اپنا ذہن کھولیں

بہت سی باتیں ہم دوسروں سے سیکھتے ہیں ۔ان میں سے بعض بالکل بے سروپا ہوتی ہیں۔ ان کو قبول کرنے کا کوئی معقول جواز نہیںہوتا۔ پھر بھی ہم آنکھیں بند کرکے ، دوسروں کی پیروی میں ، ان پر زندگی پر عمل کرتے رہتے ہیں۔
میری ایک دوست نے تین نسلوں تک جاری رہنے والے ایسے ہی ایک سلسلے کی کہانی سنائی تھی ۔ وہ کہتی ہے کہ ایک بار’’ میں نے اپنی ایک سہیلی کو کھانا پکاتے ہوئے دیکھا تھا ۔ مرغی کو دیگچی میں ڈالنے سے پہلے اس نے ایک چھوٹا سا ٹکڑا کاٹ کر ٹوکری میں پھینک دیا ۔ میں نے سبب پوچھا تو کہنے لگی کہ اس کی ماں مرغی پکاتے ہوئے ہمیشہ یہی کرتی تھی ۔ مجھے یہ سن کر تعجب ہوا ،اپنا تجسس ختم کرنیکی خاطرمیں نے اپنی سہیلی کی ماں کو فون کیا اور اس عادت کی وجہ پوچھی ۔ ماںنے بھی وہی جواب دیا ’’ میں نے اپنی ماںکو ہمیشہ ایسا ہی کرتے دیکھا تھا۔‘‘

’’ یہ جواب سن کر میری تسلی نہ ہوئی ، چنانچہ میں سہیلی کی نانی سے ملنے اسی شام چلی گئی ۔ وہ بزرگ خاتون مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوئیں ۔ میں نے وہی سوال ان کے سامنے رکھا کہ آپ مرغی پکاتے وقت اس کا ایک ٹکڑا کاٹ کر کیوں پھینک دیا کرتی تھیں۔
میری بات سن کر وہ ہنسیں اور بولیں ’’ اصل میں جس دیگچی میں کھانا پکایا کرتی تھی وہ چھوٹی تھی اور اکثر مرغی اس میں پوری نہیںآتی تھی ۔لہذا میں اس کا ایک آدھ ٹکڑا الگ کر دیتی تھی ۔‘‘
یہ ایک واقعہ ہے ۔ آپ غور کریں تو معلوم ہوگا کہ زندگی کے کئی معاملات میں ہم اندھا دھند دوسروںکی پیروی کرتے ہیں ۔ کبھی ایک پل رک کر یہ نہیں سوچتے کہ جو کچھ ہم کر رہے ہیں ،اس کا جواز کیا ہے؟
دوسروں سے ملنے والیی معلومات کو بلا تامل قبول کرنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہم نے اپنی فہم وفراست سے کام لینا چھوڑ دیا ہے ۔ اس کے برخلاف ہم اپنی سوجھ بوجھ سے کام لیں ، اپنے ذہن کو اچھی طرح استعمال کریں تو زندگی کے بہت سارے امکانات ہمارے سامنے آتے ہیں۔ زندگی میں نیا نکھار پیدا ہوجاتاہے ۔ تو آئیں ہم اس سلسلے کے بعض طریقوں پر گفتگو کریں۔

لکیر کے فقیر نہ بنیں:
کئی سال پہلے میں نے یہ دیکھنے کے لیے ایک تجربہ کیا کہ لوگ اپنے مسائل کا ردعمل کیونکر دیتے ہیں۔میں نے اپنا ایک ساتھی بازار میںکھڑا کیا ۔ اس نے ایک راہ گیر خاتون کو متوجہ کیا اور کہنے لگا کہ اس کے گھٹنے میں موچ آگئی ہے اور مدد کی ضرورت ہے ۔اس نے خاتون سے درخواست کی کہ وہ قریبی میڈیکل سٹور سے اس کو گھٹنے پر باندھنے کے لیے الاسٹک پٹی لادے۔
سٹور والے کو ہم نے پہلے ہی کہہ رکھا تھا کہ جو کوئی پٹی لینے آئے تو اس سے کہہ دے کہ پٹیاںختم ہو چکی ہیں۔یکے بعد دیگرے میرے ساتھی نے پچیس راہ گیروں کو میڈیکل سٹور سے الاسٹک پٹی لینے بھیجا ۔ دکاندار نے ان سب کو وہی جواب دیا اور وہ سب منہ لٹکائے واپس آگئے ۔ ان میں سے کسی نے بھی میڈیکل سٹور والے سے یہ نہیں پوچھا کہ بھئی الاسٹک پٹی دستیاب نہیں تو کیا کسی اور پٹی سے کام چل جائے گا گویا ان سب کے ذہن میں مسئلے کا ایک ہی حل تھا ۔ ان کا ذہن متبادل سوچنے پر آمادہ نہیں تھا ۔ یہ تجربہ بتاتا ہے کہ جب لوگ ایک ہی حل پر ساری توجہ صرف کردیں تو پھر وہ دوسرے حل تلاش کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔

جال میں پھنسنا:
میں بچپن میں دادی اماں کی یہ شکایت سنا کرتا تھا کہ ان کے سر میں کوئی سانپ پھنس گیا ہے اور وہ سردرد کا باعث بنتا ہے ۔ ان کو کئی ڈاکٹروں کے پاس لے جایا گیا ۔ سب ڈاکٹروں کی ایک ہی رائے تھی ۔ وہ کہتے تھے کہ دادی اماں کی بات بالکل نامعقول ہے ۔ وہ بڑھاپے کو اس کی وجہ قرار دیتے تھے۔
دادی اماں کی وفات کے بعد طبی معائنے کے دوران معلوم ہوا کہ ان کے دماغ میںرسولی تھی ۔ہمارا سار ا خاندان یہ سن کر بہت پریشان ہوا لیکن ان ڈاکٹروںکو کون پوچھ سکتا تھا جو ایک ہی راگ الاپے جارہے تھے کہ سر میں سانپ گھس نہیں سکتا۔ دادی اماں بوڑھی ہوگئی ہیں ،اس لیے بہکی بہکی باتیںکر رہی ہیں۔
اس واقعہ کے برسوں بعد تک میں سوچتا رہا کہ ہم کس طرح ایک جال میں پھنس جاتے ہیں اور پھر اس سے نکلنے سے انکار کرتے ہیں۔ ایک عمر رسیدہ خاتون جب کھوپڑی میں شکایت ہونے کی شکایت کررہی تھی تو ڈاکٹروں نے بس اتنا سوچا کہ بڑھیا کا دماغ چل گیا ہے ۔ اپنے طور پر ہم بھی یہی سمجھتے رہے کہ یہ ڈاکٹر صاحبان اپنے شعبے کے ماہر ہیں۔لہذا ان کی تشخیص ہی درست ہے ۔ ڈاکٹروں کا خیال اور طرف گیا اور نہ ہی ہم نے ڈاکٹروں کی اہلیت پر شک کیا ۔ اذیت دادی اماں اٹھاتی رہیں۔

عادت کی غلامی :
ہم جن معاملات کے عادی ہوجائیں ،ان میں سوچ بچار بند کردیتے ہیں۔ ایک مرتبہ میں نے ایک سٹور میں کیشئر کو اپنا کریڈٹ کارڈ دیا ۔ اس نے دیکھا کہ کارڈ پر میرے دستخط نہیںتھے ۔ دستخطوں کے لیے اس نے کارڈ مجھے واپس کیا پھر اس نے کارڈ لے کر مشین میں ڈالا اور مشین سے نکلنے والا فارم مجھے دستخط کرنے کے لیے دیا ۔ میں نے دستخط کر دئیے ۔ کیشئر دستخظ ملانے کے لیے کارڈ اور فارم کو دیکھنے لگا۔
یہ احمقانہ حرکت تھی ۔ میں نے دونوں دستخط اس کے سامنے کیے تھے لیکن وہ غریب دستخط ملا کر دیکھنے کا اس قدر عادی ہوچکا تھا کہ اس نے یہ سوچنے کی تکلیف بھی گوارہ نہ کی کہ دستخط تو ابھی اس کے سامنے کیے گئے تھے ۔
جانے پہچانے امور میں سوچ بچار معطل کرنے کی عادت آج کی دنیا میں بہت خطرناک ثابت ہوسکتی ہے ۔ جنوری انیس سو بیاسی میں ائر فلوریڈا کا ایک طیارہ واشنگٹن میں گر کر تباہ ہوا تھا ۔ اس حادثے میں اٹھہتر افراد مر گئے تھے ۔ طیارہ واشنگٹن سے فلوریڈا تک معمول کی پرواز پر تھا ۔اس کا عملہ تجربہ کار تھا پھر غلطی کہاں ہوئی؟
تحقیقات ہوئیں تو پتہ چلا کہ پرواز سے پہلے پائلٹ اور اس کے معاون نے معمول کی چیک لسٹ کا عمل کیا تھا ۔ بظاہر انہوں نے یہ کام دھیان سے کیا تھا مگر بعد میں یہ شہادت ملی کہ اس معاملے میں کوتاہی ہوئی تھی ۔ چنانچہ انہوں نے طیارے کے انجن کا انٹی آئس سسٹم اچھی طرح نہ پرکھا تھا ۔ وہ جنوب کے گرم علاقے کی جانب پرواز کرنے والے تھے مگر راستے میں برفباری ہو رہی تھی ۔برف طیارے کے پروں پر جمع ہوتی رہی چنا نچہ ٹیک آف کے وقت طیارے کے کریش ہونے کی وجہ یہ تھی کہ پائلٹ اور اس کا معاون انٹی آئس سسٹم چالو کرکے برف کے مسئلے سے نہ نمٹ سکے تھے۔

خصوصی اسباب تلاش کریں :
اکثر لوگوں کو عمومی بیانات کی عادت ہوتی ہے ۔ پسندوناپسند اور اپنے مسائل کی وضاحت بھی وہ اسی طور کرتے ہیں ۔ مثلا کوئی دوست اعلان کردیتا ہے کہ سردیوںکا موسم اس کو پسند نہیں ۔ ظاہر ہے کہ یہ بہت عمومی سا بیان ہے ۔ ممکن ہے کہ کسی قدر جزئیات سے کام لینے سے معلوم ہوجائے کہ دراصل سرد موسم اس کو ناپسند نہیں بلکہ سردی کی وجہ سے ڈھیر سارے کپڑوں کا بوجھ لادنے پر اس کو کوفت ہوتی ہے۔ چنانچہ اس کی گاڑی میں اچھا سا ہیٹر لگ جائے یا وہ زیادہ گرمائش والے کپڑے پہننا شروع کردے تو ممکن ہے کہ اس کا رویہ بدل جائے ۔ سردیوں کے دن اس کو اچھے لگنے لگیں۔
ایک اور مثال دیکھیں۔ میاں بیوی اے سی خریدنے کے مسئلے پر گفتگو کر رہے ہیں ۔ بیوی کہتی ہے کہ وہ گرمی کے ہاتھوںسخت تنگ ہے لہذا ائر کنڈیشنر خریدنا بہت ضروری ہے ۔ میاں کا موقف ہے کہ دفتر میں ائر کنڈیشنر کی وجہ سے اس کو زکام ہونے لگتا ہے۔ اس لیے وہ گھر کے لیے ائر کنڈیشنر خریدنے سے ہچکچا رہا ہے۔
شاید اس جوڑے کے مسئلے کا مناسب حل یہ ہے کہ میاں دفتر میں ہلکا سا سویٹر پہننا شروع کردے اور گھر کے لیے وہ کولر خرید لیں۔
جس بات پر ہم زور دے رہے ہیں ۔وہ یہ ہے کہ جب کبھی آپ بے اطمینانی کی کیفیت سے دوچار ہوں تو اس کا خصوصی سبب تلاش کرنے کی کوشش کریں ۔ اس طرح آپ اس مسئلے سے زیادہ موثر انداز سے نمٹ سکتے ہیں۔

نئی معلومات قبول کریں:
لوگ اکثر اوقات دلدل میں پھنس جاتے ہیں ۔ وہ اس شے کے بارے میں سوچنے لگتے ہیں جوان کی رسائی سے باہر ہے ۔ جوکچھ حاصل ہو سکتا ہے اس کو بھول جاتے ہیں۔
چند روز پہلے میرے ایک موسیقار دوست نے مجھے اپنے ان گیتوں کے بارے میں بتایا جن کو وہ طویل عرصے سے مکمل نہیں کر سکا تھا ۔ وہ احساس زیاںکا شکار تھا ۔پھر اس نے اپنے مسئلے پر دوبارہ غور کیا ۔پہلے اس کا خیال تھا کہ وہ ادھورے گیت مکمل کرنے کے لیے نااہل ہے لیکن اب اس نے اعتراف کیا کہ وہ نئی دھنیں بنانے کی شاندار صلاحیت کا مالک ہے ۔ اس اعتراف کے بعد اس نے ایک اور موسیقار دوست کو ساتھ ملایا ۔ دونوںمل کر بہت سا کام کرنے لگے ۔
مسئلے کو ایک ہی پس منظر میں نہیں دیکھنا چاہئے ۔ اس کو مختلف سیاق وسباق میں رکھ کر دیکھنا چاہئے ۔ یہ تکنیک کئی ڈرامائی فائدوںکا سبب بن سکتی ہے ۔ مثال کے طور پراکثر لوگوں کا خیال ہے کہ جسمانی تکلیف ہمیشہ پریشان کن ہوتی ہے۔

میں نے دوستوں کے ساتھ مل کر ایک تجربہ کیا تھا ۔ ہم نے میجر سرجری کے چند مریضو ں کو سکھایا کہ وہ اپنی تکلیف کو سیاق وسباق میں دیکھیں۔ ہم نے ان سے کہا کہ وہ سوچیںکہ جیسے وہ فٹ بال کھیل رہے ہوں یا کسی ڈنر پارٹی میں جانے کی تیاری کر رہے ہیں ۔ فٹ بال کھیلتے ہوئے چھوٹی موٹی چھوٹ آجائے تو اس پر کوئی توجہ نہیں دیتا ۔ اس طرح ڈنر پارٹی کی تیاری کی جلدی میں چھوٹی موٹی خراش نظر اندازکر دی جاتی ہے ۔ اس کے برخلاف آپ کوئی بور قسم کی دفتری رپورٹ لکھ رہے ہوں اور کاغذ کی تراش سے ہلکی سی خراش آجائے تو فورا موڈ بگڑ جاتا ہے ۔ تکلیف زیادہ ہوتی ہے اور رپورٹ فرش پر پٹخ دینے کو جی چاہتا ہے۔ اس قسم کی مثالیں بیان کرکے ہم نے ان مریضوں کو جتلایا کہ تکلیف ناگزیر نہیںہے ۔ان کا نقطہ نظر بدل جائے تو تکلیف کی شدت بدل سکتی ہے۔
ہسپتال کا سٹاف ہمارے تجربے سے بے خبر تھا ۔ چنانچہ سرجری کے وقت جب سٹاف نے مریضوں کو درد کا احساس ختم کرنے والی دوائیں دیں تو جن مریضوں کی ہم نے تربیت کی تھی ان کو دوسرے مریضوں کے مقابلے میں بہت کم دواؤںکی ضرورت پڑی ۔ یہی نہیں بلکہ وہ ہسپتال سے فارغ بھی جلد ہو گئے۔
بات یہ ہے کہ ہم سب کو ممکنہ حد تک تخلیقی اور شعوری انداز میں زندگی بسر کرنی چاہئے ۔ نئی معلومات اور نئے تناظر کے لیے ذہن کے دریچے کھلے رکھنے چاہئیں ۔ اس طرح ہم اپنے مصائب اورناکامیوںکی شدت کو کم کرسکتے ہیں۔ اپنی زندگی کو زیادہ خوبصورت اور پرمسرت بنا سکتے ہیں۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

bayan escortTürkiye Escort Bayanbuca escortVdcasino Twitterİstanbulbahis Giriş TwitterLadesbet Twitterbornova escortfethiye escortmarsbahiscasibomizmir escortDenizli escortMalatya Escortşanlıurfa escortHacklinkBeşiktaş escortAtaşehir escortBeylikdüzü escortBahis siteleriBeylikdüzü escort bayanmasöz bayanlarmasöz bayanlarantalya escort bayanlarbetturkeySlot bonusu veren sitelercasibom girişbets10 girişjojobet girişpusulabetbetmatikbaywin girişGrandpashabet girişcasibom twitterholiganbet güncel girişbettilt twittercasibomslot sitelerisekabetbetmatik girişbetkanyon girişsekabet girişholiganbet girişbetmatikcasibom girişcasibom girişcasibom girişcasibom girişcasibom girişcasibom girişcasibom girişcasibom girişcasibom girişhitbet twittersahabet twittersahabet twitterbettilt twittervdcasino twitterilbet twittercratosroyalbet twittertümbet twitterbaywin twitterdinamobet twitterelexbet twittersekabet twitterbetkanyon twitterbetmatik twitterbetine twittertumbet twittercasibomslot sitelericanlı casino sitelericasino sitelerislot siteleribahis siteleribaywinİnterbahiscasibomcasibombelugabahismadridbet
Ankara implant fiyatlarıEtimesgut evden eve nakliyatvaliztuzla evden eve nakliyatkurtarıcıweb sitesi yapımıgaziantep evden eve nakliyatgayrettepe antika alanlarçankaya evden eve nakliyatMedyumlarMedyumeskişehir web sitesiEtimesgut evden eve nakliyathayır lokmasıgebze evden eve nakliyatmaldives casinospoodletipitip sakızeskişehir televizyon tamiriantika eşya alanlarpoodlepomeranianzibilyonbetpancakeswap botdextools trendingNewsdextools trending botdextools botdextools trending servicedextools trending algorithmcoinmarketcap trending botpinksale trending botdextools trending costcoinmarketcap trendingfront run botfront running botpancakeswap sniper botuniswap botuniswap sniper botmev botpinksale trending botprediction botpomeranian ilanlarıMedyumeskişehir uydu servisi