بری عادتیں کیسے چھوڑی جائیں ؟
روزی کو مطالعے کا شوق ہے ۔ صحت کے بارے میں معلومات دینے والے مضامین تو وہ ڈھونڈ ڈھونڈ کر پڑھتی ہے ۔ سگریٹ نوشی کے موضوع پر سیکڑوں نہیں تو درجنوں مضمون اس نے ضرور پڑھ رکھے ہوں گے ۔ لہذا اس کو خوب معلوم تھا کہ سگریٹ نوشی بری شے ہے ۔ اس سے بچنا چاہیئے ۔ وہ بچنا چاہتی تھی ۔ کئی بار جتن کرنے کے بعد آخرکار اس نے سگریٹ نوشی ترک کردی ۔
اس فیصلے کے بعد کئی ہفتوں تک روزی کے ذہن میں کشمکش جاری رہی ۔ کالج کے زمانے سے اس نے چھپ چھپ کر سگریٹ نوشی شروع کی تھی ۔ یہ آٹھ دس سال پرانی بات ہے ۔ آپ جانتے ہیں کہ اتنے طویل عرصے تک عادتیں جاری رہیں تو وہ پختہ ہوجاتی ہیں ۔ ان سے نجات پانا دشوار ہوجاتا ہے ۔ روزی نے سگریٹ نہ پینے کا فیصلہ تو کرلیا تھا ، مگر عادت باربار اس کو فیصلہ بدلنے پر مجبور کردیتی تھی مگر اس نے تمام ترغیبات کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ۔ یہاں تک کے اس نے اپنے آپ پر قابوپالیا ۔ لگتا تھا کہ اب سگریٹوں کی طرف اس کا کبھی رحجان نہ ہوگا۔
ایک شام پانسہ پلٹ گیا ۔ روزی کا وہ دن اچھا نہیں گزرا تھا۔ صبح اٹھی تو ہو معمول کے مطابق ہشاش بشاش نہیں تھی ۔ ناشتے کی میز پر وہ کچھ زیادہ اکتاہٹ محسوس کرنے لگی تھی ۔ بڑی بات دفتر میں ہوئی جہاں باس کے ساتھ وہ الجھ پڑی تھی ۔ یوں چھٹی کے وقت وہ بہت بوجھل محسوس کررہی تھی ۔ کئی دنوں سے ایک دوست کے ساتھ روزی کی ملاقات طے تھی ۔ وہ اس کیفیت میں کسی سے ملنا نہ چاہتی تھی مگر خیال آیا کہ ممکن ہے کہ دوست سے مل کر موڈ بدل جائے ۔ چنانچہ دفتر سے اٹھ کر وہ ریستوران پہنچ گئی ، جہاں دوست اس کا منتظر تھا ۔ دونوں بیٹھے باتیں کررہے تھے ۔ دوست نے سگریٹ سلگایا ۔ ایک دو کش لیے اور پھر سگریٹ ایش ٹرے میں رکھ دیا ۔ اس لمحے نجانے کیا ہوا کہ روزی نے بے سوچے سمجھے اضطراری کیفیت میں سگریٹ اٹھایا اور کش لینے لگی ۔ یہاں تک کہ اس نے پورا سگریٹ پھونک ڈالا ۔
اچانک روزی کو اپنی حرکت پر ندامت سی محسوس ہوئی ۔ چندلمحوں کی داخلی کشمکش کے بعد وہ سنبھلی ، اس نے ویٹر کو بلایا اور اپنے لیے سگریٹ کی ڈبیا منگوالی ۔ ’’ اوہ ، میں اس مصیبت سے ہمیشہ کے لیے نجات نہیں پاسکتی ۔‘‘ اس نے دوست سے کہا ۔ ’’ شاید مجھے اپنی کوشش ترک کردینی چاہیے ۔ دنیا میں بے شمار لوگ سگریٹ پیتے ہیں ۔ آخر وہ بھی تو زندہ رہتے ہی ہیں ناں !‘‘روزی نے سگریٹ نوشی پھر سے شروع کردی تھی ۔ وہ اس کوتاہی کی شکارہوگئی تھی جس کو ماہر نفسیات ’’ بری عادتوں کا پلٹ آنا ‘‘ کہتے ہیں ۔
نفسیات کے ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ بری عادتوں کے خلاف لڑنے والے اکثر لوگ عارضی طور پر کامیاب ہوجاتے ہیں ۔ اپنے عزم اور ارادے کے بل بوتے پر وہ ناپسندیدہ عادتوں پر قابوپالیتے ہیں ۔ مگر ان کی یہ کامیابی دیرپا نہیں ہوتی ۔ لگ بھگ 80 فیصد لوگ عادت چھوڑنے کے بعد نوے دنوں کے اندر دوبارہ اس عادت کا شکار ہوجاتے ہیں ۔
ایڈون کیسٹر اور سیلی کیسٹر نے اس موضوع پر ’’ ریڈرز ڈائجسٹ ‘‘ میں اپنے ایک مضمون میں بتایا ہے کہ اس نفسیاتی کمزوری کا تعلق کسی خاص بری عادت سے نہیں ۔ کوئی شخص سگریٹ نوشی سے نجات چاہتا ہو، یا شراب نوشی ، جوئے بازی ، فضول خرچی یا پھر بے تحاشا کھانے کی بدعادت سے چھٹکارے کا خواہش ، وہ اس نفسیاتی کمزوری کا شکار ہوجاتا ہے اور شکار ہونے والوں کی شرح ایک سی رہتی ہے ۔
ماہرین نفسیات کے خیال میں بری عادتیں اس لیے لوٹ آتی ہیں کہ ان کے خلاف فرد کی کوشش پہلے چند دنوں کے ولولے کے بعد دھیمی پڑجاتی ہے ۔ وہ سمجھتا ہے کہ آسانی سے اس نے نجات پالی ہے ، اس لیے وہ قدرے غیر محتاط ہوجاتا ہے مگراس دوران پرانی عادت کو جاری رکھنے کی جسمانی اور نفسیاتی خواہش کا عمل اندر ہی اندر جاری رہتا ہے اور وہ بالاخر فرد پر غلبہ پالیتی ہے ۔ آپ اس کے آگے بے بس ہوجاتے ہیں اور مجبوری کے عالم میں ہتھیار پھینک دیتے ہیں ۔ ایک نفسیات دان شفمان نے اس سلسلے میں ایک دلچسپ تجربہ کیا ۔ اس نے سگریٹ نوشی ترک کرنے والوں سے قریبی رابطہ رکھنے کے لیے ہاٹ لائن قائم کی ۔ اس نے دیکھا کہ سگریٹ نوشی ترک کرنے والے جو لوگ اس کی مدد کے طلب گار ہوتے تھے ، ان کی نصف سے زیادہ تعداد ایسے افرادپر مشتمل تھی جو عادت ترک کرنے کے ابتدائی چند مشکل ترین دن گزار چکے ہوتے تھے ۔ شفمان نے اس سے بجاطور پر یہ نتیجہ اخذکیا کہ جب ہم کوئی ناگوار عادت ترک کرتے ہیں تو ابتدائی چند دن بہت مشکل ہوتے ہیں ۔ تب عادت اپنا دباؤ بھرپورانداز میں ڈالتی ہے اور ہمیں پرانا طرزعمل جاری رکھنے پر مجبورکرتی ہے ۔ مگراس کے مقابلے میں ، ابتدائی ایام میں ، ہمارا ارادہ مضبوط ہوتا ہے ۔ وہ عادت کے دباؤکی مزاحمت کرتا ہے ۔ یوں عام طور پر پرانی عادت دبی رہتی ہے لیکن جب ابتدائی دن گزرجاتے ہیں تو ارادہ کمزور پڑنے لگتا ہے اور یہی وقت ہوتا ہے جب پرانی عادت کے لوٹ آنے کا امکان بڑھ جاتا ہے ۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ پرانی عادت اس وقت لوٹ آتی ہے جب ہم اس کو ترک کرنے کے فائدے حاصل کرنے لگتے ہیں ۔ اچھا یہ ہے تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ کامیابی کی دہلیز پر پہنچ کر ہم کمزور کیوں ہوجاتے ہیں ؟ اس معاملے میں جسمانی تقاضے اور قوت ارادی کی کمی کا رول بہت اہم ہے ۔ تاہم بہت سے ماہرین اب یہ کہتے ہیں کہ بری عادتوں کی واپسی میں جذباتی کھچاؤ کا کردار سب سے زیادہ ہوتا ہے ۔ بری عادتوں کو چھوڑ کر دوبارہ ان کو اختیار کرنے والوں کی اکثریت ، یعنی تقریبا ً ساٹھ فیصد سے تعداد ، اس وقت ایسا کرتی ہے جب اس پر جذباتی دباؤ بہت ہوتا ہے ، مثلاً جب آپ غصے ، تشویش ، یاسیت اور مایوسی کا شکار ہوں ، بورہورہے ہوں یا تنہائی محسوس کررہے ہوں تو پھر چھوڑی ہوئی عادتوں کی واپسی کا امکان بڑھ جاتا ہے ۔
عادت سے مراد دوسروں سے سیکھا ہوا خودکار طرزعمل ہے جو فرد کو خوشی اور اطمینان عطا کرتا ہے ۔ اکثر بری عادتوں کے دوررس منفی اثرات ہوتے ہیں پھربھی وہ وقتی طورپر فرد کو فوری سکون عطا کرتی ہیں ۔ اس لیے دباؤ کے عالم میں فرد ان کا سہارا ڈھونڈتا ہے ۔
کسی بری عادت سے چھٹکارا پانے کے لیے آپ کو دو کام بیک وقت کرنے ہوں گے ۔ اول یہ کہ آپ اس عادت کو شعوری طور پر ترک کریں اور دوسرے یہ کہ اس کے بدلے میں کوئی ایسی عادت اختیار کریں جو تسکین دہ ہونے کے علاوہ ترک کی جانے والی عادت کی خرابیوں سے محفوظ ہو۔ بظاہر یہ کام مشکل دکھائی دیتے ہیں مگر ارادہ اور مشق کے ذریعے یہ کام بیک وقت کیے جاسکتے ہیں ۔
اس عمل کا موازنہ اس پاکستانی کی صورتحال سے کیا جاسکتا ہے جو امریکا جاتا ہے اور وہاں پہلی بار گاڑی چلاتا ہے ۔ پاکستان میں گاڑی دائیں اور امریکا میں بائیں ہاتھ چلائی جاتی ہے ۔ چنانچہ پاکستانی کو دائیں طرف رہنے کی عادت ہوتی ہے ۔ جب وہ گاڑی لے کر واشنگٹن کی سڑک پر نکلتا ہے تو بے ساختہ طور پر وہ دائیں جانب گاڑی چلانے کی کوشش کرتا ہے جو کہ وہاں کے اصولوں کے مطابق غلط ہے ۔ بہرحال شعوری کاوش اور پریکٹس سے اس کا یہ مغالطہ ختم ہوجاتا ہے اور پرانی عادت کی جگہ نئی عادت لینے لگتی ہے ۔ وہ بائیں جانب رہنے لگتا ہے لیکن کسی ہنگامی صورتحال میں یہ خدشہ موجود رہتا ہے کہ وہ دائیں جانب کا رخ کرے گا۔
خیر ، مشکلات یقینا ہیں لیکن بہت سے لوگ اپنی ناپسندیدہ عادتوں پر قابو پالیتے ہیں ۔ ماہرین نفسیات نے بری عادتیں چھوڑنے کے لیے کئی طریقہ کار وضع کیے ہیں ۔ آپ بھی ان سے فائدہ اٹھاسکتے ہیں ۔
پہلے سے منصوبہ بندی کریں
کسی عادت کو ترک کرنے کے بعد بھی اس کی طرف پلٹنے کی خواہش باقی رہتی ہے ۔ آپ سگریٹ نوشی سے توبہ کرچکے ہیں ، مگر کسی وقت سگریٹ سلگانے کو جی چاہتا ہے ۔ آپ نے مٹھائی نہ کھانے کی قسم کھائی ہے مگر ، کسی دعوت میں میز پر طرح طرح کی مٹھائیاں دیکھ کر منہ میں پانی آجاتا ہے ۔ جی للچانے لگتا ہے اور بے ساختہ آپ کا ہاتھ مٹھائی کی پلیٹ کی طرف بڑھتا ہے ۔ یادرکھیں ، اس قسم کی خواہش نارمل ہے اور ناگزیر بھی ۔ اس سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ۔ اچانک ہی یہ خواہش پیدا ہوتی ہے اور لگتا ہے کہ ہم اس کی مزاحمت نہ کرسکیں گے ۔
ایسی خواہشیں سمندری لہروں کی طرح ہوتی ہیں ۔ ہم کو ان کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے ۔ خوش قسمتی سے ان لہروں کا دورانیہ مختصر ہوتا ہے ۔ ابھی ہم نے ایک ایسے نفسیات شفمان کا ذکر کیا تھا ۔ اس کا کہناہے کہ چھوڑی ہوئی عادت کو دوبارہ اپنانے کی خواہش کی شدت تین سے دس منٹ تک ہوتی ہے ۔ اگر ہم اس مختصر وت کے لیے خود پر قابو رکھیں تو گویا طوفان آکر گزرجاتا ہے ۔ ہم محفوظ رہتے ہیں ۔
مناسب یہ ہے کہ ہم پہلے سے یہ بات سوچ رکھیں کہ جب کبھی طوفانی لہر اٹھے گی تو اس کا مقابلہ کیسے کرنا چاہیے ۔ مثلاًہم پارک کی سیر کو نکل جائیں گے ، فیض صاحب کی شاعر پڑھنے لگیں گے یا کسی پرانے دوست سے گپ شپ لگائیں گے ۔ ان میں سے کوئی حل ڈھونڈیں یا کوئی اور تجویز آپ ذہن میں رکھیں مگر دوتین باراس کی مشق ضرور کرلیں ۔ اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ ضرورت پڑنے پر آپ کا ردعمل خودکار قسم کا ہوجائے گا۔ شفمان کا کہنا ہے کہ یہ بات اہم نہیں کہ آپ کون سی تکنیک منتخب کرتے ہیں ۔ اصل بات بس یہ ہے کہ آپ کو ذہنی طور پر تیار رہنا چاہیے ۔
نئی عادتیں اپنائیں
پرانی عادتیں ختم ہوسکتی ہیں ، مگر ہماری جذباتی ضرورتیں موجود رہتی ہیں ۔ لہذا ایسی متبادل سرگرمیاں اختیار کرنی پڑتی ہیں جو پرانی عادتوں
جیسی تسکین دہ ہوں اور ان جیسے فوری نتائج بھی مہیا کریں ۔ سیر کا یا ورزش کا کوئی پروگرام بنالیں ۔ موسیقی میں دل لگائیں ۔ کتابوں میں دلچسپی بڑھائیں ۔ گہرے سانس لینے کی عادت بھی اچھی ہے ۔ غرض یہ کہ پرانی عادت کی جگہ کوئی صحت مند عادت اختیار کرلیں اور پرانی عادت کے لوٹ آنے کا انتظار مت کریں ۔ بلکہ ممکن ہو تو کوئی پرانی عادت چھوڑنے سے پہلے ہی اس کی جگہ نئی عادت کی تیاری شروع کردیں ۔
متبادل عادت منتخب کرنے کا ایک مناسب طریقہ یہ ہے کہ پرانی عادت آپ نے اختیار کیوں کی تھی ۔ فرض کریں کہ آپ شراب نوشی کی طرف اس لیے مائل ہوئے تھے کہ وہ آپ کو سکون دیتی ہے ۔ توپھر اس کی جگہ مراقبہ کو آزمائیں ۔ سگریٹ نوشی کا تعلق کسی طور اپنے ہاتھوں سے ہے تو اس کو چھوڑ کر کوئی ساز بجانا سیکھیں ۔
دوستوں اور عزیزوں کی مدد لیں
بری عادتوں سے نجات کی خواہش کرنے والے کئی لوگوں کے لیے بہترین طریقہ کار یہ ہے کہ وہ دوسروں کی مدد حاصل کریں ۔ اس طرح پرانی عادتوں کے لوٹ آنے کا امکان بہت کم ہوجاتا ہے ۔ جب کبھی پرانی عادت کا دباؤ حد سے بڑھنے لگے تو آپ کو چاہیے کہ اس کا ذکردوستوں اور عزیزوں سے کریں ۔ ان کو اپنی مشکلات کے بارے میں بتائیں ۔ اس طرح ان کو خود پر قابو حاصل کرنے میں بہت مدد ملے گی ۔ مغربی ممالک میں تو بہت سے گروپ بنے ہوئے ہیں جو اس قسم کی صورتحال میں اپنے ارکان کوا خلاقی اور نفسیاتی امداد مہیا کرتے ہیں ۔ خاص طورپر شراب نوشی ، سگریٹ نوشی اور اس قسم کی دوسری نقصان دہ عادتوں سے بچاؤ کے گروپ خاصے سرگرم ہیں ۔
خیر ، اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان عادتوں سے نجات کے لیے لازمی طور پر کسی منظم گروپ کی مدد درکا رہوتی ہے ۔ دوست احباب اور خاندان کے ارکان بھی اس سلسلے میں مدد کرسکتے ہیں ۔ جب آپ کوئی عادت چھوڑنا چاہیں تو اپنے اس ارادے کا ذکر قریبی لوگوں سے کریں وہ ایک طرف تو آپ کا حوصلہ بڑھائیں گے اور دوسری طرف آپ پر نظر رکھیں گے ۔ آپ کو بھی معلوم ہوگا کہ دوست احباب یا خاندان کے افراد آپ کا جائزہ لے رہے ہیں ۔ لہذا آپ کا رویہ زیادہ محتاط ہوجائے گا۔
خطرات کی زد سے دور رہیں
اگر آپ کو چائے یا کافی کے کپ کے ساتھ لازمی طور پر سگریٹ پینے کی عادت ہے تو سگریٹ نوشی ترک کرتے ہوئے ، کم ازکم دوتین ماہ کے لیے ، کافی یا چائے سے بھی پرہیز کریں ۔ اس کی جگہ کوئی اور سافٹ ڈرنک استعمال کرسکتے ہیں ۔ اسی طرح اگر آپ ذہنی کھچاؤ کے عالم میں بلاضرورت خریداری کے لیے نکل جاتے ہیں ، تو مناسب یہ ہوگا کہ کھچاؤ کی کیفیت میں موسیقی سے لطف اندوز ہونے کی کوشش کریں ۔ اگر آپ کا مسئلہ یہ ہے کہ آپ بہت زیادہ کھاتے ہیں تو ایسی تقریبات سے دور رہیں جہاں رنگارنگ کھانے وافر مقدار میں پیش کیے جاتے ہیں ۔ اگر آپ بعض دوستوں کی محفل میں شراب سے دل بہلاتے ہیں تو ان دوستوں سے دور رہیں ۔ دوسرے دوستوں پر توجہ دیں ۔
حقیقت پسندانہ ہدف بنائیں
کسی بری عادت سے چھٹکارا پانے کے ولولے میں بہت سے لوگ ایسے ہدف مقرر کرلیتے ہیں جو ان کی رسائی سے باہر ہوتے ہیں ۔ یہاں میرے ایک دوست کی مثال مناسب دکھائی دیتی ہے ۔ وہ شراب نوشی کی لت میں مبتلا تھا ۔ آپ جانتے ہیں کہ یہ عادت ناصرف بری ہے بلکہ مہنگی بھی ہے ۔ چنانچہ ہر مہینے میرے دوست کے پانچ سات ہزار روپے اس عادت کی نذر ہوجاتے تھے ۔ وہ تنگ آگیا اور اپنے طور پر اس نے توبہ کرنے کا پختہ ارادہ کرلیا۔ ساتھ ہی اس نے یہ وعدہ بھی کرلیا کہ شراب نوشی ترک کرنے سے جو رقم بچے گی ۔ اس کو جمع کرکے وہ اپنے لیے ایک نئی کار خریدے گا ۔ اس طرح گویا وہ اپنے آپ کو قیمتی تحفہ دینا چاہتا تھا مگر ہوا یہ کہ ابھی اس نے بمشکل پندرہ بیس ہزاروپے ہی بچائے ہوں گے کہ اس نے توبہ توڑ لی اور پھر سے لال پری کا شکار ہوگیا۔
دراصل اس نے ایک نفسیاتی حقیقت کو نہیں سمجھا تھا ۔ وہ حقیقت یہ ہے کہ ابتدا میں ہمیں آسانی سے حاصل ہونے والے ہدف مقرر کرنے چاہئیں ۔ نئی کار خریدنے کے لیے آج کل سات آٹھ لاکھ روپے درکار ہوتے ہیں ۔ اب اگر میرا دوست ثابت قدم رہتا تو بھی اس کو اتنی بڑی رقم اکھٹی کرنے کے لیے آٹھ نو سال درکار ہوتے ۔ یہ بہت طویل عرصہ ہے ۔ چنانچہ جب اس نے یہ محسوس کیا کہ شراب نوشی ترک کرنے کا فائدہ اس کو طویل عرصے کے بعد ہی حاصل ہوسکے گا تو اس کے قدم ڈگمگانے لگے ۔ اس کے بجائے اگر وہ کوئی ایسا ہدف رکھتا جو ایک یا دوماہ میں بچائی ہوئی رقم سے حاصل ہوسکتا تو شاید وہ اپنے ارادے میں زیادہ مضبوط رہتا ۔
یہاں ایک وضاحت ضروری ہے ۔ آسانی سے حاصل ہونے والے ٹارگٹ مقرر کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ خود کو ان تک محدود رکھا جائے ۔ بلکہ ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ پہلے قدم کے طور پر آسانی سے حاصل ہونے والے ٹارگٹ مقرر کیے جائیں ۔ ان کو حاصل کیا جائے اور پھر نئے ٹارگٹ بنائے جائیں ۔ یوں سفر کامیابی سے جاری رکھا جاسکتا ہے ۔
اپنے آپ کو انعام دیں
جب آپ کسی بری عادت سے دوررہنے میں ثابت قدم رہیں تو پھر اس ثابت قدمی پر خود کو انعام دینے میں کوئی حرج نہیں ۔ انعام کی ایک صورت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ آپ اپنی کامیابی کا چرچا دوسروں کے سامنے کریں اور اپنی ہمت کی ، اپنے ارادے کی اور اپنی قوت فیصلہ کی تھوڑی سی تعریف بھی کردیں ۔ دوسرے بھی آپ کو سراہیں گے ۔ یہ بھی انعام کی ایک صورت ہے ۔
اسی طرح جب آپ پانچ سات دن یا دوتین ہفتوں تک اپنی خوراک کو کنٹرول کرلیتے ہیں اور اس طرح زیادہ کھانے کی بری عادت سے دور ہوجاتے ہیں تو اپنے لیے ایک آدھ نئی شرٹ خرید لیں ۔ جب دوتین ہفتے اور گزر جائیں تو نئے جوتے لے لیں یانیا موبائل خریدنا بھی بری بات نہیں ۔ اس طرح آپ کو اپنی کامیابی کا احساس ہوتا رہے گا۔
ایمانداری سے کام لیں
بہت سے اتفاقات یا غلطیاں یونہی نہیں ہوتیں ۔ ان کے لیے ہمارا لاشعور کام کررہا ہوتا ہے ۔ کئی کام ہم جان بوجھ کر کرتے ہیں ، لیکن یہ بات خود سے بھی چھپالیتے ہیں اور ظاہر یوں کرتے ہیں کہ جیسے وہ محض کسی حادثے یا اتفاق کا نتیجہ ہوں ۔ گویا ہم خود کو بھی فریب دیتے ہیں ۔ مگر اس طرز عمل سے ہمیں فائدہ نہیں ہوتا ۔ ہم بالاخر گھاٹے میں رہتے ہیں ۔ مثال کے طور پر چاکلیٹ سے توبہ کرنے والا کوئی شخص ایک بڑی چاکلیٹ خریدتا ہے اور خود سے کہتا ہے ’’ یہ میں اپنے نہیں لیے بلکہ دوستوں کے لیے خرید رہا ہوں جو آج شام آنے والے ہیں ‘‘۔ یا سگریٹ نوشی ترک کرنے کا طلب گار جہاز میں بیٹھتے وقت کہتا ہے ’’ میں سگریٹ نوشی کی اجازت والے حصے میں صرف اس لیے نشست لے رہا ہوں کہ وہاں رش کم ہوتا ہے ۔ ‘‘ یہ دونوں افراد خود کو دھوکا دے رہے ہیں ۔ چنانچہ وہ جلد ہی کھلم کھلا پرانی عادت کے اسیر ہوجاتے ہیں ۔
بری عادتوں سے نجات پانے کے لیے ضروری ہے کہ آپ اپنے ساتھ ایمانداری سے پیش آئیں اور اپنے ان اعمال کے بارے میں خود کو دھوکا نہ دیں جو ترک شدہ عادتوں کے لوٹ آنے کا سبب بن سکتے ہیں ۔
بڑھتا ہوا قدم روک لیں
یہ بالکل ممکن ہے کہ آپ سگریٹ چھوڑنے میں مخلص ہوں یا واقعی شراب سے چھٹکارا چاہتے ہوں ، لیکن دوستوں کی کسی محفل میں ایک آدھ سگریٹ پی لیں یا شراب کا ایک جام چڑھاجائیں ۔ ایسا کوئی اتفاق ہوجائے تو یہ مت سوچیں کہ آپ کی تمام جدوجہد ناکام ہوگئی ہے ۔ دوتین ماہ کے وقفے کے بعد آپ نے سگریٹ پی لیا ہے یا ایک جام چڑھا لیا ہے تو یہ اچھی بات نہیں ۔ لیکن بدتر بات یہ ہے کہ آپ خود کو ناکام قرار دے کر پھر سے باقاعدہ سگریٹ یا شراب نوشی شروع کردیں ۔ اس کے بجائے اپنی غلطی کا اعتراف کریں اورآئندہ سے اس سے بچنے کا عہد کریں ۔
اس بات پر غور کریں کہ آپ نے سگریٹ کیوں سلگایا یا شراب کا جام کیوں لنڈھایا ۔ کن حالات نے آپ کو اس پر مجبور کیا ۔ کن دوستوں نے آپ کو آمادہ کیا ۔ آئندہ ان حالات میں محتاط رہنے اور ان دوستوں سے دور رہیں ۔ اس طرح آپ اپنی غلطی سے سبق سیکھ سکتے ہیں اور آئندہ اس سے محفوظ رہ سکتے ہیں ۔
اہم ترین بات اس معاملے میں یہ ہے کہ حوصلہ مت ہاریں ۔ کسی بری عادت سے نجات حاصل کرنا آسان نہیں ہے ۔ یہ خاصا مشکل کام ہے مگر ناممکن ہرگز نہیں ہے ۔ مستقل ارادہ اور ثابت قدمی سے آپ اس راہ میں حائل تمام رکاوٹیں عبور کرسکتے ہیں ۔ اچھی زندگی کے لیے یہ مشکل مراحل طے کرنا ضروری ہے ۔ ضروری نہیں کہ پہلی ہی کوشش ہی سے کامیابی مل جائے ۔ باربار کوشش کرنی چاہیئے ۔ بڑی کامیابیاں اسی طرح حاصل کی جاتی ہیں ۔
مارک ٹوئن سگار پینے کا شوقین تھا ۔ ایک باراس نے کہا تھا’’ میں جب چاہوں یہ عادت چھوڑ سکتا ہوں۔ میں پہلے ہی یہ عادت ہزار بار چھوڑ چکا ہوں۔ ‘‘ شاید آپ مارک ٹوئن کا ریکارڈ بہتر بناسکتے ہیں ۔ اس کے لیے دل جمعی سے کوشش کرنے کی ضرورت ہے ۔