لیڈر کیسے بناجائے ؟
ہم سب لیڈر بننا چاہتے ہیں !
وجہ یہ ہے کہ آج کے زمانے میں اس کو بڑی خوبی کی بات مانا جاتا ہے ۔ تخلیقی لیڈر شپ کے ایک امریکی ادارہ سے تعلق رکھنے والے ماہر نفسیات ڈیوڈ کیمپل کا کہنا ہے ’’ قیادت وٹامن سی کی عالمی گولی بن چکی ہے اورلوگ اس کو درجنوں کے حساب سے کھانا چاہتے ہیں ۔
‘‘
اس میں تعجب کی کون سی بات ہے ۔ لیڈرشپ سے قوت ، اقتدارواختیار ، عزت واحترام ، شہرت اور کئی دوسری کامیابیاں ہماری جھولی میں آگرتی ہیں ۔ تاہم یہ یاد رہے کہ وٹامنز کے برخلاف لیڈرشپ کی صلاحیتیں بڑی مشکل سے حاصل ہوتی ہیں ۔ ان کو محنت اور احتیاط سے سیکھنا پڑتاہے۔
لوگوں کا خیال ہے کہ لیڈر بنتے نہیں ، ماں کے پیٹ سے پیدا ہوتے ہیں ۔ یعنی بعض لوگوں میں قیادت کے پیدائشی صفات ہوتی ہیں ۔
یہ تاثر درست نہیں ۔ مانا کہ بعض افراد پر فطرت زیادہ مہربان ہوتی ہے ۔ وہ اپنی صلاحیتیں روزمرہ کی زندگی میں استعمال کرتے ہیں لیکن موثر لیڈر بننے کے لیے بہت کچھ سیکھنا پڑتا ہے ۔
آپ یہ صلاحیتیں کیسے سیکھ سکتے ہیں؟ دوسروں کے پیچھے چلنے پر کیونکر آمادہ کرسکتے ہیں ؟
دوسروں کا اعتراف کریں
دوسرے لوگوں سے کام لینے کا بہترین طریقہ ہرگز یہ نہیں کہ آپ ڈنڈا اٹھا کر ان کے پیچھے پڑ جائیں ۔ وہ زمانے گئے جب ننگی طاقت کے بل بوتے پر بعض لوگ لیڈر بن جایا کرتے تھے ۔ آج کا زمانہ مختلف ہے ۔ اس کے تقاضے اور اس کے طور طریقے مختلف ہیں ۔
دوسروں سے کام لینے کا بہترین طریقہ اصل میں یہ ہے کہ ان کے ساتھ ہیروز جیسا سلوک کیاجائے ۔ قیادت حاصل کرنے کا نسخہ ہی یہ ہے کہ جو کوئی اچھا کام کرے ، اس کی تعریف کی جائے ۔ اس کی کارکردگی کا اعتراف کیا جائے اور اس کے کام کو سراہا جائے ۔ لوگوں کی موجودگی میں کسی کی تعریف کرنا ایسا احسان ہے جس کو کبھی فراموش نہیں کیا جاتا ۔
تعریف مثبت ترین تنقید سے بھی زیادہ موثر ہواکرتی ہے ۔ تنقید عام طور پر رنج ہی دیتی ہے ۔ وہ حوصلہ افزائی نہیں کرتی ۔ ہمت کم کرتی ہے ۔ کینتھ بلانچرڈ نے ایک زبردست کتاب لکھی ہے جس کانام ہے ’’ ون منٹ منیجر‘‘ ۔ وہ کہتے ہیں ’’ کسی کو اچھا کام کرتے ہوئے پکڑ لو ۔ پھر سب کے سامنے اس کا چرچا کرو ۔ وہ ہمیشہ کے لیے آپ کا وفادار ہوجائے گا ۔ اور یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ لیڈر بننے کے لیے دوسروں کی وفاداریاں حاصل کرنا ناگزیر ہے ۔ وہ فرد کبھی لیڈر نہیںبن سکتا جس کو دوسروں کی وفاداریاں حاصل نہ ہوں اور جس کے ساتھی وفادار نہ ہوں۔
سوچا سمجھا خطرہ مول لیں
بہترین لیڈروں کو معلوم ہوتا ہے کہ خطرہ مول لینا حماقت نہیں ۔یہ بات انتظامی امور کی ایک مشیر نے کہی ہے ۔ وہ یاد دلاتی ہے کہ ’’ البتہ طیارے سے کودنے والے پہلے اپنا پیراشوٹ چیک کرنا نہیں بھولتے ۔
خطرہ مول لینے کا مطلب یہ احساس ہے کہ جو قدم آپ اٹھا رہے ہیں اس میں ناکامی بھی پیش آسکتی ہے ۔ ایسے مواقع آئیں تو اکثر لوگ خود چھلانگ لگانے کی بجائے دوسروں کو پہلے کودنے پر اکساتے ہیں۔لیکن آپ لیڈر بننا چاہتے ہیں تو ناکام ہونا سیکھئے ۔ٹھوکر لگے تو بیٹھینہ رہئے ۔اٹھیے ۔پھر سے کوشش کیجئے ۔
راہ دکھائیے
انیس سو پینسٹھ میں ایک امریکی شہری ہوم میکر کو معلوم ہوا کہ اس کا بیٹا شوگر کا مریض ہے ۔ میکر نے اس مرض میں مبتلا دوسرے بچوں کی ماؤں سے رابطہ کرنا چاہالیکن کوئی بھی زبان کھولنے پرآمادہ نہ ہوا۔
زیادہ کوشش کرنے پر میکر صاحبہ کو تین ایسی مائیں مل گئیں جو اپنے تجربے میں دوسروں کو شریک کرنے پر آمادہ تھیں ۔ ان کے تعاون سے میکر نے شوگر کے نوجوان مریضوں کی فاؤنڈیشن بنا ڈالی۔
اب دنیا بھر میں اس فاؤنڈیشن کی ڈیڑھ سو سے زیادہ شاخیں ہیں ۔ میکر نے اس سلسلے میں کئی تحقیقاتی مراکز بھی قائم کر رکھے ہیں ۔ ساری دنیا اس کی ان خدمات کا اعتراف کرتی ہے ۔ میکر کا راز کیا ہے ؟ بس یہی ناں کہ وہ خود نمونہ بن گئی ۔ اس نے پہل کی ۔
یہ ایک مثال ہے ۔خوش قسمتی سے ایسی مثالوںکی کمی نہیں۔ مدرٹریسا سے لے کر مولانا عبدالستار ایدھی تک ہزاروں ایسی روشن مثالیں آپ کو مل سکتی ہیں۔
خیر ، میکر کہا کرتی ہے ۔’’ آپ نے کبھی غور کیا کہ آپ دوسروںکو دیکھ کر مسکرائیں تو جواب میں وہ بھی مسکراتے ہیں ۔ گویا آپ لوگوں کو کچھ دیں تو وہ بھی آپ کا دامن بھرنا چاہتے ہیں ۔ آپ پراعتما دہوں تو وہ آپ کے نقش قدم پر چلنا چاہتے ہیں ۔ آپ کسی مقصد کے بارے میں پکا یقین رکھتے ہیں تو دوسرے بھی اعتماد ظاہر کرتے ہیں اور مقصد کے حصول میں آپ کی مدد کرتے ہیں ۔
بھروسہ کریں
اکثر کامیاب لیڈر اعتراف کرتے ہیں کہ اگر آپ اچھی کارکردگی کے لیے دوسروں پر بھروسہ کریں تو وہ اس اعتماد کو ٹھیس نہیں پہنچاتے ۔ دوسری طرف آپکا خیال یہ ہو کہ آپ کے ساتھی نکمے ہیں تو پھر غالبا وہ آپ کو مایوس نہیںکرتے ۔ خود کو نکما ہی ثابت کردیتے ہیں ۔
ایک کامیاب تاجر مجید شیخ کے پاس اس سلسلے میں ایک تجویز ہے ۔ وہ کہتا ہے کہ دوسروں پر اعتماد کا اظہار تحریری طور پر کریں ۔ اگر کسی فرم کا سربراہ اپنے بزنس ایگزیکٹو کی تحریری طور پر تعریف کرتا ہے اوراس پر اعتمادکا اظہار کرتاہے تو بزنس ایگزیکٹو ریکارڈ توڑ کارکردگی پر تیار ہوجائے گا۔
کوئی استاد اپنے شاگردوں کو حوصلہ افزائی کے خط لکھتاہے یا ای میل کرتا ہے تو وہ ان میں ایک نئی روح پھونک دیتا ہے ۔
بات یہ ہے کہ جب آپ کسی پراعتمادکا اظہار کرتے ہیں تو اس کی خوداعتمادی اور عزت نفس بڑھ جاتی ہے ۔وہ خوش ہوتا ہے۔ اپنا کام زیادہ ولولے سے شروع کر دیتا ہے ۔ یہ عامیانہ سی بات لگتی ہے مگر ماہرین نفسیات اس طریقہ کار کی افادیت کے قائل ہیں ۔
ہدف بنائیں
لوگ بے سمت لیڈروں کے پیچھے نہیں چلا کرتے ۔ جیمز لاوڈ ایک کاسمیٹکس کمپنی کی بانی ہیں ۔ انہوں نے ہزاروں ملازموں کو کامیابی سے ہمکنار کروایا ہے ۔ ان کا کہنا ہیکہ ان کے جاننے والے تمام بزنس لیڈر اپنے اہداف کا واضح خاکہ ذہن میںرکھتے ہیں ۔ ان کی نظریں اس خاکے پر جمی رہتی ہیں ۔لاوڈ صاحبہ یہ بھی کہتی ہیں ’’ لوگ ان کو لیڈر مانتے ہیں جو کامیابی کے دعوے کرتے ہیں اور کچھ نہ کچھ حاصل بھی کرتے ہیں ۔
سر اونچا رکھیں
اچھے لیڈروں نے یہ بات پلے باندھ رکھی ہے کہ انہوںنے ہرحال میںفاتح نظر آنا ہے ۔ کبھی کبھی شاید ان کے دل میں شکوک وشبہات پیدا ہوتے ہیں لیکن وہ ان کی پرچھائیاں چہرے پر نظر نہیں آنے دیتے ۔ ان کا طرزعمل ظاہر کرتا ہے کہ جیسے ان کو اپنی راہ اور اپنی منزل کا پورا پورا علم ہے ۔
لیڈروں کو یہ بھی معلوم ہے کہ ظاہری صورت اور آداب بہت اہم ہوتے ہیں ۔ وہ دوسروں پراثر ڈالتے ہیں ۔ ان کو متاثر کرتے ہیں۔ وہ گرم جوشی سے ملتے ہیں ۔ ان کی چال ڈھال ،ان کے رنگ ڈھنگ اور رکھ رکھاؤ متاثر کن ہوتا ہے ۔
اہلیت حاصل کریں
پرانے زمانے سے یہ کہاوت مشہور چلی آرہی ہے کہ ’’ علم طاقت ہے‘‘ ۔ اچھے لیڈروں کو خبر ہوتی ہے کہ ان کی ذہانت ، علم اور مہارت ان کی قائدانہ شخصیت کی کشش کا اہم حصہ ہیں ۔ اہلیت لوگوں کو کھینچتی ہے ۔ وہ دوسروں کو آپ سے رہنمائی حاصل کرنے پرآمادہ کرتی ہے ۔
لہذا آپ لیڈر بننے کے خواہاںہیںتو اپنی ذہانت بڑھائیں ۔ علم حاصل کریں اور اپنی شخصیت کو جلا بخشیں ۔
ولولہ پیدا کریں
میکر صاحبہ کا ابھی ہم نے ذکر کیا تھا ۔ ان سے یہ بات بھی منسوب ہے کہ ’’ لوگوں کو کسی کام کی اہمیت کا اندازہ ہوجائے تو وہ اپنی صلاحیتوں کو بھرپور انداز میں استعمال کرتے ہیں لیکن اگر ان کے دل میں کسی کام کے بارے میںجوش وولولہ پیدا کردیاجائے تو ان کی ساری توانائیاں اس کام کے لیے وقف ہوجاتی ہیں ۔وہ پہاڑوں کوہٹا دیتے ہیں اور پرشور دریاؤں کے رخ بدل دیتے ہیں‘‘۔
ولولہ عظیم الشان قوت ہے ۔ اس کو کام میں لائیں مگر ولولہ کس طرح پیدا کیا جائے ؟
اس کا سیدھا سادھا طریقہ ہے ۔ اپنے آپ میںجوش وولولہ پیدا کریں ۔ خودبخود وہ دوسروں تک منتقل ہونے لگے گا۔
دوسروں کو شامل کریں
لزی فلوریڈا کی ایک طلاق یافتہ ماں ہے ۔کچھ عرصہ پہلے تک اس کا سارا وقت اپنی دیکھ بھال میں بسر ہو جاتا تھا ۔ دوسروں کا اس کو کچھ خیال نہ تھا ۔ وہ اپنی چھوٹی سی دنیا میں کھوئی رہتی تھی ۔
ایک روز اس نے محسوس کیا کہ شہر کے کئی لوگ اس قدر غریب ہیں کہ ان کو دو وقت کی روٹی بھی میسر نہیں ۔
لزی نے غریبوں کی مدد کرنے کا عزم کر لیا ۔ شام کو وہ ایک سہیلی کے ساتھ بازار گئی اور بیس سینڈوچز لے آئی۔ دوسری شام اس نے زیادہ تعداد میں سینڈوچز خریدے ۔ کافی اور سوپ بھی بنانا شروع کردیا۔
چند روز بعد اس نے دیکھا کہ یہ معاملہ اس کے اور اس کی سہیلی کے بس کا روگ نہیں رہا ۔ کھانے کی تلاش میں شہر کے بہت سے غریب اس کے پاس آنے لگے تھیاور لزی کے پاس ان سب کی مدد کے لیے وسائل نہ تھے ۔
لزی کہتی ہے ’’ پہلے میں نے کبھی لوگوں کو متحرک نہیں کیا تھا مگر اب مجبوری تھی ۔ دوسرے لوگ مجھ پرانحصار کررہے تھے۔ چنانچہ مجھے ہاتھ بٹانے والوںکی ضرورت تھی ۔
لزی کے کام کا شہر میں چرچا ہو چکا تھا۔ ایک مقامی اخبار اور ٹیلی ویژن نے اس پر پروگرام پیش کیے تھے۔ لوگ اس کی طرف متوجہ ہونے لگے تھے ۔ چنانچہ ان میںسے کئی نے لزی کے کام میں مدد کرنے کی پیش کش کی ۔ اس طرح کئی امیر لوگوں نے روپے پیسے سے مدد دینی شروع کردی ۔ ایک اور بات یہ ہوئی کہ شہر کے ایک قابل شخص نے لزی کو تنظیمی مہارت مہیا کردی ۔
فلوریڈا میںلزی کا مشن آج بھی جاری ہے ۔ اس کے رضاکار غریبوں کے لیے نہ صرف کھانا تیار کرتے ہیں بلکہ ان کی دوسری ضروریات کا بھی خیال رکھتے ہیں ۔ لزی کہتی ہے ’’ یہ سارا کام میں نہیں کررہی ۔ کئی لوگ اس میں شامل ہوگئے ہیں ۔میںاکیلی کچھ نہ کرسکتی تھی ۔
یہ ہے قیادت