آپ ڈپریشن کا مقابلہ کرسکتے ہیں
ڈپریشن جدید دور کی عام پھیل جانے والی بیماریوں میں سے ایک ہے ۔ اس کی علامتوں میں بے خوابی ، ذہنی انتشار اور تھکاوٹ کے احساس سے لے کر جذباتی بے چینی اور خودکشی کے رحجانات شامل ہیں ۔ اس کو عموما زندگی کے درمیانے اور آخری برسوں کی بیماری سمجھا جاتا رہا ہے مگر اب نوجوان بھی اس کا عام شکار ہونے لگے ہیں۔
ڈپریشن کے مریضوں کی تعداد کیوں بڑھتی جارہی ہے ؟
نوجوان بھی اس کی زد میں کیوں آنے لگے ہیں؟
لاکھوں کروڑوں افراد روزگار اور کاروبار کے مواقع کی تلاش میں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے لگے ہیں ۔ اس طرح وہ اپنے خاندانوں اور دوستوں کی قربت اور سپورٹ سے محروم ہورہے ہیں۔
ڈپریشن کو دو بڑی قسموں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے ۔ ایک تو سادہ ڈپریشن ہے جو وقتی طور پر طاری ہوتا ہے اور پھر کچھ عرصے بعد فوری ختم ہو جاتاہے ۔ دوسری قسم کلینکل ڈپریشن کی ہے ۔ یہ شدید قسم کا ڈپریشن ہے ۔ماہرین اس سے محتاط رہنے کا مشورہ دیتے ہیں کیونکہ وہ خاصا اذیت ناک ہوتا ہے۔ اس کے علاج کے لیے تربیت یافتہ ماہرین کی توجہ ہفتوں درکار ہوتی ہے ۔ اگر آپ پر افسردگی کا دورہ پڑتا ہے اور اس کی کیفیت کئی ہفتوں تک قائم رہتی ہے یا اس کی شدت ناقابل برداشت ہوجاتی ہے توپھر اپنے ڈاکٹر سے رجوع کریں ۔
خیر‘ آپ خود بھی اس معاملے میں اپنی مدد کرسکتے ہیں ۔ یہاں ہم آپ کے لیے پانچ طریقے درج کر رہے ہیں ۔ یہ طریقے ڈپریشن کی بیماری کے ممتاز ماہرین کے تجویز کردہ ہیں ۔
کوئی مثبت کام کریں
پہلی بات تو یاد رکھیں کہ ڈپریشن کاہلی اور بے کاری سے پیدا ہوتا ہے ۔ جن کے پاس کرنے کو کچھ نہیں ہوتا یا جو کچھ کرنا نہیں چاہتے ، وہ ڈپریشن کی گود میں جا گرتے ہیں ۔لہذا عمل اس کا تریاق ہے ۔
ہوتا یہ ہے کہ آپ جس قدر کام سے دور بھاگیں ، اسی قدر کام سے بے زاری بڑھتی جاتی ہے ۔ لہذا نفسیاتی طب کے ایک ماہر ڈیوڈ برنر نے ڈپریشن کے علاج کا ایک طریقہ یہ تجویز کر رکھا ہے کہ ہر روز کا ایکشن پلان لکھ کر تیار کیا کریں ۔ اس میں صبح جاگنے سے رات سونے تک کے تمام پروگرام ہونے چاہئیں ۔
نہانے ، صبح کی سیر کرنے اورناشتہ کرنے جیسے روزمرہ کے معمولات بھی نظر انداز نہیں ہونے چاہئیں ۔ وجہ یہ ہے کہ ڈپریشن کی حالت میں چھوٹے چھوٹے کام بھی بڑے لگتے ہیں ۔ جو کام مشکل اور پیچیدہ ہیں ، ان کو چھوٹے چھوٹے حصوں میں بانٹ لیں ۔ یوں وہ زیادہ آسان ہوجائیں گے ۔
اچھا اگر پلان تیار کرنا ہی آپ کو وبال جان محسوس ہو تو پھر ڈاکٹر برنر کی یہ نصیحت یاد کرلیں کہ کام کو عموما خواہش سے پہلے ہونا چاہئے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہاتھ پاؤں ہلانے کے لیے آ پ کو یہ انتظار کرنے کی ضرورت نہیں کہ آپکے دل میں ہاتھ پاؤں ہلانے کی خواہش پیدا ہو۔ بس ہاتھ پاؤں ہلائیں ، اس کے بعد خواہش خود بخود پیدا ہوجائے گی ۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ جب تک آپ ڈپریشن کی زد میں رہیں گے اس وقت تک ایسی خواہش ہی پیدا نہیں ہوگی ۔ لہذا خواہش کا انتظار کرنا چھوڑئیے ۔جی نہیں چاہتا تو بھی پہلا قدم اٹھا دیجئے ۔ ممکن ہے کہ یہ قدم لمبے سفر کا آغاز بن جائے ۔
دوسروں کی مدد کریں
بہت سے ڈاکٹراپنے مریضوں کو یہ مشورہ دینے لگے ہیں کہ ایثار ، دوسروں کی مدد، بہتر صحت کا ایک راز ہے ۔ رضا کارانہ سرگرمیوں ، سماجی خدمت اور دوسروں کے کام آنے سے آپ صرف ان کے لیے مددگار ثابت نہیں ہوتے بلکہ اس سے آپ کی اپنی جسمانی ،جذباتی اور ذہنی صحت پر بھی اچھا اثر پڑتا ہے۔
نیویارک کے ماربل کالجیٹ چرچ کی ایسوسی ایٹ منسٹر فلورنس پرٹ رضاکاروں کے ساتھ کام کرتی ہیں ۔ وہ کہا کرتی ہیں کہ دوسروں کے کام آنے سے آپ خود کو ہمدرد اور غم گسار محسوس کرتے ہیں ۔ آپ خود سے کہتے ہیں ’’ دیکھا! میں بہت کچھ کرسکتا ہوں ۔ میں بے وقعت اور بے معنی وجود نہیں ہوں ۔ میری وجہ سے دوسروں کا بھلا ہوتا ہے۔‘‘
لوگوں سے دوری اور بے نیازی ڈپریشن کا ایک اہم سبب ہے ۔لہذا دوسروں کے ساتھ تعلقات بنانے ، ان کے کام آنے اور ان کی مدد کرنے سے آپ اس روگ پر قابو پاسکتے ہیں۔
خوشیاں ڈھونڈاکیجئے
ڈپریشن کا شکار ہونے والے اکثر لوگ ان مشغلوں سے بھی بے زار ہوجاتے ہیں ۔ جن سے ماضی سے وہ لطف اٹھاتے رہے ہیں ۔ یوں ان کی کیفیت زیادہ تاریک ہوجاتی ہے ۔ ڈپریشن کا بوجھ مزید بڑھ جاتا ہے۔
اس کا علاج یہ ہے کہ اپنے روزانہ کے ایجنڈے میںایسی سرگرمیاں شامل کریں جو آپ کو اچھی لگتی ہیں اورجن سے آپ لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔
یہ طریقہ کار یوجین کے اور گون ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے ماہر نفسیات پیٹر ایم لیون سوہن کا تجویز کردہ ہے ۔ سوہن صاحب کہتے ہیں کہ ڈپریشن سے محفوظ رہنے کے لیے میل جول بڑھائیں۔ سماجی تقریبات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں ۔ دوستوں اور عزیزوں سے ملیں ۔ ایسے کام شروع کریں جن سے آپ کو اپنی صلاحیتوں کا احساس ہو ،مثلا کوئی نیا کام سیکھیں ۔ نئے دوست بنائیں ۔ فلم ، موسیقی ، کھیل اور دوسری دلچسپیوں میں حصہ لیں۔
اور ہاں ‘ مسکرایا بھی کیجئے ۔ماہرین نے بہت سی تحقیق کے بعد یہ نتیجہ نکالا ہے کہ ہمارے جذبے ہمارے طرز عمل سے مرتب ہوتے ہیں۔
امریکا کی کلارک یونیورسٹی کے نفسیات کے استاد جیمز ڈی لیرڈ کا مشورہ اس سلسلے میںیہ ہے کہ جب کبھی آپ پر اداسی کا دورہ پڑے تو خود کو کمرے میں بند مت کریں۔ باہر نکلئے ، دوستوں سے ملیئے ،چہل قدمی کیجئے ۔ کسی پارک یا تھیٹرکا رخ کیجئے ۔منہ مت لٹکائیے ۔ مسکرائیے ۔
محض اتنی سی کوشش سے آپ کا موڈ بدل جائے گا۔ اس کے برخلاف آپ تیوری چڑھائے ،ہاتھ پر ہاتھ دھرے اپنے کمرے میں بند رہے تو ڈپریشن کم نہ ہوگا بلکہ بڑھتا جائے گا۔
روزانہ ورزش کریں
فوزیہ دو بچوں کی ماں ہے ۔ ڈپریشن سے بھاگنے کے لیے وہ روزانہ جاگنگ کرتی ہے ۔ وہ کہتی ہے ’’ جب میں دوڑتی ہوں تو بہتر محسوس کرنے لگتی ہوں ۔اس تبدیلی کی کوئی اور وجہ نہ ہو تو بھی یہ بات تو ہے کہ مجھے کچھ کرنے کا احساس ہوتا ہے ۔ جاگنگ سے پہلے چاہے جتنی بھی افسردگی چھائی ہو ، پارک میں جاکر دوڑنے سے میرا موڈ خوشگوار ہو جاتا ہے ۔
سائنس دان فوزیہ کے اس قول کی تائید کرتے ہیں ۔وہ کہتے ہیں کہ سیر ، جاگنگ ، پیراکی اور سائیکل چلانے جیسے جسمانی کاموں سے بدن کا بھلا ہوتا ہے اور نفسیاتی صحت بھی بہتر ہو جاتی ہے۔وہ ہمیں خوداعتمادی دیتے ہیں ۔خوش گوار تاثر پیدا کرتے ہیں اور ہماری توانائی بڑھاتے ہیں۔ ان سے ڈپریشن بڑھانے والے تناؤ اور تشویش کے اثرات ختم ہو جاتے ہیں ۔
اپنے د ن کو روشن کریں
نائلہ کامیاب مصنفہ ہے ۔ وہ رہائش کے لیے ہمیشہ روش جگہیں تلاش کرتی ہے۔ تاہم ایک موسم سرما میں اس کو رنجیدہ کرنے والی نیم تاریک جگہ پر ملازمت کرنی پڑی ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ گہری یاسیت نے اس کا دامن پکڑ لیا اور وہ وقت پر اپنا ناول مکمل نہ کر سکی ۔ اس کا موڈ خراب رہنے لگا اور اس کی صلاحیتیں پہلی جیسی درخشندہ نہ رہیں ۔
نائلہ عارضی ڈپریشن کی زد میں آگئی ۔
تحقیق نے ثابت کیا ہے کہ اس قسم کے عارضی ڈپریشن سے بچنے کے لیے روشنی بہت مددگار ہوتی ہے ۔
روشنی چاہے فطری ہو یا مصنوعی ، دونوں صورتوں میں وہ ہماری نفسیاتی حالت پر اچھا اثر ڈالتی ہے ۔ آپ بھی اس تحقیق سے فائدہ اٹھائیں ۔ اپنے گھروں میں روشنی کا بہتر انتظام کریں ۔ اپنے کمروں میں ،روشنی اور کشادگی کا تاثر دینے والے پردے ، فرنیچر اور دوسرا سازوسامان رکھیں۔واکنگ اور جاگنگ جیسی صحت مند سرگرمیاں اپنائیں جو آپ کو روشنی میں رکھتی ہیں۔