توتو ، میں میں
میاں بیوی ایک ساتھ رہتے ہیں ، مگر وہ ایک دوسرے کی کاربن کاپی نہیں ہوتے ، شادی کا بندھن اور معاشرے کا رواج دو مختلف افراد کو یکجا کردیتا ہے ۔ ان کی شخصیت مختلف ہوتی ہے ، پس منظر مختلف ہوتا ہے اور پسندناپسند کے معیار بھی ہمیشہ ایک جیسے نہیں ہوتے ۔ روایتی معاشروں میں یہ ہوتا ہے کہ شادی کے بعد عورت دب جاتی ہے ۔ وہ اپنے مرد کی بالادستی کو بلاچوں چراں قبول کرلیتی تھی ۔ اس طرح اپنی ذات کی نفی کرکے وہ گھریلو جھگڑوں سے بچنا چاہتی تھی ۔ خیر، اس طرح جھگڑے بالکل ختم تو نہیں ہوتے تھے ، مگر یہ ضرورہے کہ کم ہوجاتے تھے ۔ یہ اور بات ہے کہ عورت کو اس کی بہت زیادہ قیمت ادا کرنا پڑتی تھی ۔ وہ فرد کے بجائے سایہ سا بن کر زندگی گزارنے پر مجبورہوجاتی تھی ۔
ہمارے زمانے میں حالات خاصی حد تک مختلف ہیں ۔ تعلیم، شعور اور مغربی تہذیب کے اثرات نے عورت کی غلامی کی بہت سی زنجیریں کاٹ دی ہیں ۔ وہ پہلے کی طرح بے زبان نہیں رہی ۔ معاشی مواقع تک اس کو رسائی حاصل ہوگئی ہے ۔ لہذا وہ اپنے وجود کا اعتراف کرانا چاہتی ہے ۔ خود کو منوانا چاہتی ہے ۔ سائے کے بجائے فرد کے طورپر زندگی گزارنے کی آرزومند ہے ۔
یہ اچھی بات ہے ۔ مگر سماجی اقدار کی تبدیلی کے اس عبوری دور میں ایک منفی نتیجہ بھی سامنے آیا ہے ۔ وہ یہ ہے کہ خاندانی زندگی میں ہلچل بڑھ گئی ہے ۔ میاں بیوی بدلتے ہوئے حالات کے تقاضوں سے خود کو ہم آہنگ نہیں کرپاتے ۔ان کے ہاہمی جھگڑے بڑھنے لگتے ہیں ۔ مگر یہ جھگڑے عموماًغیر ضروری اور چھوٹے موٹے ہوتے ہیں ۔
مقصود اور شمیم دونوں تعلیم یافتہ ہیں ۔ متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں ۔ ان کی شادی دونوں خاندانوں کے بزرگوں کی رضامندی سے ہوئی تھی ۔ البتہ دونوں نے ایک دوسرے کو پسند پہلے ہی کرلیا تھا ۔ شادی سے پہلے وہ کہاکرتے تھے کہ والدین نے اجازت نہ دی تو بھی وہ شادی ضرور کریں گے ۔ ان کے والدین سمجھدار ثابت ہوئے ۔ انہوںنے کوئی رکاوٹ نہ ڈالی ۔ یوں مقصود اور شمیم جیون ساتھی بن گئے ۔ اس انداز کی شادی بجائے خود روایتی سماجی اقدار کی شکست وریخت اور نئی اقدار کی تشکیل کی نشاندہی کرتی ہے ۔
پرسوں شام میں اس دوست جوڑے سے ملنے گیا ۔ ان کے ہاں جو باتیں ہوئیں، ان کی ایک جھلک آپ بھی دیکھ لیں ۔
شمیم : ’’ مقصود اور میرے درمیان تقریبا ً روز ہی توتو ، میں میں ہوجاتی ہے ۔ ہم ایک دوسرے سے الجھنے لگے ہیں ۔ کل رات کمرے کی کھڑکی خاصی بک بک کا سبب بن گئی تھی ۔ ‘‘
مقصود: یار ، یہ شمیم رات کو کھڑکی کھلی رکھنا چاہتی ہے ۔ وہ کھولتی ہے ، میں بند کردیتا ہوں ۔ وہ پھر کھول دیتی ہے ۔ تمہیں پتہ ہے کہ سرد ہوا مجھ سے برداشت نہیں ہوتی ۔ فوراً ہی چھینکیں آنے لگتی ہیں ۔ نزلہ تو گویا انتظارمیں رہتا ہے ۔ ‘‘
شمیم : ’’ نزاکت کی بھی حد ہوتی ہے ۔ یہ تو اپنے آپ کو پھول سا بچہ سمجھتے ہیں ۔ ‘‘
یہ ڈائیلاگ سن کر میں نے مقصود سے پوچھا کہ کیا اس کو معلوم ہے کہ اس کی بیوی کھڑکی کو کیوں کھلا رکھنا چاہتی ہے ؟
مقصود نے جواب دیا ۔
’’ بھئی اس کو تو ہروقت تازہ ہوا چاہیے ۔ ‘‘
شمیم خاموش نہ رہی ۔ کہنے لگی ’’ بند ہوا سے میراجی گھبراتا ہے ۔ اور کچھ نہیں تو آدمی کو تازہ ہوا ضرور ملنی چاہیے ‘‘۔
اس جملے میں طنز چھپا ہوا ہے ۔ مجھے وضاحت کی ضرورت نہیں ۔ آپ خود ہی جان گئے ہوں گے ۔ البتہ مقصود اور شمیم کے مکالمے سے میں نے محسوس کیا کہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر میاں بیوی ایسا موقف اختیار کرلیتے ہیں کہ جو بے لچک ہوتا ہے ۔ یوں سمجھوتہ ناممکن نظر آتا ہے ۔ جھگڑا رفع دفع نہیں ہوتا ۔ تکرار بڑھتی رہتی ہے ۔ دونوں اپنے آپ کو درست سمجھتے ہیں ۔ دونوں کو اپنااپنا موقف معقول لگتاہے ۔ دوسرے کی بات نامعقول لگتی ہے ۔ جب تکرار شروع ہوتی ہے تو دونوں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے پر تل جاتے ہیں ۔ ’’جیت ‘‘ چاہے جس کی بھی ہو ، تکرار کا سبب بننے والا مسئلہ جوں کا توں رہتا ہے ۔
مقصود اور شمیم کے معاملے میں یہ ہوا کہ میں نے ان دونوں کو آمنے سامنے بٹھایا اور سمجھایا کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ الجھنے اور دوسرے کو نیچا دکھانے کے بجائے بات چیت کے ذریعے اپنا مسئلہ حل کریں ۔ مجھے تعجب ہوا اور خوشی بھی کہ جس مسئلے پر وہ گزشتہ رات لڑتے رہے تھے ، وہ منٹوں میں حل ہوگیا۔ انہوں نے یہ طے کیا کہ بیڈروم کی بڑی کھڑکی تو بند رہے گی البتہ دائیں جانب کی چھوٹی کھڑکی وہ رات کو کھلی رکھا کریں گے ۔ اس طرح دونوں کو شکایت نہ رہے گی ۔ شمیم کو تازہ ہوا ملتی رہے گی اور بیڈ پر بائیں جانب سونے والے مقصود تک سرد ہوا براہ راست نہیں پہنچ پائے گی ۔
مجھے معلوم ہے کہ آپ کیا کہیں گے ۔ یہی ناں کہ یہ حل تو بہت سیدھا سادھا تھا ۔ اگر انہوں نے اس بات پر اتفاق کرلینا تھا تو تکرار کی کیا ضرورت تھی ، وہ چھوٹی کھڑکی کے ذریعے اپنا مسئلہ آسانی سے حل کرسکتے تھے ۔ مجھے آپ سے اتفاق ہے ، مگر میں آپ کی توجہ اس طرف دلانا چاہتا ہوں کہ اکثر گھریلو جھگڑے اسی نوعیت کے ہوا کرتے ہیں ۔ میاں بیوی حل کرنا چاہیں تو یونہی آسانی سے حل ڈھونڈ سکتے ہیں ۔ مگر ہوتا یہ ہے کہ وہ مسئلہ حل نہیں کرنا چاہتے ، بلکہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانا چاہتے ہیں ۔ اس لیے بات کا بتنگڑ بنالیتے ہیں ۔ خیر ، مقصود اور شمیم کی مثال سے آپ چاہیں تو سبق سیکھ سکتے ہیں ۔ جس طرح انہوں نے حل تلاش کیا ، اسی طرح آپ بھی اکثر گھریلو مسئلے حل کرسکتے ہیں اور غیر ضروری تکرار سے بچ سکتے ہیں جو عام طورپر تکلیف دہ ثابت ہوتی ہے ۔ وہ زندگی کی خوشیوں سے ہمیں محروم کردیتی ہے اور تلخیاں بھر دیتی ہے ۔
مکالمے کے ذریے ، بات چیت کے ذریعے مسائل کیسے حل کیے جائیں ؟ اس طریقہ کار سے فائدہ اٹھانے کا پہلا تقاضا یہ ہے کہ آپ اپنے ساتھی کے بارے میں یہ فرض کرنا چھوڑ دیں کہ اس کا رویہ ہمیشہ نامعقول اور غیر منطقی ہوتا ہے ، وہ ضدی ہے یا یہ کہ وہ جان بوجھ کر آپ کو تنگ کرنے کے درپے ہے ۔ دوسرا مرحلہ یہ ہے کہ میاں بیوی یہ طے کریں کہ وہ دونوں کیا چاہتے ہیں ۔ تیسر امرحلہ یہ ہے کہ دونوں کے نقطہ نظر میں پائے جانے والے فرق کا تعین کیا جائے ۔ چوتھی بات یہ ہے کہ اس فرق اور اختلاف کو ختم کرنے کے لیے جو ممکنہ حل ہیں ان کا جائزہ لیا جائے ۔ پانچواں اور آخری مرحلہ یہ ہے کہ ممکنہ حلوں میں سے ایک حل کو چن لیا جائے جو میاں بیوی دونوں کے لیے قابل قبول ہے ۔
گھریلو جھگڑوں پر آپ غور کریں تو معلوم ہوگا کہ عموماًیہ دو قسم کے ہوتے ہیں ۔ ایک قسم وہ ہے جس میں میاں بیوی کے درمیان کوئی حقیقی اختلاف نہیں ہوتا ۔ پھر بھی وہ ایک دوسرے کے ساتھ ایسے کلام کرتے ہیں اور یوں پیش آتے ہیں کہ بات آگے نہ بڑھتے ہوئے بھی تلخی پیدا کرتی چلی جاتی ہے ۔
زبیدہ اور حبیب کی مثال لے لیں ۔ زبیدہ دیکھتی ہے کہ حبیب ابھی دفتر سے واپس آیا ہے اور معمول سے قدرے زیادہ تھکا ہوا دکھائی دیتا ہے ۔ پھر بھی وہ کہتی ہے کہ ’’ تمہارا نسیم بھابھی کے گھرجانے کا ارادہ ہے ۔؟‘‘
حبیب :ہاں ، چلیں گے ۔ ‘‘
زبیدہ : ’’تمہار جی چاہ رہا ہے ؟‘‘
حبیب:(کسی قدر خفگی سے )’’کہاناں ، چلیں گے ۔ ‘‘
حبیب :’’تم مجھے تنگ کیوں کررہی ہو ؟‘‘
زبیدہ :(برہم ہوکر) ’’توبہ ہے ۔ تم تو رائی کا پہاڑ بنالیتے ہو۔ ‘‘
اس مکالمے سے یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ زبیدہ شوہرکو جھگڑنے پر آمادہ کررہی ہے ۔ جب بات نہ بنی تو گویا وہ خود ناراض ہوگئی ۔ اپنی جگہ حبیب بیوی کے سوال کا جواب دینے کے ساتھ ہی یہ مسئلہ ختم ہوجانا چاہیے تھا۔ زبیدہ چاہتی تو بات واقعی وہیں ختم ہوسکتی تھی ۔ اس نے شوہر سے پوچھا کہ آیا وہ نسیم بھابھی کے گھرجانا چاہے گا ۔ شوہر نے اس کا مختصر مگر صاف جواب دے دیا تھا ’’ہاں چلیں گے‘‘ ۔
اس جھگڑے سے بچنے کی خاطر زبیدہ پہلا سوال یوں بھی کرسکتی تھی کہ ’’تمہارا آج شام کا کیا پروگرام ہے ؟‘‘ اگر شوہر جواب دیتا کہ ’’مجھے معلوم نہیں ‘‘ توپھر وہ بات کو یوں آگے بڑھا سکتی تھی کہ ’’ تم باہر جانا چاہو گے یا گھر میں ہی رہو گے ۔ کسی کے گھر جانا پسند کروگے یا دونوں یونہی سیرسپاٹا کریں گے ؟‘‘اس طرح بیوی کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے نسیم بھابھی کے گھر (جہاں اصل میں وہ خود جانے کے لیے مری جارہی تھی ) جانے کا پروگرام بنایا جاسکتا تھا۔
ہم نے ابھی کہا تھا کہ گھریلو جھگڑے دوقسم کے ہوتے ہیں ۔ پہلی قسم میں وہ جھگڑے شامل ہیں جن میں میاں بیوی کے درمیان کوئی حقیقی اختلاف نہیں ہوتا ۔ زبیدہ اور نسیم کی یہ تکرار اس قسم کی ہے ۔ دوسری قسم کے جھگڑے وہ ہوتے ہیں جن کے پیچھے کوئی حقیقی اور اہم قسم کااختلاف کارفرما ہوتا ہے ۔ ان کا تعلق بچوں کی پال پوس، روپے پیسے ، تقسیم کار ، تفریح ، رشتے داروں اور دوسرے لوگوں سے میل ملاپ یا سیکس وغیرہ سے ہوسکتا ہے ۔ اس قسم کے جھگڑوں میں بسااوقات سمجھوتہ یا مصالحت بہت مشکل ہوجاتی ہے ، مگر ناممکن نہیں ہوا کرتی ۔ ان جھگڑوں کو دور کرنے کے لیے ارون ٹی بیک ایم ڈی نے اپنی کتاب ’’ محبت کبھی کافی نہیں ہوتی ‘‘ میں ایک طریقہ کار پیش کیا ہے ۔ بیگ صاحب نے اس کو ’’ جھگڑا ختم کرنے کی تکنیک ‘‘ کانام دیا ہے ۔ اس میں شبہ نہیں کہ میاں بیوی بہت سے باہمی جھگڑوں کو ختم کرنے کے لیے بیک صاحب کے بتائے ہوئے طریقہ کار سے مدد لے سکتے ہیں ۔ تاہم کئی جوڑے ازدواجی زندگی کو خوشگوار رکھنے اور فضول تکرار سے بچنے کی خاطر مخصوص طریقے اختیار کرتے ہیں ۔ مثال کے طور پر وہ ہرہفتے ڈنر کے لیے باہر جاتے ہیں اور کسی پرسکون ماحول میں بیٹھ کر اپنے مسائل پر اطمینان سے تبادلہ خیال کرتے ہیں ۔ اس طرح وہ دل کا غبار نکال لیتے ہیں اور ہلکے پھلکے ہوکر گھر لوٹ آتے ہیں ۔ بہرحال آپ جو بھی طریقہ کار اختیار کریں ، مندرجہ ذیل ہدایات سے آپ کو رہنمائی مل سکتی ہے ۔
جس حد تک ممکن ہو ، بات مختصر کرنی چاہیے ۔ کیا ہی اچھا ہو کہ میاں بیوی دونوں زیادہ باتیں کرنے اور شور مچانے کے بجائے صرف دو دو جملوں میں اظہار کریں ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ غیر ضروری الفاظ زبان پر نہ آئیں گے اور یاد رکھیں کہ عموماً غیر ضروری الفاظ ہی دوسرے کو غصہ دلانے والے ہوتے ہیں ۔
موضوع سے مت ہٹیں ۔ فوری طور پر جو مسئلہ درپیش ہو ۔ پہلے اس پر توجہ دیں ۔ جب فوری مسئلہ حل ہوجائے تو کشیدگی کی فضا ختم ہوجائے گی ۔ بالکل ختم نہ ہوگی تو بھی معقول حد تک خوشگوار ماحول ضرور پیدا ہوجائے گا جس میں دوسرے اور زیادہ پیچیدہ مسائل پر سلیقے سے گفتگو ممکن ہوسکے گی ۔
ایک دوسرے کی توہین کرنے یا ایک دوسرے پر الزام لگانے سے قطعی طورپر پرہیز کریں ۔ یہ جھگڑے کو طول دینے والی باتیں ہیں اور اچھی بھلی خوش گوار زندگی میں زہر گھول دیتی ہیں ۔ یہ بے فائدہ بھی ہیں ۔ لہذا ان میں الجھنے اور ایک دوسرے کو طیش دلانے کے بجائے یہ وطیرہ اپنانا چاہیے کہ جو حقیقی مسئلہ ہے ، اس پر توجہ دی جائے اور اس کو حل کرنے کی کوشش کی جائے ۔
میاں بیوی اپنا جھگڑا ختم کرنے کے لیے مل بیٹھیں توانہیں ایک دوسرے پر لیبل نہیں لگانے چاہیے ۔ اس سے مراد یہ ہے کہ ایک دوسرے کو ــ’’ ضدی ، ہٹ دھرم ، کاہل ، بے حس ‘‘ وغیرہ قرار نہیں دینا چاہیے ۔ پہلے تو اس قسم کے لیبل بہت ہی عمومی قسم کے ہوتے ہیں اور دوسرے ان میں حقیقت سے زیادہ مبالغہ آرائی شامل ہوتی ہے ۔ کشیدہ ماحول میں یہ لیبل اشتعال انگیز ثابت ہوتے ہیں ۔ یوں سمجھیں کہ وہ جلتی پر تیل کا کام کرتے ہیں تو پھر ان کو استعمال کرنے کا فائدہ ہی کیا ۔کیوں ناں ان سے گریز کیا جائے ۔
’’ہمیشہ ‘‘ اور ’’ کبھی نہیں ‘‘ جیسے الفاظ بھی لیبل کا رول ادا کرتے ہیں اور کشیدہ صورت حال میں اشتعال انگیز ثابت ہوتے ہیں ۔ ممکن ہے کہ بیوی کو یہ شکایت ہو کہ میاں نے گزشتہ ایک سال میں دوبار اس کی تفریح کے لیے باہر جانے کی بات نہ مانی تھی ۔ مگر جب وپہ اس کو یوں بیان کرے گی ’’ تم کبھی مجھے باہر نہیں لے جاتے ‘‘ تو ناصرف یہ بات حقیقت کے خلاف ہوگی بلکہ شوہر کو غصہ بھی دلائے گی ۔ شاید اس کا جواب یہ ہوگا ’’ ہاں ٹھیک ہے ، آئندہ بھی کبھی نہیں لے کر جاؤں گا ۔‘‘آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ اس مکالمے سے دونوں میں تلخی کم نہیں ہوگی ، بڑھ ضرور جائے گی ۔
معاملات کو منفی رنگ دینے کے بجائے مثبت رنگ دینا چاہیے ۔ اس سے زندگی زیادہ خوش گوار ہوجاتی ہے ۔ بہت سی بیویوں کو شکایت ہوتی ہے کہ گھر کے کام کاج میں مرد ہاتھ نہیں بٹاتے ۔ جب بیوی اپنی اس شکایت کا اظہار یوں کرے گی ’’ گھر کے کام کاج میں تم کبھی میری مدد نہیں کرتے ‘‘ تو شاید شوہر کیپاس بھی کوئی جلاکٹا جواب موجود ہوگا ۔ اس کے بجائے اگر وہ یہ کہے ’’ آج تم فارغ ہو توگھر کے کام میں میری مدد کردو ۔‘‘ تو شوہر کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگا کہ وہ بیوی کا ہاتھ بٹائے ۔
شریک حیات کی نیت پر شک نہ کریں ۔ شکوک وشبہات زندگی کے ہرشعبے میں منفی رول ادا کرتے ہیں ۔ وہ تلخیاں اور بے بنیاد وسوسے پیدا کرکے ہنستی کھیلتی زندگی کو روگ بنادیتے ہیں ۔ ازدواجی زندگی کے لیے تو وہ زہر قاتل سے کم نہیں ہیں ، لہذا ان سے دور رہنا ہی اچھا ہے ۔
منفی بیانات کو رد کردیں
جب آپ کا ساتھی ناراض ہو یا اس کو شدید قسم کی شکایت ہو تو ایسے میں فطری سی بات ہے کہ وہ اپنے مسئلے کو بڑھا چڑھا کر بیان کرے گا ۔ اس لیے بات کو بڑھنے سے روکنے کی خاطر ، اس کی جلی کٹی باتوں اور طعنوں پر ساری توجہ مرکوز کرنے کے بجائے اس کی ناراضگی یا غصے کا حقیقی سبب تلاش کریں ۔
ساتھی کی شکایت پر ہمدردی سے توجہ دیں
بسااوقات ہوتا یہ ہے کہ ایک فریق اپنی شکایت کے معاملے میں بہت سنجیدہ ہوتا ہے جبکہ دوسرا اس کو نظرانداز کرنے پر تلا ہوتا ہے یا اس کو شکایت میں کوئی سنجیدہ عنصر ہی محسوس نہیں ہوتا ۔ یہ رویہ پہلے فریق کے لیے تکلیف دہ ہوتا ہے اور وہ دوسرے کو صورت حال کی سنجیدگی کا یقین دلانے کے لیے مبالغہ آرائی پر اتر آتا ہے ۔ لہذا معاملے کو یہاں تک بڑھنے ہی کیوں دیا جائے ۔ کیوں ناں اس کو پہلے مرحلے میں ہی روک لیا جائے ۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ جب آپ کا ساتھی کوئی شکایت کرے تو اس کا نقطہ نظر سمجھنے کی کوشش کریں ۔ خود کو اس کی جگہ رکھیں اور اگر کوئی نکتہ آپ کی سمجھ میں نہیں آرہاتو نرم لفظوں میں اس کی وضاحت طلب کریں ۔ جب ساتھی کوئی عمومی سی بات کہہ دے ، مثلاً وہ یہ کہے کہ آپ کبھی وعدہ پورا نہیں کرتے ۔ تو اس پر لڑنے جھگڑنے کے بجائے اس سے پوچھیں کہ یہ بات اس نے کس بنیاد پر کہی ہے ۔
اگر آپ محسوس کریں کہ شریک حیات نے آپ کے کسی ارادے یا مقصد کو صحیح طورپر نہیں سمجھا ہے ، بلکہ کوئی غلط فہمی اس بارے میں پیدا ہوگئی ہے ، تو الجھنے کے بجائے وضاحت کردیں ۔ معاملہ وہیں ختم ہوجائے گا۔
معذرت کرنے سے نہ کترائیں
جب آپ کے کسی فعل سے شریک حیات کو رنج پہنچتا ہے یا کسی طرزعمل سے شکایت پیدا ہوتی ہے تو فوراً معذرت کرلیں ۔ اس میں شرمندگی کی کوئی بات نہیں ۔ معذرت بھی اصل میں محبت کا حصہ ہے ۔
میاں بیوی کے درمیان جب ہم آہنگی بڑھ جائے ۔ جب وہ سچے معنوں میں ایک دوسرے کے جیون ساتھی بن جائیں تو پھر وہ ایک دوسرے کی کمزوریاں اور کوتاہیاں نہیں ڈھونڈتے ۔ ایک دوسرے کی خامیوں پر نظر نہیں رکھتے اور نہ ہی ایک دوسرے کو شک وشبہ کی نظر سے دیکھتے ہیں ۔ تب ان کی توجہ اس امر پر رہتی ہے کہ وہ مل کر کیا کچھ حاصل کرسکتے ہیں ،اپنی زندگی کو ، اپنے بال بچوں کی زندگی کو ، دوستوں ، عزیزوں اور یہاں تک کہ اردگرد کے لوگوں کی زندگی کو کس طرح زیادہ خوبصورت ، زیادہ تخلیقی اور زیادہ مسرت انگیز بنا سکتے ہیں ۔ وہ اپنی جھولی خوشیوں سے بھرتے ہیں ، لیکن خوشیوں اپنے تک محدود نہیں رکھتے ۔ ان کو بانٹتے ہیں ۔ یہ بات تو آپ کو معلوم ہی ہوگی کہ خوشی اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں میں سے ایک ہے کہ جس کو جتنا بانٹو ، اتنی ہی بڑھتی ہے ۔
ازدواجی زندگی کو خوش گوار وہ جوڑے بناتے ہیں جو ایک دوسرے کے خلاف اپنی شکایتوں کو فرمائش یا درخواست میں بدلنے کا فن سیکھ لیتے ہیں ۔ چنانچہ بیوی سے یہ کہنے کی کیا ضرورت ہے ’’ تم میرے ساتھ سیدھے منہ بات ہی نہیں کرتی ہو ۔ اس کے بجائے کبھی یہ بھی کہہ کر دیکھیں ’’ کیا ہمیں تھوڑاسا وقت ایک دوسرے کے ساتھ باتیں کرنے کے لیے نہیں رکھنا چاہیے یا کسی شام باہر جا کر ڈنر نہیں کرنا چاہیے ۔‘‘ یقین مانیں ان لفظوں میں جادو ہے ۔ پلک جھپکتے ہی گھر کا سارا ماحول بدل دیں گے ۔
فرمائش کرتے ہوئے طنزیہ اشاروں سے گریز کریں ۔ طنز سات پردوں میں چھپاہو تو بھی نشانہ بننے والا اس کو محسوس کرہی لیتا ہے ۔ مثلاً طنزیہ انداز میں بیوی کہتی ہے ’’ میں روز کہتی ہوں کہ شام کے وقت کوڑا کرکٹ ہی باہر پھینک آیا کرو ، مگر تمہیں اپنے کاموں سے فرصت ملے تو تب ہے ناں !‘‘ یاد رکھیں کہ ایسی پوشیدہ ضربوں کے ذریعے مقصد حاصل نہیں ہوتا۔
ایسے جملے استعمال کرنا سیکھیں جن میں ’’ تم ‘‘ کے بجائے ’’ میں ‘‘ استعمال ہوتا ہو ۔ یہ دو جملے دیکھیں ۔
’’مجھے تمہارے اس طرح دروازہ بند کرنے سے پریشانی ہوتی ہے ‘‘
’’ تم ہمیشہ اس طرح دروازہ بند کرکے مجھے پریشان کرتی ہو ۔ ‘‘
آپ نے محسو س کرلیا ہوگا کہ پہلے جملے میں دوسرے کے مقابلے میں کاٹ کم ہے ۔
باہمی تضادات پر توجہ مرکوز رکھنے کا ایک نقصان یہ بھی ہے کہ ازدواجی زندگی کے مثبت پہلو نظرانداز ہوجاتے ہیں ۔ لہذا میاں بیوی کو اپنی مشترکہ زندگی کے مثبت پہلوؤں کا ذکر کرتے رہنا چاہیے ۔
ازدواجی زندگی کی الجھنیں دور کرنے میں مدد دینے والے ایک سائیکالوجسٹ کا کہنا ہے ’’ میں جوڑوں کو اکثر اوقات ہدایت کرتا ہوں کہ وہ ہرہفتے انے شریک حیات کی ان باتوں کو لکھ لیا کریں جو ان کو اچھی لگتی ہیں اور ان کو خوشی دیتی ہیں ۔ ایک سیشن میں کرن نے مجھے بتایا ’’ منگل کو جب میں دھلے ہوئے کپڑے تہہ کررہی تھی تو نواز کمرے میں آیا اور میرے ساتھ باتیں کرنے لگا ۔ یوں کپڑوں کے ڈھیر کو سلیقے سے تہہ کرنے کی ساری بوریت ختم ہوگئی ۔ نواز نے یہ بھی کہا کہ شام کو ہم پارک کی سیر کرنے جائیں گے ۔ سیر کرنا میرا محبوب مشغلہ ہے ۔ مجھے اس سے بہت خوشی ہوتی ہے ۔ لہذا نواز کی پیش کش پر مجھے دلی خوشی ہوئی ۔ دوسرے روز میں دفتر سے آئی تو دفتر میں کام کی زیادتی سے کچھ پریشان سی تھی ۔ نواز کا رویہ اس روز بھی بہت ہمدردانہ تھا ۔ تاہم مجھے اس نے یہ نہیں بتایا کہ مجھے کیا کرنا چاہیے ‘‘۔
’’ گزشتہ ہفتے کی اچھی باتوں کی فہرست نواز نے بھی تیار کررکھی تھی ۔ بظاہراس کی فہرست بھی ایسی ہی چھوٹی چھوٹی باتوں پر مشتمل تھی ۔ مگر ازدواجی زندگی میں چھوٹی چھوٹی باتیں بہت اہم ہوا کرتی ہیں ۔ اس نے مجھے بتایا کہ کرن سوموار کو میرا میلا سوٹ ڈرائی کلینر کے پاس لے گئی ۔ منگل کے دن کاروباری معاملات نے مجھے مضمحل کردیا تھا۔ کرن نے شام کو ایک مشترکہ دوست کے گھر جانے کی تجویز پیش کی ۔ ہم دونوں وہاں گئے اور کتنی ہی دیر گپیں مارتے رہے ۔ رات کو واپس آئے تو میرا موڈ یکسر بدل چکا تھا ۔ میں خوش باش اور تازہ دم محسوس کررہا تھا۔ ‘‘
’’ یہ سب چھوٹی چھوٹی باتیں ، لیکن زندگی کو خوش گوار بنادیتی ہیں ۔ چنانچہ خود کرن کا کہنا تھا کہ باتیں تحفوں کی طرح ہیں ۔ ‘‘
خوش گوار زندگی بسرکرنے والے جوڑے ایک دوسرے کی مخصوص ذاتی خصوصیات کو قبول کرنے کا فن سیکھ لیتے ہیں ۔ پھر جب وہ زندگی کے ماہ و سال ہاتھوں میں ہاتھ دیئے گزارتے ہیں توان کی عادتیں بھی ایک جیسی ہوجاتی ہیں ۔ ان کی ترجیحات آپس میں مل جاتی ہیں ۔ وہ اپنی انفرادیت برقرار رکھتے ہوئے بھی صحیح معنوں میں جیون ساتھی بن جاتے ہیں ۔