!نام یاد رکھنا مشکل نہیں ۔۔۔
میری طرح آپ بھی کئی دوستوں اور ساتھیوں سے یہ شکایت روزانہ سنتے ہوں گے ’’ میرا حافظہ تو بالکل جواب دے گیا ہے ۔ کسی سے ملتا ہوں اور صرف ایک منٹ بعد اس کا نام حافظے سے غائب ہوجاتا ہے‘‘ ۔
آپ کو خود بھی یہ شکایت ہے تو پھر یہ مضمون توجہ سے پڑھیں ۔ اس کے مندرجات حافظے کی تربیت کے مشہور امریکی استاد ہیری لوریان کے ایک آڈیو پروگرام سے اخذ کیے گئے ہیں ۔
لوریان اپنی بات کا آغاز ایک خوش خبری سے کرتے ہیں ۔ حافظہ ہمیشہ ہمارے ساتھ چالبازی نہیں کرتا ۔ کبھی کبھی یوں بھی تو ہوتا ہے کہ ہم کسی اجنبی سے ملتے ہیں اور اس کا نام برسوں تک ہمارے حافظے میں محفوظ رہتا ہے ۔پھر یہ بھی ہے کہ جو نام ہمیں یاد نہیں رہتے ، اصل میں وہ ہم نے دھیان سے سنے ہی نہیں ہوتے ۔ لہذا ان کے معاملے میں حافظے کو الزام دینا مناسب نہیں ہوتا ۔
ذرا ذہن میں لائیے کہ کسی اجنبی سے آپ آخری بار کب ملے تھے ۔ کسی دوست نے اس کا تعارف آپ سے یوں کروایا ہوگا۔’’ یہ پاشا صاحب ہیں ‘‘ مگر آپ تک ان لفظوں کی صرف بڑبڑاہٹ ہی پہنچی ہوگی ۔ پورانام آپ کے ذہن تک نہ پہنچا ہوگا اور آپ نے محض تکلف سے یا پھر لاپرواہی سے اس بات کو نظرانداز کر دیا ہوگا ۔ آخر ایک اور اجنبی کا نام یاد رکھنے کی ضرورت ہی کیا ہے ۔ اس ملاقات کے آدھے گھنٹے بعد یاد کرنے کی کوشش کی جائے تو ظاہر ہے کہ ذہن آپ کا تقاضا پوراکرنے سے قاصر ہوگا ۔ جس اجنبی کا نام تک صاف طورپرپہنچا ہی نہیں وہ اس کو دہرا کیسے سکتا ہے ۔ اس کے برخلاف اگر ملاقات کے وقت آپ نے دوست کو ٹوک کرکہا ہوتا سوری میں ان صاحب کا نام اچھی طرح نہیں سن سکا ہوں ، توپھر وہ نام ضرور ذہن میں رہتا ۔ آپ کو شکایت کاموقع نہ ملتا ۔
اکثر لوگوں نے خوامخواہ یہ فرض کر رکھا ہے کہ تعارف کے وقت کسی کا نام دوبارہ پوچھنا اچھی بات نہیں ۔ یہ ایک قسم کی بدتمیزی ہے ۔لہذا وہ اس بدتمیزی سے اجتناب ہی کرتے ہیں ۔ لیکن یہ انداز فکر کسی اعتبار سے بھی معقول نہیں ہے ۔ کسی شخص کا اہم ترین اثاثہ اس کا نام ہوتا ہے ۔ آپ دوبارہ اس کا نام پوچھیں گے تو وہ برا نہ مانے گا ، بلکہ خوش ہوگا کہ آپ نے اس کی ذات میں دلچسپی لی ہے ۔ اس لیے آئندہ جب کبھی آپ کسی شخص سے پہلی بار ملیں اور تعارف کے وقت اس کا نام اچھی طرح نہ سن سکیں تو شرمانے یا گھبرانے کی ضرورت نہیں ۔ تعارف کرانے والے سے یا خود اس شخص سے اس کا نام پوچھ لیں ۔
پانچ اصول
نام یاد رکھنے کے یہ اصول بہت سے ماہرین نفسیات کی تحقیقات سے اخذ کیے گئے ہیں ۔ ان پر عمل کرنے والوں کا کہنا ہے کہ یہ اصول لوگوں کے نام یاد رکھنے میں بہت مددگار ثابت ہوتے ہیں ۔آپ بھی یقینی طورپر ان سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں ۔
پہلا اصول وہی ہے جس کا ابھی ہم نے ذکر کیا ہے ، یعنی جب آپ کسی شخص سے پہلی بار ملیں تو اس کا نام توجہ سے سنیں ۔ اگر آپ اس کا نام اچھی طرح نہیں سن سکے ہیں ،تو ہچکچائے بغیر نام دوبارہ پوچھ لیں ۔
نام نامانوس ہے ، آپ نے پہلے کبھی ویسا نام نہیں سنا یا اس کے ہجوں کے بارے میں ذہن میں کوئی ابہام ہے تو نام کے ہجے پوچھ لیں ۔ اس طرح وہ نام ذہن پر زیادہ اچھی طرح سے نقش ہوسکے گا اور ذہن کے لیے اس کو بھولنا آسان نہیں رہے گا۔
نام کے حوالے سے کوئی تبصرہ کر دیجئے ، کوئی بات ، کوئی ایک آدھ جملہ کہہ ڈالیے ۔ مثلا واہ کیا نام ہے ، یا دفتر میں میرے ساتھی کا نام بھی یہی ہے ،یا پھر یہ کہ نام تو بہت خوب ہے مگر اس کے معنی کیا ہیں ۔
اس شخص کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے نام ایک دوبار دہرا دیجئے ۔ اس طرح نام ذہن میں زیادہ موثر طور پر رجسٹر ہوجائے گا۔
ملاقات کے خاتمے پر نام لے کر خداحافظ کہیں ۔
تصویر بنائیں
یہ بات یاد رکھیں کہ جن الفاظ کی آپ ذہن میں تصویر بنا سکتے ہیں یا جو قابل محسوس اور بامعنی ہیں ، وہ خودبخود ذہن پر نقش ہوجاتے ہیں ۔ان کو یاد رکھنا زیادہ آسان ہوتا ہے اور بھولنا نسبتا مشکل ہوتا ہے ۔ ماہ رخ، جمیل اور فیاض جیسے ناموں کا ذہن میں تمثالچہ آسانی سے بن جاتا ہے ۔ شاید میں یہاں ایک زیادہ مشکل لفظ استعمال کردیا ہے مگر اس کا مطلب بالکل سادہ ہے اور وہ یہ ہے کہ جب ہم یہ اور اس قسم کے دوسرے نام سنتے ہیں تو ذہن میں ایک خاکہ سا ابھرتا ہے ۔ یہ عمل نام کو ذہن کی جھولی میں ڈال دیتا ہے تاکہ دوبارہ ضرورت پڑنے پر وہ جھولی سے نکال کر آپ کو دے دے ۔
اچھا یہ ایک بات ہوئی مگر سب نام اقصیٰ ، مریم اور سیف الرحمان جیسے نہیں ہوتے جو ذہن میں خاکے پیداکریں ۔ ان کے معاملے میں کیا کیا جائے ؟ جب میں نے پہلی بار منگت علی کا نام سنا تو بہت نامانوس سا لگا ۔ میں جان گیا کہ یہ نام اجنبی ہے ۔ اس کو یاد رکھنے میں مشکل پیش آئے گی مگر میرے ذہن میں فورا ہی ’’ من گیت‘‘ کی گھنٹی بجی ۔ یوں یہ ناآشنا نام دوست اور جانے پہچانے الفاظ میں ڈھل گیا۔
رادھا کرشنن بھارت کے صدر رہے ہیں ۔ وہ بہت بڑے فلسفی تھے ۔ انہوں نے ایسی کتابیں لکھی ہیں جو پڑھنے میں لطف دیتی ہیں اور فکر انگیز ہیں ۔ ایک عرصے تک میں ان کا قاری رہا مگر ان کا نام کنفیوژ کردیتا تھا ۔ رادھا کرشنن کی بجائے میں ان کو رادھا کرشن کہتا مگر غلطی کا احساس بھی ہوجاتا ۔ آخر کار میں نے اس نام کا تصور ذہن میں بنایا ’’ رادھا کرشن اور ن۔‘‘ اس کے بعد مجھے اپنے اس پسندیدہ فلسفی کادرست نام یا د کرنے میں کبھی دشواری پیش نہیں آئی ۔
افتخار عارف مشہور شاعر ہیں۔ وہ میرے باس رہے ہیں ۔ لیکن ان کے نام میں مجھ سے گھپلا ہوجاتا تھا ۔ میں ان کو عارف افتخار کہہ دیتا ۔ ایک سیمینار کی نظامت کرتے ہوئے سو ڈیڑھ سو ادیبوں کی موجودگی میں سٹیج سے میں نے ان کا نام عارف افتخار ہی پکار دیا ۔ یہ شرمندگی کا لمحہ تھا ۔ تب میں نے ان کے نام کا خاکہ بنایا کہ الف پہلے آتا ہے ۔ اب میرے ذہن میں ان کا درست ہی رہتا ہے ۔
چہرے اورنام
چہرے آسانی سے نہیں بھولتے ۔ گڑبڑ ناموں کے معاملے میں ہوتی ہے ۔ اچھا اگر ہم چہرے پہچان سکتے ہیں تو ایسا کیوں نہیں ہوسکتا کہ چہرے خود ہی نام بتانے لگیں ؟
اس کا طریقہ یہ ہے کہ چہروں کو ان کی مخصوص ساخت اور نقوش کے حوالے سے جانی پہچانی چیزوں سے منسوب کردیا جائے ۔
یہ وہ چند طریقے ہیں جن پر عمل کرکے ناموں کے بارے میں آپ کی یادداشت یقینی طورپر بہتر ہوجائے گی ۔ سماجی زندگی میں یہ بات آپ کے لیے بہت فائدہ مند ثابت ہوگی ۔