تھینک یواکرم
چھٹی یاساتویں کلاس کازمانہ تھا۔ہائی سکول میں انگریزی کے لمبے تڑنگے اُستاد شریف بٹ صاحب کا ایساخوف تھاکہ بڑے بڑے ’’ٹیڑھے‘‘ طلباء بھی ان کے سامنے بیدِ مجنوں کی طرح کانپتے تھے۔ موصوف معمولی معمولی سی بات پربھی اس ظالمانہ اندازمیں پٹائی کرتے کہ الامان۔
دنیااِدھرسے اُدھر ہوجائے مگر مجال ہے کوئی طالب علم ان کادیاہوم ورک نہ کرکے لائے۔میرے لیے کہاں ممکن تھاکہ میں ان کادیاہوم ورک کبھی بھول جاتا۔اکلوتابھائی ہونے کی وجہ سے میں بڑانازونعم میں پلااور نازک سابچہ تھا۔
حسب معمول ایک دن ماسٹر صاحب کلاس میں تشریف لائے اور ہٹلرانہ(معذرت کے ساتھ) اندازمیں ہوم ورک چیک کرانے کاگرجدار آرڈرجاری کیا۔ میں نے اپنی کاپی نکالنے کے لیے بستے میں ہاتھ ڈالااور یہ دیکھ کر اوسان خطاہوگئے کہ رات دیرتک کام کرنے کے بعد کاپی میزپر ہی بھول آیاتھا۔ ’’اومیرے خدا! اب کیاہوگا؟‘‘ میرادماغ بری طرح گھوم گیا۔آنکھوں کے سامنے تارے ناچنے لگے ۔ہاتھ پائوں ٹھنڈے ہونے لگے۔ مجھے تو آج تک شریف بٹ صاحب سے مارنہیں پڑی تھی۔میں تواپنے ہم جماعتوں کوپٹتادیکھ کرہی کانپ کانپ اٹھتاتھا۔آج میری حالت بھی ویسی ہونے والی تھی، یہ بات سوچ کر ہی میری صورت پر بارہ بج گئے ۔ قریب تھاکہ میں رو دیتاکہ ساتھ بیٹھا اکرم میری کیفیت بھانپ گیا۔
اکرم پہلی جماعت سے میرے ساتھ پڑھتاآرہاتھا۔ وہ میراسب سے پیارااورقریبی دوست تھا۔ تھاتووہ میری ہی عمرکامگر جانے کیوں مجھے اس میں اپنے بڑے بھائی کی سی اپنائیت محسوس ہوتی تھی۔ دوسری جانب میں اُسے بہت لیکچردیاکرتا۔ وہ کسی معصوم بچے کی طرح میری تمام باتیں بڑی خاموشی سے سناکرتا۔اس کااچھاسامع ہونابھی شایدہماری دوستی کی وجہ بنا ہوگا۔
’’جلدی سے اپنی کاپیاں نکالو!‘‘ یہ ماسٹرصاحب کی لاسٹ وارننگ تھی۔’’اوئے!جاتُوں ڈنڈابھی مانگ کے لاساتھ والی کلاس سے۔‘‘ ماسٹرصاحب نے کلاس کے مانیٹر کو حکم دیااوروہ فاتحانہ سی مسکراہٹ کے ساتھ کمرے سے نکل گیا۔ میری روح فنا ہوئی جاتی تھی۔ہوم ورک کرنے کے باوجود آج مجھے ماسٹرصاحب کے گھونسے(جی ہاں وہ باقاعدہ گھونسے اورلاتیں بھی مارتے تھے ) تھپڑاور ڈنڈے بدن پرپڑتے دکھائی دے رہے تھے۔
مانیٹر جونہی ایک بل دار (وارنش شدہ) ڈنڈالے کر آیا تو باری باری کام کی پڑتال شروع ہوئی۔پھرکیاتھا وہی روزوالا منظردہرایاجانے لگا۔ بچوںکی دھنائی بلکہ ان پر تشدد کاسلسلہ شروع ہوا۔ میں بھی دل ہی دل میں کانپ رہاتھا اورجس قدرآیات یادتھیں اُنھیں لرزتے کانپتے ہونٹوں سے اداکرنے لگا۔
اب میری شامت چندہی قدم دورتھی۔ میں سچ بھی بولتاتو پٹائی سے بچ نہ سکتاتھاکیوں کہ ہوم ورک کرکے نہ لانے والا ہربچہ یہی بہانہ بناتاتھا’’میری کاپی گھررہ گئی ہے۔‘‘اس جواب پر سب سے پہلے اس کے گال پر زناٹے دار تھپڑپڑتااورپھر دم مست قلندر شروع ہوجاتا۔
’’یہ لومیری کاپی اورچیک کرادو۔‘‘ اکرم نے اپنی ہوم ورک والی کاپی میری طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔
مگرتم کیاکروگے؟‘‘ میں نے کاپی کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے پوچھا۔
’’ فکرنہ کرومیں تو مارکھانے کاعادی ہوں۔ ‘‘ اس کااشارہ اپنے کافی سارے بہن بھائیوں کی طرف تھاجنہیں آپس میں جھگڑنے پر گھرسے خوب مارپڑاکرتی تھی۔وہ جانتاتھاکہ میں ماسٹرصاحب کی جلادانہ مارکو برداشت نہ کرپائوں گا۔
میرے پاس وقت اورہمت دونوں کم تھے۔میں نے اکرم سے کاپی لی اور جونہی میری باری آئی تو کانپتے ہاتھوں سے ماسٹرصاحب کو چیک کراکے بیٹھ گیا۔اکرم کی باری میرے بعد تھی۔ ’’اوئے تیری کاپی کدھرہے؟‘‘ ماسٹرصاحب ایک گالی دیتے ہوئے گرجے۔’’وہ جی!‘‘ اکرم نے ابھی اتناکہاتھاکہ ماسٹرصاحب نے زناٹے دارتھپڑ رسید کردیااوراس کے بعدوہ کچھ ہواجواس سے پہلے ہوم ورک نہ کرنے والے بچوں کے ساتھ ہواتھا۔ تھپڑ،ٹھڈے ، دَھکے ،گالیاں اور ڈنڈے
اکرم بڑی ہمت سے مارکھارہااورمیں دل ہی دل میں خودکو بری طرح کوس رہاتھا۔ اپنی خود غرضی پرمجھے رہ رہ کر دُکھ ہورہاتھا۔ اکرم کے جسم پر برسنے والے ڈنڈوں کی تکلیف مجھے اپنی روح پر محسوس ہورہی تھی۔
ماسٹرصاحب سے شدید زدوکوب ہونے کے بعد جب وہ بنچ پر بیٹھاتومیں مارے شرمندگی کے سرجھکائے بیٹھاتھا ۔ماسٹر صاحب اب کلاس کے دوسرے لڑکوں کی دھلائی میں مصروف تھے۔ اکرم نے مجھے ٹہوکالگایااورآہستہ سے پوچھا’’کیاہوا‘‘؟
’’کچھ نہیں۔‘‘میری آوازرندھ گئی تھی۔ گلے میں جیسے آنسوئوں نے پھنداڈال دیاتھا۔پٹنے کے باوجوداکرم کے ہونٹوں پر ایک فاتحانہ مسکراہٹ تھی اورمیں پٹائی سے بچنے کے باوجود زاروقطاررو رہاتھا۔
آج مجھے اکرم سے کہناہے ’’تھینک یواکرم!…یوآرگریٹ!!‘‘
محمدنعیم مرتضیٰ، لاہور