کامیابی کے راز

ڈیوڈ جے مہانوے کئی بڑی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے سربراہ رہے ہیں ۔ بیتے ہوئے ایام کو یاد کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ ایک بار وہ ریس کھیلنے جارہے تھے ۔ ان کا نیویارک کا معروف جوکی بھی ساتھ تھا ۔
مہانوے نے اس سے پوچھا’’ ڈربی میں کون سا گھوڑا تمہیں پسند ہے ؟‘‘
’’ نادرن ڈانسر ، شرط یہ ہے کہ بل ہارٹیک اس پر سوار ہو ‘‘ اس نے جواب دیا ۔
’’ خوب ، مگر فیورٹ گھوڑے کے متعلق تمہاری کیا رائے ہے ؟‘‘
وہ کہنے لگا ’’ بل رائز حوصلے کا کچا ہے ۔ البتہ ہارٹیک کا جواب نہیں ۔

پھر گھوڑوں اور جوکیوں کے تجزئیے کے بعد اس نے مہانوے کو مشورہ دیا ’’ میں تو یہی کہوں گا کہ نادرن ڈانسر پر شرط لگائیے ۔‘‘
ریس سے پہلے لوئس ویل کے مقام پر ریس کے شوقین دوستوں کی ایک محفل جمی ۔ ڈیوڈ مہانوے بھی شامل تھی ۔ وہاں سب لوگوں نے جوکی کے تجزئیے کا مذاق اڑایا ۔ انہوں نے مہانوے کو فیورٹ بل رائز گھوڑے پر شرط لگانے پر آمادہ کرلیا۔ اگلی بات مہانوے صاحب نے خود یوں بیان کی ہے ’’ آخر میں نے بل رائز پر شرط لگا دی ، کیا بتاؤں کہ پھر کیا ہوا ۔ نادرن ڈانسر تو بجلی کا پتلا نکلا ۔ اس نے سارے ریکارڈ توڑ دئیے ۔ اس پر شرط لگانے والوں کے وارے نیارے ہوگئے ۔ میں ان میں شامل نہ تھا ۔ ‘‘
مہانوے کہتا ہے ’’ اس واقعے نے مجھے ایک سبق سکھایا ۔ میں نے یہ بات پلے باندھ لی کہ صرف یہ نہیں دیکھنا چاہئے کہ مشورہ کون دے رہا ہے بلکہ ان حقائق اور تجزئیے کو بھی جانچنا چاہئے جس پر وہ مشورہ مبنی ہوتا ہے ۔ لوئس ویل کی محفل کے شرکا اگرچہ خاصے تجربہ کار تھے لیکن ان کا تجزیہ گہرا نہ تھا ، وہ صرف فیورٹ کی حمایت کر رہے تھے جو ہمیشہ ہی آسان کام ہوتا ہے ۔ ان کے برعکس جوکی فیورٹ کے چکر میں آنے کی بجائے خود اپنے ذہن سے کام لے رہا تھا ۔ اس کا ذہن آزاد تھا ۔ وہ تخلیقی انداز میں سوچ رہا تھا ۔
یہاں پہنچ کر مہانوے دم بھر کو رکتا ہے اور پھر لمبی سانس چھوڑتے ہوئے کہتا ہے ’’ میں نے زندگی میں بے شمار غلطیاں کی ہیں مگر وہ رائیگاں نہیں گئیں ۔ میں نے ان سے بہت کچھ سیکھا ہے ۔ اپنی اور دوسروں کی غلطیوں سے سیکھ کر ہی ہم اپنی دانائی میں اضافہ کرتے ہیں اور اپنے تجربے کو کارآمد بناتے ہیں ۔ ایک کہاوت ہے کہ صحیح فیصلے کرنے کی اہلیت تجربے سے ملتی ہے اور تجربے برے فیصلوں سے پیدا ہوتے ہیں ۔

اچھے مددگار بنیں
میں نے اپنی پیشہ ور زندگی کا آغاز ایک اشتہاری کمپنی میں معاون کی حیثیت سے کیا تھا ۔ میرا کام میل روم کے کام میں مدد دینا تھا ۔ میں ایک معمولی کارکن تھا لیکن میں نے اپنے آپ کو زیادہ سے زیادہ مفید بنانے کی سرتوڑ کوشش کی ۔ مدد کرنے اور فرائض ادا کرنے کا میں کوئی موقع ضائع نہ کرتا تھا ۔ پتہ ہے کیا صلہ ملا؟ صرف ساڑھے تین برسوں میں مجھے اس کمپنی کا نائب صدر بنا دیا گیا تھا۔
ضروری نہیں کہ ہم سب معاون کے طور پر ملازم رکھیں جائیں لیکن کسی ادارے کے تمام ملازم اس کے سربراہ کے معاون ہی ہوتے ہیں ۔ یہاں تک کہ ایگزیکٹو وائس پریذیڈنٹ کا کام بھی سربراہ کی مدد کرنا ہی ہوتا ہے ۔

ترقی کا ایک موثر اصول یہ ہے کہ آپ کے ادارے میں جہاں کہیں کوئی ضرورت ہو ک، اس کو پورا کرنے کے لیے آپ حوصلہ مندی سے آگے بڑھیں ۔ ہاں ‘ باس کو اپنی کارکردگی سے آگاہ بھی کرتے رہیں ۔ وہ بے خبر رہے توآپ صلے سے محروم ہو جائیں گے ۔

خوف اور لالچ کو پہچانیں
خوف اور لالچ دو عام جذبے ہیں ۔ یہ بہت زیادہ استعمال ہوتے ہیں ۔ اس حقیقت کو تسلیم نہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ حقائق کوقبول کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتے ۔
وکلا کو ہی دیکھ لیں ۔ وکیل کا کام یہ ہے کہ آپ کو خطروں کا احساس دلاتا رہے اور خوفزدہ رکھے۔ آپ کوئی مکان خریدنا چاہتے ہیں ،وہ آپ کو دیکھ بھال کر یہ قدم اٹھانے کی تلقین کرتا ہے ۔ ممکن ہے کہ اس مکان کے کاغذات درست نہ ہوں ۔ دلال جعل ساز ہو ۔اس طرح کے وسوسے پیدا کرکے وکیل اپنی افادیت جتلاتا ہے ۔ اصل میں وہ یہ پیغام دے رہا ہوتا ہے میری مدد کے بغیر جائیداد خریدنے سے آپ کئی مشکلات میں الجھ جائیں گے ۔
سٹاک بروکر کی مثال دیکھیں تو وہ صرف اس وقت کماتا ہے جب آپ کوئی رسک لیتے ہیں ۔ اس کا طریقہ واردات یہ ہے کہ آپ کا خوف کم کرے اور لالچ بڑھائے ۔ اس صورتحال میں آپ کو خود خوف پیدا کرنا ہوگا تاکہ بروکر آپ کا لالچ حد سے نہ بڑھا دے ۔
آپ ملازم ہیں تو اپنا خوف کم کیجئے ۔کیونکہ آپ فیصلہ کن اور موثر طور پر اپنے فرائض ادا نہ کرسکے تو آپ کی افادیت ختم ہوجائے گی ۔ آپ کا ٹارگٹ یہ ہونا چاہئے کہ جس قدر آپ کو باس کی ضرورت ہے، اسی قدر وہ بھی آپکی ضرورت محسوس کرے ۔

سات مہلک گناہوں سے بچیں

غرور۔۔۔ یہ آپ کو یک طرفہ راہ پر ڈال دیتا ہے ۔
طمع۔۔۔ یہ آپ کو خود سے مطمئن نہیں ہونے دیتا ۔ہروقت بے چین رکھتا ہے ۔
خودپرستی ۔۔۔ کیونکہ بہت کم لوگ اس کے نتائج سے بچ سکتے ہیں ۔
غصہ ۔۔۔ یہ آپ کی توانائی ضائع کر دیتا ہے ۔
بسیار خوری۔۔۔ کیونکہ یہ آپ کو عاجز کردیتی ہے۔
حسد۔۔۔ یہ آپ کی کمزوریاں نمایاںکرتا ہے اور آپ کو بے بس کر ڈالتا ہے ۔
کاہلی ۔ ۔۔ کیونکہ کاہل ، غیر محتاط اور غیر منظم شخص دوسروں کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔
یہ ساتوں گناہ صدیوں پرانے ہیں مگر ان کا زہر آج بھی کم نہیں ہوا۔

دوسروں کی چال کو سمجھیں
کبھی میں سمجھتا تھا کہ حریف میرے خلاف وہی داؤ چلے گا جو میں اس کے خلاف استعمال کرتا ہوں ۔یعنی وہ بھی میری طرح دھوکے بازی اور فریب کاری سے گریز کرے گالیکن میں غلطی پر تھا ۔ ماضی پر نگاہ ڈالتا ہوں تو خیال آتا ہے کہ مجھے خود کو حریفوں کی جگہ رکھ کر سوچنا چاہئے تھا ۔ تاکہ میں ان کی ممکنہ چالوں کا اندازہ کر سکتا تو پھر ان کو میدان سے ہٹانا مشکل نہ ہوتا۔
محض یہ سوچنا کافی نہیں کہ ’’ اگر میں اپنے حریف کی جگہ ہوتا تو کیا کرتا ۔‘‘ اس امر پر بھی نظر رکھنی چاہئے کہ ’’ میرا حریف جس طرح معاملے کو دیکھ رہا ہے ‘ اس کی جو عادت اور طورطریقے ہیں ‘ اس کی جو تربیت اور پس منظر ہے تو ان ساری باتوں کے حوالے سے اس کا طرز عمل کیا ہوگا۔

 

اپنانقطہ نظر بنائیں
زندگی میں آپ کو ذاتی فلسفے کی ضرورت ہے ۔ آپ کو یہ طے کرنا ہوگا کہ آپ کون ہیں ، کیا چاہتے ہیں ۔ آپ ان بنیادی سوالوں کا جواب تلاش نہیں کریں گے تو آپ کی حالت شاخ کے ٹوٹے ہوئے پتے جیسی رہے گی ۔ ہر شخص ، ہر خیال اور ہر واقعہ آپ کو اپنی طرف کھینچ لے گا۔ آپ خود کو چاروں طرف بھاگتاہوا پائیں گے ۔ آپکی کوئی سمت ہوگی اور نہ ہی منزل ۔
ہجوم میں وہی شخص نمایاں ہوتا ہے جس کی اپنی اقدار ہوتی ہیں اور جو عزت نفس کا گہرا احساس رکھتا ہے ۔

آگے وہی بڑھتا ہے جس کی کوئی سمت ہوتی ہے ۔ متضاد خیالات کا طوفان جو کئی لوگوں کو اڑا لے جاتا ہے

اور دوسرے لوگ وقتی فیشن کے سیلاب میں بہہ جاتے ہیں تو صرف وہی شخص اپنی جگہ پر ڈٹا رہتا ہے ‘ جس کے اپنے اصول ہوتے ہیں اور جو عزت نفس کا حامل ہوتا ہے ۔

 

Leave A Reply

Your email address will not be published.