زندگی کا سفر
میڈرڈ کا جولیو فٹ بال کا پیشہ ور کھلاڑی تھا ،کار کے ایک حادثے نے اس کا کیرئیر ختم کردیا۔ لگ بھگ ڈیڑھ برس تک وہ معذور رہا ۔ جولیو جب ہسپتال میں تھا تو وہاں اس کی ملاقات ایک ہمدرد نرس سے ہوئی ۔ نرس نے وقت گزارنے کے لیے اس کو ایک گٹار لادیا ۔ حادثے سے پہلے جولیو کو موسیقی سے کبھی دلچسپی نہ رہی تھی مگر اب اس نے پوری توجہ موسیقی پر دی ، جلد ہی پاپ میوزک میں اس نے نمایاں مقام حاصل کرلیا ۔
جولیو کے حادثے نے اس کی زندگی کا رخ بدل دیا ۔ اس کی دنیا ہی بدل گئی ۔ زندگی میں اس قسم کے موڑ عموما بیماری یا حادثے کی وجہ سے آتا ہے ۔
کبھی کبھی کوئی واقعہ یا کسی اجنبی سے ملاقات ہماری زندگی بدل دیتی ہے ۔ ہم پہلے جیسے نہیں رہتے ۔
امریکی ماہرین کے ایک گروپ نے ساڑھے چھ سو افراد کے انٹرویوز اور تفصیلی مطالعے کیبعد زندگی کے ناقابل پشین گوئی لمحوں کا مقابلہ کرنے اور ان کو ترقی کے مواقع کی صورت دینے کے لیے چار طریقے وضع کیے ۔
: اپنی ذمہ داری قبول کیجئے
صدیوں سے کہاوت مشہور ہے کہ وقت ایسا مرہم ہے جو سارے زخم ٹھیک کر دیتا ہے ۔ پرانی باتوں کا احترام اپنی جگہ ، مگر جب ہم ایما کی بدنصیبی کا قصہ سنئے ۔ شادی کے چوبیس سال بعد شوہر نے اس کو طلاق دے دی تھی ۔ وہ ایک عام سی گھریلو عورت تھی ۔ زیادہ تعلیم یافتہ تھی اور نہ ہی کوئی ہنر اس کے پاس تھا ۔ اس میں تو خوداعتمادی بھی نہ تھی جس کے بل بوتے پر وہ اپنا بوجھ اٹھا لیتی ۔ لگتا تھا کہ ایما خودرحمی کے اندھیروں میں ڈوب جائے گی ۔ اس کی زندگی ضائع ہو جائے گی ۔
ایما نے ایسانہیں کیا ۔ اس نے چیلنج قبول کرلیا ۔ اب وہ کہا کرتی ہے کہ ـ’’ میں نے اپنا دکھ پیچھے چھوڑنے اور اپنی زندگی کو کامیاب بنانے کا ارادہ کر لیا تھا ۔ چنانچہ میں نے جائیداد کی خریدوفروخت کا کام سیکھا ، لائسنس حاصل کیا اور آخرکار اپنا دفتر کھول لیا ۔ جلد ہی میرا شمار شہر کے سب سے کامیاب بروکرز میں ہونے لگا۔
مشکل فیصلے کیجئے
اس بات کی سچائی پر کبھی شبہ نہ کیجئے کہ آگے بڑھنے کی راہ ان فیصلوں سے بنتی ہے جو ہم زندگی میں کرتے ہیں ۔ چھوٹے موٹے اور آسان فیصلے سب ہی کرتے ہیں ۔ یہ کام بہت آسان ہوتاہے لیکن ان کے نتائج عام طور پر بہت معمولی ہوا کرتے ہیں ۔ جب کوئی مشکل پیش آتی ہے ، پیچیدگی پیدا ہوتی ہے یا چھلانگ لگا کر آگے بڑھنے کا مقام آتا ہے تو اکثر لوگ منہ موڑ لینے میں عافیت محسوس کرتے ہیں ۔ ہاں ۔۔۔ ان کو عافیت مل جاتی ہے ۔ ان کی مشکل ٹل جاتی ہے مگر یہ بھی تع دیکھئے کہ اس کی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے ۔ وہ قیمت یہ ہے کہ ان کی نشوونما رک جاتی ہے ۔ آگے بڑھنے کی راہ مسدود ہوجاتی ہے ۔ یاد رکھیں کہ آگے بڑھنے کے لیے ہمیں مشکل فیصلے کرنے پڑتے ہیں ۔ان سے گریز ممکن نہیں ہے ۔
ڈیوڈ ہارٹ مین کا قصہ آپ نے شاید سن رکھا ہو۔ یہ صاحب امریکا کے ایک ٹیلی ویژن نیٹ ورک کے مقبول ترین پروگرام ’’ گڈ مارننگ امریکا ‘‘ پیش کیا کرتے تھے ۔ انہوں نے اکنامکس کے ساتھ گریجویشن کی ۔ کالج کے زمانیمیں ہارٹ مین ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر جزوقتی اناؤنسر رہے تھے ۔ تعلیم سے فارغ ہونے پر عملی زندگی کے آغاز کا مرحلہ آیا تو انہوں نے ایک مشکل فیصلہ کیا ۔ وہ یہ تھا کہ انہوں نے برسوں کی تعلیم و تربیت کو خیرباد کہا ، مالی تحفظ سے کی کشش سے دستبردار ہوئے اور ٹیلی ویژن سے منسلک ہو گئے جو ان ایام میں بہت ہی غیر یقینی شعبہ سمجھا جاتا تھا مگر اس فیصلے نے ان کو ڈیوڈ ہارٹ مین بنا دیا ، جس کی شہرت دور دور تک پھیلی ۔
رسک لینے میں عموما فائدہ ہی ہوتا ہے ۔ ہالی وڈ کی ایک نائٹ کلب میں ٹیلنٹ شو پیش کرنے پر میری مارٹن کو بے پناہ شہرت حاصل ہوئی ۔ اس شو میںمیری مارٹن نے ایک گیت گایا تھا ۔ وہ روایتی انداز میں گانا شروع کرتی مگر چند لمحوں بعد اپنی ترنگ میں بہنے لگتی ۔ لوگوں نیاس منفرد انداز کو بہت سراہا ۔ گیت ختم ہواتو حاضرین نے کھڑے ہو کر تالیاں بجائیں ۔ ظاہر ہے کہ میری مارٹن رسک نہ لیتی ، روایتی انداز میں گائے چلے جاتی تو اس کا کیرئیر بھی روایتی انداز میں ختم ہوجاتا۔
لی لاکوکا نے اپنی سوانح حیات میں ایک پتے کی بات یہ لکھی ہے کہ ہماری قوت فیصلہ ، یعنی فیصلہ کرنے اور پھر اس عمل کرنیکی ہماری اہلیت ہی ہمیں اچھا منتظم بناتی ہے مگر یہ صرف منتظمین کامعاملہ نہیں جو کوئی آگے بڑھنا چاہتا ہے اس کو مشکل فیصلے کرنے پڑتے ہیں اوران پر عمل بھی کرنا پڑتا ہے ۔
: اچھے تعلقات
تعلقات زندگی کا جال ہیں ، وہ ہماری سوچ اور رویوں پر اثرانداز ہوتے ہیں ۔ ہمارے احساسات اور کردار کو متاثر کرتے ہیں ۔ وہ زندگی کی راہیں موڑ دیتے ہیں ۔ اکثر کامیاب لوگ اعتراف کرتے ہیں کہ ان کو ایسے دوست اور تجربہ کار احباب نصیب ہوئے جنہوں نے کیرئیر کے ابتدائی برسوں میں ان کی رہنمائی کی اور آگے بڑھنے میں مددکی ۔
کبھی کبھی کوئی معمولی واقف کار یا اجنبی شخص ہماری زندگی پر گہرا اثر چھوڑ جاتا ہے ۔ بیس بال کا عظیم کھلاڑی کیم پینیلا اپنے کیرئیر کے سنہری دنوں میں ایک حادثے کے باعث مفلوج ہو گیاتھا ۔ اس واقعے کے تقریبا ایک سال بعد وہ ایک پارک میں اپنی وہیل چیئر پربیٹھا تھا کہ ایک بوڑھی عورت اس کو دیکھ کر قریب چلی آئی ۔ وہ بیساکھیوں کے سہارے چلتی تھی ۔
اس عورت نے قریب آکر اس معذور کھلاڑی کا ہاتھ پکڑ لیا اور کہنے لگی کہ کیم نے اسے زندہ رہنے کا حوصلہ دیا تھا ۔ دراصل وہ بوڑھی عورت نیویارک کیاسی ہسپتال میں زیر علاج رہی تھی جس میں کیم کا علاج ہوا تھا ۔ فالج سے اس کے جسم کا ایک رخ بیکار ہوگیا تھا ۔ وہ زندگی سے مکمل طور پر مایوس ہوچکی تھی لیکن ڈاکٹروں نے اس کو کیم کی حوصلہ مندی کے قصے سنائے ۔ یہ باتیں سن کر خاتون میں ایک نیا ولولہ پیدا ہوا اور اس نے زندہ رہنے کے لیے جدوجہد شروع کردی ۔ اب وہ ایک ہزار میل کا فاصلہ طے کرکے کیم کا ذاتی طور پر شکریہ ادا کرنے آئی تھی ۔ یوں اس نے کیم سے جینے کا حوصلہ پایا تھا اور اس کا کچھ حصہ اسی کو لوٹا گئی ۔
: اپنی قدروقیمت کا اقرار کیجئے
زندگی کے مصائب اکثر لوگوں کی عزت نفس پر منفی اثر ڈالتے ہیں ۔ وہ خود کو بے وقعت اور بے قدر خیال کرنے لگتے ہیں ۔ اس طرح زندگی کے طوفانوں کامقابلہ کرنا ان کے لیے اور بھی دشوار ہو جاتا ہے ۔ یہ ایک عام مشاہدے کی بات ہے کہ اپنی عزت نفس اور خود اعتمادی کو بحال رکھنے والے لوگ مصیبت کے وقت ، دوسروں کے مقابلے میں ، حالات کے آگے ڈٹ جاتے ہیں ۔ وہ بہتر مقابلہ کرنے والے ہوتے ہیں اور ان کے پاس نجات کی راہیں بھی زیادہ ہوتی ہیں ۔
پال کی مثال ہی دیکھ لیںوہ ایک اخبار میں رپورٹر ہے ۔ چھ سال کی عمر میں وہ اپنا ملک چھوڑ کر امریکا چلا آیا تھا ۔ وہ انگریزی زبان نہیں بول سکتا تھا ۔ اس لیے سکول کے ابتدائی دن پال کے لیے بہت تکلیف دہ تھے ۔ کلا س فیلو اس کا مذاق اڑاتے اور ہر طرح سے اس کو تنگ کرتے تھے ۔ پال بتاتا ہیکہ ان حالات میں اس میں ’’ مہاجر ذہنیت ‘‘ پیدا ہو گئی جس کا اظہار اس قسم کے مخصوص احسات سے ہونے لگا کہ ’’ آرام سے رہو‘‘ ’’ خدا کا شکر کرو کہ تم یہاں ہو‘‘ اور یہ کہ ’’ یہ تمہاری باری نہیں ہے ۔‘‘
انیس سو سڑسٹھ میں پالکو ایک سمر کیمپ میں ملازمت مل گئی ۔ یہ نوکری اس کی زندگی میں نیا موڑ لے آئی ۔ ’’ کیمپ میں سب سے باوقار کام واٹر فرنٹ ڈائریکٹر کا تھا ۔ میں اس کام کی اہلیت رکھتا تھا ۔ چنانچہ مجے اس کی پیشکش کی گئی ۔ ‘‘ پال اپنی کہانی سناتے ہوئے کہتا ہے ’’ حسب معمول میرے اندر سے آواز آئی کہ ’’ تم جیتنے والے نہیں ہو ۔ یہ کام تمہارے بس کا روگ نہیں ہے لیکن غیر متوقع طور پر میں نے اندر کی اس آواز کا مقابلہ کیا اور اس پر قابو پالیا ۔ میں نے تہیہ کرلیا کہ میری باری آگئی ہے ۔ میں مقابلہ کروں گا اور جیتوں گا۔‘‘
پال کو معلوم نہیں کہ بصیرت کی یہ کرن کہاں سے آئی تھی لیکن اس ایک لمحہنے اس کی زندگی سراسر بدل دی ۔ اس کی زنجیریں ٹوٹ گئیں ۔ وہ آزاد ہوگیا ۔ اپنے آپ پر اس کو اختیار حاصل ہوگیا ۔
اچھے خیالات خلاؤں سے ہماری زندگی میں داخل نہیںہوتے ۔ وہ اس وقت پیدا ہوتے ہیں جب ہم اپنے حالات کا سامنا کرنے کا عزم کرتے ہیں ۔ پیچھے بھاگنیکے بجائے آگے کی طرف دیکھتے ہیں اور ڈٹ جانے کا عزم کرتے ہیں ۔
تین محققین نے سٹیٹ لاٹری میں پچاس ہزار ڈالر یا اس سے زیادہ رقم جیتنے والے بائیس افراد کا مطالعہ کیا ۔ ان میں سے سات افراد نے دس دس لاکھ ڈالر جیتے تھے ۔ تحقیق کرنے والوں نے ان سے پوچھا کہ زندگی کے اس مرحلے پر وہ کس قدر خوش ہیں اور آئندہ دو برسوں میں ان کو کس قدر خوشیوں کی امید ہے ۔ ان سے یہ بھی پوچھا گیا کہ وہ ان سات چیزوں سے کس قدر لطف اندوز ہوتے ہیں ۔ دوستوں سے بات کرنا ، ٹیلی ویژن دیکھنا ، ناشتہ کرنا ، لطیفہ سننا ، کوئی شکایت سننا ، کوئی رسالہ پڑھنا اور نئے کپڑے خریدنا شامل تھا ۔ تحقیق کاروں نے یہی سوال ان لاٹری جیتنے والوں کے ہمسایوں سے بھی پوچھے۔
پتہ ہے نتیجہ کیا نکلا ؟ تحقیق کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ دس ، دس لاکھ ڈالر کی لاٹری جیتنے والے کسی طور بھی اپنے ہمسایوں سے زیادہ خوش نہ تھے۔ مستقبل میں بھی ان کو کسی خاص خوشی کی توقع نہ تھی ۔
ایک اور بات بھی سامنے آئی ۔ لاٹری کی بڑی بڑی رقمیں جیت کردوسروں کی نظر میں خوش نصیب قرار پانے والے یہ لوگ مذکورہ بالا سات قسم کے اعمال سے اپنے ہمسایوں کے مقابلے میں کم لطف اندوز ہوتے تھے ۔ جیت کی صورت میں ان لوگوں کو مسرت کا بڑا لمحہ تو مل گیا تھا لیکن لگتا ہے کہ جیت کی بڑی خوشی ملنے سے روزمرہ زندگی کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں سے لطف اٹھانے کی ان کی صلاحیت کم ہوگئی تھی ۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ لاٹری جیت کر ان لوگوں کو اپنی زندگی بدلنے کو جو موقع ملاتھا وہ اس کو آگے بڑھانے کا وسیلہ نہ بنا سکے تھے ۔
سبق اس قصے میں یہ ہے کہ کامیابی کے لیے کوئی لاٹری جیتنا ضروری نہیں ۔ضروری بات البتہ یہ ہے کہ کب کبھی زندگی کا رخ بدلنے والا لمحہ آئیتو اس کو ضائع نہ کیا جائے ۔ اس سے بھرپور فائدہ اٹھایا جائے ۔