اپنے آپ سے بھرپور فائدہ اٹھائیے
محبت ، کھیل اور دوستی کے معاملے ہوں یا کاروبار اور پیشے کے امور ، ہماری کامیابی کا بڑی حد تک دارومدار ہمارے تصور ذات پرہوتا ہے ۔ شاید یہ مشکل اصطلاح ہے ۔ لہذا ہم فورا ہی آپ کو بتادیتے ہیں کہ تصور ذات سے مراد یہ ہے کہ اپنے بارے میں ہماری رائے کیا ہے ۔ اپنی قدروقیمت کا یقین رکھنے والے لوگ کامیابیوں اور مسرتوں کی طرف تیزی سے بڑھتے چلے جاتے ہیں ۔ زندگی کی اچھی چیزیں پکے ہوئے پھل کی طرح ان کی جھولی میں گرتی رہتی ہیں ۔ ان کے تعلقات پائیدار ہوتے ہیں ۔ ان کے خواب ادھورے نہیں رہتے اور منصوبے اکثر مکمل ہوجاتے ہیں ۔ لگتا ہے کہ خوشیاں ان کی منتظر رہتی ہیں ، وہ جب چاہیں ہاتھ بڑھا کر انہیں پکڑ لیتے ہیں ۔
محبت ، کھیل اور دوستی کے معاملے ہوں یا کاروبار اور پیشے کے امور ، ہماری کامیابی کا بڑی حد تک دارومدار ہمارے تصور ذات پرہوتا ہے ۔ شاید یہ مشکل اصطلاح ہے ۔ لہذا ہم فورا ہی آپ کو بتادیتے ہیں کہ تصور ذات سے مراد یہ ہے کہ اپنے بارے میں ہماری رائے کیا ہے ۔ اپنی قدروقیمت کا یقین رکھنے والے لوگ کامیابیوں اور مسرتوں کی طرف تیزی سے بڑھتے چلے جاتے ہیں ۔ زندگی کی اچھی چیزیں پکے ہوئے پھل کی طرح ان کی جھولی میں گرتی رہتی ہیں ۔ ان کے تعلقات پائیدار ہوتے ہیں ۔ ان کے خواب ادھورے نہیں رہتے اور منصوبے اکثر مکمل ہوجاتے ہیں ۔ لگتا ہے کہ خوشیاں ان کی منتظر رہتی ہیں ، وہ جب چاہیں ہاتھ بڑھا کر انہیں پکڑ لیتے ہیں ۔
خود کو کامیاب تصور کریں
میں اگر جان سکتا کہمیرے مریض دل ہی دل میں اپنے بار ے میں کیا باتیں کرتے ہیں تو مجھے یقین ہے کہ ان باتوں کی اکثریت منفی قسم کی ہوتی ۔ ان کا اندازہ کچھ اس قسم کا ہوتاکہ ’’ آج پھر میں حسب معمول لیٹ ہوگیا ہوں ‘‘۔ ’’ آج میرا لباس بہت ہی بیہودہ لگ رہا ے ‘‘ ’’ میں نے پھر حماقت کردی ہے ۔ وہ ضرور مجھے احمق محسوس کررہی ہوگی۔‘‘ اس قسم کے ہزاروں پیغام روزانہ ہمارے ذہنوں میں ابھرتے ہیں ۔ لہذا یہ کوئی تعجب کی بات نہیں کہ وہ ہمارے تصور ذات کو کمزور کرتے ہیں ۔یوں ہم اپنے آپ کو بے وقعت سمجھنے لگتے ہیں ۔
خود اعتمادی پیدا کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ ہم اپنے آپ کو کامیاب اور باوقار فرد تصور کرنے لگیں ۔
کامیابی کے لیے تیار ہوجاتے ہیں ۔
مصنف اور مدیر نارمن کوسنز نے بہت سی اچھی باتیں کہی ہیں ۔ ایک یہ ہے کہ ’’ لوگوںکو عدم تحفظ کا شدید ترین احساس اس وقت ہوتا ہے جب وہ اپنے خوابوں کی قیمت پر خوف سے مغلوب ہوجاتے ہیں ‘‘واقعی جب ہم اس قدر خوف زدہ ہوجائیں کہ خوابوں کی پرواہ بھی نہ رہے تو پھر عدم تحفظ کا احساس ہمیں گھیر لیتا ہے ۔
اس بات کو ذہن نشین کر لیں کہ جب ہم خود کو کامیاب اور خوش بخت تصور کرنے لگیں تو پھر کامیابی اور خوش بختی کے دروازے بھی کھلنے لگتے ہیں ۔
دوسروں لوگوں کی توقعات سے جان چھڑائیں
ہم خود کو دوسروں کی توقعات کے مطابق ڈھالنے سے انکار کریں تو ہم کو آزادی کا احساس ہوتا ہے ۔اپنی وقعت اور اپنی قدروقیمت محسوس ہونے لگتی ہے ۔ اوپیرا سنگر رائس سٹیونز کا معاملہ یہی تھا ۔ سٹیج پر وہ بڑے اعتماد سے گاتی تھی ، اداکاری کرتی تھی لیکن جب وہ کسی سماجی تقریب میں شریک ہوتی تو اس کی خوداعتمادی بھاپ بن کر اڑ جاتی ۔ سٹیونز اس سے بہت پریشان تھی۔ وہ کہتی ہے کہ ’’ میری تمنا تھی کہ سٹیج کے علاوہ ڈرائنگ روم کی شہزادی بھی بن جاؤں ۔ اس تمنا نے مجھے بہت خراب کیا ۔ محفل میں کوئی چالباز دوسروں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے کوئی لطیفہ سناتا تو میں بھی لطیفہ سنانے کے لیے تڑپنے لگتی مگر ناکام رہتی ۔ میں ایسے موضوعات سے آگاہی کے دعوے کرتی تھی جن کے بارے میں مجھے کوئی اگ سگ نہ تھی ۔‘‘
رائس سٹیونز کو آخرکار حل مل گیا ۔ اس نے اپنے ساتھ دل کھول کر باتیں کیں ۔’’ میں نے مان لیا کہ لطیفہ گوئی میرے بس کی بات نہیں ۔ نہ ہی میں دانش بگھار سکتی ہوں ۔ میں جو کچھ ہوں ، اس کو قبول کرکے ہی کامیاب ہوسکتی ہوں ۔ چنانچہ میں نے محفلوں میں دوسروں کو متاثر کرنے کی واہیات کوششیں چھوڑ دیں ۔ اب میں دوسروں کی باتیں سننے لگی ۔ ان سے سوال کرنے لگی ۔ میں زبان کھولتی تو چمکنے کے لیے نہیں بلکہ شریک گفتگو ہونے کے لیے ۔ یوں اچانک ہی مجھے اپنے سماجی تعلقات میں ایک نیا لطف محسوس ہونے لگا ۔ مزے کی بات یہ ہے کہ لوگ بھی مجھے پہلے سے زیادہ چاہنے لگے ۔‘‘
اس قصے کا سبق یہ ہے کہ اپنی فطرت ، اپنی اصلیت پر مصنوعی نقاب نہ چڑھائیں تو ہم سے اکثر دیکھیں گے کہ ان کی فطری امتیازی صفات خودبخود نمایاں ہونے لگیں گی ۔ اس طرز عمل سے ہماری انفرادیت نشوونما پانے لگتی ہیں ۔ اسی انفرادیت کی دریافت اور اظہار اس زمین پر ہمارے وجود کا جواز ہے ۔ دوسروں کی مرضی کے مطابق ڈھلنے کی خواہش کی مزاحمت کرنا اور اپنی چھوٹی چھوٹی انفرادی خصوصیات کو فروغ دینا ہی وہ اقدامات ہیں جو آزادی اور خوداعتمادی کی بنیاد بنتے ہیں ۔
دوستوں کا حلقہ بنائیں
میرے بہت سے مریض اپنا تصور ذات بہتر بنانے کے لیے کئی طریقے استعمال کرتے ہیں مگر وہ عموما ایک ایسا طریقہ بھول جاتے ہیں جو ان کے بہت کام آسکتا ہے ۔وہ طریقہ یہ ہے کہ اچھے دوستوں کا حلقہ بنایا جائے ۔
خوداعتمادی پیدا کرنے کا ایک یقینی طریقہ یہ ہے کہ زندگی میں بہت سی محبتیں سمیٹی جائیں ۔ لہذا مضبوط اور محبت انگیز تعلقات بنانے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہئے ۔ ایسے مددگاری تعلقات پیدا کرنے کے لیے دوستوں کا حلقہ وسیع کرنا اور نت نئے دوست بنانا ضروری نہیں ۔ پہلے سے موجود دوستیوں میںمزید گہرائی پیدا کرکے بھی ہم یہ مقصد حاصل کرسکتے ہیں ۔
عزیز واقارب سپورٹ کا بڑا وسیلہ بن سکتے ہیں ۔ لہذا والدین ، بہن بھائیوں اور دوسرے قریبی رشتے داروں سے میل جول بڑھائیں۔ ان کے دکھ سکھ میں شرکت کریں ۔ میرا ایک دوست کہتا ہے کہ والدین ، بہن بھائیوں اور دوسرے عزیزوں سے ہر ملاقات کے بعد اس کا یہ احساس بڑھ جاتا ہے کہ وہ کون ہے ، کہاں سے آیا ہے اور کہاں جانا چاہتا ہے ۔
سچی بات یہ ہے کہ اپنے ورثے کے ساتھ اس قسم کے رابطے ہماری شناخت کو اجاگر کرتے ہیں ۔
دنیامیں صلاحیتیوں کی تقسیم پر ہمیں پریشان نہیں ہونا چاہئے ۔ ہماری ذمہ داری بس یہ ہے کہ قدرت نے جو صلاحیتیں ہمیں عطا کی ہیں ، ان کو ترقی دیں اور بہترین طریقے سے ان کو استعمال کریں ۔
جاپان کا یاما موٹو ذہنی طور پر معذور پیدا ہوا تھا ۔ چھ ماہ کی عمر میں ڈاکٹروں نے اس کے والدین کو بتا دیا تھا کہ وہ بہرہ ہے۔اس سے اس کی قوت گویائی اور ذہانت بھی بری طرح متاثر ہوئی تھی ۔ یاما موٹو کا مستقبل تاریک دکھائی دیتا تھا ۔
نئی خصوصی تعلیم کے ایک استاد تاکاشی کاواساکی نے اس بچے میں خصوصی دلچسپی لینی شروع کی ۔ رفتہ رفتہ یاما موٹو نے جماعت میں مسکرانا شروع کردیا ۔پھر وہ بلیک بورڈ پر لکھے ہوئے حروف اور رسالوں میں چھپے ہوئے کارٹون کاپی پر اتارنے لگا ۔ ایک روز اس نے شہر کے قلعہ کا صحیح خاکہ بھی بنا لیا ۔ استاد کاواساکی نے بچے کو یہ ڈیزائن لکڑی کے ایک ٹکڑے پر بنانے کی ترغیب دی اور اس کی توجہ پرنٹ میکنگ پر مرکوز کرنے کی کوشش کرنے لگا۔یاما موٹو اس کام میں لگا رہا ۔ یہاں تک کے اس نے فن کے ایک مقابلے میں پہلا انعام حاصل کر لیا ۔ یاما موٹو اب جاپان کا مشہور فنکار ہے ۔ لوگ اس کے فن پاروں کی تلاش میں رہتے ہیں ۔
گویا اہم یہ نہیں ہے کہ قدرت نے یاماموٹو کے ساتھ انصاف نہیں کیا تھا اور اس کو عام بچوں کے مقابلے میں بہت کم صلاحیتیں دی تھیں ۔ اہم بات تو یہ ہے کہ اس نے اپنی معمولی صلاحیتوں کے حصار میں بند رہنے کی بجائے اپنے امکانات پر نظر رکھی ۔ یوں وہ بتدریج آگے بڑھتا چلاگیا۔
ہم خوشیاں پکڑنا چاہیں تو وہ ہاتھ سے نکل جاتی ہیں ۔یہی حال خوداعتمادی کا ہے ۔ اس کا پیچھا کریں تو آگے جاتی ہے ۔ اصل میں وہ ذیلی ثمر کے طور پر ہماری جھولی میں آگرتی ہیں ۔ ہم دوسروںکی خدمت کرنے یا اپنے آدرش حاصل کرنے کے لیے زندگی وقف کر دیتے ہیں ۔ محبتیں اور دوستیاں پالتے ہیں پھر اچانک کسی روز ہمیں احساس ہوتا ہے کہ ہم پراعتماد اور مسرور ہیں ۔