مسرت انگیز ازدواجی زندگی کے چھ اصول

جلدی کرو،جلدی‘‘ میری کی آوازگونجی۔’’
ہسپتال میں میڈیکل ٹیم میری کے شوہر کو کمرے کی طرف لے جارہی تھی اور میری کی بے تابی بڑھتی جارہی تھی ۔
کارل اور میری نے برس ہا برس اکٹھے گزارے تھے ۔ وہ بچے اور بلیاں پال چکے تھے ، اپنے اپنے کیرئیر میں خاصے آگے بڑھ چکے تھے ۔ دونوں نے مل کر زندگی کے کئی مصائب کا مقابلہ کیا تھا ۔ لیکن ان کو کبھی گمان نہیں ہوا تھا کہ ان کی مشترکہ زندگی کسی روز اچانک ختم ہوسکتی ہے ۔
موت ان کو جدا کرسکتی ہے ۔

پلیز جلدی کچھ کریں ‘‘ میری نے ایک بار پھر التجا کی ۔’’
ڈاکٹر اپنا کام شروع کرچکے تھے ۔میری ایک کونے میں کھڑی دعائیں مانگ رہی تھی ۔ وہ خدا سے کارل کے ساتھ رہنے کا ایک اور موقع مانگ رہی تھی۔
چند لمحوں کے بعد کارل کی حالت سدھرنے لگی ۔ ڈاکٹر کامیاب ہو رہے تھے ۔ مریض زندگی کی واپسی کے اشارے دے رہا تھا۔ میری بے حس وحرکت کھڑی تھی ۔ اس کی آنکھیں آنسوؤں سے بھری ہوئی تھیں ۔
ایک اور موقع‘‘ اس نے سرگوشی کی ۔ میں اس موقع کی قدر کروں گی ۔ واقعی زندگی کس قدر ناپائیدار ہے ۔ ہمیں خدا نے جو’’ وقت مل کر گزارنے کے لیے عطا کیا ہے ،اس کو گنوانا نہیں چاہئے ۔ ہم اب ان دو افراد کی طرح نہیں رہیں گے جو اتفاق سے اکھٹے ہو گئے ہوں یا جن کو سماجی رسوم نے ایک دوسرے کے پلے باندھ دیا ہو ۔ ہم ایک دوسرے کی قدر کریں گے ۔ ترجیح ، تمام رشتوں اور تما م چیزوں پر اس رشتے کو ترجیح دیں گے ۔‘‘ وہ شوہر کے گلے لگ گئی اور دونوں مل کر رونے لگے ۔
اس نئے ملاپ سے پہلے میری اور کارل سالہا سال سے شادی شدہ زندگی گزار رہے تھے مگر وہ محبتیں بانٹنا بھول چکے تھے ۔ ایک دوسرے کو چھونا اور ایک دوسرے میں قربت کے جذبوں کو ابھارنا انہیں یاد ہی نہیں رہا تھا ۔ وہ تو بس ایک چھت کے نیچے وقت گزار رہے تھے ۔انہوں نے ازدواجی زندگی کو تخلیقی بنانے کی کوئی شعوری کوشش نہ کی تھی ۔ یوں اس میں کوئی ولولہ، کوئی مزہ نہ رہا تھا۔
ڈاکٹر پال اس قسم کی خشک اور بے کیف ازدواجی زندگیوں کا برسوں سے مطالعہ کررہے ہیں ۔ انہوں نے اس موضوع پربہت کچھ لکھا ہے اور ہزاروں جوڑوں کو نئی زندگی عطا کی ہے ۔اپنے طویل تجربے اور مطالعے کی بنیاد پر ڈاکٹر پال نے مثالی ازدواجی زندگی کا ایک نظام مرتب کیا ہے ۔
ڈاکٹر صاحب کے اس نظام کا مقصد جسموں کے بجائے ذہنوں میں ملاپ پیدا کرنا ہے ۔ دعوی ان کا یہ ہے کہ جب میاں بیوی کے ذہن مل جاتے ہیں تو پھر جسموں کی دوری خودبخود مٹ جاتی ہے ۔
ڈاکٹر صاحب نے ایک خصوصی تجربے کی خاطر ایک ہزار سے زیادہ جوڑوں کے نجی انٹرویو لئے ۔مردوں اور عورتوں سے الگ الگ ملاقاتیں کیں ،ان کے جنسی مسائل سنے اور حل کیے ۔ اس سارے تجربے کا نچوڑ انہوں نے چھ اصولوں میں وضع کیا ۔

قیمت ادا کریں

شادی کو معاشقہ مت بنائیں
بیوی محبوبہ نہیں ہوتی اور نہ ہی شادی معاشقہ ہوتی ہے ۔ ان دونوں میں بہت فرق ہے ۔ اس فرق کو ختم کرنا اچھا نہیں ہوتا۔ معاشقے مختصر ہوتے ہیں ۔ ان میں عارضی شدت ہوتی ہے لیکن وہ اس محبت کی ناپختہ نقل ہوتے ہیں جو صرف پائیدار اور بالغ تعلقات سے جنم لیتی ہے ۔
مثالی ازدواجی زندگی کا دارومدار اس امر پر ہوتا ہے کہ جنس کو پوری ازدواجی زندگی کا حصہ بنایا جائے ۔ جنس کو محض ایک ازدواجی فریضہ نہ سمجھا جائے جو باقی زندگی سے الگ تھلگ ہو ۔ میاں بیوی جنس کو ازدواجی محبت سے کاٹ دیں تو وہ بے لطف اور میکانکی بن کر بے جان ہوجاتی ہے ۔ جنس ازدواجی تعلقات کا ایک حصہ ہے مگر اس کی جڑیں پوری ازدواجی زندگی میں پھیلی ہونی چاہئیں۔



جنس توجہ چاہتی ہے
ازدواجی زندگی کے کسی حصے کو نظرانداز کر دیا جائے تو وہ غائب ہوجائے گا۔ جنس کا معاملہ تو اور بھی نازک ہے ۔ اس پر توجہ نہ دی جائے تو وہ ختم ہونے لگتی ہے ۔ لہذا یہ اصول یاد رکھیں کہ لوگ جنس سے اسی قدر لطف اٹھاتے ہیں جس قدر وہ اس پرتوجہ دیتے ہیں ۔
مثالی سیکس کا انحصار اس بات پر بھی ہے کہ میاں بیوی کے درمیان وقت کے ساتھ فروغ پانے والی شہوانی عادتوں کو قبول کر لیا جائے ۔ مثلا میاںبیوی اگر ہر ہفتے سیکس کے عادی ہوچکے ہیں تو اس کو جاری رکھنے میں کوئی قباحت نہیں۔ البتہ اس کو میکانکی نہیں بننے دینا چاہئے ۔
اس قسم کی عادتیں برسوں کے ملاپ سے وجود میں آتی ہیں ۔ ان کی قدر کرن چاہئے ۔ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ زندگی کے دوسرے شعبوں میں بھی وقت کے ساتھ ایسی عادتیں بنتی چلی جاتی ہیں۔وہ زندگی کو آسان اور منظم بنانے میں مدد دیتی ہیں ۔
کبھی اپنے ازدواجی ماضی پر ہمدردی سے نگاہ ڈالیں ۔کیا آپ کو یاد ہے کہ آپ نے جیون ساتھی کے طور پر اس خاص فرد کا انتخاب کیوں کیا تھا ؟ ان واقعات کو یاد کریں جن سے آپ دونوں ایک ساتھ گزرے ہیں ۔ اپنے مستقبل پربھی نگاہ ڈالیں ۔ازدواجی زندگی میں سے ولولہ تلاش کریں ۔
میاں بیوی جب مل کر زندگی کے مدوجذر سے گزرتے ہیں تو بہت سی مشترک یادیں ان کی زندگی کا حصہ بنتی ہیں ۔ یہ یادیں جسمانی ملاپ کا محرک بن سکتی ہیں۔

ازدواجی زندگی کو اولیت دیں
ایک خاتون نے اپنی بے کیف زندگی کو چند الفاظ میں یوں بیان کیا ہے ۔ ’’ پورے دن میں ہمیں مشکل سے دس منٹ تنہائی کے نصیب ہوتے ہیں ۔رات کو ہم تھک ہار کر جب بیڈ کر رخ کرتے ہیں تو اس قدر بے جان ہوجاتے ہیں کہ کچھ کرنا مصیبت لگتا ے ‘‘۔
یہ ایک خاتون کا مسئلہ نہیں ۔ آج کی جدید دنیا میں بے شمار جوڑے اسی قسم کے دن کاٹ رہے ہیں ۔ وہ اس قدر روگ پال لیتے ہیں کہ ان کے پاس وقت ہی نہیں ہوتا۔
اصل میں اس بے رخی کا سبب ہے کہ ان کے نزدیک ازدواجی زندگی اہم ہی نہیں ہوتی ۔ دوسری ذمہ داریوں ،دوسرے لوگوں ، بچوں ، والدین اور تفریح کے لیے وہ وقت نکال لیتے ہیں ،کیونکہ وہ ان کے نزدیک اہم ہیں۔ وہ ازدواجی زندگی کی قیمت پر زندگی کا کھیل جاری رکھتے ہیں ۔مگر وہ غلطی پرہیں ۔ ان کو معلوم ہی نہیں کہ ازدواجی زندگی بنیادی یونٹ ہے ۔یہ یونٹ جس قدر مضبوط ہوگا ، اسی قدر مضبوط باقی نظام بھی ہوجائے گا۔
ایک مشہور کہاوت ہے کہ ہم جو بوتے ہیں ، وہی کاٹتے ہیں۔اگر یہ کہاوت درست ہے ۔ توپھر اس میں تعجب کی کیا بات ہے کہ ہمارے زمانے میں اکثر ازدواجی زندگیاں بے مزہ اور ناخوش گوار ہیں ۔ ذرا تصور کریں کہ اگر ہم اپنے کام کاج پر ازدواجی زندگی جتنی توجہ اور وقت صرف کریں تو اس کا نتیجہ کیا ہوگا؟ اس سوال کا جواب بس یہ ہے کہ ’’ ہم بھوکے مرجائیں گے ‘‘۔
ڈاکٹر پال کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنے کلینک میں پانچ ہزار سے زیادہ جوڑوں کے امتحان سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ کام ،نیند اور ایسی ہی دیگر مصروفیات کے بعد جو وقت بچتا ہے ، اس کا بھی عام جوڑے صرف ایک فیصد حصہ اکٹھے گزارتے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ اس صورت میں مسرت انگیز ازدواجی زندگی حاصل نہیں ہوسکتی ۔

محبت کی تکنیک اپنائیں
اکثر میاں بیوی شکایت کرتے ہیں کہ ان کے درمیان ہم آہنگی کا فقدان ہے ۔ جنسی امور سمیت کسی معاملے میں بھی وہ ایک دوسرے سے ہم آہنگ نہیں ۔
ان لوگوں کے لیے مشورہ یہ ہے کہ وہ محبت کی تکنیک استعمال کریں ۔ یہ تکنیک دوسرے کی بات سننے ، جائزہ لینے ، تصدیق کرنے اور ہمدردی کرنے سے عبارت ہے ۔ اپنے ساتھی پر روزانہ کم سے کم ایک بار یہ تکنیک آزمائیں۔ یہ سیدھی سی تکنیک ہے ۔چنانچہ اپنے ساتھی کی باتیں توجہ سے سنیں ،اس کو بولنے او ر زیادہ باتیں کرنے پرآمادہ کریں۔ اس کی حرکات کا بغور جائزہ لیں ۔ ان میں دلچسپی ظاہر کریں اور باہمی محبت کی تصدیق کرتے رہیں ۔محبت کے الفاظ دہرانے سے وقت ضائع نہیں ہوتا بلکہ ان کی تاثیر بڑھ جاتی ہے ۔

انتظار میں مت رہیں
ہم سب اچھے دنوں کے منتظر رہتے ہیں ۔ہم اس دن کی آس لگائے رہتے ہیں جب سب مسئلے حل ہوجائیں گے ،ہم خوش حال اور فارغ البال ہوجائیں گے ،

چاروں طرف بہار کا سماں ہوگا اور پھول ہی پھول کھل اٹھائیں گے مگر ایسا دن کبھی نہیں آتا ۔ دنیا کا اپنا چلن ہے ۔ وہ خود کو ہماری خواہشوں کے مطابق نہیں ڈھالا کرتی ۔ اپنی روش پر قائم رہتی ہے ۔ لہذا ہمیں اچھے دنوں کا انتظار چھوڑ کر ہمارے پاس جو وقت ہے اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا چاہئے ۔

اکثر جوڑے پیارومحبت کے لمحوں کے لیے تین باتوں کا انتظار کرتے ہیں ۔وہ چاہتے ہیں کہ بچے سو جائیں ،وہ خو دبیڈ پرجانے کے لیے تیار ہوں اور تیسرے یہ کہ کرنے کے لیے کوئی اور کام نہ ہو ۔ ظاہر ہے کہ ایسا وقت مشکل سے ہی ہاتھ آتا ہے ۔پھر اس کا انتظار کیوں کیا جائے ؟
ہرگز نہیں ۔وقت ہمیشہ ہمارے پاس موجود نہ رہے گا ۔ ہم وقت کو ابدی سمجھتے ہیں۔یہ خطرناک فریب ہے ۔وقت تو مٹھی میں بند ریت کی طرح ذرہ ذرہ کرکے نکلتا چلا جارہا ہے ۔ اس کو تھام لیں ۔موجودہ لمحے سے ہی فائدہ اٹھائیں ۔
جنسی الجھنوں کا حل خود ازدواجی زندگی میں پوشیدہ ہوتا ہے۔ آپ تخلیقی انداز میں پرخلوص کوشش کریں تو مسائل کا حل مل جائے گا۔
ڈاکٹر پال کا مشورہ یہی ہے اور وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ جس قدر ممکن ہو ، جنسی امور کے نام نہاد ماہرین سے دور رہیں ۔ ہمارے عہد کی ازدواجی زندگیوں کو سب سے زیادہ ان لوگوں نے ہی خراب کیا ہے ۔
حال ہی میں مجھے ہسپتال جانے کا اتفاق ہوا۔ وہاں ایک کمرے کے سامنے ایک جوڑا ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے کھڑا تھا ۔ دونوں کے چہرے خوشی سے دمک رہے تھے ۔وہ کارل اور میری تھے ۔
کیسی بیت رہی ہے ؟‘‘ میں نے پوچھا ۔’’
’’ ہم مزے میں ہیں ۔‘‘ کارل نے جواب دیا ۔’’ ہم چچا کی عیادت کے لیے آئے تھے تو یہاں بھی چلے آئے ۔ یہ وہی کمرہ ہے ناں’’’’’’ جہاں ہم کو دوسرا موقع ملا تھا ‘‘۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.