کامیابی کا خوف

ناکامی سے ڈرتے ہوئے لوگ تو آپ نے بہت دیکھے ہوں گے ،اور خود آپ کو بھی یقینا کبھی نہ کبھی ناکامی یا رد کیے جانے کے خوف کا سامنا رہا ہوگا لیکن کیایہ حیرت کی بات نہیں کہ ناکامی کے ساتھ ساتھ انسانوں کو’’ کامیابی کا خوف‘‘ بھی ہوتا ہے ۔ کامیابی کا خوف بظاہرشعوری طور پر اپنا احساس تو نہیں چھوڑتا مگر غیر شعوری طور پر کچھ ایسی سوچوں کو پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے جو آپ کی کامیابی کی راہ میں رکاوٹ ڈالتی ہیں۔اگرآپ ابھی بھی یہ سوچ رہے ہیںکہ بھلا کون ہے جو کامیابی کا مزہ نہ چکھنا چاہتا ہواور کامیابی کے احساس سے دوچار نہ ہونا چاہتا ہو ؟ تو اس کا سادہ ساجواب ہے ،وہ لوگ جو کامیابی سے ڈرتے ہیں ۔ ہاں ! یہ سچ ہے کہ بہت سے لوگ کامیابی سے ڈرتے ہیں ۔اس خوف کی بڑی وجہ یہ ہے کہ کامیابی ہر انسان کی زندگی میں تبدیلی لے کر آتی ہے اور تبدیلی ہمیشہ ڈرا دینے کی صلاحیت رکھتی ہے ۔

ہم اس کو ایک مثال کے ذریعے بھی سمجھ سکتے ہیں جیسے کہ اگر کوئی اپنا وزن کم کرنا چاہتا ہے مگر ہمت ، صلاحیت اور طاقت رکھنے کے باوجود ایسانہیںکرپاتا ۔ کیوں ۔۔۔؟ اگر ہم سوچیں تو سمجھ میں آتا ہے کہ وزن کم کرنے کے خیال کے ساتھ کئی’’اگر‘‘ جڑے ہوتے ہیں جیسے کہ اگر میں نے وزن کم کر لیا تو ہر کسی کی نظر میں آجاؤں گا ،اگر وزن کم کر لیا تو ہر کوئی مجھ سے اس بارے میں مشورہ لینے آجائے گا، مجھے نئے کپڑے خریدنے پڑیں گے ۔ میرے زیادہ وزن رکھنے والے دوست مجھ سے حسد کا شکار ہوجائیں گے ۔ اگر میں وزن کم کرلوں گا تو مجھے اپنے پسندیدہ کھانے ہمیشہ کے لیے چھوڑنے پڑیں گے ۔ اگر میں نے ایک دفعہ وزن کم کر لیا تو مجھے ہمیشہ کے لیے زندگی گزارنے کے ڈھنگ اپنانے پڑیں گے ۔

 

میرے دوست عبدالرحمان کی مثال بھی سن لیں جس کو دفتر نے پرو موشن دی تو اس کے ہاتھ پاؤں پھول گئے ۔ مجھے ملنے آیا تو چہرے سے پریشانی چھلک رہی تھی ۔ اس نے ترقی ملنے کا بتایا جس پر اسے مبارکباد دی تو اس نے براسا منہ بناکرکہا ۔ ’’یار !اچھابھلا ایک طرف بیٹھا نوکری کررہا تھا ، اب سیکشن انچارج بنادیا گیاہوں ،اپنا بھی خیال رکھنا پڑے گا اور دوسروں کا بھی ۔ مجھے ایسی ترقی نہیں چاہیے ۔‘‘ ایسے ہی کتنے ہی لوگ آپ کے اردگرد موجود ہوں گے ، جو ارادے باندھتے ہیں ، توڑ دیتے ہیں ، کتنے ہی کاروبار ان کے ذہن میں ہی کھل کر اس لیے بند ہوجاتے ہیں کہ آخر کیا کرنا ہے ڈھیر ساری دولت کما کر ، روکھی سوکھی گزر ہی تورہی ہے ۔ چھڈو جی ،کون اتنی محنت کرے اور لوگوں کی باتیں بھی سنے ۔دیکھا آپ نے !جب یہ خیالات ہمارے دماغ میں پل رہے ہوں تو ہم کامیابی کی راہ پر کیسے قدم رکھ سکتے ہیں ؟

اس تحقیق کا دلچسپ حصہ یہ ہے کہ ناکامی کی طرح کامیابی کا خوف بھی مردوں کی نسبت عورتوں میں زیادہ پایا جاتا ہے ۔ یہی وہ خوف ہے جس کی وجہ سے پوری دنیا میں اونچے عہدوں پر خواتین کی بہت کم تعداد نظر آتی ہے ۔عورتوں میں کامیابی سے خوف کھانے کی بہت سی وجوہات ہیں ۔ایک بڑی وجہ معاشرے میں پھیلے وہ خیالات اور تصورات بھی ہیں جو عورت کو کامیابی کی راہ کا مسافر بننے سے روکے رکھتے ہیں ۔ جیسے کہ ہمارے معاشرے میں یہ خیال عام ہے کہ ہرعورت کامیابی کی سیڑھی پر قدم اپنے رشتوں کو بھینٹ چڑھا کر ہی رکھتی ہے ۔ وہ عورت جو کسی اعلیٰ مقام پر پہنچتی ہے وہ ہمیشہ اکیلی رہ جاتی ہے ۔ مختلف طبقوں سے تعلق رکھنے والی خواتین پر اس حوالے سے جب ایک سروے کیا گیا تو پتہ چلا کہ اکثریت کے نزدیک کسی بھی عورت کو کامیابی حاصل کرنے کے لیے طلاق ، بچوں سے دوری ، بیماری یا تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور وہ عموماً شوہر ،بچوں کے علاوہ اپنے خونی رشتوں سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتی ہے ۔
خود سوچیں جب ایک معاشی کامیابی پانے کے لیے اتنا کچھ کھونے کا خوف ہو تو بھلا کون کامیابی پانے کی خواہش کرے گا؟ عورتوں کی طرح بہت سے مرد بھی کامیابی سے خوف کھاتے ہیں ۔ ان میں زیادہ تر کے خوف کا تعلق ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھانے سے ہے کہ اگر میں نے کامیابی حاصل کر لی تو مجھے بہت سے کام کرنا ہوں گے ، سماجی روابط بڑھانا ہوں گے ، میری تنہائی (جو مجھے بہت پیاری ہے) وہ چھن جائے گی ، میری زندگی اپنے لیے نہیں رہے گی ،اس لیے مجھے ایسی کامیابی سے کوئی سروکارنہیں جو مجھے مشین بنادے یا دوسرے کے ساتھ میل جول پر مجبور کردے ۔

لیکن علم نفسیات بتاتا ہے کہ انسان کامیابی سے انسان صرف اس وقت تک خوف کھاتا رہتا ہے جب تک وہ اس سے دور رہتا ہے ۔جب ایک مرتبہ وہ اپنی طرف آنے والی کامیابی کو آگے بڑھ کر قبول کر لیتا ہے تو وہ اس کا گرویدہ ہونے لگتا ہے ۔ اور ایک کے بعد دوسری کامیابی کا رسیا ہوجاتا ہے ۔ کیونکہ کامیابی بھی ایک نشہ ہے ، لیکن وہ نشہ جو زندگی میں مثبت رنگ بھر دیتا ہے اور اسے مقصدیت عطا کرتا ہے ۔اس لیے ! کامیابی سے خوف کھانا چھوڑیے ،اسے لپک کر اپنی زندگی میں شامل کرلیں ، یاد رکھیں ،خوف سے آگے کامیابی ہے ۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.