بیٹی !آئی ایم سوری

تین سال پرانی بات ہے ،تب میری بیٹی چھ برس کی تھی ۔ہم دونوں شاپنگ مال گئے ۔ جب میں کاؤنٹر پر ادائیگی کررہا تھا ، اس دوران وہ باہر جانے والے سلائیڈنگ دروازے کے پاس کھڑی ہوگئی ۔ اچانک اس کے چلانے کی آواز سن کر مڑا تو دیکھا کہ اس کا بازو دروازے میں پھنسا ہوا ہے ۔ میں بھاگتا ہوا اس کی طرف بڑھا اور سلائیڈنگ ڈور کو ہاتھوں سے کھولنے کی کوشش کی لیکن میں ناکام رہا ۔ وہاں موجود لوگ دورکھڑے تماشا دیکھتے رہے اور کوئی مدد کو آگے نہ بڑھا ۔ اس دوران بیٹی کا بازو مزید دروازے کے اندر چلا گیا اور زور زور سے رونے لگی ۔

 

ہماری چیخ وپکار سن کر شاپنگ مال کے عملے کا ایک شخص آیا اور اس نے دروازے کی سلائیڈچلانے والی موٹر بند کردی ۔ مجھے اس صورتحال میں خاصی شرمندگی محسوس ہورہی تھی ، اپنا غصہ میں نے بیٹی پر نکالنا شرو ع کردیا ، جس کا بازو سوج چکا تھا اور شدید تکلیف میں تھی ۔ میری ڈانٹ سن کر اس نے رونا بند کردیا اور سہم گئی ۔

آج اس واقعے کو تین برس ہوچکے ہیں اور اب وہ نوسال کی ہے ۔ مجھے ایک روز اچانک خیال آیا کہ میں نے اپنی بیٹی کی مدد کرنے کی بجائے اس سے جورویہ اپنایا وہ درست نہیں تھا ۔ یہ خیال آتے ہی میں نے فوری طور پر اسے پاکستان ٹیلی فون کیا اور اس سے معذرت کی ۔ میری بات سن کر وہ بہت خوش ہوئی اور بولی ’’ آئی لو یو پاپا ‘‘۔

میں نے بیٹی سے وعدہ کیا کہ اب ساری زندگی اس پر غصہ نہیں کروں گا ۔ آج مجھے کتنا اچھا لگ ہے میں بتا نہیں سکتا۔


محمد خالد ، دبئی

Leave A Reply

Your email address will not be published.