ناکامی سے مت ڈریں

ہم سب ناکامی سے ڈرتے ہیں ۔ناکامی کو بری بات سمجھتے ہیں ۔ ایسی بات جس سے شرم آنی چاہئے اور جس سے بچنے کے لیے ہرممکن کوشش کرنی چاہئے ۔ ناکامی پھر بھی ہمارا پیچھا نہیں چھوڑتی ۔ زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر وہ ہمیں پکڑ ہی لیتی ہے ۔ تب ہم پریشان ہوجاتے ہیں ۔قسمت کو کوستے ہیں ۔ اپنی صلاحیتوں پرشک کرنے لگتے ہیں اور کچھ نہیں تو دوسروں کو برابھلا کہنا شروع کر دیتے ہیں جو ہمارے خیال میں اس ناکامی کا کسی نہ کسی طور پرسبب ہوتے ہیں۔
خیر بہت سے نفسیات دانوں کی رائے مختلف ہے ۔ وہ زور دے کر کہتے ہیں کہ ناکامی ہرگز اس قدر خوفناک شے نہیں ہے ۔ وہ کامیابی کا و سیلہ بن سکتی ہے ۔جو لوگ اپنی مرضی سے ناکامی کا خطرہ مول لیتے ہیں اور پھر اس سے سبق سیکھتے ہیں ،ان کی کامیابی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
امریکا کی جارج واشنگٹن یونیورسٹی کے معاشیات کے پروفیسر امیٹانی ایٹزونی کے خیالات اس بارے میں بہت واضح ہیں ۔ وہ کہا کرتے ہیں کہ ناکامیاں زندگی کے کھیل کا ناگزیر حصہ ہیں۔کوئی شخص اس سے محفوظ نہیں۔

ناکامی کا تعین کرنا دشوار نہیں ۔ عام طور پر اس میں عزت نفس ، سماجی رتبہ یا روپے پیسے کا نقصان شامل ہوتا ہے۔ ناکامی کا سیدھے سادھے لفظوں میں مطلب یہ ہے کہ جو کچھ آپ حاصل کرنا چاہتے ہیںوہ حاصل نہیں ہوتا۔
بلاشبہ باشعور لوگوں کو کسی مصیبت کی خواہش نہیں کرنی چاہئے ۔ لیکن بدقسمتیوں کا سامنا کرکے ہم زندگی میںبہت سے سبق سیکھ سکتے ہیں ۔ گویا بدقسمتی ایک استاد ہے ۔ وہ ہم کو ہماری قوت ، ہماری صلاحیتوں اور ہماری حدود کا شعور عطا کرتی ہے ۔یوں ہم اپنے تئیں بہتر طور پر جاننے کے قابل ہوجاتے ہیں ۔یہ علم ، یہ شعور و احساس زندگی کے ہر قدم پر ہماری رہنمائی کرتا ہے۔
راس پیرٹ کا نام شاید آپ نے سنا ہو گا۔ وہ امریکا کا ارب پتی صنعتکارہیں اور صدارتی انتخابات میں امیدوار بھی رہ چکے ہیں ۔پیرٹ کا کہنا ہے کہ زندگی میں مسلسل کامیابیاں ہی حاصل ہوتی رہیں تو پھر خود پرستی اور آسودگی پیدا ہوجاتی ہے جو بالاخر کاہلی کا سبب بنتی ہے۔ پیرٹ کہتے ہیں کہ ان کو ایسے افراد درکار ہوتے ہیں جو میدان جنگ کو پسند کرتے ہوں ،جو جدوجہد پر آمادہ ہوں ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ناکامیوں سے نہ ڈرتے ہوں اور غلطی کرنے سے خائف نہ ہوں۔
زندگی میں پیچھے وہ لوگ رہ جاتے ہیں جو خطرات سے ڈرتے ہیں ۔ اس لیے وہ میدان میں نہیں اترتے ۔ وہ زندگی کی دوڑ میں شریک ہی نہیں ہوتے۔مقابلے کے میدان میں اترتے ہی نہیں۔ اس لیے ان کی کامیابی کا کوئی امکان بھی نہیں ہوتا۔ وہ بس کنارے پر کھڑے رہتے ہیں ۔ وہیں ساری زندگی گزار دیتے ہیں ۔جس تجربے میں آپ ناکام ہوجاتے ہیں وہ آپ کو بہت کچھ سکھا جاتا ہے ۔ یوں ناکامی تو دراصل نئے چیلنج تلاش کرنے کی قیمت ہے ۔
آپ بھی ناکامیوں سے ڈرتے ہیں تو کامیاب اور بھرپور زندگی گزارنے کے لیے اس خوف سے نجات پالیں ۔ اس سلسلے میں آپ خود ہی اپنی مدد کر سکتے ہیں ۔ البتہ چار پانچ ترکیبیں ہم آپ کو بتا سکتے ہیں۔

’’ ناکامی ‘‘ کا لفظ خارج کر دی
چارلس گارفیلڈ کامیابی کے طریقوں کے بارے میں ایک قابل تعریف کتاب کے مصنف ہیں ۔اپنی کتاب میں انہوں نے ایک اہم نکتہ بیان کیا ہے کہ تاریخ میں جو لوگ کامیاب گزرے ہیں۔ان کو ’’ ناکامی ‘‘ کے لفظ سے چڑ تھی ۔ شاذونادر ہی یہ لفظ ان کی زبان پر آتا تھا ۔ کیوں ؟ اس لیے کہ یہ لفظ ایک منفی احساس پیدا کرتا ہے۔ خوف اور فرار کا اشارہ دیتا ہے ۔ آپ نے خو د بھی کئی کامیاب اصحاب کو یہ کہتے ہوئے سنا ہوگا کہ’’ ناکامی کا لفظ میری لغت میں نہیں ہے ۔‘‘ یہ ایک مثبت طرز عمل ہے ۔ آپ بھی اس کو اپنا لیں ۔

ذاتی مسئلہ نہ بنائیں
یاد رکھیں کہ ناکامی نتیجے کی طرح ایک روئیے کا نام بھی ہے ۔ حالا ت آپ کے قابو میں نہ رہیں اور آپکی محبوب شے آپ سے دور ہوتی چلی جائے ، اس کو پانے کے امکان دکھائی نہ دیں تو کیا آپ خود کو ناکام قرار دے دیتے ہیں؟
اچھا یوں ہے تو پھر ایک بات پلے باندھ لیں ۔ آپ اپنی صورتحال ،اپنی کیفیت کو جس انداز سے بیان کرتے ہیں ، وہ ایک طاقتور حقیقت بن سکتی ہے ۔ مثلا ہر وقت آپ خود کو ناکام طالب علم یا ناکام افسر کہتے رہیں تو اس سے ہوگا یہ کہ آپ خود کو ایک ناکام شخصیت کے طور پرقبول کر لیں گے۔ اپنی نظروں میں آپ کی قدروقیمت گر جائے گی ۔ آپ خود کو حقیر اور کمزور سمجھنے لگیں گے ۔ اس سے بالاخر آپ کی خداداد صلاحیتیں کند ہوجائیں گی اور آپ واقعی ناکام شخص بن جائیں گے ۔ لہذا اس معاملے میں بے حد احتیاط سے کام لیں ۔ امتحا ن میں آپ پاس نہیں ہو رہے تو زیادہ محنت کریں ، اچھے اساتذہ کی رہنمائی حاصل کریں اور خوداعتما دی پیدا کریں ۔

تیار رہیں
ہم پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ ناکامی زندگی کے کھیل کا حصہ ہے ۔زندگی میں سب کو کہیں نہ کہیں اس سے دوچار ہونا پڑتا ہے ۔ تو پھر کیوں نہ ہم اس کے لیے تیار رہیں ۔ خود سے پوچھیں کہ ’’ میرے لیے بدترین بات کیا ہو سکتی ہے ؟‘‘ ممکن ہے کہ آپ کو ملازمت سے جواب مل جائے ۔ مشکل دنو ں کے لیے کیا آپ نے کچھ پس انداز کر رکھا ہے ؟ ملازمت کے خاتمے کی صورت میں کیا آپ کے پاس کوئی ایسی اہلیت ہے جس کے ذریعے آپ آمدنی کا وسیلہ پیدا کر سکیں ؟
اپنے حلقہ احباب ، سپورٹ سسٹم میں وسعت پیدا کرنا بہت ضروری ہے ۔ناکامی کا جواب ایسی متوازن زندگی بسر کرنا ہے جو خاندان ، دوستوں اور مشغلوں سے بھرپور ہو۔ کسی صورت میں بھی آپ کی پوری جذباتی زندگی کا دارومدار محض کسی ایک ملازمت ، فرد یا ماحول پرنہیں ہونا چاہئے ۔ ایسا ہوا تو آپ جامد ہو کر رہ جائیں گے ۔ لہذا زندگی میں ہر ممکن وسعت پیدا کرنی چاہئے تاکہ کسی ایک جگہ کا سامنا ہو تو آپ کے لیے متبادل صورتیں موجود رہیں۔
میرا ایک دوست اعلی افسر تھا ۔ عہدے کی وجہ سے وہ ٹھاٹ کی زندگی بسر کررہا تھا۔ مگر حالات بدل گئے ،نئی حکومت آئی اور اس کو ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑے ۔ میری ملاقات ہوئی تو میں نے پوچھا کہ آیا اس کے پاس کسی نئی ملازمت کا منصوبہ ہے ۔ اس نے ’’ نہ‘‘ میں جواب دیا ۔ میں جان گیا کہ وہ واقعی مشکل میں ہے ۔

ہوشیاری سے ناکام ہونا سیکھیں
امریکا کی ہوسٹن یونیورسٹی کے پروفیسر جیک میٹسن نے ایک نصاب تیا ر کیا تھا جس کو اس کے شاگرد ’’ ناکامی زیرو زیرو سیون‘‘ کا نام دیتے تھے۔ میٹسن اپنے شاگردوں کو ایسی چیزیں بنانے کو کہتا جن کی کوئی مانگ نہ تھی ۔ مثلا وہ ایسی پتنگیں بنانے کو کہتا جن کو کسی آندھی یا طوفان کے دوران بھی اڑایا جاسکے۔
بظاہر یہ باتیں مضحکہ خیز معلوم ہوتی ہیں مگر میٹسن دراصل اپنے شاگردوں کو یہ بتانا چاہتا تھا کہ ناکامی کا مطلب شکست نہیں۔ اس کا تقاضا یہ نہیں کہ آپ کمرے میں بند ہوجائیں اور دنیا کا سامنا کرنا چھوڑ دیں ۔ ناکامی کی صورت میں اپنی توانائیاں جمع کرنی چاہئیں اور ایک بار پھر میدان میں اترنے کے لیے تیار ہونا چاہئے۔
پروفیسر میٹسن کا یہ بھی کہنا ہے کہ ناکامی دو قسم کی ہوتی ہے۔ایک تو احمقانہ ناکامی ہے جس کی گرفت میں ہم بے خبری کے عالم میں آجاتے ہیں ۔

دوسری قسم کی ناکامی وہ ہے جس کو ہم پورے شعور اور احساس کے ساتھ قبول کرتے ہیں ۔ یہی شعور واحساس پھر ہمیں ناکامی کے اندھیرے سے نکلنے کی راہ دکھاتا ہے۔

ڈٹے رہیں

انیس سو پچھتر میں گیلن ارلی کی تعمیراتی کمپنی بری طرح ناکام ہوچکی تھی ۔ تب وہ صرف پچیس سال کا نوجوان تھا۔ اس نے ہمت نہ ہاری ۔ دیوالیہ ہونے سے بچنے کے لیے ارلی نے بہت ہاتھ پاؤں مارے ۔ دوستوں اور عزیزوں سے رقم اکھٹی کی اور کمپنی کو بچالیا ۔ اس کے بعد وہ تعمیراتی کام کرتا رہا۔ اس نے اچھا منتظم بننے کی کوشش کی ۔ انیس سو بیاسی میں اس نے قرض لے کر بڑے پیمانے پر کام شروع کیا ۔ بنکوں میں اب اس کی ساکھ بن گئی تھی ۔ مشکل وقت پر وہ خاصی رقم حاصل کر سکتا تھا۔
گیلن ارلی نے بڑی احتیاط سے تعمیراتی کاروبار کو ترقی دی ۔ اس نے بزنس ایڈمنسٹریشن کی تعلیم بھی حاصل کی ۔ چنانچہ صرف چھ سال بعد اس کی کمپنی کو امریکا کی سب سے تیزی سے ترقی کرنے والی پانچ سو نجی کمپنیوں کی فہرست میں شامل کر لیا گیا۔
اس کامیابی کے باوجود گیلن ارلی مطمئن نہ ہوا۔ برے دنوں کی یادیں اس کو ہانٹ کرتی ہیں ۔ چنانچہ وہ کہتا ہے ’’ کامیابی کا نشہ میرے حواس معطل نہیں کر سکتا۔ لہذا میں ہر وقت اپنے کاروبار کو ترقی دینے کی کوشش میںرہتا ہوں ۔‘‘
یہ رویہ ناکامی کی چوٹ سے پیدا ہوا ہے ۔ یہ رویہ ہی ارلی کی کامیابی کا راز ہے ۔ آپ بھی اس کو اپنا سکتے ہیں !

Leave A Reply

Your email address will not be published.