بحران سے کیسے نمٹا جائے ؟

کسی پیارے کی موت ، طلاق ، بیماری یا ملازمت سے جواب ایسی باتیں ہیں جو ہمیشہ ہی تکلیف دہ ہوتی ہیں پھر بھی عام مشاہدے کی بات ہے کہ بعض لوگ بڑے وقار کے ساتھ ان سانحوں سے گزر جاتے ہیں ۔ آخر ان میں کون سی ایسی خوبی یا خوبیاں ہوتی ہیں جو ان دکھو ں کو ہنسی خوشی یا جرات کے ساتھ برداشت کرنے میں مدد دیتی ہیں؟ وہ ان مصائب کے منفی اثرات کا کیونکر آسانی کے ساتھ مقابلہ کر لیتے ہیں؟
ماہرین نے مسائل و مشکلات کا خندہ پیشانی کے ساتھ مقابلہ کرنے کے کئی طریقوں کی نشاندہی کی ہے ۔ چلیں ان میں سے چند کا جائزہ لیتے ہیں۔

امید پرستی فائدہ مند ہوتی ہے
عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ امید پرست لوگ یعنی حالات کے خوش گوار پہلوؤں پر نگاہ رکھنے والے لوگ سادہ لوح ہوتے ہیں ۔ ان کی نظر ، ان کی سوچ گہری نہیں ہوتی ۔وہ چیزوں کا صرف ظاہری روپ دیکھتے ہیں ۔
کئی بڑے نفسیات دانوں نے اس نقطہ نظر کو رد کیا ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ امید پرست زیادہ خوش باش ، صحت مند اور مسائل کو حل کرنے کی بہتر صلاحیت کے مالک ہوتے ہیں ۔ کسی سنگین مسئلے یا بحران کا سامنا ہونے پر وہ ہمت نہیں ہارتے اور کہتے ہیں ’’ کوئی بات نہیں ، میں اس سے نمٹ لوں گا۔‘‘
اس رجائی روئیے کی ایک مثال باب ڈل کی زندگی میں ملتی ہے ۔ ڈل ایک پلانٹ میں چھبیس سال سے ملازم چلا آرہا تھا کہ اچانک کسی وارننگ کے بغیر پلانٹ بند کردیا گیا ۔باب ڈل بیروزگار ہوگیا ۔ اس وقت اس کی عمر پینتالیس سال تھی ۔ ڈل کی بیوی اور دو بچے تھے ۔ ملازمت کی کوئی آفر اس کے پاس نہیں تھی اور نہ ہی آمدنی کا کوئی وسیلہ تھا ۔اس کی تعلیمی قابلیت صرف ہائی سکول ڈپلوما تک محدود تھی ۔
پہلے پہل ڈل کہتا ہے کہ ’’ میں ڈر ہی گیا ۔ آخر میں اس مصیبت کا سامنا کس طرح کروں گا لیکن پھر میں نے خود سے کہا کہ جو مصیبت آتی تھی وہ آچکی ۔ میں اس کو روک نہیں سکتا لہذا کوئی نئی راہ تلاش کرنا ہی پڑے گی ۔‘‘
باب ڈل کی ملازمت ختم ہونے کے چند روز بعد ایک انشورنس ایجنٹ اس سے ملنے آیا ۔ اس ملاقات کو ڈل یوں یاد کرتا ہے ’’ میں نے اس ایجنٹ سے کہا کہ میں تو بے روزگار ہوں ۔ اس نے مجھے بتایا کہ اس کی کمپنی کو سیلز مین کی ضرورت ہے ۔ لہذا مجھے اس جاب کے لیے درخواست دینی چاہئے ۔‘‘
ڈل یہ خیال آسانی سے مسترد کرسکتا تھا ۔ زندگی بھر اس نے کبھی کوئی شے فروخت نہیں کی تھی ۔ آخر وہ انشورنس کا کام کیسے کر سکتا تھا ؟ لیکن وہ پکا امید پرست تھا ۔ وہ ہر امکان کو آزمانے ، اس سے فائدہ اٹھانے پرکمر بستہ رہتا تھا ۔ چنانچہ اس نے سیلز مین شپ کے لیے درخواست دے ڈالی۔
اس ملازمت کے لیے ڈل کو دو ٹیسٹ دینے کو کہا گیا ۔ ایک تو کمپنی کا کیرئیر پروفائل تھا اور دوسرے ماہر نفسیات مارٹن سیلگ مین کا جائزہ تھا۔
سیلگ مین برسوں کی تحقیق کے بعد اس نتیجے تک پہنچ چکا تھا کہ فرد میں عمومی سطح کی صلاحیتیں موجود ہوں تو پھر اچھا سیلز مین بننے کے لیے اس کا میلان ہونا ضروری نہیں ۔ بس ارادہ یا رویہ ہی کافی ہے ۔ اچھا سیلز مین وہ ہوتا ہے جو زیادہ امید پرست ہوتاکہ جب اس کو مسلسل انکار کا سامنا ہوتو وہ حوصلہ نہ ہارے اور اپنے کام میں ڈٹا رہے۔ سیلگ مین کا کہنا تھا کہ امید پرستی ہمیں راہ میں پیش آنیوالی رکاوٹوں کو مستقل سمجھنے کی بجائے ان کو عارضی خیال کرنے کا درس دیتی ہے۔
سیلگ مین نے انشورنس کمپنی کو ایک سو سے زیادہ ایسے نئے ایجنٹ بھرتی کرنے پر آمادہ کر لیا تھا جو اس کا م کا فطری میلان تو کم ہی رکھتے تھے ،البتہ امید پرست بہت تھے ۔ اس نے کمپنی کے ڈایٔریکٹرز کوقائل کیا کہ یہ لوگ ان نئے ایجنٹوں سے زیادہ مفید ثابت ہوں گے جو اگرچہ سیلزمین بننے کا فطری میلان زیادہ رکھتے ہیں مگر امید پرست زیادہ نہیں ہیں ۔ تجربے نے سیلگ مین کی یہ بات درست ثابت کردی ۔
’’ اصل میں امید پرستوں کو یقین ہوتا ہے کہ ایک نہ ایک دن حالات ضرور اچھے ہو جائیں گے ‘‘ سیلگ مین کہا کرتا ہے ’’ چنانچہ وہ اپنا طرز عمل اس یقین کے مطابق ڈھال لیتے ہیں ۔ حالات جیسے بھی ہوں وہ حوصلہ نہیں ہارتے اور حالات کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھال لیتے ہیں ۔‘‘
باب ڈل ان ایک سو تیس نئے بھرتی ہونے والے ایجنٹوں میں شامل تھا جن کو ان کی امید پرستی کے باعث ملازمت دی گئی تھی ۔ اس کی کارکردگی اس قدر شاندار رہی کہ صرف ایک سال کے عرصے میں کمپنی نے اس کو سپر سیلز مین تسلیم کر لیا ۔ اب اس کی آمدنی گزشتہ ملازمت کے مقابلے میںدوگنی تھی ۔ کچھ عرصے بعد اس کو ایک رسالہ پڑھتے ہوئے سیلگ مین کے تجربے کا علم ہوا ۔ اپنی مخصوص امید پرستی کے ساتھ اس نے فورا سیلگ مین کو ٹیلی فون کرایا ، اپنا تعارف کروایا اور اس ماہر نفسیات کو ایک انشورنس پالیسی بھی فروخت کردی ۔

ایک وقت پر ایک قدم
بلاشبہ بعض حالات اس قدر ہول ناک ہوتے ہیں کہ ان میں امید کا چراغ ٹمٹمانے لگتا ہے ۔ان کا کوئی اچھا پہلو تلاش کرنا محال دکھائی دیتا ہے ۔ ایسے حالات میں آپ کیا کرتے ہیں ؟
آئیے ہم گریس شیفر کی مثال لیں ۔ جب وہ پینتیس برس کی تھی تو ایک روز اچانک اس کا شوہر جیری فوت ہوگیا ۔ یوں چار بیٹیوں اور فونڈرنگ کے کاروبار کا سار ا بوجھ شیفر کے ناتواںکندھوں پر آگیا ۔ وہ کہتی ہے ’’ پہلے تو رنج والم کے پہاڑ ٹوٹے پھر خوف کی لہر نے دبوچ لیا ۔ میں کاروبار کیسے چلاؤںگی ، بچوں کے منہ میں نوالاکہاں سے ڈالوں گی ؟ میں اسی فکر میں غرق رہنے لگی پھر اچانک ہی مجھے احساس ہوا کہ اس طرح سوچوں میں گم رہ کر میں اپنی توانائی ضائع کر رہی ہوں ۔‘‘
آگے چل کر وہ کہتی ہے ’’ میں نے اپنا رویہ بدلا اور کاروبار اور بچوں پرپوری توجہ دینے لگی ۔ یوں کسی اور شے کے بارے میں سوچنے کے لیے میرے پاس وقت ہی نہ رہا ۔ دوردراز کے اندیشوں کو چھوڑ کر میں روزمرہ کے مسائل پر توجہ دینے لگی ۔‘‘
ایک ماہر نفسیات این آر پین برتھی کا کہنا ہے کہ یہ طریقہ کار ہمیں بے جا اندیشوں سے نجات دلا دیتا ہے ۔ یوں ہم بیکار پریشان نہیں رہتے ۔ روزمرہ کے ٹھوس مسائل حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہمارے مصائب خودبخود کم ہونے لگتے ہیں ۔
شوہر کی موت کے بعد گریس شیفر اس اندیشے میں مبتلا ہوگئی تھی کہ شاید وہ اس سانحے سے پیدا ہونے والا خلا کبھی پر نہ کرسکے گی ۔ لہذا اس کے بچوں اور کاروبار کا کیا بنے گا لیکن جلد ہی نئے انداز زندگی کی مدد سے اس نے محسوس کیا کہ وہ حالات کا مقابلہ کرنے کی سکت رکھتی ہے ۔
ہم بھی اس طریقہ کار سے کام لے سکتے ہیں اور اپنی پریشانیاں دور کرکے زندگی کی دوڑ میں شریک ہو سکتے ہیں۔

اعتما د بحال رکھیں
ذاتی بحران کا مقابلہ کرنے کی خاطر ہمیں جو قوت مزاحمت درکار ہوتی ہے ، اعتماد اس کا لازمی حصہ ہے ۔ اگر ہم مذہب میں ایمان رکھتے ہیں تو یہ ایمان بھی ہماری قوت بن جاتا ہے ۔ چنانچہ بعض ماہرین نفسیات نے ایمان کو ڈھال کے طورپر استعمال کرنے کی تلقین کی ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ ایمان امید کو سہارا دیتا ہے ۔ جب وہ دعا مانگتے ہیں تو اس سے ہمیں مشکلات کا مقابلہ کرنے کے لیے ڈھارس ملتی ہے ۔ ہم محسوس کرتے ہیں کہ ماورائی قوتیں ہماری مدد پر آمادہ ہیں یا یہ کہ وہ ان کو مدد پر آمادہ کیا جاسکتا ہے اور ان کی مدد سے مشکلات کا سامنا کیا جاسکتا ہے۔

جائزہ لیں
پرامید ہونے کا مقصد آنکھیں بند کر لینا نہیں ۔ حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے پہلی بات یہ ہے کہ ان پر کڑی نظر رکھی جائے اور ان کو صحیح طور پر سمجھا جائے ۔ تکلیف دہ اور ناموافق حالات کو نظر انداز نہ کیا جائے ۔

ماشا ڈولنگ کے لیے اہم بات یہ تھی کہ وہ تکلیف دہ طلاق کے مقابلے میں اپنا گھر بچانے کی جدوجہد کرے ۔ دس سالہ ازدواجی زندگی کے بعد اس کا شوہر اس کو دھکے دے کر گھر سے نکالنے پر تلا ہوا تھا۔
ماشا تنہا تھی ۔ اس کے ہاتھ خالی تھے اور دکھ درد کا بوجھ بہت زیادہ تھا ۔ اس نے اپنی حالت کا جائزہ لیا اور طے کیا کہ اپنی خاطر اس کو مقابلے پر ڈٹ جانا چاہئے ۔ وہ ملازمت کرنے لگی ۔ کام میں جت گئی ۔ بے تحاشا کام ۔ صبح سے شام تک کام کرتی ۔ مالی حالات بہتر ہونے تک اس نے دم نہ لیا ۔ یوں اس نے ناگوار حالات کو قبول کرنے ،اپنی بے بسی کے آگے جھکنے سے انکار کردیا ۔ جدوجہد اس کے کام آئی اور وہ سرخرو ہوئی۔
بحران کا سامنا ہو تو اپنے وسائل پر بھی نگاہ ڈالیں ۔ عام طور پرلوگ بحران کا مقابلہ کرتے ہوئے روپے پیسے کے عملی کردار کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ وہ بھول جاتے ہیں کہ مشکل حالات میں روپے کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے ۔ اس کے ذریعے ہمارے مسائل کے حل کی کئی راہیں کھل جاتی ہیں۔ مثلا کسی بے روزگار کے پاس تھوڑے بہت وسائل ہوں تو ہر قسم کی ملازمت پر مجبور نہیں ہوتا ۔ وہ اپنی صلاحیتوں اورپسند کے مطابق روزگار تلاش کر سکتا ہے۔
دوست ، ساتھی ، ہمسائے اور عزیزواقار ب ہمیں مفید مشورے دیتے ہیں ۔ہمیں اخلاقی سپورٹ مہیا کرتے ہیں ۔ اس لیے وہ ہمارا اثاثہ ہوتے ہیں ۔ ڈاکٹر فلاچ نے اس سلسلے میں ایک اہم بات کہی ہے کہ نفسیاتی پریشانیاں کم کرنے کا سب سے موثر طریقہ کسی ایسے فرد کے ساتھ ربط بڑھانا ہے جو آپ کے مسائل سمجھتا ہو۔
مت بھولیں کہ ہمیں مشورے اور اخلاقی امداد دینے والاحلقہ احباب بدلتا رہتا ہے ۔ جب ہم ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوجاتے ہیں یا ملازمت بدلتے ہیں تو ہمارے گردوپیش رہنے والے لوگ بھی بدل جاتے ہیں ۔ جس طرح زندگی بدلتی رہتی ہے ، اسی طرح حلقہ احبا ب بھی ہمیشہ یکساں نہیں رہتے ۔

عمل پر آمادہ رہیں
جم بلٹ ایک تاجر ہیں ۔ اکتیس برس کی عمر میں اس کو شدید ہارٹ اٹیک ہوا تو اس کی دنیا اندھیر ہوگئی ۔ گہری بے بسی اور بے چارگی کے احساس نے اس کو گھیر لیا ۔ ڈاکٹروں نے تنبیہ کی کہ بلٹ نے اپنی عادتیں نہ بدلیں اور وزن کم نہ کیا تو وہ سیڑھیاں چڑھنے یا اپنے دو ننھے منے بچوں کے ساتھ کھیلنے کے قابل بھی نہیں رہے گا ۔جم کہتا ہے ’’ اس طرح لاچار ہوجانا مجھے گوارا نہ تھا ۔چنانچہ میںنے جان لیا کہ بعض تبدیلیاں لانے کا وقت آگیا ہے ۔‘‘
جم بلٹ نے پہلا کام یہ کیا کہ سگریٹ نوشی ترک کردی ۔ ساتھ ہی اس نے کافی سے توبہ کی اور پرہیزی غذا کھانی لگا ۔ کچھ عرصے بعد اس نے ڈاکٹر کے مشورے سے صبح کی سیر اور جاگنگ شروع کردی ۔ ڈیڑھ سال کے عرصے میں اس کا وزن ایک سو پچیس پونڈ کم ہوگیا ۔ اس کی صحت اس قدر اچھی ہوگئی کہ اس نے ریس کے ایک مقابلے میں بھی حصہ لیا۔
جم بلٹ صحت مند زندگی حاصل کرنے کے لیے کوئی اور طریقہ کار بھی اختیا ر کر سکتا تھا ۔ اصل میں کسی خاص طریقے سے وابستگی اتنی اہم نہیں جتنی اہم بات یہ ہے کہ ہم نئی چیزوں کو آزمانے اور وسائل کو متحرک کرنے پر آمادہ ہوں۔

بحران سے ہر کوئی فائدہ نہیں اٹھایا کرتا لیکن جو لوگ شدید بحران کا مقابلہ کرنے کے لیے خود کو بدل لیتے ہیں وہ کسی آئندہ بحران کا سامنا کرنے کی زیادہ اہلیت حاصل کر لیتے ہیں۔
گریس شیفر کی کہانی ہم نے اس با ب کے آغاز میں بیان کی تھی ۔ شوہر کی وفات کے بعد اس نے خود کو سنبھالا اور دوبارہ شادی کرلی ۔ وہ کہتی ہے ’’ شروع میں مجھے چھوٹی چھوٹی باتوں سے بھی بہت پریشانی ہوا کرتی تھی لیکن جیری کی موت کے بعد میں نے پریشان ہونا چھوڑ دیا ۔ مجھے یوں لگا جیسے شوہر کی موت جیسے بڑے سانحے سے گزرنے کے بعد مجھ میں زندگی کے دوسرے مصائب کا سامنا کرنے کی ہمت پیدا ہوگئی ہے۔‘‘

Leave A Reply

Your email address will not be published.