! جب آپ جھینپ جائیں

نازی ایک عرصے سے ماڈل بننے کی خواہش دل ہی دل میں پال رہی تھی ۔آخر کار اس کو موقع مل گیا اور موقع بھی شاندار تھا ۔ کراچی میں کام شروع کرنے والی ایک ملٹی نیشنل کمپنی نے اس کو اپنی مصنوعات کے اشتہار میں مرکزی کردار دے دیا۔ نازی خوشی سے پھولی نہیں سما رہی تھی۔ دوستوں نے پارٹی کا مطالبہ کیا تو یہ ایک معمولی بات تھی ۔ نازی فورا مان گئی ۔ دوسرے دن شام کو اس نے چند دوستوں کو گھر مدعو کرلیا ۔ ہم سب اس کے سلیقے سے سجائے ہوئے ڈرائنگ روم میں بیٹھے تھے ۔ نازی خوب چہک رہی تھی ۔ اچانک ایک دوست کھڑا ہوا اور کہنے لگا’’ نازی کو اب دیکھو کتنی سمارٹ ہوگئی ہے ۔ چار پانچ سال پہلے آپ دیکھتے تو پتہ چلتا کس قدر گوشت اس پر چڑھا ہوا تھا ۔ اس نے پورا سال محنت کرکے خود کو ایسا بنایا ہے ۔‘‘ یہ سن کر سب ہنسنے لگے ۔ لیکن چمکتی ہوئی نازی بجھ کر رہ گئی ۔ میرا دوست انور علاج کے لیے لاہور کے اتفاق ہسپتال میں داخل تھا ۔ میں تیمارداری کے لیے گیا تو اس نے ایک واقعہ سنایا ۔ وہ سردیوں کے دن تھے ۔ دوپہر کے وقت لان میں ایک نرس دو ڈاکٹروں کے پاس کرسی پر بیٹھی ہوئی تھی ۔ دونوں ڈاکٹر ایک مریض کے علاج کے متعلق باتیں کررہے تھے جس کا معاملہ خاصا پیچیدہ دکھائی دیتا تھا۔ نرس ان کی باتیں سن رہی تھی ۔اچانک اس کے ذہن میں ایک علاج آیا اور وہ کہنے لگی ’’آپ یہ علاج کیوں نہیں آزماتے ؟‘‘ یہ سن کر ایک ڈاکٹر رکھائی سے بولا ’’ اس لیے کہ ابھی پچھلے ہفتے تم نے ایک مریض کے چارٹ پر غلط انفارمیشن درج کردی تھیں ۔ نرس جھینپ کر رہ گئی‘‘ ۔ ایک اور واقعہ بھی سن لیجئے ۔ سرمد اور ان کی بیگم نینی نے اپنی شادی کی پہلی سالگرہ کی خوشی میں ہم چند دوستوں کو پرل کانٹی نینٹل ہوٹل میں ڈنر کی دعوت دے رکھی تھی ۔ سرمد صاحب اس رات کچھ زیادہ ہی اونچی پرواز کر رہے تھے ۔ وہ مسلسل ایسی باتیں کر رہے تھے جن سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ ہم سب کو مرعوب کرنے پر تلے ہوئے ہیں ۔ خیر کھانا ختم ہوا۔ باتیں بھی رک گئیں ۔ رخصت ہونے کا وقت آگیا ۔ بیرا بل لے کر آیا ۔ سرمد نے بٹوے سے نئے نئے نوٹ نکالے اور بل کے علاوہ سو سو روپے کے تین نوٹ ٹپ کے لیے بھی رکھ دیے ۔ نینی سے یہ برداشت نہ ہوا۔ اس نے فورا یہ کہتے ہوئے دو نوٹ اچک لیے کہ ’’ سروس اتنی بھی اچھی نہیں تھی ۔‘‘ سرمد کا منہ لٹک گیا ۔ زبان گنگ ہوگئی ۔ ہوٹل سے نکلتے ہوئے وہ ہم سب سے آگے تھا۔ سبھی کو کسی نہ کسی موقع پر اس قسم کے ولن سے واسطہ پڑتا ہے ۔ ایسے ولن اجنبی نہیں ہوتے ۔ دوست ، ساتھی یا محبوب ہوتے ہیں ۔ وہ سب کے سامنے چاہت کا اظہار کرتے ہیں اور اچانک ہی وہ ہماری کسی غلطی ، کوتاہی یا کمزوری کا تذکرہ کر دیتے ہیں اور ہمیں سب کی نظروں میں نکو بنا دیتے ہیں ۔ آپ ناراض ہوں تو عموما ان کا جواب یہ ہوتا ہے کہ ہماری توہین ان کا مقصود نہیں تھا ۔ وہ تو بس مذاق کر رہے تھے ۔ پھر وہ گلہ کرنے لگتے ہیں کہ ہم میں حس مزاح برائے نام بھی نہیں ۔ یا یہ کہ ہم ضرورت سے زیادہ حساس ہوگئے ہیں ۔

چکر میں نہ آئیں سیو بروڈز صاحبہ نے اس قسم کی صورت حال سے نمٹنے کے گر بتائے ہیں ۔ انہوں نے ایڈورڈ گراس کا حوالہ بھی دیا ہے ۔ یہ صاحب واشنگٹن یونیورسٹی میں سوشیالوجی کے استاد ہیں اور بیس برسوں سے ان امور کا مطالعہ کر رہے ہیں ۔ ایڈورڈ گراس کا کہنا ہے کہ دوسروں کی موجودگی میں دلائی جانے والی شرم نہ تو معمولی بات ہے اور نہ ہی اس کو محض مذاق کہہ کر ٹالا جاسکتا ہے ۔ یہ سنجیدہ معاملہ ہے ۔ اکثر لوگوں کو جب اس سے پالا پڑتا ہے تو وہ ناراض ہوجاتے ہیں ،ہکلانے لگتے ہیں یا پھر مارے شرم کے ان کے چہرے پر سرخی دوڑ جاتی ہے ۔ لیکن ان کے لیے ایک اور راہ بھی ہوتی ہے ۔ وہ خود کو قابو میں رکھ کر صورت حال کو کنٹرول کر سکتے ہیں۔ آپ کے ساتھ آئندہ یہ معاملہ پیش آئے تو زیادہ دیر جھنجلاہٹ کا شکار مت رہیں اور بار بار خود سے مت پوچھیں کہ ’’ فلاں نے میرے ساتھ یہ بے ہودگی کیوں کی ‘‘۔ بعض لوگ جان بوجھ کر اس قسم کی شرارت کرتے ہیں ۔ وہ کسی پرانی بات کا بدلہ لینا چاہتے ہیں یا لاشعوری طور پر ان کے دل میں کوئی بات ہوتی ہے ، حسد ہوتا ہے یا شاید بغض ہوتا ہے پھر وہ موقع کی تلاش میں رہتے ہیں اور جونہی موقع ملتا ہے وہ وار کردیتے ہیں ۔ لیکن دوسرے لوگ ہوتے ہی لاپرواہ ہیں ۔ ان کو کسی کے جذبات کا احساس نہیں ہوتا ۔ وہ تو بس جملہ پھینکنا چاہتے ہیں ۔ اور سوچے سمجھے بغیر پھینکتے رہتے ہیں ۔ ہمارے دوست خالد احمد شاعر ہیں ۔ لیکن ان کی شخصیت ان کی شاعری سے کہیں زیادہ متاثر کرنے والی ہے ۔ ان کا ایک جملہ ہے ’’ بعض لوگ ضائع کردیتے ہیں ،مگر جملہ ضائع نہیں کرتے ‘‘۔ ایسے لوگ ہر جگہ ہوتے ہیں ۔ تاہم فلوریڈا یونیورسٹی کے نفسیات دان باری سچلتکرکی رائے بھی سن لیں ۔ ان کے نزدیک یہ فرض کرنا مناسب نہ ہوگا کہ دوسروں کی پشیمانی کا سبب بننے والے تمام افراد کے دل میں ضرور کوئی کدورت ہوتی ہے ۔ ممکن ہے کہ ان کو احساس ہی نہ ہو کہ ان کی بات یا حرکت سے دوسروں کو ٹھیس پہنچے گی ، ان کی ہتک ہوگی اور لوگوں کو ہنسنے کا موقع ملے گا۔ جب آپ ان کی حماقت کی نشاندہی کریں تو ایسے افراد فورا معذرت کر لیتے ہیں ۔ وہ نادم ہوتے ہیں ۔ آئندہ محتاط رہنے کا عزم کرتے ہیں ۔

 

موقع کون سا ہے

اس میں شک نہیں کہ پریشان کن حادثہ سے نمٹتے ہوئے آپ کو صورت حال پر نظر رکھنی پڑتی ہے ۔ یعنی یہ دیکھنا پڑتا ہے کہ کس حال میں آپ کو کسی دوست کی وجہ سے شرمندگی اٹھانا پڑی ہے ۔ اگر آپ کا باس دفتر کے دوسرے لوگوں کی موجودگی میں آپ کو سرزنش کرچکا ہے اور دوبارہ ویسی ہی صورت حال پیدا ہورہی ہے تو پورے اعتماد کے ساتھ پرسکون رہنا چاہئے اور با س کو کہہ دینا چاہئے کہ ’’ ہم اس معاملے پر علیحدگی میں گفتگو نہیں کرسکتے ‘‘؟ اسی طرح جب شریک حیات یا کوئی بے تکلف دوست آپ کے احساسات کو ٹھیس پہنچائے تو اس پر جوابی حملہ کرنے کے بجائے اس کو جتلا دیں کہ اس کی بات آپ کو اچھی نہیں لگی اور یہ کہ اس کے بعد بھی وہ اپنی حرکت سے بعض نہ آیا تو آپ کے لیے اس پر اعتماد کرنا مشکل ہوجائے گا۔

سنجیدگی سے کام لیں جب کوئی جان بوجھ کر آپ کی توہین کرنا چاہے تو آپ کو یہ معاملہ سنجیدگی سے لینا چاہئے ۔ اس کو نظرانداز کرنا درست نہ ہوگا۔ بعض اوقات موقع پر ہی آپ کو کہہ دینا چاہئے ’’ آپ نے مجھے پشیمان کیا ہے ۔میں پوچھ سکتا ہوں کہ اس کی وجہ کیا ہے ؟‘‘ آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں ’’ معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے دل میں میرے خلاف کوئی بات ہے ۔ بھئی کہہ ڈالیے تاکہ معاملہ ٹھیک ہوجائے‘‘ ۔ یہاں تک تو ٹھیک ہے لیکن غصے سے لال پیلا ہونے کی ضرورت نہیں ۔ آپے سے باہر ہو کر آپ توہین کرنے والے کو جیتنے کا موقع دیں گے ۔ یہی تو وہ چاہتا ہے ۔ اس طرح دوسرے لوگ بھی آپ پر ہنسنے لگیں گے اور مذاق اڑانے میں شریک ہوجائیں گے ۔ اکثر اوقات اس قسم کی حرکت کا جواب کسی چھبتے ہوئے جملے یا مذاق سے دیا جاسکتا ہے ۔ اس کی ایک مثال میں نے پاک ٹی ہاؤس میں دیکھی تھی ۔ہمارے شہر کے دو ادیب میز پر آمنے سامنے بیٹھے تھے ۔ ایک نے کہا ’’ مجھے آپ کا ناول پسند آیا ہے ۔ کس نے لکھ کر دیا ہے ؟‘‘ ’’ خوشی کی بات ہے ‘‘ دوسرے نے ترکی بہ ترکی جواب دیا ’’ ناول آپ کو اچھا لگا ۔کس نے آپ کو پڑھ کر سنایا تھا۔‘‘ بلاشبہ دباؤ کی صورت حال کا بہترین مقابلہ کسی شگفتہ جملے اور حاضر جوابی سے کیا جا سکتا ہے ۔ انتقام کی بہترین صورت یہی ہے ۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.