مشکل لوگوں سے کیسے نمٹا جائے ؟
نازیہ نے یہ قصہ مجھے چند دن پہلے سنایا تھا۔
وہ اپنے پیشہ ورانہ فرائض کے سلسلے میں ایک غیر ملکی سفارت خانے کی تقریب میں شرکت کے لیے اسلام آباد گئی تھی ۔ ہوائی اڈے پراتری تو بارش ہورہی تھی ۔ صبح کا وقت تھا اور رش زیادہ تھا۔ طیارے نے مقررہ وقت سے تیس منٹ زیادہ لے لیے تھے اور وہ وقت پر سفارت خانے پہنچاچاہتی تھی ۔ نازیہ نے ٹیکسی لی اور منزل مقصود تک جلدی پہنچنے کی خاطر اس نے ٹیکسی ڈرائیور کو معمول سے ہٹ کر ایک روٹ اختیار کرنے کو کہا ۔ اتنی سی بات پر وہ بوڑھا پٹھان بپھر گیا ’’ بی بی میں پندرہ برسوں سے اس شہر میں ٹیکسی چلارہا ہوں ۔ تمہارا کیا خیال ہے کہ مجھے راستوں کو علم نہیں ‘‘۔
نازیہ نے سمجھانا چاہا کہ وہ اس کو ناراض نہیں کرنا چاہتی تھی ۔ نہ ہی اس کو ڈرائیور کی مہارت پر شبہ تھا ۔ اس نے تو یونہی وقت بچانے کی خاطر نیا راستہ تجویز کیا تھا۔ مگر وہ بڑبڑاتا رہا ۔ نازیہ جان گئی کہ ڈرائیور اس قدر ڈسٹرب ہوگیا ہے کہ کوئی معقول بات اس کو مطمئن نہ کرسکے گی ۔ چنانچہ وہ کہنے لگی ’’ ہاں تم ٹھیک کہتے ہو ۔ غلطی میری ہے ۔ تم سے زیادہ ان راستوں کو کون جانتا ہے‘‘ ۔
ٹیکسی ڈرائیور کا رویہ یکم بدل گیا ۔ اس نے پیچھے کا منظر دینے والے آئینے سے نازیہ پر ایک نگاہ ڈالی اور فوراًہی اس کے بتائے ہوئے راستے کی طرف مڑ گیا ۔ ’’ سفارت خانے تک پہنچنے میں ٹیکسی کو پچیس منٹ لگے ، مگر سارے راستے میں ڈرائیور نے منہ سے ایک لفظ بھی نہ نکالا ۔ نازیہ نے مجھے بتایا ’’ منزل پر پہنچ کر میں نے اس کو کرایہ دیا تو اس نے میرا شکریہ ادا کیا ۔ ہمارے شہروں میں ایک انہونی سی بات تھی ۔ میں جان گئی کہ شکریہ ادا کرنے کا مطلب ہے کہ اس کے دل میں کوئی ناراضگی نہیں رہی ‘‘۔
زندگی میں اس ٹیکسی ڈرائیور جیسے لوگوں سے ہمارا پالا پڑتا رہتا ہے ۔ وہ کہیں نہ کہیں ہمارے مقابل آکھڑے ہوتے ہیں ۔ ان کا نامعقول رویہ دیکھ کر اکثر اوقات ہمارے دل میں خواہش پیدا ہوتی ہے کہ ان کو راہ راست پر لائیں ۔ دلائل سے ان کو رویے کی کجی واضح کریں اور قائل کرکے چھوڑیں۔ نامعقول رویے کے مقابلے میں اس قسم کے طرزعمل کو معقول قرار دینا مشکل نہیں اور شاید آپ بھی اس کو معقول ہی سمجھ رہے ہوں گے ۔ مگر اس قسم کے جوابی طرزعمل سے بات عموماًبننے کے بجائے بگڑ جاتی ہے ۔ غیر ضروری دلیل بازیاں شروع ہوجاتی ہیں ۔ دوستیوں میں رخنہ آجاتا ہے ۔ گھریلو زندگی میں بدمزگی پیدا ہوجاتی ہے اور ماحول تلخ ہوجاتا ہے ۔
ایک امریکی ماہر نفسیات ڈیوڈ ڈی برنز نے اس مسئلے پر خصوصی غوروفکر کیا ہے ۔ اس نے اپنے مطالعے ، غوروفکر ، مشاہدے اور اپنے مریضوں سے حاصل ہونے والے تجربے کی بنا پر ایک سادہ سا اصول وضع کیا ہے جس کو اختیار کرکے ہم ان لوگوں سے آسانی کے ساتھ نمٹ سکتے ہیں جن کو مشکل افراد کہا جاتا ہے ۔برنز کا کہنا ہے کہ اس اصول پر عمل کرکے ہم دوسروں کے ساتھ تضادات سے بچ سکتے ہیں اور ناپسندیدہ صورت حال کو مزید بگڑنے سے بچاسکتے ہیں ۔
برنز کا سیدھا سادھا اصول یہ ہے کہ کسی دوسرے فرد کے ساتھ اختلاف یا تصادم کی صورت میں آپ ایک پل رک کر خود کو اس دوسرے فرد کی جگہ رکھیں ، اس کے احساسات کو ہمدردی سے سمجھنے کی کوشش کریں اور وہ جو کچھ کہہ رہا ہے ، اس میں سچائی تلاش کریں ۔ اس سارے عمل میں اس کے ساتھ اتفاق کرنے کی کوئی راہ بھی ڈھونڈیں ۔ یہ ہے برنز کا اصول ۔ آپ اس پر عمل کریں تو اس کے نتائج حیرت انگیز ہوسکتے ہیں ۔
چڑچڑے لوگ
فرید کا چودہ سالہ بیٹا حفیظ کئی دنوں سے جلا بھنا نظر آرہا تھا۔ فرید نے سبب پوچھا تو اس کا جواب تھا ’’ کوئی بات نہیں ، مجھے تنگ نہ کریں ۔‘‘ یہ کہہ کر وہ اپنے کمرے میں چلاگیا ۔
اس قسم کے لوگ ہمارے جانے پہچانے ہیں ، کیونکہ معاشرے میں ان کی کمی نہیں ۔ شاید ہرگھرانے میں ایک آدھ ایسا فرد مل جاتاہے ۔ جب ان کے ساتھ کوئی مسئلہ ہوتا ہے تو وہ منہ بسوڑتے ہیں ، خفاخفا رہتے ہیں ، روٹھے ہوئے نظر آتے ہیں ، مگر زبان سے کچھ نہیں کہتے ۔ ان سے بات کرنے کی کوشش کی جائے تو بھی کچھ نہیں بتاتے ۔
توپھر حل کیا ہے ؟ بات فرید اور اس کے بیٹے حفیظ سے ہی شروع کرتے ہیں ۔ فرید کو حفیظ سے پہلے یہ پوچھنا چاہیے کہ وہ بولتا کیوں نہیں ۔ وہ کسی بات پر ناراض ہے تواس کا ذکر کیوں نہیں کرتا۔ ہوسکتا ہے کہ گھر میں کوئی بات نہ ہوئی ہو اور حفیظ کے ساتھ کوئی مسئلہ سکول میں پیدا ہواہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اس کو باپ کی کوئی بات پسند نہ آئی ہویا اس کے کسی رویے پر وہ نالاں ہو ، مگراس خوف سے خاموش ہوکہ اگر اس نے وہ بات کہہ دی تو فرید کو اچھی نہ لگے گی ۔ یوں معاملہ اور بگڑ جائے گا ۔ لہذا جب باپ بیٹے کا دوبارہ آمنا سامنا ہو تو فرید کو ان امکانات کا پیچھا یہ کہہ کر کرنا چاہیے ’’ میں دیکھ رہا ہوں کہ تم پریشان ہو۔ میرا خیال ہے کہ اگرہم کھل کر بات کریں تو مسئلہ حل کرنے میں تمہیں مدد ملے گی۔ تمہاری پریشانی دورہوجائے گی اور میں یہی چاہتا ہوں۔ شاید یہ بات تمہارے لیے آسان نہیں کیونکہ میں تمہارے ساتھ کھل کر بات کرنے سے گریز کرتا رہا ہوں ۔ تمہیں یہ رویہ پسند نہیں تو مجھے اس کا افسوس ہے ۔ تم میرے بیٹے ہو ۔ مجھے تم سے بے پناہ محبت ہے اور میں چاہتا ہوں کہ ہم مل کر تمہاری پریشانی دور کریں ‘‘۔
حفیظ کا دل اس پر بھی دل کی بات کہنے پر آمادہ نہ ہو تو فرید اور طریقہ اختیار کرسکتا ہے ۔ ’’ مجھے تمہاری کیفیت پر رنج ہے مگر تم بات نہیں کرنا چاہتے تو ٹھیک ہے ۔ جب تمہارا موڈ تو ہم اس معاملے پر بات کرسکتے ہیں‘‘ ۔
یہ طریقہ کار دونوں فریقوں کو جیتنے کا موقع دے دیتا ہے ۔ اس سے ایک طرف تو فرید کا یہ موقف قائم رہتا ہے کہ بالاخر مسئلے کا حل یہ ہے کہ اس پر کھل کر بات کی جائے اور پھر مل کر اس کو دور کیاجائے ۔ دوسری طرف اس طریقہ کار کے ذریعے حفیظ کو وقتی طور پر اپنی ضد پر قائم رہنے اور زبان بند رکھنے کا موقع مل جاتا ہے ۔
شوروغوغا مچانے والے
ڈیوڈ ڈی برنز نے اپنے ایک مریض کا ذکر کیا ہے ۔ اس کا نام فرینک تھا اور وہ ایک بزنس مین تھا۔ اپنی ذہنی الجھنوں کے علاج کے لیے وہ برنز کے پاس آیا کرتا تھا۔ جب اس کا ذہنی تناؤ بڑھ جاتا تو وہ دوسروں پر اپنی مرضی چلانے اوران پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کیا کرتا تھا۔ ایک بار فرینک نے برنز کو طعنہ دیا کہ وہ بہت لالچی ہے ۔ اس کو اپنے مریضوں سے زیادہ ان سے فیس بٹورنے کی فکر رہتی ہے ۔ اس نے یہ بھی کہا کہ برنز کو ہر سیشن کی علیحدہ فیس نہیں لینی چاہیے اور یہ کہ وہ ہر سیشن کی علیحدہ فیس دینے کے بجائے ہرمہینے فیس دینا چاہتا ہے ۔
برنز کہتا ہے ’’ فرینک کی یہ باتیں مجھے اچھی نہ لگیں ۔ مجھے یہ احساس بھی تھا کہ وہ ہرموقع پر اپنی بات منوانے کی کوشش کرتا ہے۔ میں نے اس کو بتایا کہ میں ماہوا بنیاد پر فیس لینے کا تجربہ کرچکا ہوں اور وہ اچھا نہ رہا تھا کیونکہ کئی مریضوں نے میری فیس مارلی تھی ۔ فرینک نے دلیل دی کہ وہ بڑا بزنس مین ہے اور بل لینے دینے کے معاملات مجھ سے بہتر سمجھتا ہے ۔ اس نے یہ بھی کہا کہ مجھے اس پر اعتماد کرنا چاہیے‘‘ ۔
’’ اچانک مجھے احسا س ہوا کہ معاملہ پٹری سے اتررہا ہے اور میں فرینک کے موقف کو صحیح طورپر نہیں سمجھ رہا ہوں ۔ اس احساس کے ساتھ ہی میں نے خود کو سنبھالا اور اس سے کہا کہ تم ٹھیک کہتے ہو۔ میں یونہی الجھ رہاہوں ۔ چلیں اس معاملے کو یہیں چھوڑیں اور فیس پر جھگڑنے کے بجائے تمہاری الجھنوں پر توجہ دیں ‘‘۔
میرا یہ جواب سن کر فرینک فوراً ہی ڈھیلا پڑگیا ۔ پیسوں کا ذکر چھوڑ کروہ اپنی الجھنیں بتانے لگا ۔ ان الجھنوں کا تعلق اس کی نجی زندگی سے تھا۔ اگلے سیشن کے لیے وہ آیا تواس نے بیس سیشنز کی ایڈوانس فیس کا چیک مجھے تھمادیا‘‘۔
ہم سب کا تجربہ ہے کہ بسااوقات لوگ کسی مناسب سبب کے بغیر ہی ناراض ہوجاتے ہیں ۔ ایسے مواقع پر وہ ناگوار باتیں بھی کہنے لگتے ہیں ۔ ہمیں کیا کرنا چاہیے ؟ بہترین طرزعمل یہ ہے کہ ہمیں کسی بہانے اس موقع سے نکل جانا چاہیے ۔ معاملے کو ٹال دینا چاہیے تاکہ دوسرے فرد کو مہلت مل جائے ۔ مہلت ملنے پر اکثر صورتوں میں دوسرے فرد کو اپنے غیر منطقی طرزعمل کا احساس ہوجاتا ہے ۔ اس طرح معاملہ خودبخود ختم ہوجاتا ہے ۔ لیکن اگر کوئی ایسا مسئلہ درپیش ہو جس کو آپ حل کرنا چاہتے ہوں تو ایسا طرزعمل اختیارکرنا چاہیے جس سے دوسرے فرد کو عزت نفس کے مجروع ہونے کا احساس نہ ہو۔ یادرکھیں کہ دوسرے شخص کے نقطہ نظر میں تھوڑی بہت سچائی ضرور ہوا کرتی ہے ۔ اگر آپ اس بات کو تسلیم کرلیں تو پھر دوسرے کا رویہ خودبخود نرم پڑنے لگتا ہے ۔ وہ معقولیت پر آمادہ ہونے لگتا ہے ۔
گلے شکوے کرنے والے
ڈاکٹراکرم ہمارے دوست ہیں ۔ کبھی کبھی کسی دوادارو کے لیے ان کے پاس جانا پڑتا ہے اور کبھی کبھی یونہی گپ شپ کے لیے میں ان کے کلینک کا رخ کرتا ہوں ۔ ڈاکٹر صاحب موڈی آدمی ہیں ۔ اچھے موڈ میں ہوں اور فرصت کا وقت ہو تو خوب باتیں کرتے ہیں ۔ موڈ خوشگوار نہ ہو تو بس چپ چاپ بیٹھے رہتے ہیں ۔ پچھلے دنوں ان سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے ایک مریض کا قصہ چھیڑ دیا ۔ ’’بھئی یہ بٹ صاحب بھی عجیب بندے ہیں ۔ میں ان سے حال پوچھتا ہوں تو پوری رام کہانی لے کر بیٹھ جاتے ہیں ۔ بیوی بچوں کے مسائل سے شروع ہوتے ہیں ، کاروباری الجھنوں کا ذکرکرتے ہیں ، دوستوں ، رشتے داروں اور یہاں تک کے محلے داروں کی شکایتیں بھی سنانے لگتے ہیں ۔ میں انہیں کوئی مشورہ دیتا ہوں تو وہ خاطر میں ہی نہیں لاتے ‘‘۔
ڈاکٹر اکرم ٹھیک کہتے ہیں مگر اصل میں ان کو یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ شکایتیں کرنے کے عادی افراد کو عام طورپر مشورے درکار نہیں ہوتے ۔ وہ تو بس کسی ایسے شخص کی تلاش میں رہتے ہیں جو ان کی باتیں صبروتحمل سے سنے اور وقفے وقفے سے ہمدردی کا اظہار بھی کرتا جائے ۔ اس لیے ڈاکٹر اکرم، بٹ صاحب سے نجات چاہتے ہیں یا آپ ہروقت دوسروں کے گلے شکوے کرنے والوں سے تنگ آئے ہوئے ہیں تو اس کا ایک موثر طریقہ یہ ہے کہ مشورے مت دیں ۔ بلکہ ان کی ہاں میں ہاں ملاتے جائیں ۔ یوں ان کی گیس جلد ختم ہوجائے گی ۔ وہ اپنے قصے کو زیادہ وقت تک جاری نہیں رکھ سکیں گے ۔
تقاضے کرنے والے دوست
مشکل لوگ صرف وہی نہیں ہوتے جو بات بات پر ناراض ہوجاتے ہیں یا گلے شکوے کرتے رہتے ہیں ۔ بعض لوگ اس لیے بھی مشکل بن جاتے ہیں کہ وہ ہروقت کوئی نہ کوئی تقاضا کرتے رہتے ہیں ۔ ایسے کرم فرماؤں کا تجربہ مجھے اکبر علی کے سبب ہوا ہے ۔ وہ میرے پرانے دوست ہیں ۔ انکے ساتھ ہوتا یہ ہے کہ شام کے وقت کبھی موسم خوشگوار ہوتو میں ماڈل ٹاؤن پارک کا رخ کیا کرتا ہوں ۔ وہ راستے میں مل جائیں گے اور یکدم کہیں گے کہ وہ میری طرف آرہے تھے ۔ وجہ یہ ہے کہ انہوں نے چند دوستوں کو شام کی چائے پر مدعو کررکھا ہے ۔ یہ ان کے دفتری دوست ہیں جن سے میری صرف ہلکی پھلکی جان پہچان ہے مگر اکبر صاحب کا تقاضا یہ ہے کہ میں دوستوں کی اس محفل میں لازماً شرکت کروں ۔
یہی نہیں ۔ اکبرعلی اور بھی کمال دکھاتے ہیں۔ کبھی وہ گاؤں جاتے ہیں یا کسی کام سے دوسرے شہر کا رخ کرتے ہیں تو گھر کی دیکھ بھال سے لے کر پانی کے بل کی ادائیگی تک کی ذمے داریاں مجھے سونپ جاتے ہیں ۔ میں ہزار احتجاج کرتاہوں مگر بے سود ۔ اب اگر میں صاف انکار کردوں کہ اپنی مصروفیات کے سبب میں ان کی جگہ فرائض ادا نہ کرپاؤں گا ، تو وہ ناراض ہوجاتے ہیں ۔ اس زمانے میں دوستی کے بے قدر ہونے اور دوستوں کے بے وفا ہونے کے طعنے دیتے ہیں ۔ کبھی کبھی تو اکبرعلی ایسے اچانک گھیر لیتے ہیں کہ میں دل ہی دل میں اس دن کو کوستا ہوں جب ان سے تعارف ہوا تھا۔
یہ صرف اکبر علی کا معاملہ نہیں ۔ ان کے رویے میں شدت زیادہ ہے ۔ مگر کئی اور لوگ بھی ہیں جو اس طرح ہم پر ’’ قبضہ ‘‘ کرنا چاہتے ہیں ۔ ان سے نجات کیسے پائی جائے ؟ اس کا ایک موثراور آزمایا ہوا طریقہ ’’ ٹال مٹول ‘‘ ہے ۔ جب کوئی دوسرا فرد آپ سے ایسا مطالبہ کرے جس کو پورا کرنا آپ کے لیے مشکل ہو یا جس کو آپ مناسب نہ سمجھتے ہوں تو فوراً ہی ہاں یا نہ میں اس کو جواب مت دیں ۔ ’’ ہاں ‘‘ میں جواب دینے سے آپ پھنس جائیں گے جبکہ صاف انکار کرنے سے دوسرے شخص کو تکلیف ہوگی ۔ اس کو خوامخواہ پریشان کرنے کی ضرورت نہیں ۔ اس کے بغیر بھی کام بن سکتا ہے ۔ چنانچہ جب وہ کوئی نامناسب مطالبہ کرے تواس سے کہیں کہ آپ کو اس پر سوچنے کے لیے وقت درکار ہے اور یہ کہ آپ جلد ہی اس کو اپنے فیصلے سے آگاہ کردیں گے ۔ مثلاً ایک دوست آپ کے پاس آتا ہے اور کہتا ہے کہ آپ بہت اچھی کہانیاں لکھتے ہیں ۔ لہذا ایک کہانی اس کو بھی لکھ دیں جسے وہ اخبار میں اپنی تصویر اور نام کے ساتھ شائع کراسکے ۔ تواس کے مطالبے پر ہنسنے کی ضرورت نہیں ۔ اس کو ہاں یا ناں میں مت کہیں ۔ اس کو یہ جواب دیں کہ ’’ مجھے خوشی ہوئی ہے کہ آپ کو میری کہانیاں اچھی لگی ہیں ۔ میں آپ کی خواہش پوری کرنا چاہتا ہوں ، لیکن مہربانی کرکے مجھے کچھ وقت سوچنے کے لیے دیں ۔پھر میں آپ کو جواب دوں گا‘‘۔
اس طرح آپ کو ’’نہ ‘‘ کہنے کی صورت میں پیدا ہونے والے احساس گناہ سے نمٹنے کے لیے وقت مل جائے گا ۔ فرض کریں آپ طے کرتے ہیں کہ کہانی کا مطالبہ کرنے والے دوست کو انکارکردینا ہی بہتر ہے تو وقتی طور پر اس کو ٹال دینے سے آپ کو وقت مل جائے گا کہ آپ انکار کو مناسب الفاظ میں پیش کرسکیں ۔ چنانچہ ، مثال کے طورپر ایک دو، دن کے وقفے کے بعد آپ اس دوست کو فون کرکے کہہ سکتے ہیں کہ ’’ آپ نے فرمائش کرکے میری عزت افزائی کی ہے مگر ان دنوں دفتری امور کی وجہ سے میری مصروفیات معمول سے زیادہ ہیں ۔ ویسے بھی میں نے کئی ماہ سے کوئی کہانی نہیں لکھی ہے ۔ آپ جانتے ہی ہیں کہ اس کام کے لیے ایک خاص قسم کے موڈ کی ضرورت ہوتی ہے ۔ خیر، اس بار میں معذرت چاہتا ہوں ‘‘۔
صبرواستقامت کے ساتھ مشکل لوگوں سے پیش آنا سہل نہیں ہوتا ۔ آپ مصروف ہوں یا کوئی پریشانی لاحق ہو تو اس قسم کے لوگ اور اور بھی ناقابل برداشت ہوجاتے ہیں ۔ لیکن جونہی آپ ان لوگوں کے ساتھ بحث کرنے یا ان کی اصلاح کرنے کا ارادہ ترک کردیں تو پھر ان سے عہدہ برا ہونا زیادہ پریشان کن نہیں رہتا۔ دوہزار سال پہلے ایک یونانی فلسفی نے اس نکتے کو خوب اچھی طرح سمجھ لیا تھا ۔ ’’ جب کوئی آپ پر نکتہ چینی کرے تو فوراًاس سے اتفاق کرلیں ۔ اس سے کہیں کہ اگر وہ آپ کو بہتر طور پر جانتا ہوتا تو اس کو آپ میں زیادہ خامیاں نظر آسکتی تھیں ‘‘۔