خوش باش جوڑوں کے دس راز

اکثر لوگ مانیں گے کہ خوش گوار ازدواجی زندگی حاصل کرنے کے لیے بہت سا وقت اور توانائی خرچ کرنا پڑتی ہے ۔ اس قسم کی زندگی برسوں کی محنت اور لگن کا ثمر ہوتی ہے لیکن بہت سے جوڑے ہاتھوں پر سرسوں جمانا چاہتے ہیں ۔ وقت اور توانائی صرف کیے بغیر ہی وہ خوش گوار زندگی کے طلب گار ہوتے ہیں ۔ نتیجہ یہ ہے کہ جب ان کی توقع پوری نہیں ہوتی یا ان کو رکاوٹیں پیش آتی ہیں تو وہ صبر اور حوصلے سے کام نہیں لیتے ۔ شادی کو مصیبت خیال کرنے لگتے ہیں ۔
خوش باش ازدواجی زندگی سے لطف اٹھانے والے جوڑوں کا نقطہ نظر البتہ بالکل مختلف ہوتا ہے ۔

جدید شادی اور ازدواجی امور کی دو ممتاز ماہرین کونیل کووان اور میلوین کنڈز نے اپنے مشاہدے ، تجربے اور علم کی بنا پر دعوی کیا ہے کہ خوش گوار اور مثالی ازدواجی زندگی گزارنے والوں کے دس راز ہیں ۔

حض ستاروں کا کھیل نہیں

یہ خیال عام ہے کہ ہمارے خطے کی طرح یورپ اور امریکا میں بھی پایا جاتا ہے کہ شادیاں تو ہم سے دور کہیں ستاروں میں طے ہوتی ہیں ۔ جو خوش قسمت ہیں ان کو اچھے جیون ساتھی مل جاتے ہیں اور جن کے مقدر خراب ہوں ان کو برے ساتھی سے پالا پڑتا ہے ۔

محبت کرنے والے نفسیات کے ماہر نہیں ہوتے

پیار کے خوابوں میں سے ایک یہ ہے کہ ہمارا محبوب خود کو ہماری گہری امنگوں اور تمناؤں کے مطابق ڈھال لے ۔ جب ایسا نہیں ہوتا تو ہم کو مایوسی ہوتی ہے ۔ کبھی کبھی تو احساس ہوتا ہے کہ ہمارے ساتھ فریب کیا گیا ہے ۔

یہ انداز فکر نامناسب ہے ۔اصل میں یہ توقع ہی غیر حقیقت پسندانہ ہے کہ ہمارا ساتھی ہمارے ذہن ودل کی گہرائیوں میں پلنے والی آرزوؤں کو خود بخود پڑھ لے گا اور پھر ان کی تکمیل کے لیے سرگرم ہوجائے گا۔

جو لوگ یہ دعوی کرتے ہیں کہ ان کے جیون ساتھی ان کو اچھی طرح سمجھتے ہیں ، وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ اس میں خود ان کی کوششوں کا دخل ہے ۔

سیدھی سی بات ہے کہ جب تک ہم اپنے باطن کو نمایاں نہ کریں ۔ دوسرے اس سے آگاہ نہیں ہوسکتے ۔ چنانچہ جب میاں بیوی ایک دوسرے کو اپنی ضرورتیں اور امنگیں بتاتے ہیں تو وہ ایک دوسرے کو سمجھنے لگتے ہیں ۔ لہذاایک دوسرے کو سمجھنے کو معمہ مت بنائیں ۔ دل کی بات آپ دل میںرکھیں گے تو وہ وہیں پڑی رہیں گی ۔ ان کو زبان پرلائیں ۔ یہ ممکن نہ ہو تو اشاروں کنایوں سے ان کا اظہار کرتے رہیں ۔ تب ہی آپ کا ساتھی ان کو جان سکے گا۔

بہترین تعلقات تغیر پذیر ہوتے ہیں

اکثر لوگوں نے سوچے سمجھے بغیر یہ بات پلے باندھ رکھی ہے کہ ٹھوس تعلق جامد ہوتا ہے ۔وہ ہمیشہ ایک سا رہتا ہے ۔اس میں کوئی تبدیلی ، کوئی مدوجذر نہیں آتا ۔

یہ سچ نہیں ۔ سچ یہ ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ جس طرح انسان میں تبدیلیاں رونما ہوتی رہتی ہیں ، اسی طرح ازدواجی زندگی بھی مسلسل بدلتی رہتی ہے ۔

جو میاں بیوی اس حقیقت سے نظریں چراتے ہیں اور اس خوف سے تبدیلیوں کی پرزور مزاحمت کرتے ہیں کہ تبدیلیاں ان کی ازدواجی زندگی تباہ کردیں گی ، ان کی زندگی واقعی مسائل میں الجھ جاتی ہے ۔

پائیدار اور خوش کن ازدواجی زندگی صرف ان جوڑوں کو نصیب ہوتی ہے جو اپنے آپ میں لچک پیدا کرتے ہیں ۔ مثبت انداز میں تبدیلی کا خیر مقدم کرتے ہیں اور اس کی غیر ضروری مزاحمت نہیں کرتے ۔ وہ باہمی محبت پر اعتما دکرتے ہیں اور جانتے ہیں کہ یہ محبت وقت کے ساتھ پیدا ہونے والی تبدیلیوں کا مقابلہ کرسکتی ہے ۔ وہ ایک دوسرے پر اعتماد کرتے ہیں ۔ ایک دوسرے کا احترام کرتے ہیں ۔یہی اعتماد اور یہی احترام ان کو نئے حقائق قبول کرنے کا حوصلہ عطا کرتا ہے ۔

بے وفائی محبت کے لیے زہر قاتل ہے

ہمارے زمانے میں ازدواجی بندھن سے ماورا رومان اور جنسی تعلقات کے مواقع پہلے سے کہیں زیادہ دستیاب ہیں۔ زندگی کے مختلف شعبوں میں عورتوں اور مردوں کو ایک دوسرے سے میل جول کا عام موقع ملتا ہے ۔ پردہ اور دوسری پابندیاں ماضی قریب تک موجود تھیں ،اب بہت حد تک ختم ہوچکی ہیں ۔ زندگی کا اب نیا چلن ہے اور اس چلن میں عورتیں اور مرد ایک دوسرے کے قریب آرہے ہیں ۔

ایک عام رویہ یہ بن چکا ہے کہ ’’ اگر میں کوئی چکر چلاؤں اور میری بیوی (یا میرا شوہر ) اس سے بے خبر رہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ۔ اس کو کوئی نقصان یا تکلیف نہیں پہنچے گی‘‘ ۔

ممکن ہے کہ یہ بات درست ہو ۔مگر یاد رکھیں کہ اس قسم کا رومان آپ کو اخلاقی طور پر کمزور کردیتا ہے ۔ اس سے ازدواجی زندگی لامحالہ متاثر ہوتی ہے ۔ طلاق کی نوبت نہ پہنچے تو بھی ایسا افیئر میاں بیوی کی باہمی محبت کے بندھن کو تباہ کردیتا ہے کیونکہ وہ شادی کی کومٹ منٹ کی بنیادی خلاف ورزی ہوتا ہے ۔

شادی کے بندھن کے پرخلوص احترام سے دل کو اطمینان ملتا ہے ۔ ہمیں اپنا راز چھپانے کے لیے داؤپیچ نہیں کھیلنے پڑتے ۔ نہ ہی کسی ناگوار بھید کے افشا ہونے کا ڈر ہوتا ہے ۔ لیکن جب ہم بددیانتی سے کام لیں ، اپنے ساتھی سے دغا کریں ، توہم اس سے آگاہ ہوتے ہیں ۔ ضمیر ہمیں ملامت کرتا ہے ۔ گناہ کا احساس ہم پر چھایا رہتا ہے ۔یہاں تک کہ ہمیں خود سے گھن آنے لگتی ہے اورجب ہم اپنے آپ سے ہی محبت نہ کریں تو دوسرے سے کیا خاک ہوگی ۔

محبت الزام نہیں دیتی

شادی سے پہلے اپنی غلطیوں کا خمیازہ عموما صرف ہم کو بھگتنا پڑتاہے۔ اگر حالات ٹھیک رہیں تو ہم ان کو اپنے درست طرز عمل کا نتیجہ سمجھتے ہیں اور جب حالات ناگوار ہوجائیں توبھی ہم ان کو اپنے اعمال کا نتیجہ قرار دیتے ہیں ۔

پھر ہم بیاہ رچاتے ہیں ۔ہمارا رویہ محتاط نہ رہے تو ہم میں سے اکثر لوگ اپنے ساتھی کو الزام دینا شروع کر دیتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں ’’ میں خوش نہیں ہوں اور اس کا سبب تم ہو‘‘۔

بدقسمتی سے میاں بیوی ایک دوسرے کے لیے بہت آسانی سے قربانی کا بکرا بنائے جا سکتے ہیں ۔ خود کو حالات کا ذمہ دار ٹھہرانے کے بجائے ہم آسانی سے اپنے ساتھی کو الزام دینے لگتے ہیں ۔
یہ انداز فکر غلط ہے ۔ الزام آرائی کے اس جال سے دور رہیں ۔ ازدواجی زندگی میں زیادہ مثبت اور ذمہ دار رویہ اختیار کریں ۔ اپنے حالات کے بارے میں جس قدر ذمہ داری آپ خود قبول کریں گے ، اسی قدر آپ اور آپ کے ساتھی مطمئن اور مسرور رہے گا۔

محبت بے لوث ہوتی ہے

بالغ محبت لینے اور دینے میں توازن رکھتی ہے ۔ بے ساختہ خلوص محبت کا راز ہے ۔

محبت تقاضا کرتی ہے کہ ہم اپنی ضرورتیں روک کر اپنے ساتھی کی ضرورتیں پوری کریں ۔ ہر حال میں اس اصول پر عمل کرنا ضروری نہیں ،مگر عمومی رویہ یہی ہونا چاہئے ۔ محبت کا تقاضا یہی ہے ۔ اس لیے جب ہم دوسرے فرد سے کچھ لینے کی بجائے اس کو کچھ دینے پر تیا ر رہتے ہیں تو ہمیں محبت کا اور بھی زیادہ احساس ہوتاہے۔

دینے کا عمل بے ثمر نہیں ۔ جب آپ کسی کو کچھ دیتے ہیں تو وہ بھی آپ کا دامن بھرنے پر آمادہ ہوتا ہے ۔تاہم اس معاملے میں ایک احتیاط ضروری ہے ۔کسی کو اس ارادے سے کچھ نہ دیں کہ وہ بھی بدلے میں آپ کو کچھ دے گا۔

اسی طرح ایسے شریک حیات کی خواہشیں پوری کرنے پر نہ تلے رہیں جو آپ کی محبت کا استحصا کر رہا ہو ۔ سب سے زیادہ مسرت انگیز شادیاں وہ ہوتی ہیں جن میں میاں بیوی خودغرضی کے کسی احساس کے بغیر ایک دوسرے کی ضرورتیں پوری کرتے ہیں ۔

محبت معاف کر دیتی ہے

مسرور زندگی بسر کرنے والے میاں بیوی کے درمیان بھی کبھی نہ کبھی تلخیاں پیدا ہوجاتی ہیں ۔ یہ کوئی انہونی بات نہیں ۔ جب اس قسم کی صورت حال پید اہوتی ہے تو پھر ہم ایک دوسرے کو معاف کردیتے ہیں اور دوسرے کی غلطیوں کو بھول جاتے ہیں ۔ یا پھر دل ہی دل میں کدورتیں اکٹھی کرتے رہتے ہیں۔ لیکن محبت کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ درگزر سے کام لیا جائے ۔ بات دل میں نہ رکھی جائے ۔
معاف کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ محض ظاہری برتاؤ درست کر لیا جائے مگر دل میں کدورت رہنے دی جائے ۔ معاف کرنے کا مطلب یہ ہے کہ دوسرے کی غلطی کو دل کی گہرائیوں سے فراموش کردیا جائے۔

باہمی رشتے کی صحت مند نشوونما کے لیے یہ طرز عمل نہایت ضروری ہے ۔

یاد رہے کہ محبت کا اہم ترین اصول یہ ہے کہ اپنے جیون ساتھی اور خود اپنے ساتھ ایسا سلوک کیا جائے جس سے آپ کی اپنی قدروقیمت ، وقار اور ساکھ میں اضافہ ہو ۔ اپنے بارے میں اچھے احساسات رکھنے سے آپ میں وہ اعتماد اور اطمینان قلب موجود رہے گا جو سچی محبت کو زندہ رکھنے کے لیے ناگزیر ہوا کرتا ہے ۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.