگائیں یا ’’شکریہ ‘‘ کہیں ۔ ایک اور صورت یہ ہے کہ دوسرے لوگوں کے سامنے بچے کی کارکردگی اور کامیابی کا ذکر اس طرح کریں کہ وہ بھی آپ کی طرف سے ہونے والی تعریف سن سکے ۔ اس سے وہ خوش ہوگا۔ اس کا حوصلہ بڑھے گا اور بہترکارکردگی کی ہمت پیدا ہوگی ۔ ان باتوں کے ساتھ یہ یادرکھیں کہ بچہ جب کوئی کام کرتا ہے تو کام کا مکمل ہوجانا ہی بذات خود اس کے انعام ہوتا ہے ۔
بعض والدین یا شاید اکثر والدین کی ان باتوں سے تسلی نہیں ہوتی ۔ وہ بچے کی کارکردگی اور کامیابی کا مادی اظہار ضروری سمجھتے ہیں ۔ یہ بہت ہی فضول حرکت ہے اور جہاں تک بچے کا تعلق ہے ، یہ حرکت نقصان دہ بھی ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انعام ملنے پر بچہ یہ سمجھتا ہے کہ خود کام کی اہمیت نہیں ہے ، بلکہ اصل اہمیت انعام کی ہے ۔ یہ احساس اس کو زندگی کی اعلیٰ اقدار سے دور لے جاتا ہے ۔ وہ یہ سمجھنے لگتا ہے کہ ہرکام کا معاوضہ ملنا چاہیے اور یہ کہ ہرکام کی اہمیت اس قدر ہے جس قدر کہ اس کام پر انعام یا معاوضہ ملتا ہے ۔ اس طرح اس کی شخصیت بہت محدود ہوجاتی ہے ۔
ہاں ، اس میں برائی نہیں کہ بچے کو ئی خاص پراجیکٹ دیا جائے تو اس کے لیے کوئی انعام یا معاوضہ بھی رکھا جائے ۔ بچوں کی تربیت کے ماہر کمال صاحب دوست ہیں ۔ ان کی لائبریری میں تقریبا تین ہزار کتابیں ہیں جو گزشتہ کئی مہینوں سے بے ترتیب تھیں اور ان کی بے ترتیبی بڑھتی جارہی تھی ۔ ایک بار میں نے کمال صاحب کی توجہ کتابوں کی طرف دلائی اوران سے کہا کہ اب کسی دن وقت نکال کر کتابوں کو سلیقے سے رکھنے کا کام کرڈالیں ۔ یہ سن وہ مسکرائے اور کہنے لگے ’’ یہ کام میں نے اپنی بیٹی کو دیا ہے اور وہ موسم بہار کی چھٹیوں میں یہ کام کرے گی ۔ میں اس کو ہرکتاب کے بدلے ایک روپیہ دوں گا۔ ‘‘ میں نے اس کا سبب پوچھا تو کمال نے جواب دیا کہ ایک تو یہ لمبا کام ہے۔ اس کے لیے پانچ سات دن درکار ہوں گے اور بہت سی جسمانی محنت کرنی پڑے گی ۔ دوسرے اس بچی کو اپنی محنت کا معاوضہ طے کرنے اور وقت پر کام ختم کرنے کی تربیت ملے گی ۔
بیرونی کام میں کوئی حرج نہیں
دنیا کے امیر اور ترقی یافتہ ملکوں میں جب کالج اور یونیورسٹیوں میں چھٹیاں ہوتی ہیں یا جب طالب علم امتحانات سے فارغ ہوتے ہیں تو وہ فوراً چھوٹی موٹی عارضی نوکریاں تلاش کرتے ہیں ۔ اس میں نوجوانوں کو یا ان کے والدین کو کوئی خرابی نظرنہیں آتی ۔ نہ ہی ان کے ہمسائے اور دوسرے لوگ مذاق اڑاتے ہیں یا اعتراض کرتے ہیں ۔
ہمارے ہاں صورت حال مختلف ہے ۔ امیر لوگوں کی تو خیر بات نہ کریں ۔ متوسط بلکہ غریب گھرانوں میں بھی نوجوان طالب علموں کا گھر سے باہر کام کرنا ، کوئی عارضی ملازمت کرنا بہت ہی معیوب خیال کیا جاتا ہے ۔ خود والدین اس پر رضامند نہیں ہوتے ۔ وہ اس کو بے عزتی کی بات سمجھتے ہیں ۔ نتیجہ یہ ہے کہ چونکہ ہمارے تعلیمی ادارے سال میں چارپانچ ماہ بند رہتے ہیں ، اس لیے طالب علم گلیوں میں ڈنڈے بجاتے رہتے ہیں ۔ والدین ان کو آوارہ گردی ، لڑائی جھگڑا اور بعض صورتوں میں کئی دوسری سماجی برائیاں سیکھنے کے لیے تو کھلا چھوڑ دیتے ہیں لیکن ان کو کوئی ہنر سیکھنے ، کوئی کام سیکھنے اور اپنی ذمہ داری اٹھانے کا موقع نہیں دیتے ۔
اس معاشرے میں رہتے ہوئے آپ بھی اس رحجان کا شکار ہوں تو اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں ۔ مگر اس پر قابو پائیں ۔ بچوں کو گھر سے باہر کام کاج کا موقع ملے تو ان کی حوصلہ افزائی کریں ۔ اس طرح وہ دنیا کے طور طریقے سیکھیں گے ۔ دوسروں کے معیار جانیں گے ۔ ان کو ہنر اور مہارت حاصل ہوگی ۔ ان میں ذمہ داری کا احساس پیدا ہوگا۔
بوجھ نہ ڈالیں
بچوں کا کام کاج میں شریک کرنے کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ بچوں کو بیل بنا دیا جائے اور ہروقت انہیں کام کاج میں مصروف رکھا جائے ۔ یہ سمجھنا بہت بڑی غلطی ہوگی ۔ بچوں سے صرف اس قدر کام لینا چاہئے جن سے ان کی دوسری سرگرمیاں ، خاص طورپر تعلیم اور کھیل متاثر نہ ہوں ۔ ہم یہ بتادیں کہ بچوں کے لیے کھیل کود اور دوسری سماجی سرگرمیوں کی اہمیت قطعی طورپر اس قدر ہے جس قدر تعلیم کی ہے ۔ا ن کو پڑھنے کا موقع دیں ۔ کھیلنے کا موقع دیں ۔ سماجی میل ملاپ کا موقع دیں اور ساتھ ہی ساتھ ان کوکام کاج کا بھی موقع دیں ۔
بچوں سے کام لینے اور ان کو ذمہ داریاں سونپنے کا یہ مطلب نہیں کہ آپ خود کچھ نہ کریں ۔ بلکہ مقصد صرف اتنا ہے کہ ان میں گھریلو زندگی میں شرکت اور ذمہ داری کااحساس پیدا کیاجائے ۔ اس حد سے آگے نہ بڑھیں ۔ اس حد سے آگے بڑھنا بچے کی نشوونما کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہے ۔
اوبد زنسکی نے ایک چودہ سالہ لڑکی کا ذکر کیا ہے ۔ اس کے ماں باپ دونوں ملازمت کرتے تھے ۔ والدین نے گھر کا سارا کام کاج اور اس کے گیارہ سالہ چھوٹے بھائی کی دیکھ بھال اس لڑکی کے سپرد کررکھی تھی ۔ شروع شروع میں تو وہ لڑکی ہشاش بشاش رہی اور لگتا تھا کہ وہ اپنی ذمہ داریوں سے خوش ہے ۔ لیکن جب اس سے گفتگو کی گئی تو معلوم ہوا کہ دل ہی دل میں وہ پریشان تھی ۔ بددل تھی اور اس کی عزت نفس شدت سے متاثر ہورہی تھی ۔ چند ہی ماہ بعد وہ خود کو گھر کا ایک فرد سمجھنے کے بجائے کنیز سمجھنے لگی ۔
کام کاج کرنا اچھی بات ہے ۔ بچپن میں بھی کام کاج کرنے میں خرابی نہیں ۔ لیکن کام کاج ہی سب کچھ نہیں ۔ کام کو درست انسانی تناظر میں دیکھنا چاہیے ۔ کام زندگی کا حصہ ہے ، زندگی کا بدل نہیں ۔