اَسی روپے کی گڑیا
پندرہ سال پہلے ایبٹ آباد جانے کے لیے لاہور سے راولپنڈی پہنچا ۔ صدر کے علاقے سے گزرتے ہوئےفٹ پاتھ پر کھلونے سجائے ایک چھ، سات سالہ بچی روتی نظر آئی ۔ روتے روتے وہ اپنے چھوٹے بھائی کو پوٹھوہاری زبان میں ڈانٹ بھی رہی تھی۔ بھائی کچھ نہ سمجھتے ہوئے بھی خاموشی سے ڈانٹ سن رہا تھا ۔پہلے تومیں قریب سے گزر گیامگرروتے ہوئے لڑکی کے یہ الفاظ ” میں ابو کو کیا بتاؤں گی؟”نے میرے قدم جکڑ لیے۔میں واپس پلٹا اور بچی کے پاس بیٹھ گیا۔ پوچھا کیا ہوا ؟ منہ بسورتی بچی نے بتایا کہ اس کے ابو کہیں کام پہ گئے ہیں ۔ اس دوران ایک گڑیا کوئی اٹھا کر لے گیا ہے ۔اب وہ اپنے باپ کو کیا جواب دے گی؟وہ پھر سسکی۔میں اٹھا اور
چل پڑا۔وہ لڑکی پھر پھوٹ پھوٹ کررونے لگی۔ اس کی آواز میرا پیچھا کر رہی تھی۔ میرے قدم بھاری ہونے لگے ۔ میں واپس پلٹا وہ اب بھی رونے کے ساتھ چھوٹے بھائی کو بھی ڈانٹ رہی تھی ۔ میں نے بچی سے پوچھا ، گڑیا کتنے کی تھی ؟ 80 روپے کی ۔ وہ ناک صاف کرتے ہوئے بولی ۔ میری جیب میں 200 روپے تھے اور مجھے ایبٹ آباد تک کا سفر کرنا تھامیں نے بلاسوچے سمجھے جیب میں ہاتھ ڈالا اور 100 کا نوٹ نکال کر بچی کو دے دیااورکہا،ابو کو بتانا گڑیا بک گئی ہے ۔ ایبٹ آباد جاتے ہوئے جب وین نے راستے میں سٹاپ کیا تو میری جیب میں کھانے کے لیے کوئی پیسہ نہیں تھا ،البتہ دل بہت مطمئن تھا۔
افضال نبی ، لاہور