ڈاکٹر سے مشورے کے طریقے

 

ٹی وی سیٹ کی مرمت کے لیے مستری کو بلایا جائے تو اس سے بہت سے سوالات پوچھے جاتے ہیں ۔ سیٹ میں خرابی کس طرح پیدا ہوئی، کون کون سے پرزے بدلنے ہوں گے ، کیا پرانے پرزے کام نہیں دے سکتے ، مرمت میں کتنا وقت لگے گا، معاوضہ کس قدر ہوگا، یہ خرابی دوبارہ تو پیدا نہیں ہوگی ؟

جب جسم میں خرابی پیدا ہوتی ہے اور اس کو ڈاکٹر کی ضرورت ہوتی ہے تو اکثر لوگ اس قسم کے سوال پوچھنے سے گریز کرتے ہیں ۔ وہ صرف ڈاکٹر کے سوالوں کا جواب دیتے ہیں اور وہ بھی مختصر الفاظ میں ۔ ہمارے ہاں تو اکثر ڈاکٹر سوال بھی کم ہی پوچھتے ہیں ۔ وہ سمجھتے ہیں کہ سوالات پوچھنے سے مریض کے دل میں ان کے علم اور مہارت کے بارے میں شبہات پیدا ہوجائیں گے ۔ دوسری طرف مریض بھی خاموش رہنا ہی مناسب سمجھتا ہے ، چاہے اس کی زندگی خطرے میں ہو۔

اندرون شہر رہنے والی جواں سال خاتون شمیم کا قصہ ہی سن لیں ۔ اس کے سینے میں گلٹی نمودار ہوئی ۔ جس کے علاج کے لیے کئی بار شہر کے ایک مشہور ڈاکٹر کے پاس گئی ۔ جب بھی ڈاکٹر کے پاس جاتی ، پوری بات نہ کہہ پاتی ۔ ڈاکٹر بھی ہربار اس کو کہتا ، کوئی خاص بات نہیں ٹھیک ہوجائے گی ۔ نوماہ کے بعد آخر تکلیف بہت بڑھ گئی ۔ شمیم کو ہسپتال لے جایا گیا تو معلوم ہوا کہ وہ چھاتی کے کینسر میں مبتلا ہے اور مرض آخری سٹیج پر ہے ۔ شمیم اب اس دنیا میں نہیں ہے ۔اس کی جان بچ سکتی تھی ۔ جب ابتدا میں وہ ڈاکٹر کے پاس جاتی تھی تو اس کامرض قابل علاج تھا۔
ڈاکٹر سے کھل کر بات نہ کرنے کا مرض عام ہے اور عجیب بات یہ ہے کہ یہ مرض دنیا کے ہر حصے میں پایا جاتا ہے ۔ ترقی یافتہ ملکوں میں اب لوگوں کو اس مرض سے نجات دلانے کی تربیت دی جاتی ہے ۔ بہت سے سمجھدار ڈاکٹر اس سلسلے میں خود اپنے مریضوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں ۔ روزنامہ ’’نیویارک ٹائمز ‘‘ میں ایک ماہر جین ای بروڈی نے اس مرض کی علامتیں بتائی ہیں ۔ ان علامتوں میں تین قسم کے خوف اور خدشے قابل ذکر ہیں جو مریضوں کو ڈاکٹر کے سامنے زبان بندرکھنے پر مجبور کرتے ہیں ۔

 

اگر میں نے ڈاکٹر سے پوچھ لیا کہ وہ ایڈیما یا اس جیسی طبی اصطلاحیں بیان کررہا ہے تو ان کا مطلب کیا ہے ، تو میرے اس سوال سے وہ مجھے جاہل اور بے وقوف سمجھنے لگے گا۔
اگر میں نے ڈاکٹر سے پوچھا کہ اس نے میرے مرض کی تشخیص کیسے کی ہے تو وہ ناراض ہوجائے گا ۔ وہ سمجھے گا کہ میں اس کی مرض جاننے کی اہلیت کو چیلنج کرہاہوں ۔
اگر میں نے ڈاکٹر کو بتایاکہ اس کی تجویز کردہ دوائیوں میں سے کوئی ایک مجھے راس نہیں آتی یا یہ کہ اس سے سائیڈ افیکٹ پیدا ہوتے ہیں ، و ڈاکٹر کو یہ بات اچھی نہ لگے گی ۔ وہ سوچے گا کہ میں کبھی مطمئن نہیں ہوتا۔

یہ تینوں اور اس قسم کے دوسرے خدشے قطعی طورپر بے بنیاد ہیں ۔ یا ان کو بے بنیاد ہونا چاہیے ۔ اگر ایسا نہیں اور آپ کی طرف سے کوئی سوال اٹھائے جانے پر آپ کا ڈاکٹر واقعی ناراض ہوجاتا ہے ، یاسوال کو اپنی قابلیت اور مہارت کے لیے چیلنج سمجھتا ہے تو اس ڈاکٹر میں ضرور کوئی خرابی ہے ۔ آئندہ اس کے پاس جانے سے پہلے تھوڑا سا سوچ لیں ۔
خیر ، ڈاکٹروں سے مرعوب ہونے کے اسباب موجود ہیں ۔بیماریوں اور ان کے علاج یا ان کی تشخیص کے بارے میں ڈاکٹروں کاعلم بلاشبہ ہم سے زیادہ ہوتا ہے ۔ہم اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں ، اسی لیے ضرورت کے وقت ڈاکٹر سے رجوع کیا جاتا ہے ۔پھر یہ بھی ہے کہ وقت عموماً کم ہوتا ہے ۔ کلینک کے ویٹنگ روم میں اور بھی بہت سے مریض موجود ہوتے ہیں ۔ ان میں سے بعض کو ڈاکٹر کی فوری توجہ درکار ہوتی ہے ۔ ہم ڈاکٹر کے سامنے زیادہ دیر تک بیٹھ کر ان لوگوں کو انتظار کی مزید اذیت نہیں دینا چاہتے ۔ ایک اور بات یہ ہے کہ ڈاکٹر کے پاس عموماً اس وقت جاتے ہیں جب اس سے رابطہ کرنا بہت ضروری ہوجاتا ہے ۔ اس وقت ہم بیمار ، لاغر اور خوفزدہ ہوتے ہیں ۔ ڈاکٹر کو مسیحا جانتے ہوئے ہم اس توقع کے ساتھ جاتے ہیں کہ وہ ہمیں دوائی دے گا اور ہم اچھے بھلے ہوجائیں گے ۔

ڈاکٹر کے سامنے زبان نہ کھولنے کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں یہ احساس پایا جاتا ہے کہ تجربہ کار اور ماہر ڈاکٹر وہ ہوتا ہے جو مریض وک دیکھتے ہی اس کا مرض سمجھ جاتا ہے ۔ لہذا اس کو کچھ بتانے کی ضرورت نہیں ہے ۔ یہ احساس لوگوں میں غالباً نیم حکیم قسم کے چکر بازوں نے اپنا بھرم رکھنے کے لیے پیدا کررکھا ہے ۔ ہمارے اطاعت پر زور دینے والے کلچر نے اس احساس میں مزید اضافہ کردیا ہے ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ڈاکٹر عالم فاضل ہے ۔ وہ اتھارٹی ہے ، لہذا اس کے سامنے زبان کھولنا ، اس کے کسی فیصلے سے تکرار کرنا بدتمیزی ہے اور بدتمیزی سے بچنا چاہیے۔

وقت آگیا ہے کہ یہ بوسیدہ اور مضر رویئے ترک کردیئے جائیں ۔ ڈاکٹروں کو ڈاکٹر ہی رہنا چاہیے ۔ مریضوں کو بھی رویہ بدلنا چاہیے۔ انہیں جاننا چاہیے کہ وہ ڈاکٹر کے پاس اپنے مرض کے علاج کے لیے جاتے ہیں ۔ لہذااگر وہ ڈاکٹر کو اپنے مرض کی تفصیل صاف صاف نہ بتائیں گے ، یااس کی کسی بات سے اختلاف کرنے سے ڈرتے رہیں گے تو اس کا نقصان ان کو خود ہوگا۔ یہ نقصان بسااوقات بہت شدید قسم کا ہوسکتا ہے ۔ مریض اپنی زندگی سے ہاتھ دھو سکتا ہے ۔ لہذا ڈاکٹر کی پوجا نہ کریں ۔ اس سے دور خوف زدہ ہونے کے بجائے اپنا ہمدرد سمجھیں ۔ بلاشبہ ہم اسی ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں جس پر ہم کو اعتماد ہوتا ہے کہ ’’ اس کے ہاتھ میں شفا ہے ۔ ‘‘ مگران باتوں کے باوجود ڈاکٹر کو معالج ہی سمجھنا چاہیے کہ وہ ہوتا ہی معالج ہے ۔ مریض تنقیدی رویہ اختیار کرکے اصل میں ڈاکٹر کی مدد کرتا ہے اور خود بھی غیر ضروری پریشانیوں سے بچ جاتا ہے ۔

اس ساری گفتگو کا حاصل یہ ہے کہ ہمیں سیکھنا چاہیے کہ ڈاکٹر کو کیا کچھ بتایا جائے اور کیسے بتایا جائے ۔ یہ سیکھ کر ہم طبی امداد کا معیار بہتر بناسکتے ہیں ۔ ڈاکٹر جان وربی اور جین وابی نے اپنی کتاب ’’ ڈاکٹروں سے کیسے بات کی جائے ۔ میں اس مسئلے پر بہت سے مفید مشورے دیئے ہیں ۔ ہم بھی ان سے فائدہ اٹھاتے ہیں ۔
اپنا ٹمپریچر لیں ۔

مرض کی علامتیں جس ترتیب سے ظاہر ہوئی یں ، اسی ترتیب سے ان کو نوٹ کیا جائے ۔
یہ جان لیں کہ آپ کون سی ادویات پہلے ہی استعمال کررہے ہیں ، ان کی ترتیب اور مقدار کیا ہے ۔
یہ فیصلہ کرلیں کہ آپ ڈاکٹر کے پاس جانا ضروری سمجھتے ہیں ، اس سے فون پر مشورہ لینا چاہتے ہیں یا مکمل جسمانی معائنہ کرانا چاہتے ہیں ۔
ان اقدامات کے بعد جب آپ ڈاکٹر سے ملنے جائیں تو مندرجہ ذیل امور کا خیال رکھیں ۔
ڈاکٹر کو اپنی اور اپنے خاندان کی میڈیکل ہسٹری کی تفصیلات سے آگاہ کریں ۔ ان بیماریوں کا ذکر بھی کریں جن کو آپ شرمناک سمجھتے ہیں ۔ زیراستعمال رہنے والی دواؤں اور منشیات وغیرہ ( اگرآپ ان کو استعمال کرتے ہیں )کی تفصیل بھی ڈاکٹر کو بتائیں ۔
ڈاکٹر سے حقائق مت چھپائیں ۔ رات کو نیند نہیں آتی ، کمر میں درد ہوتی ہے یا یہ کہ آپ کی ازدواجی زندگی خوشگوار نہیں رہی تو یہ اور اس قسم کی دوسری باتیں ڈاکٹر کو ضرور بتائیں ۔ اپنی جذباتی اور نفسیاتی کیفیات سے ڈاکٹر کو ضرور آگاہ کریں ۔ اس کی وجہ بہت سے سیدھی سادھی ہے ۔ اور وہ یہ ہے کہ دنیا کے تمام بڑے ڈاکٹر اور مختلف امراض کے ماہرین اب اس حقیقت کوتسلیم کرتے ہیں کہ آدھی سے زیادہ جسمانی بیماریاں جذباتی گڑبڑ سے پیداہوتی ہیں ۔

ڈاکٹر آپ کے مرض کی جو تشخیص کرے ، اس کو اچھی طرح سمجھ لیں ۔ اگر وہ ایسے طبی الفاظ استعمال کرتا ہے تو ڈاکٹر سے ان کی عام زبان میں وضاحت کرنے کو کہیں ۔ اس سے آپ خود کو جاہل ثابت نہیں کریں گے ۔ دنیا کے تمام علوم کی اپنی اپنی اصطلاحیں ہوتی ہیں ۔ طب کے بھی اپنے خاص الفاظ ہیں جو اس کا باقاعدہ مطالعہ کرنے سے ہی سمجھ میں آتے ہیں ۔ جو ڈاکٹر نہیں ہے ، وہ ان کو نہیں سمجھ سکتا ۔ لہذا اس کا مطلب پوچھنے میں قطعی کوئی حرج نہیں ہے ۔ سیانے ڈاکٹر تو خود ہی مریضوں کے ساتھ باتوں میں ایسے الفاظ استعمال نہیں کرتے ۔ بہرطور آپ کا ڈاکٹر ایسے الفاظ استعمال کرتا ہے تو آپ اس سے مطلب سمجھنے کا پورا حق رکھتے ہیں ۔ مرض کی نوعیت سمجھنے کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر کی ہدایات اور دوسرے مشورے بھی اچھی طرح سے سمجھ لیں اور جب تک آپ کی تسلی نہ ہو، ڈاکٹر کے کمرے سے باہر مت آئیں ۔ اس سے زیادہ مناسب بات یہ ہے کہ ڈاکٹر کے مشورے اور ہدایات نوٹ کرلیں ۔

ڈاکٹر کوئی دوا تجویز کرے تو اس کے سائیڈ افیکٹس کے بارے میں اس سے پوچھ لیں اور یہ بھی جان لیں کہ اس قسم کے اثرات ہونے پر آپ کو کون سی احتیاطی تدابیر کرنی ہوں گی ۔ بہت سے مریضوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ ڈاکٹر کو بتائے بغیر ، اوراس کی اجازت کے بغیر اس کی تجویزکردہ دواؤں میں سے بعض کا استعمال ترک کردیتے ہیں یاان ادویات کے علاوہ اپنے طور پر کوئی اور دوا بھی استعمال کرنے لگتے ہیں ۔ یہ رویہ غلط اور نقصان دہ ہے ۔ اس کو ترک کردیں ۔

کسی دوا کا کوئی سائیڈ افیکٹ ہو اور ڈاکٹر نے اس کے بارے میں آپ کو پہلے سے مطلع نہ کیا ہو تو ڈاکٹر کو اس کی اطلاع دیں ۔
تین بار ڈاکٹر کے پاس جانے کے باوجود وہ آپ کے مرض کی واضح تشخیص نہ کرسکے یا اگر وہ کسی شدید نوعیت کے مرض یا مہلک مرض کی تشخیص کرے یا کہے کہ آپ کسی عجیب وغریب مرض میں مبتلا ہیں تو کسی اور ڈاکٹر سے ضرور مشورہ کریں ۔ اسی طرح اگر وہ سرجری تجویز کرے تواس کے علاوہ کسی اور ڈاکٹر سے بھی مل لیں ۔
ڈاکٹر آپریشن کرانے کو کہے تو اس سے پوچھیں تو کیا اس مرض کا کوئی دوسرا موثر علاج ہے ۔ یہ بھی پوچھ لیں کہ اگر آپ فوراً آپریشن نہیں کراتے تو اس کا نتیجہ کیا ہوگا۔ آپریشن کے فائدے اور رسک کے بارے میں بھی پوری معلومات حاصل کریں ۔ آپریشن سے پیدا ہونے والی الجھنوں اور موت کے خطرے کے بارے میں بھی اطلاعات حاصل کریں ۔ اس کے علاوہ کسی تجربہ کار سرجن سے بھی مشورہ کریں ۔ ممکن ہے کہ ایک ڈاکٹر آپریشن پر اصرار کرے جبکہ دوسرا ڈاکٹر دواؤں ، خوراک ، ورزش یا آرام وغیرہ کے ذریعے علاج کرنے کو ترجیح دے ۔
اس سلسلے میں یہ بات یادرکھیں کہ ترقی یافتہ ممالک میں جہاں امراض کی تشخیص اور علاج کی جدید ترین سہولتیں میسر ہیں اور جہاں عام طور پر ڈاکٹروں کی تربیت اور مہارت کا معیار بہتر ہوتا ہے ۔ وہاں بھی بہت سے آپریشن غیر ضروری طور پر کردیئے جاتے ہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسے مریضوں کے آپریشن کردیئے جاتے ہیں جن کو آپریشن کی مناسب طور پر ضرورت نہیں ہوتی اور ان کے امراض کا علاج دواؤں اور احتیاطی تدابیر کے ذریعے ممکن ہوتا ہے ۔ لہذا جب کبھی ڈاکٹر آپ کو آپریشن کا مشورہ دے تو ضرور کسی اور ماہر ڈاکٹر سے مشورہ کریں ۔
جب آپ علاج سے مطمئن نہ ہوں تو کسی ہچکچاہٹ کے بغیر یہ بات ڈاکٹر کو بتادیں ۔ علاج کے لیے ڈاکٹر پر اعتماد ضروری ہوتا ہے ۔ جب تک آپ کو اپنے ڈاکٹر پر اعتماد نہ ہوگا، آپ ذہنی طور پر مطمئن نہیں ہوں گے اور اس سے مرض سے افاقہ حاصل کرنے کا عمل بھی متاثر ہوگا۔ اگر آپ ڈاکٹر سے مطمئن نہیں ہیں تو بہترین طرزعمل یہ ہوگا کہ ڈاکٹر بدل لیا جائے ۔
ہمیں امید ہے کہ ڈاکٹر سے علاج کرانے کے لیے آپ مندرجہ بالا تجاویز پر غور کریں گے اور ان کو ذہن میں رکھیں گے لیکن ابھی ہم نے ایک اہم معاملے کا ذکر نہیں کیا ۔ وہ اہم مسئلہ یہ ہے کہ ڈاکٹر کا انتخاب کیسے کیا جائے ۔

پہلی بات یہ ہے کہ ابتدائی معالج کے طور پر کسی طبی شاخ کے ماہر کے بجائے ایم بی بی ایس ڈاکٹر کا انتخاب کریں ۔ بعض لوگوں اور ہمارے ہاں نئے نئے امیر بننے والوں یا بے یقینی کے شکار افراد کی عادت ہوتی ہے کہ کسی بیماری کے آثار نمایاں ہونے پر وہ بیک وقت مختلف ماہرین کے پاس جانا شروع کردیتے ہیں ۔ اس طرح ان کا علاج ٹکڑوں میں بٹ جاتا ہے اور اکثر صورتوں میں نقصان دہ ہی ثابت ہوتا ہے ۔ آپ کا باقاعدہ معالج کوئی فیملی پریکٹیشنر ہونا چاہیے ۔ جو آپ کے طبی امور پر نگاہ رکھے اور جب کسی ماہر کی خدمات درکار ہوں تو وہ آپ کو اس سلسلے میں آگاہ کرے ۔

دوسری بات یہ ہے کہ اپنے ڈاکٹر کا انتخاب صحت مندی کے دنوں میں کریں ۔ بیماری کے دنوں میں ہم عام طور پر نروس ہوتے ہیں یا پھر اچھے ڈاکٹر کے انتخاب کے لیے وقت یا توانائی نہیں ہوتی ۔ لہذا بہترین طریقہ یہ ہے کہ شدید ضرورت کا وقت آنے سے پہلے ہی اپنے لیے ڈاکٹر ، اچھی طرح دیکھ بھال کے بعد منتخب کرلیں ۔ اس سلسلے میں آپ اپنے ہمسایوں یا قریبی ہسپتال سے بھی معلومات حاصل کرسکتے ہیں ۔ ایسا ڈاکٹر منتخب کرنا بہتر ہوتا ہے جس کا تعلق کسی ہسپتال سے ہو۔ اگر وہ ہسپتال کسی میڈیکل کالج یا یونیورسٹی سے منسلک ہو تو یہ اور بھی اچھی بات ہے ۔
تیسری بات یہ ہے کہ ایسے ڈاکٹر وں سے دور رہیں جو ہمیشہ دواساز اداروں کی بنی بنائی دواؤں پر بھروسہ کرتے ہیں ۔ ان ڈاکٹروں سے بھی دور رہیں جو مریضوں کو مہنگے اور کئی کئی ٹیسٹوں کا مشورہ دینے کے عادی ہوتے ہیں ۔ اس طرح بے دریغ انٹی بائیوٹک دوائیں یا سکون بخش ادویات تجویز کرنے والے ڈاکٹر وں کو بھی ترجیح نہیں دینی چاہیے ۔

چوتھی اور اس سلسلے کی آخری بات یہ ہے کہ آپ کے ڈاکٹر کو آپ سے آپ کی خوراک ، ورزش ، تمباکو نوشی ، مشاغل ، ملازمت اور گھریلو ماحول کے بارے میں معلومات حاصل کرکے مناسب مشورے دینے چاہئیں ۔ اس ترقی یافتہ زمانے میں بھی لاعلاج امراض کی کمی نہیں ہے ۔ لہذا بیماری سے بچاؤ طبی علاج کا اہم ترین پہلو ہے اور ڈاکٹر کو اس سلسلے میں مددگار ہونا چاہیے ۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.