کامیاب خاندانوں کے چھ راز

’’ کیا اس زمانے میں بھی کامیاب خاندان وجود رکھتے ہیں ؟‘‘

تین برسوں تک ازدواجی اور خاندانی امور کے مشیر کی حیثیت سے لگاتار خدمت انجام دینے کے بعد ہمیں بخوبی علم ہے کہ اگرچہ ہمارے زمانے میں خاندانی زندگی مشکلات کا شکار ہے اور خاندان کا ڈھانچہ بکھرتاجارہا ہے پھربھی کامیاب خاندان موجود ہیں ۔البتہ پریشان کن بات یہ ہے کہ میڈیا خاندانی زندگی کے منفی پہلوؤں کو تو بہت نمایاں کرتا ہے مگر اس کے مثبت پہلو نظرانداز کر دئیے جاتے ہیں‘‘ ۔

جدید خاندانی زندگی پریہ تبصرہ نک سٹینٹ اور جان ڈی فرین کا ہے ۔ ان صاحبان کے بارے میں اتنا بتا دوں کہ نک سٹینٹ امریکا کی الباما یونیورسٹی میں انسانی حقوق اور خاندانی زندگی کے علوم کے پروفیسر ہیں جبکہ جان ڈی فرین صاحب نیبراسکا یونیورسٹی میں انسانی ترقی اور خانگی امور کے شعبے میں پروفیسر ہیں ۔ دونوں نے ان موضوعات پر بہت سا تحقیقی کام بھی کیا ہے جو ان کی بین الاقوامی شہرت کا سبب بنا ہے۔

ان دونوں پروفیسر صاحبان کا خیال ہے کہ خاندانی زندگی کے منفی پہلو کو زیادہ اجاگر کرنے کی وجہ غالبا یہ ہے کہ اس کے مثبت پہلو کے بارے میں معلومات بہت کم دستیاب ہیں ۔لہذا خاندانی زندگی کے مثبت پہلوؤں پر تحقیقاتی منصوبے شروع کرکے یہ کمی دور کی جا سکتی ہے ۔

انہوں نے امریکا کی پچیس ریاستوں سے شائع ہونے والے لگ بھگ پچاس اخباروں میں ایک مختصر اشتہار شائع کروایا ۔ اشتہا رمیں کہا گیا تھا ’’ اگر آپ ایک مستحکم خاندان کے رکن ہیں تو مہربانی کرکے ہمارے ساتھ رابطہ کریں ۔ ہمیں اس بارے میں تو بہت کچھ معلوم ہے کہ خاندان ناکام کیوں ہوتے ہیں ۔لیکن اب ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ خاندان کامیاب کیسے ہوتے ہیں ؟‘‘

یہ اشتہار شائع ہوا تو نک سٹینٹ اور جان ڈی فرین کو روزانہ بہت سے خطوط ملنا شروع ہوگئے۔ جن خاندانوں نے اس نوٹس کا جواب دیا تھا ،ان کو ایک سوالنا مہ بھیجا گیا اور یوں خاندانی استحکام کے امور کا تحقیقاتی منصوبہ شروع ہوا ۔ اس منصوبے میں تین ہزار سے زیادہ خاندانوں نے حصہ لیا۔
ان خاندانوں سے حاصل ہونے والی معلومات میں سب سے زیادہ حیران کن بات یہ تھی کہ اکثر نے مستحکم خاندان کے جو اسباب گنوائے تھے، ان میں چھ بنیادی صفات مشترک تھیں ۔

گویا اس منصوبے کے نتیجے میں چھ ایسی صفات سامنے آئیں جن کو کامیاب اور مستحکم خاندانوں نے اپنی کامیابی کی وجہ قرار دیا تھا۔

کمٹمنٹ

کسی خاندان کی کامیابی کی بنیادی وجہ وقت ، توانائی اور دل وجان کی سرمایہ کاری ہے ۔
اس سے مراد کمٹمنٹ ہے ۔ گویا وہی خاندان زیادہ کامیاب ہوتے ہیںجن کے ارکان خاندان کو اولین ترجیح دیتے ہیں ۔ وہ ایک دوسرے کی خوشی اور بھلائی کے پیش نظر رکھتے ہیں اور اس سلسلے میں ہرممکن تعاون کرتے ہیں ۔

ان کو خاندانی استحکام میں پورا یقین ہوتا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ خاندان پھلتا پھولتا رہے گا ۔ وہ اس کے لیے دل وجان سے محنت کرتے ہیں اور بالاخر سرخرو ہوتے ہیں ۔
مضبوط خاندانوں میں کمٹمنٹ اور جنسی وفاداری دونوں صفات ایک ساتھ موجود ہوتی ہیں ۔ ان کو اس حقیقت کا بھرپور احساس ہوتا ہے کہ ازدواجی زندگی سے باہر کوئی رومان یا افیئر خاندان کے خاتمے کا یقینی سبب ہوتا ہے ۔

نک سٹینٹ اور جان ڈی فرین کو موصول ہونے والے خطوط میں اس حقیقت کے واضح تذکرے موجود تھے ۔ چنانچہ ان میں سے ایک خط میں لکھا تھا ۔’’ افیئرز سے آپ کے جیون ساتھی کی عزت نفس کو ناقابل تلافی دھچکا پہنچتا ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ دوسرا آپ کی جگہ لے سکتا ہے‘‘ ۔
بعض دوسرے خاندانوں میں کام کاج کی زیادتی کی بنا پر کمٹمنٹ کو نقصان پہنچتا ہے ۔ اس سے مراد ایسا کام ہے جو بہت سا وقت ، توجہ اور توانائی جذب کرلیتا ہے اور فرد کے پاس اپنے خاندان کے لیے وقت بچتا ہے اور نہ ہی توجہ اور توانائی۔

ایک باپ نے اپنی بصیرت کا اظہار خط میں یوں کیا تھا’’ بعض اوقات میں محسوس کرتا ہوں کہ جو وقت میں اپنے بیوی بچوں کے ساتھ گزارتا ہوں ، وہ وقت اگر اپنے دفتر میں گزاروں تو مجھے فائدہ حاصل ہوگا لیکن یہ خیال آتے ہی میں اپنے آپ کو سمجھاتا ہوں کہ زیادہ کام کرنے سے میرا دفتری ریکارڈ بہتر ہو جائے گا۔ یہ بات اہم ہے اور مجھے اس پر توجہ دینی چاہئے مگر باپ کی حیثیت سے میرے فرائض ہرگز ایسے نہیںہیں کہ جن کو نظرانداز کیا جاسکے ۔

اگر میںبچوں کے لیے اچھا باپ ہوں تو باری آنے پر وہ بھی اچھے والدین ثابت ہوں گے ۔ پھر ایک روز ۔۔۔ جب میں اس دنیا میں نہ رہوں گا اور میری دفتری پراگرس رپورٹ کو دیمک چاٹ چکی ہوگی تو میرے پوتے یا اس کے بیٹے کو اچھا باپ محض اس لیے نصیب ہوگا کہ میں خود اچھا باپ تھا‘‘۔

مل جل کر وقت گزارنا

پندرہ سو بچوں سے پوچھا گیا کہ خوش باش خاندان کس طرح بنتا ہے تو ان میں سے کسی نے بھی روپے پیسے کا ذکر نہیں کیا ۔ نا ہی انہوں نے شاندار گھروں اور بڑی بڑی گاڑیوں کی بات کی ۔ ان کا جواب یہ تھا کہ مسرور خاندان مل جل کر وقت گزارنے اور ایک دوسرے کا خیال رکھنے سے بنتا ہے ۔

کامیاب خاندانی زندگی گزارنے والے افراد اس جواب سے متفق ہیں ۔
وہ اس پر عمل کرتے ہیں ۔ چنانچہ وہ بہت سا وقت مل جل کر گزارتے ہیں ۔ وہ مل کر کام کرتے ہیں،کھیلتے ہیں ، ہنستے ہیں ، تقریبات میں شریک ہوتے ہیں اور کھاتے پیتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ اہم بات یہ نہیں کہ ہم اکھٹے کیا کرتے ہیں ۔ اہم بات تو اکٹھے کچھ نہ کچھ کرنا ہے ۔

بہت خوب! لیکن یہاں ہم وقت کی مقدار اور کوالٹی پر بھی غور کرلیں۔

کامیاب خاندانون کو احساس ہوتا ہے کہ جو وقت وہ مل کر گزارتے ہیں ، وہ اچھی طرح گزرنا چاہئے اور اس کی مدت بھی کافی ہونی چاہئے ۔ اس وقت سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہئے ۔

نیویارک کی ایک ملازم ماں نے اپنے خط میں اطلاع دی تھی ’’ اگر میں اپنی بیٹی سے یہ کہوں کہ ویسے تو میں نے تمہارے ساتھ صرف پندرہ منٹ گزارے ہیں مگر وہ بہت ہائی کوالٹی کے منٹ تھے تو یہ بہت ہی بے ہودہ سی بات ہوگی‘‘ ۔

تعریف

انسان کی ایک بنیادی ضرورت یہ ہے کہ گردوپیش کے لوگ اس کو پسند کریں ۔ اس کو سراہیں اور اچھا سمجھیں۔

پروفیسر نک سٹینٹ اور پروفیسر جان ڈی فرین نے کامیاب خاندان کے راز جاننے کے لیے جو تحقیقی منصوبہ شروع کیا تھا ،اس کو ملنے والے اکثر خطوط میں یہ بات سامنے آئی کہ کامیاب اور مستحکم خاندانوں کے افراد ہماری توقع سے کہیں زیادہ ایک دوسرے کی قدر کرتے ہیں اور ایک دوسرے کی حوصلہ افزائی اور تعریف کرتے ہیں۔

ایک ماں نے اپنے خط میں بتایا تھا ’’ ہم میاں بیوی دونوں ہررات اپنے بچون کو گلے لگاتے ہیں اور چومتے ہیں ۔ ان سے کہتے ہیں کہ تم واقعی بہت اچھے ہو۔ ہمیں تم سے بے پناہ محبت ہے اور تم پر ناز ہے ‘‘۔

ایک جوڑے نے اپنے خط میں لکھا کہ قدردانی نے ان کی زندگی سراسر بدل دی ہے ۔ بیوی کے خط میں درج تھا ’’ شادی کے کچھ عرصہ بعد ہی ہم ایک الجھن میں پھنس گئے تھے ۔ اس کی اصل وجہ شاید ہمارے گردوپیش کے جوڑے تھے ۔ وہ اپنے آپ کو بہت مہذب سمجھتے تھے ۔ کوئی بات ان کے معیار پر پوری نہیں اترتی تھی ۔ وہ ہروقت دوسروں پر طنز کرتے تھے۔ ہم کو اندازہ ہی نہ ہوا کہ دوسروں میں نقص تلاش کرنے اور ان کو گھٹیا ثابت کرنے کی ان کی عادتیں کس طرح خاموشی سے ہمیں متاثر کررہی تھیں۔ آہستہ آہستہ ہم نے بھی لوگوں اور چیزوں کے بارے میں منفی انداز میں دیکھنا شروع کردیا‘‘۔

خدا کا شکر ہے کہ جلد ہی ہمیں غلطی کا احساس ہوگیا ۔ ہم نے اپنی روش بدل لی ۔ پھر ہم نے نئے دوست تلاش کیے اور منفی انداز فکر سے جان چھڑائی ‘‘۔

چنانچہ اب میرا خاوند کام کاج کے بعد گھر آتا ہے تو بچوں کے شور یا ان دھلے برتنوں کا گلہ نہیں کرتا ۔ وہ کہتا ہے کہ شاید تم سارا دن بچوں اور گھر کے کام کاج میں مصروف رہی ہو ۔ آج تم نے بال خوب سنوارے ہیں اور سودا سلف بھی خریدا ہے‘‘ ۔

’’

کبھی کبھی باہر کسی ناکامی سے دوچار ہو کر وہ مایوسی کے عالم میںگھر لوٹتا ہے تو میںاس کی صلاحیتوں اور کامیابیوں کی تعریف کرنے لگتی ہوں ۔ اس کو یاد دلاتی ہوں کہ اس نے اپنی محنت ، ذہانت اور دیانت سے کامیاب زندگی حاصل کی ہے ‘‘۔

’’

ہم دونوں نے اپنی محرومیوں کی بجائے کامیابیوں پر نگاہ رکھنے کا گر سیکھ لیا ہے ۔ ہم ان نعمتوں کا ذکر کرتے ہیں جو خدا نے ہمیں دے رکھی ہیں ۔ ان چیزوں کا گلہ شکوہ نہیں کرتے جو ہم حاصل نہیں کرپائے ۔

ابلاغ

ماہرین نفسیات خوب اچھی طرح جانتے ہیں کہ ابلاغ ، باہمی گفتگو اور بے تکلفی سے تعلق ناطہ مضبوط ہوتا ہے ۔ اس سے محرومی کے احساس اور اس کے ساتھ ساتھ طوفانی بحران کی راہ میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے ۔

کامیاب خاندان بھی خوب جانتے ہیں کہ اچھی بے تکلفی ایک دن میں پیدا نہیں ہوتی ۔ اس کے لیے وقت اور مشق کی ضرورت ہوتی ہے ۔

ایک باپ نے اپنے خط میں اطلاع دی تھی ’’ میں اپنے بیٹے کے ساتھ بہت سا وقت گپ شپ میں گزارتا ہوں ۔ ہم سنجیدہ موضوعات پر بھی اظہار خیال کرتے ہیں ۔ اگر میرا بیٹا میرے ساتھ ٹینس اور گاڑیوں کی بات نہیںکرسکتا تو پھر وہ منشیات اور دوسری برائیوں پر میرے سامنے زبان کیسے کھولے گا‘‘۔

اچھے ابلاغ کا مطلب غلط فہمیوں کا خاتمہ ہے ۔ کامیاب خاندانوں کے افراد ایک دوسرے کو سمجھنے کی خاص کوشش کرتے ہیں ۔ یوں غلط فہمیوں سے دامن بچاتے ہیں ۔

نیو میکسیکو کے ایک شوہر نے خط میںلکھا تھا ’’ کسی روز میری بیوی پوچھ لیتی کہ شہر میں کوئی اچھی فلم چل رہی ہے ؟ میں جان جاتا کہ وہ فلم دیکھنا چاہتی ہے‘‘۔

’’

میں اس کو شہر کے سینما گھروں میں دکھائی جانے والی فلموں کے متعلق بتاتا ،لیکن اس کو فلم دکھانے کی دعوت کبھی نہیں دیتا تھا ۔ ظاہر ہے کہ اس کا موڈ خراب ہوجاتا۔

’’

آخرکار ہم نے وتیرہ بدلا ۔اب وہ فلم دیکھنے کے لیے یہ نہیں پوچھتی کہ کیا شہر میں کوئی اچھی فلم چل رہی ہے بلکہ وہ صاف صاف کہتی ہے کہ اس کا سینما جانے کو جی چاہ رہا ہے ۔ میںکہتا ہوں۔ ضرور۔ آؤچلیں ۔

روحانی فلاح

پروفیسر نیک سٹینٹ اور پروفیسر جان ڈی فرین کو کامیاب خاندانوں نے اپنی ایک خوبی یہ بتائی کہ ان کے افراد ایک دوسرے کی روحانی صحت کا خیال رکھتے ہیں ۔ اس سے مراد محبت ، نیکی ،اچھائی ، انصاف ، مساوات ، ہمدردی ، رفاقت اور شراکت کے جذبوں کو پروان چڑھانا ہے ۔ اس کو انہوں نے روحانی فلاح کا نام دیا ہے اور بعض اس کو روحانی صحت سے تعبیر کرتے ہیں ۔ بہرحال مطلب دونوں کا ایک ہی ہے ۔

عام لوگوں کے نزدیک ہمارے روحانی جذبوں کا اظہار عبادت گاہوں میں جانے اور مذہبی رسوم ادا کرنے میں ہوتا ہے ۔تاہم اب یہ احساس عام ہورہا ہے کہ روحانیت سے مراد گردوپیش کے انسانون کا خیال رکھنا اور کسی ضابطہ اخلاق پر کاربند ہونا ہے ۔

مضبوط خاندانوں کے افراد اپنی فطرت کے روحانی پہلو کا اظہار روزمرہ کی زندگی میں کرتے ہیں ۔ وہ منافقت سے بھاگتے ہیں ۔جو کہتے ہیں وہی کرتے ہیں ۔

’’

ہمارا خاندان ‘‘ ایک شخص نے اپنے خط میں بتایا تھا ’’ چند اصولوں کو عزیز رکھتا ہے ۔ ان میں دیانت داری ،ذمہ داری اور رواداری جیسی اقدار شامل ہیں ۔‘‘

’’

ہم روزمرہ زندگی میں ان اقدار پر پوری طرح عمل کرتے ہیں ۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ میں دیانت داری کا ڈھنڈورا پیٹتا رہوں لیکن اپنی انکم ٹیکس ریٹرن میں ہیر پھیر کروں ۔ یہ کیونکر ممکن ہے کہ میں ذمہ داری کا چرچا کروں لیکن جب ہمسائے کومیری مدد کی ضرورت ہو تو منہ موڑ کر گزر جاؤں ۔ ایسا کرنے سے میں منافق بن جاؤں گا پھر صرف میں منافق نہ بنوں گا بلکہ میرے بیوی بچے بھی اسی مکروہ رنگ میں رنگے جائیں گے ۔

بحران سے نمٹنا

جان ڈی فرین نے اپنی دادی اماں کا قصہ بیان کیا ہے ۔ وہ بزرگ خاتون ایک عرصے سے شوگر کے مرض میں مبتلا تھی ۔ اس کا انتقال چھیاسی برس کی عمر میں ہوا۔

وفات سے چند روز پہلے وہ بستر پرلیٹی تھی ۔ اس کا ادھیڑ عمر بیٹا اپنی زندگی کی مصیبتوں کا اس سے ذکر کر رہا تھا۔پہلے تو وہ خاموشی سے بیٹے کی بپتا سنتی رہی ۔پھر کہنے لگی ’’ زندگی مصائب کا ہی نام ہے۔‘‘

کامیاب خاندانوں کی زندگی پھولوں کی سیج نہیں ہوتی ۔ دوسروں کی طرح ان کو بھی مصائب درپیش ہوتے ہیں ۔ ان کی امتیازی صفت البتہ یہ ہے کہ وہ پوری ہمت سے مسائل کا سامنا کرتے ہیں۔
کامیاب خاندان زندگی کے طوفانوں کا مقابلہ ایک دوسرے کی حوصلہ افزائی ، مثبت نقطہ نظر اور ایک دوسرے سے گفتگو اور روحانی وسائل سے کرتے ہیں ۔ کامیاب خاندانوں کا موثر ہتھیار یہ ہے کہ وہ ضدی اور اڑیل نہیں ہوتے ۔ ان میں لچک ہوتی ہے۔

ہارورڈ یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے والے ایک چالیس سالہ شخص کو زندگی کی تمام آسائشیں حاصل تھیں ۔ اس کا خاندان بیوی اور تین بچوں پرمشتمل تھا ۔ وہ پروفیسر اور کامیاب مصنف تھا ۔اس کی زندگی تیزی سے بسر ہورہی تھی۔
تیزی سے بسر ہونے والی یہ زندگی اور بھی زیادہ تیزی کے ساتھ بکھر گئی ۔

ایک دن پروفیسر کی بیوی نے اپنا سامان باندھا اور گھر چھوڑ کر چلی گئی ۔
پروفیسر کا بھائی بلا کا سگریٹ نوش تھا ۔ وہ گلے کے کینسر میں مبتلا تھا۔بیوی کے جانے کے چاردن بعد اس کا آپریشن ہوا اور نرخرہ نکال دیا گیا۔
’’میں نے اس کی بے چارگی دیکھی تو رونے لگا‘‘ پروفیسر نے ایک دوست کو بتایا تھا’’ پھر میںنے اپنی زندگی پرنظر ڈالی تو آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں ۔‘‘
ان واقعات کے بعد پروفیسر نے خود کو بدلنا شروع کیا ۔ اس نے بچوں کے لیے وقت نکالا ۔وہ ان کے ساتھ باتیں کرتا، کھیلتا اور ان کے مسائل حل کرتا۔

تھورے عرصے بعد اس کی روٹھی بیوی اس کے ساتھ خاندانی الجھنوں کے ماہر کے پاس جانے کے لیے رضامند ہوگئی ۔ اس کو خبر ہوگئی تھی کہ پروفیسر صاحب نیا طرز زندگی اختیار کرنے کی خاطر تگ ودو کررہے ہیں ۔

اصل میں پروفیسر صاحب نے یہ راز جان لیا تھا کہ جو تمام کامیاب خاندانوں کو معلوم ہے ۔ مضبوط خاندان وہ باغ ہے جس میں ہم آرام وسکون ، ترقی اور خوشیوں کے لیے قدم رکھتے ہیں ۔پھر مثبت زندگی سے حاصل ہونے والی توانائی اور ولولہ لے کر ہم باہر کی دنیا میں آتے ہیں۔

اس حقیقت کو ایک خاتون نے اپنے خط میں یوں بیان کیا تھا ’’ میں اپنے خاندان کو اپنا پیار سرمایہ کاری کے طور پر دیتی ہوں۔ میں جانتی ہوں کہ میری محبت میرے خاندان کے افراد کے مستقبل کے لیے، میرے اپنے مستقبل کے لیے ، ہم سب کے لیے ناگزیر ہے ۔ اس سے بہتر میں کوئی سرمایہ کاری نہیں کرسکتی ۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.