زندگی بدلنے کی جرات کریں
ڈاکٹر وحید عشرت ماہر اقبالیات ہیں ۔انہوں نے فلسفے میں پی ایچ ڈی کیا ہے ۔ وہ کئی کتابوں کے مصنف ہیں اور علمی حلقوں میں جانی پہچانی شخصیت ہیں ۔
ڈاکٹر صاحب نے یہ مقام اپنی محنت اور لگن سے حاصل کیا ہے ۔ انہوں نے ایک محنت کش کے گھر آنکھ کھولی ۔ والدین کی توجہ سے میٹرک کا امتحان پاس کیا اور ریلوے میں ٹکٹ کلکٹر لگ گئے ۔مگر علم حاصل کرنے اور زندگی سنوارنے کی خواہش ان کو بے چین کیے رکھتی تھی ۔ چنانچہ ملازمت کے دوران انہوں نے اپنی تعلیم جاری رکھی ۔ ایک عرصے تک ان کی تقرری شیخوپورہ ریلوے سٹیشن پر رہی ۔ وہ شام کو اپنی ڈیوٹی دیتے تھے اور دن کو پنجاب یونیورسٹی میں فلسفے کا کلاسیں لیتے تھے ۔ یہ سلسلہ دو برس تک جاری رہا۔ روزانہ شیخوپورہ سے لاہور اور واپس شیخوپورہ کا سفر ، ملازمت اور پڑھائی جاری رکھنا کٹھن کام تھا لیکن اگر وہ تب یہ سب کچھ نہ کرتے تو آج شیخوپورہ نہ سہی ، رائے ونڈ یا بہاولنگر میں ریلوے سٹیشن پر مسافروں سے ٹکٹ وصول کررہے ہوتے ۔ محنت اور لگن سے انہوں نے اپنی زندگی بدل لی اور اب وہ خوش باش اور مطمئن زندگی گزار رہے ہیں۔
یہ اچھوتی مثال نہیں ۔ ہمارے معاشرے میں اور پوری دنیا میں لاکھوں کروڑوں افراد حالات کے رخ پر بہنے سے انکار کردیتے ہیں ، وہ اپنی راہ خود بنانا چاہتے ہیں ۔ وہ ڈٹ جاتے ہیں اور آخرکار جیت جاتے ہیں ۔ باربرا بارٹوکی نے اس موضوع پر قلم اٹھایا ہے ۔ انہوں نے سیٹو رچرڈ سن کی مثال بھی دی ہے ۔
تیس سال کی عمر میں رچرڈ سن دنیا کی سب سے بڑی اکاؤنٹنگ فرم میں مشیر تھا۔ اس کو قابل رشک تنخواہ ملتی تھی اور دوسری سہولتیں بھی ۔ مگر کام کا بوجھ بہت زیادہ تھا ۔ رچرڈ سن کو فرصت کے لمحات کم کم ہی نصیب ہوتے تھے ۔ وہ اپنے خاندان اور دوستوں کے ساتھ مرضی کے مطابق وقت نہیں گزار سکتا تھا ۔ وہ اکتا گیا۔ بھلا یہ بھی کوئی زندگی ہے کہ آدمی سارا دن کام ہی کرتا رہے ؟
رچرڈ سن کے دل میں نیوانگلینڈ کے اپنے آبائی دیہی علاقے میں سادہ اور پرسکون زندگی گزارنے کی خواہش پلنے لگی ۔ اس کا بچپن وہیں بسر ہوا تھا ۔ آخر ایک روز نیوجرسی میں ٹریفک کے بے پناہ رش کے وقت اس نے ملازمت چھوڑ کر اپنے قصبے واپس جانے کاارادہ کرلیا۔
رچرڈ سن اب ناروچ کے چھوٹے سے قصبے میں رہتا ہے اور ایک کمپنی میں ملازم ہے ۔ اس کی تنخواہ گزشتہ تنخواہ کا محض معمولی سا حصہ ہے ،لیکن یہ صورت حال اس نے خود منتخب کی ہے اور وہ کہتا ہے ــ’’ صرف پیسہ اہم نہیں ہوتا ۔ زندگی میں اور بہت سی چیزیں ہیں جن کے آگے روپے پیسے کی کوئی اہمیت نیں ‘‘۔
ہماری زندگیوں میں کبھی نہ کبھی ایسا لمحہ آجاتا ہے جب ہم سب کچھ چھوڑ کر اپنے خوابوں اور آدرشوں کی تکمیل کرنے کی شدت سے خواہش کرتے ہیں مگر عموما یہ بس خواہش ہی رہتی ہے ۔ عملی طورپر ہم کچھ نہیں کرتے ۔ ہم ڈھلے ڈھلائے انداز میں زندگی بسر کرتے چلے جاتے ہیں ۔
ہمارے گردوپیش کے لوگ ہمیں ڈراتے ہیں اور نئے آغاز کو خطرناک قراردیتے ہیں ۔ ہم خود بھی خوفزدہ رہتے ہیں اور اپنے خوابوں سے جان چھڑانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ سب سے زیادہ ہمیں ناکامی کا ڈر ہوتا ہے مگر جن میں جرات ہوتی ہے ، وہ آگے بڑھتے ہیں ۔ اپنی زندگی کی باگیں پکڑتے ہیں اور اپنا رخ بدل دیتے ہیں ۔
ہم اپنی زندگی کو بدلنے کا حوصلہ کیسے حاصل کرسکتے ہیں ؟ زندگی میں نئے مواقع حاصل کرنے اور پرانی روش کو ترک کرکے نئی روش اختیار کرنے کے لیے ہمیں کیا کرنا چاہیے ؟ ماہرین اور تجربہ کار لوگوں نے اس سلسلے میں کئی اصول وضع کررکھے ہیں۔ ان میں سے چھ اہم ترین اصول یہ ہیں۔
خوابوں کو سنجیدگی سے قبول کریں
چارلی بارسوٹی کا قصہ یہ ہے کہ بچپن میں اس کو کارٹونوں سے گہری دلچسپی تھی ۔ سکول اور گھر کے کام کاج سے جب بھی اس کو فرصت ملتی وہ کاغذ پنسل لے کر کارٹون بنانے لگتا ۔ کبھی کبھی تو وہ رات کو خوابوں میں بھی خود کو نت نئے کارٹون بناتے ہوئے دیکھتا ۔ اس شوق کی وجہ سے وہ پیشہ ور کارٹونسٹ بننا چاہتا تھا ۔ وہ بتاتا ہے کہ ’’ لیکن جب میں بڑا ہوا تو یہ مجھے کوئی مفید کام نہ لگا ۔ میرے شہر میں کئی پیشہ ور کارٹونسٹ تھے ۔ ان کی مالی اور سماجی حالت اچھی نہ تھی ۔ لہذا میں نے کارٹونسٹ بننے کا اپنا خواب ترک کرکے کوئی ڈھنگ کا کام کرنے کا ارادہ کیا۔ مجھے خصوصی بچوں کے ایک مرکز میں اچھی خاصی ملازمت مل گئی ۔ یوں کارٹون بنانا میرے لیے صرف مشغلے کی حدتک رہ گیا‘‘۔ چارلی کی زندگی اسی ڈھنگ سے گزر رہی تھی ، مگر یہ ڈھنگ اس کے سابقہ سکول کے صدر کو پسند نہ تھا۔ اس نے چارلی کو نیویارک جانے پر رضامند کرلیا تاکہ وہ وہاں کے رسالوں کے مدیروں کو اپنے کارٹون دکھا سکے ۔ نیویارک کے ’’ پے جنٹ ‘‘ نامی رسالے کے ایڈیٹر نے چارلی کے کارٹونوں میں دلچسپی لی اور کئی کارٹون خرید لیے ۔ یہ ایک نیا تجربہ تھا۔ گھر واپس آنے پر چارلی کے دل میں ایک نیا ولولہ پیدا ہوچکا تھا۔ وہ کارٹونسٹ بننے کے بارے میں اپنے بچپن کے خواب میں ایک بار پھر دلچسپی لینے لگا ۔ اب اس کا رویہ زیادہ سنجیدہ تھا ۔ چندماہ کی مشق سے اس نے اپنی تکنیک بہتر بنائی اور ایک بارپھر مختلف رسالوں کے ایڈیٹرز سے رابطہ کیا۔ نتیجہ ! نتیجہ یہ ہے کہ چارلی بارسوٹی اب امریکا کا جانا پہچانا کارٹونسٹ ہے ۔ اس کے کارٹون ’’ نیویارکر‘‘ اور ’’ یوایس اے ٹوڈے ‘‘ جیسے مشہور رسالوں میں شائع ہوتے ہیں ۔رافعہ میری ایک عزیزہ کا نام ہے ۔ وہ تعلیم یافتہ خاتون ہے اور ایک فضائی کمپنی میں افسر ہے ۔ بچپن میں اس کے دانت کسی بیماری کے سبب ، ٹیڑھے ہوگئے تھے ۔ اس نے کئی بار ٹھیک کرانے کا ارادہ کیا مگر ہمت نہ ہوئی ۔ آخرکار اس نے خود کو سمجھایا کہ ٹیڑھے دانت کوئی ایسا مسئلہ نہیں جس کے بارے میں ہروقت سوچا جائے ۔ دنیا میں کئی لوگوں کے دانت خراب ہیں اور وہ مطمئن زندگی گزار رہے ہیں ۔ خود میری زندگی بھی کامیاب ہے ۔ میرا خاندان ، دوست ہیں اور اعلیٰ ملازمت ہے ۔ مجھے دانتوں کی فکر نہیں کرنی چاہیے ۔خود کو سمجھانے کی کوششوں کے باوجود رافعہ کے دل میں اپنے دانت درست کرانے کی خواہش موجود رہی ۔ یہاں تک کہ گزشتہ برس جب اس کی عمر تینتالیس سال تھی ، وہ یورپ گئی اور دوماہ کے بعد واپس لوٹی تو بالکل ہی بدلی ہوئی تھی ۔ وہ کہتی ہے کہ ’’ دانت درست کرانے سے زندگی میں میرا کنٹرول نمایاں ہوتا ہے اور مجھے ایسی مسکراہٹ بھی مل گئی ہے جو اس عمر میں میری دلکشی کا باعث بنتی ہے ۔ میں واقعی بہت خوش ہوں‘‘۔
دیر کبھی نہیں ہوتی
رحیم نے اپنے خواب کی تکمیل کے لیے تیس برس تک انتظار کیا ہے ۔ انیس سو سینتالیس میں اس کی عمر بیس سال تھی اور اس نے بمبئی کے ایک ادارے میں سیلزمین شپ کا کورس کیا تھا ۔ اس کو یہ شعبہ پسند تھا اوروہ کامیاب سیلزمین بننے کے خواب دیکھا کرتا تھا ۔ا س کا کورس مکمل ہونے کے چند ماہ بعد پاکستان بن گیا۔ لاکھوں دوسرے لوگوں کی طرح وہ بھی ہجرت کرکے کراچی چلاآیا۔ اس زمانے میں حالات سازگار نہ تھے ۔ چنانچہ رحیم کو جو پہلی ملازمت ملی ، وہ اس نے فورا قبول کرلی ۔ وہ امپورٹ ایکسپورٹ کے محکمے میں ملازم ہوگیا ۔ سیلز مین بننے کی خواہش کبھی کبھی تنگ کرتی تھی مگر وہ نئے وطن میں کوئی خطرہ مول لینے کو آمادہ نہیں تھا۔ آخرکار وہ اس خواہش سے مغلوب ہوگیا۔ انیس سو ستتر میں اس نے اپنے محکمے سے قبل ازوقت ریٹائر منٹ لی اور پچاس سال کی عمر میں انشورنس ایجنٹ بن گیا۔ گزشتہ دنوں ستر سالہ رحیم سے ملاقات ہوئی تو اس نے کہا ’’ مجھے پہلے ہی یہ کام شروع کردینا چاہیے تھا ۔ خیر کوئی بات نہیں ۔ یہ تو ہے کہ میں نے ساری زندگی انتظار میں نہیں گزاری ‘‘۔
امریکا کی نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی میں تعلیم اور عمرانیات پڑھانے والے پروفیسر برناٹس نیوگرٹن نے اس سلسلے میں اپنی تحقیق ومطالعہ کا حاصل یوں بیان کیا کہ ’’ بنے بنائے سانچے اب ختم ہورہے ہیں ۔ تیس سال پہلے تک زندگی کے مختلف مرحلوں پر لوگوں سے خاص قسم کی توقعات کی جاتی تھی لیکن اب ان کا رواج نہیں رہا ۔ زندگی کے ادوار میں زیادہ لچک پیدا ہوگئی ہے اور ہم زندگی کے کسی دور میں بھی تبدیلی قبول کرنے کے قابل ہوگئے ہیں ‘‘۔
مرحلہ وار آگے بڑھیئے
بہت سے نوجوان پیراکوں کی طرح جان تیبر بھی اولمپک مقابلوں میں حصہ لینے کے خواب دیکھا کرتا تھا ۔ انیس سو بہتر کے اولمپک کھیلوں کے زمانے میں وہ ہائی سکول کا طالب علم تھا ۔ ٹیلی ویژن پر یہ کھیل دیکھتے ہوئے وہ سوچتا کہ اولمپک مقابلوں میں شرکت کے قابل ہونے کے لیے اس کو اور کس قدر تیاری کرنا ہوگی ۔ اس کے اپنے حساب کتاب کے مطابق چاربرسوں میں اس کو چارسکینڈ کم کرنے تھے۔
جان نیبر کو یہ بات محال دکھائی دیتی تھی ۔ آخرکار وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ اگروہ سال میں دس ماہ تک تیرنے کی مشق کرتارہے تو پھر اس کو اپنا وقت ہرماہ سکینڈ کا صرف دسواں حصہ کم کرناہوگااور وہ انیس سو چھہتر کے اولمپک مقابلوں میں شریک ہوسکے گا۔ چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اس نے پیراکی میں گولڈ میڈل جیت لیا۔
اس طرز عمل کی توجیہہ ورجینیا کامن ویلتھ یونیورسٹی کے شعبہ نفسیات کے سربراہ سٹیفن ڈینش نے پیش کی ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ منزل مقصود تک پہنچنے کے لیے جو کٹھن راہ ہے ، اگر اس کو مرحلوں میں تقسیم کرلیا جائے تو اس سے نہ صرف آپ بتدریج آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں بلکہ منزل مقصود تک پہنچنے کی جدوجہد کی شدت بھی کم ہوجاتی ہے ۔
قربانی کے لیے تیار رہیں
کالج کے زمانے میں محمد رفیق صحافی بننے کے خواب دیکھا کرتا تھا۔ وہ صحافت کی یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرکے کسی اچھے اخبار سے وابستہ ہونا چاہتا تھا ۔ والدین اس کی یہ خواہش پوری کرنے پر آمادہ تھے ۔ اس لیے رفیق کو اپنی خواہش کی تکمیل میں کوئی رکاوٹ نظر نہیں آتی تھی۔ مگر حالات نے کروٹ لی ، ایک دن اچانک رفیق کے والد کے سینے میں درد اٹھا ، ڈاکٹر کے پاس لے جارہے تھے کہ راستے میں ہی انہوں نے دم توڑ دیا۔ رفیق سب سے بڑا بیٹا تھا ۔ چنانچہ باپ کے کاروبار کو سنبھالنے اور خاندان کی کفالت کرنے کی ذمہ داری اس پر آن پڑی ۔ یوں رفیق کو یونیورسٹی پہنچنے سے پہلے ہی تعلیم ترک کرنا پڑی ۔ دس سال تک وہ باپ کے کاروبار کی دیکھ بھال کرتا رہا ۔ یہاں تک کہ اس کے دو چھوٹے بھائی تعلیم سے فارغ ہوگئے ۔ اب وہ کاروبار سنبھال سکتے تھے ۔ رفیق چاہتا تو وہ بھی اسی کام میں مگن رہتا ، لیکن صحافی بننے کی خواہش ابھی تک اس کے دل میں مچل رہی تھی ۔ چنانچہ اس نے کاروبار بھائیوں کے سپرد کیا اور تعلیم کا عمل پھر سے شروع کردیا۔ اس نے صحافت میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور اسلام آباد میں صحافت کا آغازکردیا۔
ایک بار رفیق سے میری ملاقات ہوئی تو میں اس کو اپنا ٹارگٹ حاسل کرنے پر مبارکباد دی ۔ وہ مسکرایا اور کہنے لگا۔ ’’ اگر میں کاروبار میں رہتا تو میری آمدن موجودہ تنخواہ سے کم ازکم پانچ گنازیادہ ہوتی ، لیکن میرا دل مطمئن نہ ہوتا ۔ اب میں نے وہی کچھ کیا ہے جو میں چاہتا تھا ۔ اس لیے میں بہت خوش ہوں ‘‘۔
ایک جہاندیدہ بزرگ کا قول ہے کہ اگر آپ خوب دل لگا کر محنت کریں تو زندگی میں جو چاہیں حاصل کرسکتے ہیں ۔ بس یہ ہے کہ آپ سب کچھ بیک وقت نہیں حاصل کرسکتے ۔ یاد رکھنے والی بات یہ ہے کہ جب آپ زندگی میں کوئی دوسرا چانس قبول کرتے ہیں تو آپ کو اس کے لیے تھوڑی بہت قربانی بھی دینی پڑے گی ، یعنی ویسی ہی قربانی جیسی رفیق نے دی ۔ روپے پیسے کے بجائے اس نے اپنی خواہش پوری کرنے کو اہم جانا ۔ اس لیے وہ اپنی مرجی کے شعبے میں داخل ہوسکا۔
ہمارے ایک نفسیات دان دوست کرامت علی مرحوم کہا کرتے تھے اگر آپ زندگی کی ڈگر بدلنے پر غور کررہے ہیں تو کاغذ قلم اٹھائیں اور نئی ڈگر کے مختصر مدت اور طویل مدت کے فائدے اور نقصانات نوٹ کرلیں ۔ پھر ان دونوں کا مقابلہ کریں ۔ خاص طور پر یہ دیکھیں کہ نئی ڈگر اختیار کرنے میں جو منفی نکات ہیں کیا آپ ان کو قبول کرسکتے ہیں ۔ اگر آپ کا جواب ’’ ہاں ‘‘ میں ہے توپھر مزید وقت ضائع کرنا مناسب نہ ہوگا۔ فیصلہ کریں اور نئی راہ پر چل نکلیں ۔
تبدیلی کے لیے رضامند رہیں
بیس سال پہلے بل مورز اٹھائیس سالہ شرابی تھا ، جس نے ہائی سکول کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد پچاس نوکریاں کی تھیں ۔ مگر کسی جگہ بھی وہ ٹک کر کام نہ کرسکا تھا ۔ آخرکار اس کو شراب نوشی سے نجات دلانے کے ایک مرکز میں بھیج دیا گیا۔ اس مرکز کا قصہ بل مورز کی زبانی سنتے ہیں۔ ’’ میں وہاں موجود لوگوں کو بہت تنگ کیا کرتا تھا ۔ ایک بڑے میاں تو خاص طور پر میرے مذاق کا نشانہ بنتے تھے ۔ جب میری زیادتیاں حد سے بڑھ گئیں تو مرکز میں زیرعلاج ایک مریض نے مجھ سے کہا ’’ میں نے زندگی میں تم سے زیادہ بدکار شخص نہیں دیکھا ، تم اتنے برے ہو کہ ہر شخص تم سے نفرت کرتا ہے‘‘ ۔
یہ بات بل مورز کے دل کو جالگی ’’اچانک اسے احسا س ہوا‘‘ وہ کہتا ہے کہ ’’ میں اپنی زندگی کا ذمہ در ہوں اور میں نے خود کو کس قدر قابل نفرت بنالیا ہے ۔ یہ تو بہت بری بات ہے ۔ مجھے اپنی زندگی بدلنا ہوگی اورمیں اپنی زندگی بدل سکتا ہوں ۔ تب اسی لمحے میں نے شراب نوشی سے توبہ کرنے اور اپنے آپ کو بدلنے کا فیصلہ کرلیا‘‘۔
اس فیصلے کے بعد بل مورز کے دن بدلنے لگے ۔ اس نے شراب نوشی واقعی بند کردی ۔ اس نے ایک ملازمت حاصل کرلی اور خوب دل لگا کر کام کرنے لگا ۔ انیس سو نوے میں وہ اپنے علاقے کی ٹریڈ یونی کی سرگرمیوں میں گہری دلچسپی لینے لگا اور پھر وہ مختلف ٹریڈ یونینوں کی انجمن کا صدر بن گیا۔ ہزاروں مزدورا س سے پیار کرتے ہیں کیونکہ وہ کسی لالچ یا ذاتی فائدے کے بغیر مزدوروں کے حقوق کے لیے جدوجہد کرتا ہے ۔ اس کی بیوی اور دوبچے ہیں ۔ اس کی گھریلو زندگی مسرت انگیز ہے اور وہ خود کو خوش نصیب خیال کرتا ہے ۔
یہ سب کچھ اس لیے ممکن ہوا کہ بل مورز نے زندگی بدلنے کے موقع سے فائدہ اتھانے کا ارادہ کیا، اس کے لیے محنت کی اور آخرکار کامیاب رہا ۔ وہ کہا کرتا تھا ’’ زندگی میں دوسری راہ اختیار کرنا میرے لیے آسان نہ تھا ۔ یہ سب کے لیے ہی مشکل ہوا کرتا ہے مگر میں نے کامیاب ہونے کا تہیہ کرلیا تھا ، اس لیے میری راہ کی کوئی رکاوٹ میری پیش قدمی کو نہ روک سکی‘‘ ۔
ہماری طرح آپ بھی ایسے کئی لوگوں کو جانتے ہوں گے جو ہروقت زندگی کا رونا روتے رہتے ہیں ۔ کئی لوگ بیوی سے نالاں رہتے ہیں ، کئی دفتر اور ساتھیوں کی شکایتیں کرتے رہتے ہیں ۔ مگر اس قسم کے لوگ زندگی میں مثبت تبدیلی لانے کے لیے عملی طور پر کچھ نہیں کرتے ۔ شاید ان کو تبدیلی میں یقین ہی نہیں ہوتا۔ زندگی میں دوسرا چانس صرف وہی شخص لے سکتا ہے جو تبدیلی میں یقین رکھتا ہے اور جس میں خوداعتمادی بھی ہے ۔
نہ ‘‘ کو قبول نہ کریں
میری ایک جاننے والی خاتون کو اپنی اس خامی پر بہت شرم آتی تھی کہ وہ پڑھی لکھی نہیں ۔ دراصل بچپن میں اس گھریلو ماحول اور حالات ایسے تھے کہ والدین اس کو سکول بھیج سکے اور نہ ہی گھر پر اس کو تعلیم دلا سکے ۔ ویسے وہ ایک سگھڑ خاتون ہے ۔ بہرحال شادی کے بعد اس کے ہاں پہلی بچی ہوئی تو اس کو اپنے ان پڑھ ہونے کا احساس اور بڑھ گیا ۔ وہ سوچتی کہ جب بچی بڑی ہوگی اور کہانیاں سننے یا کتاب پڑھنے کی فرمائش کرے گی تو پھر کیا بنے گا ۔ وہ اپنی بچی کی خواہش کیسے پوری کرے گی ۔ خیر ، انہی دنوں اس خاتون نے گھر کے قریب ہی تعلیم بالغان کا ایک مرکز بننے کی اطلاع سنی ۔
’’پہلے پہل مجھے اس مرکز تک جانا بھی دشوار لگتا تھا ۔ آخر میں ان لوگوں میں کیسے کہوں گی کہ میں پڑھنے کے لیے آئی ہوں ۔ کیا وہ مجھے دیکھ کر مذاق نہیں اڑائیں گے ؟‘‘ وہ خاتون کہتی ہے ’’ مگر میں نے اس قسم کے منفی احساسات پر قابو پالیا ۔ میں نے تہیہ کرلیا کہ میں ان پڑھ نہیں رہوں گی ۔ پڑھنا لکھنا سیکھوں گی تاکہ اخبارات ، رسالوں اور کتاب کی سحرانگیز دنیا میں دوسرے لوگوں کی طرح داخل ہوسکوں ۔ چنانچہ ایک روز میں تعلیم بالغاں کے مرکز جاپہنچی ۔ وہاں ایک نوجوان اور تعلیم یافتہ لڑکی نے میرا استقبال کیا ۔ جب میں نے اپنا مسئلہ بیان کیا تو میرے خدشے کے مطابق اس نے میرا مذاق اڑانے کے بجائے وہ بہت متاثر ہوئی ۔ اس نے ہرطرح سے میری مدد کرنے کا یقین دلایا ۔ چنانچہ میں روز وقت مقررہ پر اس مرکز میں جانے لگی ۔ چھ ماہ کی مدت میں ہی میری کایا پلٹ گئی‘‘ ۔ میں صاف طور پر پڑھنے کے قابل ہوگئی اور تھوڑ ا بہت لکھنا بھی شروع کردیا۔
وہ خاتون مزید لکھتی ہیں ’’ میرے لیے چیزیں اب کیسی بدل گئی ہیں ؟ اگر میں زندگی کے اس دوسرے موقع سے فائدہ نہ اٹھاتی تو میری زندگی محدود ہی رہتی۔ میں چاردیواری سے باہر کی دنیا سے بے خبر رہتی ۔ اب میں بچوں کی کہانیاں پڑھ کر سناتی ہوں ، خود بھی کتابیں پڑھتی ہوں اور کوریئر سے کوئی خط یا پارسل دیکھ کر سہم نہیں جاتی ‘‘۔
کئی سال پہلے میں نے ایک پوسٹر دیکھاتھا ’’ شگاف پارکرنے کی خاطر چھلانگ لگانا پڑتی ہے ، آپ اس کے اندر قدم رکھ کر نہیں گزرسکتے‘‘ ۔
واقعی یہ کتنی سچی بات ہے !زندگی میں کبھی نہ کبھی ہمیں چھلانگ لگانا ہی پڑتی ہے ۔ قدم قدم چلتے رہنے سے زندگی سوکھی ،میکانکی اور بے لطف ہوجاتی ہے ۔ ایسے میں جو ہمت والے ہیں ، جن کی کوئی کومٹ منٹ ہوتی ہے ، وہ حالات کے ساتھ بہنے سے آخرکار انکار کردیتے ہیں ۔ وہ چھلانگ لگاتے ہیں اور ایک نئی زندگی حاصل کرلیتے ہیں ۔ کیریئر تبدیل کرنے کے موضوع پر روشیل جونز نے ’’ دی بگ سوئچ‘‘ کے عنوان سے کتاب لکھی ہے وہ کہتی ہیں ’’ صرف خواب نہ دیکھتے رہیں ، وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا ۔ آپ جو کچھ کرناچاہتے ہیں اس کا جائزہ لیں پھر ارادہ باندھیں اور چھلانگ لگادیں‘‘ ۔
زندگی کے رنگ ان گنت ہیں ۔ صرف ایک رنگ سے ، ایک انداز سے نہ چمٹے رہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو جو صلاحیتیں دی ہیں ، انہیں اچھی طرح استعمال کریں ۔