تعزیت کیسے کی جائے ؟

فون کال بجلی کی طرح گری ۔’’ فرید کے والدین کل رات گاڑی کے حادثے میں جاں بحق ہوگئے ہیں‘‘ ۔
یہ کال کوئٹہ سے رضوان احمد نے کی تھی ۔ اس کو معلوم تھا کہ فرید میرا دوست ہے ۔ یہ خبر سنتے ہی میرے ہوش اڑ گئے ۔ سمجھ میں نہ آرہا تھا کہ اپنے دوست کے لیے مجھے کیا کرنا چاہئے ۔
جب کسی دوست عزیز کے خاندان میں موت کا سانحہ گزرتا ہے تو عموما یہ پرانا سوال ہمیں پریشان کر دیتا ہے ۔ اس روز جو کیفیت مجھ پر طاری ہوئی ، بہت سے لوگوں کو اس کا تجربہ ہوگا۔ ہم فیصلہ نہیں کرپاتے کہ ہمارا ردعمل کیا ہونا چاہئے ۔ اپنے احساسات کا اظہار ہمیں کس طرح کرنا چاہئے ۔
باربرا رسل کو اس سوال سے گہری دلچسپی رہی ہے ۔ اس سوال کا جواب پانے کے لیے انہوں نے بہت سے عالم فاضل لوگوں کے علاوہ بیلور یونیورسٹی کے چپلن ڈبلیو جے ومپی سے مدد لی ۔
’’ دراصل کئی لوگ اس خوف سے جامد ہوجاتے ہیں کہ ان کی زبان سے کوئی غلط بات نہ نکل جائے یا ناگوار حرکت نہ ہوجائے ومپی صاحب نے انہیں بتایا ‘‘۔
ظاہر ہے کہ جب کسی کا کوئی عزیز فوت ہوتا ہے تو ہم اپنے کسی ڈرامائی اشارے یا تعزیت کے کسی بول سے اس کے دل کا دکھ ختم نہیں کرسکتے ۔ پھر بھی ہم اس کو پہنچنے والے صدمے کی شدت کو کم کرنے میں مدد دے سکتے ہیں ۔‘‘ چنانچہ ومپی صاحب اور دوسرے جہاندیدہ صاحبان کی مدد سے باربرا رسل نے دوسروں کا دکھ بانٹنے کے طریقوں کی ایک فہرست تیار کی ہے ۔

 

موقع پر موجود رہیں
فران فلپ نیویارک میں پراپرٹی کا کام کرتی تھی ۔ گزشتہ موسم سرما میں جب کہ پراپرٹی کے کاروبار میں غیر معمولی تیزی آئی ہوئی تھی ۔ فران کی والدہ کا انتقال ہوگیا ۔ اس کی آخری رسومات نیویارک سے دور بیل ایئر کے مقام پر ادا کی جانے والی تھیں ۔ فران کی باس ہیلن کے لیے وہاں جانا مشکل تھا ۔ فران کی غیر موجودگی میں کام کا سارا بوجھ اس پر آگیا تھا۔
ہیلن کو اپنی ساتھی سے ہمدردی تھی ۔ وہ چاہتی تھی کہ فران اپنی والدہ کی تجہیزوتکفین میں شرکت کے لیے فورا بیل ایئر روانہ ہوجائے ۔ ان دنوں شدید برف باری کی پیش گوئی کی گئی تھی ۔ چنانچہ ہیلن نے فران کو سمجھایا ’’اگر تم فورا چلی جاؤ تو شاید خراب موسم سے پہلے پہنچ جاؤ‘‘۔
دو روز بعد جب فران گرجے میں رسومات ختم ہونے پر والدہ کی دوستوں سے باتیں کر رہی تھیں تو ہیلن خاموشی سے اس کے پیچھے کھڑی ہوگئی ۔ وہ شدید برفباری میں رات بھر گاڑی چلاتے ہوئے وہاں پہنچی تھی ۔’’ میںنیویارک میں کیوں رہتی ،میرا دھیاں یہاں سے ہٹتا ہی نہ تھا ۔‘‘ فران کے پوچھنے پر ہیلن نے اسے بتایا ۔
ہمارے دوست خالد کی عادت تھی کہ وہ ہمیشہ جنازوں میں شرکت کرنے سے گریز کرتا تھا ۔ وہ کہا کرتا تھ ’’ بھئی میرے جانے یا نہ جانے سے کیا فرق پڑتا ہے ، مرنے والا تو مرگیا ۔اب وہ واپس تو آنے کا نہیں ‘‘۔
اب خالد کا رویہ بالکل مختلف ہے ۔ اس کی وجہ خالد نے خود یہ بتائی ’’ جب میری والدہ کا انتقال ہوا تو میں نے دیکھا کہ میرے بہت سے دوست اپنے کام کاج چھوڑ کر جنازے میں شرکت کے لیے آئے تھے ۔ بعض دوست اور عزیز تو دوسرے شہروں سے بھی آئے تھے ۔یوں اچانک ہی مجھے احساس ہوا کہ ان کے آنے سے مجھے حوصلہ ملا ہے اور میرے دکھ کی شدت کم ہوئی ہے ۔ تب سے میں جان گیا ہوں کہ ایسے موقعوں پر ہمیں پیچھے نہیں رہنا چاہئے بلکہ اپنے دوستوں اور عزیزوں کے دکھ میں شامل ہونا چاہئے‘‘ ۔
سوگوار گھرانے میں جاکر تعزیت کرنا اور اس کے دکھ میں شریک ہونے کا اشارہ دینا بہت ضروری ہے ۔ جب میرے والد فوت ہوئے تو ان کے بہت سے دوست ، ہم بہن بھائیوں کے دوست اور دوسرے عزیزواقارب کئی روز تعزیت کے لیے آتے رہے ۔ اس واقعہ کے برسوں بعد میری ماں نے مجھ سے کہا تھا ’’ مجھے کچھ یا دنہیں کہ وہ لوگ کس طرح تعزیت کرتے تھے ۔لیکن مجھے ان کے چہرے بھولے ہیں اور نہ کبھی بھولیں گے‘‘ ۔
موقع پر پہنچ کر آپ کئی اور طریقوں سے بھی مددگار ثابت ہوسکتے ہیں ۔ نیب راسکا یونیورسٹی کے سماجی محقق جان ڈی فرین نے پانچ سو ایسے خاندانوں کی کیفیت کا مطالعہ کیا ہے جن کو خاندان کے کسی رکن کی اچانک موت کے صدمے سے دوچار ہونا پڑا تھا۔
ڈی فرین صاحب کا کہنا ہے ’’ دوسروں سے مدد مانگنا تو دور کی بات ہے ، سانحہ کی اطلاع پاتے ہی خاندان اس قدر پریشان ہوجاتے ہیں کہ ان کو کوئی سدھ بدھ نہیں رہتی ۔‘‘ یہی وجہ ہے کہ صدے سے نڈھال لوگ مدد کی پیش کش کا اکثر جواب نہیں دیتے ۔ وہ تذبذب کے عالم میں ہوتے ہیں ۔

توجہ سے سنیں
ٹیکساس کے ایک یوتھ پاسٹر جان جونز کہتے ہیں ’’ ہائی سکول گریجویشن کرنے کے ایک ماہ بعد دو لڑکے ایک حادثے میں ہلاک ہوگئے ۔ میں ان دونوں کے والدین سے ملنے گیا ۔ ان ملاقاتوں میں ہم لوگ موسم ، اپنی ملازمتوں اور ایسے ہی دوسرے غیر متعلقہ موضوعات پر گفتگو کرتے رہے ۔ ذکر نہ ہوا تو جاں بحق ہونے والے لڑکوں کا‘‘ ۔
اصل میں جونز کا خیال یہ تھا کہ اس کو غم زدہ والدین کی خلوت اور دکھ میں دخل دینے کا کوئی حق نہیں ۔ اس لیے وہ جان بوجھ کر مرنے والے کا ذکر کرنے سے کتراتا رہا۔
چند روز بعد جونز ’’ پرجوش احباب ‘‘ نامی تنظیم کے ایک سیمینار میں گیا ، یہ تنظیم امریکا کی ایک قومی تنظیم ہے جو بچوں کو موت پر والدین کو دلاسہ دینے اور ان کی مدد کرنے کا کام کرتی ہے ، سیمینار میں ایک مقررہ کہنے لگی ۔
میرا بیٹا فوت ہوگیا تھا ۔ بچے کی وفات کے بعد بہت سے لوگ تعزیت کی خاطر گھر آئے ۔ مگر وہ غیر متعلقہ باتیں کرتے رہے ۔ کسی نے بھی بچے کا ذکر نہیں کیا ۔ یوں اس کے دل میں خوف پیدا ہوا کہ تعزیت کے لیے آنے والے لوگ بچے کی باتیں کیوں نہیں کرتے ۔ اس طرح بچے کی مختصر زندگی نظرانداز ہوجائے گی ۔ اس کو بھلا دیا جائے گا ۔کوئی اس کو یاد نہیں کرے گا۔
جونز نے غم زدہ ماں کی باتیں سنیں توا س کو اپنی غلطی کا احساس ہوا ۔ اس نے جان لیا کہ جب لوگوں کو صدمہ پہنچتا ہے تو ہمیں ان کے دکھ ، ان کی زندگی میں پیدا ہونے والے خلا کے بارے میں باتیں کرنی چاہئے ۔مرنے والے کا ذکر اس کے خاندان سے ضرور کرنا چاہئے ۔ اس سے نہ تو ان کی خلوت مجروع ہوتی ہے اور نہ ہی ان کو دوسرے کی دخل اندازی کی شکایت ہوتی ہے ۔ اس کے برعکس ان کا دکھ کم ہوتا ہے ۔
چند روز بعد جونز کیمرنے والے دو لڑکوں میں سے ایک کے باپ کے ساتھ سرراہ ملاقات ہوگئی ۔ رسمی آداب کے بعد جونز نے اس سے کہا’’ سکاٹ سے میری آخری ملاقات بہت دلچسپ تھی ۔ اس کی باتیں مجھے اب بھی یاد آتی ہیں ۔‘‘ یہ سنتے ہی باپ کا چہرہ دمکنے لگا۔
’’ واقعی ، اچھا تو سکاٹ کیا کہہ رہا تھا‘‘ باپ نے بے تابی سے پوچھا۔
اس پر جونز نے مرحوم سے اپنی آخری ملاقات کی تفصیل اس کے باپ کو سنائی ۔ جونز کہتا ہے ’’ اس نے میری باتیں بڑی دلچسپی سے سنیں ۔جب میں خاموش ہوا تو وہ بولنے لگا ۔لگتا تھا کہ جیسے کسی نے فلڈ گیٹ کھول دیا ہو‘‘۔
سوگوار افراد کے ایک سروے سے معلوم ہوا کہ پچیس میں سے بیس افراد کے لیے ہمدردی اور تعزیت کے رسمی جملے بے معنی تھے ۔ بعض تو اس قسم کے جملوں کو ناگوار خیال کرتے تھے ۔
یہ رسمی جملے ہمارے ہاں بھی کثرت سے استعما ل ہوتے ہیں ۔ مثلا صبر کریں ، خدا کی مرضی یہی تھی ۔ مرحوم کی روح اب سکون سے ہوگی ۔ یا یہ کہ اللہ کے کاموں میں کس کو دخل ہے ، اللہ آپ کو صبر دے گا۔
اس قسم کے روایتی جملے کم ہی استعمال کریں ۔ یہ بھی نامناسب ہی ہے کہ جب تک آپ صدمے کے گہرے تجربے سے نہ گزرے ہوں ، یہ مت کہیں کہ ’’ میں جانتا ہوں کہ آپ کی کیفیت کیا ہے‘‘ ۔
کسی سوگوار سے بات شروع کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ آپ اس سے پوچھ لیں کہ وہ گفتگو کرنا چاہتا ہے یانہیں ۔ اگرآپ یہ سوال نہیں پوچھنا چاہتے تو پھر اپنی بات یوں شروع کریں ’’ مرحوم یا مرحومہ کے بغیر زندگی کس قدر بے کیف ہوگی ۔ آپ کس طرح یہ سب کچھ برداشت کر رہے ہیں ‘‘۔
توجہ سے سننے اور دکھ میں شریک ہونے کی ضرورت بچوں تک کو ہوتی ہے ۔
امریکا کی نیوادر یونیورسٹی کے بچوں کی دیکھ بھال کے شعبے کی ریٹائرڈ پروفیسر کیتھرائن نے اس امر پر خاص زور دیا ہے ۔
جب کیتھرائن کا والد فوت ہوا تو ان کے بیٹے مارٹن کی عمر چھ سال تھی اور بیٹی لوسی صرف تین برس کی تھی ۔ کیتھرائن نے بچوں سے ان کے باپ کے بارے میں بہت کم باتیں کیں ۔ وہ چاہتی تھی کہ گھریلو ماحول جلد سے جلد نارمل ہوجائے تاکہ بچوں کو محرومی کا احساس نہ ہوا۔
تقریبا چھ ماہ بعد ایک روز لوسی اچانک کہنے لگی ’’ ڈیڈی یہ دیکھ کر حیران ہوتے کہ میں کیسے بڑی ہوگئی ہوں ۔‘‘ مارٹن نے یہ جملہ سنا تو چھوٹی بہن کو خاموش رہنے کا اشارہ کیا ۔ ’’ پتہ ہے ڈیڈی مرچکے ہیں ہمیں ان کا ذکر بالکل نہیں کرنا چاہئے ‘‘۔
اس واقعے نے پروفیسر کیتھرائن کی آنکھیں کھول دیں ۔ اس کو معلوم ہوا کہ جو دکھ اس کے دل میں تھا ۔وہی بچوں کے دل میں تھا ۔ مگر وہ سب اپنے احساسات دبا رہے تھے ۔ یہ غلطی تھی ۔ کیتھرائن نے فورا اپنی اصلاح کی ۔ اور جذبوں کو دبانے کے بجائے وہ ایک دوسرے کے احساسات میں شریک ہونے لگے ۔ کیتھرائن کہتی ہے کہ جب ہم نے دکھ بانٹنا شروع کیا تو پھر ناقابل برداشت کو برداشت کرنے کی ہمت پیدا ہونے لگی ۔

چند سطریں لکھ بھیجیں
جولی نیب راسکا یونیورسٹی میں آنر کی طالبہ اور اپنے والدین کلارک اور جون ہڈسن کی اکلوتی بیٹی تھی ۔وہ ایک ٹرک تلے آکر مر گئی ۔
جولی کے غم زدہ والدین اپنی بیتی کے ساتھ ساتھ اس کی ایک استاد کے تعزیتی خط کو بھلا نہیں پائے ہیں ۔ دکھی ماں جون بتاتی ہے کہ جولی کی پروفیسر نے ہمیں لکھا ’’ جولی میری سٹوڈنٹ تھی ۔جماعت میں اس کی موجودگی میرے لیے خوشی کا باعث بنتی تھی ۔ وہ ہنس مکھ اور ہمدرد تھی ۔ سب لوگ اس کو پسند کرتے تھے ‘‘۔
جون کہتی ہے کہ ہمیں اس بات نے بہت دلاسا دیا کہ جولی کے استاد اور کلاس فیلوز اس کو اتنے اچھے طریقے سے یاد کرتے ہیں ۔
اس قسم کے تعزیتی خطوط میں نجی یادیں بیان ہوسکتی ہیں ۔ وہ سادہ اور مختصر ہوسکتے ہیں مثال کے طور پر ’’ میں دکھ کے ان دنوں میں آپ کے بارے میں سوچتارہتا ہوں ‘‘ یا یہ کہ میں آپ کے لیے دعا کرتا ہوں ۔
پادری فیروز قیصر نے محض یہ چند الفاظ اپنے خط میں لکھے تھے ۔’’ آپ کے لیے میری دعا بائبل کی وہ آیت ہے جو میری بچی کی وفات کے دنوں میں میرا حوصلہ بڑھایا کرتی تھی ۔ ’’ اپنے دکھ خدا کے سپرد کردو ، وہ تمہاری مدد کرے گا‘‘۔

کوئی تحفہ دیں
میری کرسٹن کی انیس سالہ بیٹی ایک ٹریفک حادثے میں ہلاک ہو ئی تو وہ نظموں کے ایک مجموعے سے تسکین حاصل کیا کرتی تھی ۔ یہ مجموعہ ایک سہیلی نے اسے دیا تھا ۔ میری کہتی ہے ’’ میری سہیلی نے ایسے شے دے کر اپنی محبت کا اظہار کیا تھا جو میرے لیے بامعنی ہوسکتی تھی ۔ ان نظموں میں میرے احساسات کو خوبصورت لفظوں کا روپ دیا گیا ہے ‘‘۔
میرے دادا جان کو پھولوں کا بہت شوق تھا ۔ وہ بڑی توجہ اور محنت سے پھول اگایا کرتے تھے ۔ ہمسائے ان پھولوں کی تعریف کرتے اور ان سے لطف اندوز ہوا کرتے تھے ۔ جب دادا جان کا انتقال ہوا تو ہمسایوں نے ان کی یاد میں ہمارے محلے کی لائبریری کو پھولوں کے بارے میں ایک کتاب عطیہ کے طورپر دی ۔ میری دادی جان عقیدت کے اس اظہار سے بہت متاثر ہوئیں ۔
باربرا رسل کا کہنا ہے کہ ان کی واقف کار کئی بیوہ خواتین کو ان کے شوہروں کی وفات پر دوستوں اور عزیزوں نے ہیلن تھیمز رالے کی کتاب دی ۔ اس کتاب میں بیواؤں کے معاملات پر روشنی ڈالی گئی ہے ۔ اس قسم کی کتابیں ہمارے ہاں بھی مل جاتی ہیں جو ایسے مواقع پر متعلقہ افراد کو دی جاسکتی ہیں ۔

دعوت دے دیجئے
کم پارکر سترہ برس کی ہوئی تو اس کی والدہ فوت ہوگئی ۔
ان ایام کو یاد کرتے ہوئے پارکر کہتی ہے ’’ یہ سانحہ میری سالگرہ سے صرف ایک ہفتہ پہلے رونما ہوا ۔ سالگرہ کے موقع پر ماں میرے ساتھ بازار جاتی اور میرے لیے سکول کے نئے کپڑے خریدا کرتی تھی ۔ میری سہیلی کیری کو اس امر کی خبر تھی ۔ چنانچہ ماں کی وفات کے بعد جب میری سالگرہ کا دن آیا تو کیری ہمارے ہاں آئی اور کہنے لگی آؤ بازار جا کر سکول کے کپڑے خرید لائیں ۔ میرے لیے ہمدردی اور دکھ بانٹنے کا یہ ایسا انداز تھا جس کو میں کبھی نہ بھول سکوں گی ۔
دعوت سے ہوتا یہ ہے کہ سوگوار فرد اپنے دکھ کے واقعہ ی طرف پیچھے دیکھتے رہنے کی بجائے آگے کی طرف دیکھنے لگتا ہے ۔ تاہم کسی سوگوار کو دعوت دیتے ہوئے احتیاط سے کام لینا چاہئے ۔ اور دیکھنا چاہئے کہ اس کی خواہش کیا ہے ۔ کیا وہ کھانے کے لیے باہر جانا چاہتا ہے یا محض گھومنے کے لیے اور یہ کہ اس کو لے جانے کے لیے کون سی جگہ مناسب ہوگی ۔
سوگوار لوگ عموما ایسی دعوتیں رد کردیتے ہیں ۔ کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ پہلے وہ دعوت قبول کر لیتے ہیں اور پھر آخری وقت پر انکار کردیتے ہیں ۔
اس کی وجہ ان کا یہ خدشہ ہے کہ دوسروں کے سامنے شاید وہ اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکیں گے ۔ ان کو یہ بھی ڈر ہوتا ہے کہ اگر انہوں نے ہنسنے کھیلنے کی کوئی بات کی تو اس سے مرنے والے کا سوگ اور احترام کم ہوجائے گااورپھر لوگ بھی کیا کہیں گے ۔ ایسے لوگوں کو ہمدردی سے سمجھانا چاہئے کہ معمول کی زندگی کی طرف واپس آنے میں کوئی برائی نہیں ۔ اس سے مرنے والوں کا احترام مجروع نہیں ہوتا ۔ ان کی یاد ہمیشہ ہمارے دلوں میں رہتی ہے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.