خوف اورغصہ
خوف اور غصہ ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں ۔ بظاہر یہ بات ماننا ذرا مشکل لگتا ہے لیکن گہرائی میں جا کر غور کرنے سے واضح طور پر پتہ چل جاتا ہے کہ غصہ ہمیشہ کسی نہ کسی خوف کی وجہ سے ہی وجود میں آتا ہے۔دراصل غصے کے بارے میں ہمارے ہاں بہت سے غلط تصورات جنم لے چکے ہیں۔عام خیال یہ بھی ہوتا ہے غصہ خاندانی بھی ہوتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ غصہ ایک قدرتی جذبہ ہے۔ بالکل ویسے ہی جیسے غم اور خوشی ، جیسے پیار اور محبت یا ڈر لگنا۔ان جذبوں کی طرح غصہ بھی انسان کے اندر سے ہی جنم لیتا ہے۔اگر ہم اپنی نفسیاتی کیفیات کو سمجھنا شروع کردیں تو غصے پر قابو پانا سیکھ سکتے کیونکہ غصہ کوئی خرابی، اچھائی یا برائی نہیں بلکہ صرف ایک انسانی جذبہ ہے ۔
ہم اپنے اردگرد دیکھیں تو معاشرے میں لوگ غصے کو بہت ہی بڑا عیب سمجھتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ غصے سے بچتے بچتے کچھ لوگ غصے کی دہشت میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ ان میں زیادہ تر وہ لوگ ہیں جن کے ماضی کے ساتھ غصے کا بہت ہی برا روپ جڑا ہوتا ہے۔ عام طور پر ایسے لوگوں کو اپنے بچپن میں والدین ( دونوں یا کوئی ایک ) کے شدید غصے کا سامنا رہا ہوتا ہے ۔ اس لیے وہ غصے کی دہشت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ والدین اپنا غصہ بچوں پر ہی نکالتے ہوں ۔اگر باپ ، ماں کے ساتھ گالم گلوچ اور مارپیٹ کرتا ہے یا ماں ، باپ کو برا بھلا کہتے ہوئے خود کوجسمانی نقصان پہنچاتی ہے تو یہ صورتحال بھی بچوں کو دہشت زدہ کرنے کے لیے کافی ہے۔
ایسے تمام افراد کے اندر ایک خوف بیٹھ جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے وہ بڑے ہو کر بھی ہر اس ممکنہ صورت حال یا رستے سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں جس میں انہیں کسی کے غصے کا سامنا ہو سکتا ہو۔ ایسے لوگ رشتے ناطوں سے بھاگنا شروع کر دیتے ہیں۔انہیں جب کسی کے غصے کا سامنا مجبورا کرنا ہی پڑ جائے تو یہ خود اذیتی کا شکار ہو جاتے ہیں۔اندر ہی اندر کڑھتے رہتے ہیں یا خود کو جسمانی نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ غصے کی دہشت میں مبتلا لوگ ہر وقت اپنے غصے کو دبانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں ۔ یہ صورت حال کسی بھی طرح صحت کے لیے ٹھیک نہیں ۔
یاد رکھیں اپنے غصے کو اگر مسلسل دبایا جائے تو اس سے ذہنی اور جسمانی کش مکش کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ غصے کو دبانے سے آپ ایسی اذیت سے گزرتے ہیں جن کی وجہ سے آپ جسمانی بیماریوں جیسا کہ معدے کی بیماریاں، جلن یا السر ،ہر وقت سر میں درد رہنا ، بے خوابی حتی کہ دل کی بیماری کا شکا رہو سکتے ہیں۔ جبکہ نفسیاتی سطح پر مسلسل غصہ پی جانے سے رشتے ٹوٹنے لگتے ہیں۔ اندر ہی اندر غصہ پالنے سے ڈپریشن کا مرض لاحق ہوسکتا ہے اور ایسے لوگوں کی عزت نفس ختم ہو کر رہ جاتی ہے۔
غصے کو پی جانا یا غیرصحت مند طریقے سے اس کا اظہار کرنا دونوں ہی درست نہیں۔عام طور پر جب ہم غصہ کرتے ہیں یااس کو اندر ہی اندر پی جاتے ہیں تو اس کے پیچھے دراصل ہمارے اندر کسی نقصان کا خوف ، کسی رشتے کے کھو جانے کا خوف یا اپنی ضروریات کو محسوس کرنے کا خوف چھپا ہوتا ہے۔ آپ کوان سب قسم کے خوف سے چھٹکارا پانے کی ضرورت ہے کیونکہ جب آپ ان پر قابو پا لیں گے تو غصہ بھی خود بخودقابو میں آ جائے گا۔
غصے سے نمٹنے کا سب سے سادہ اور آزمودہ نسخہ یہ ہے کہ جب آپ کو غصہ آئے تو آپ فور ا اپنی اس سوچ اور خیال پر غور کریں جو غصے کا سبب بن رہا ہے ۔ انسانی ذہن کا کمال یہ ہے کہ اگر آپ مثبت یا منفی جیسا سوچنا شروع کرتے ہیں ، ویسے ہی خیالات ایک لڑی کی طرح جمع ہونا شروع ہوجاتے ہیں ۔اس لیے اپنی اس سوچ کوطول دینے کی بجائے اسے حقیقت پر پرکھتے ہوئے تبدیل کریں ۔کیونکہ جیسے ہی آپ اپنی سوچ اور خود بخود امڈتے خیالات کو بلاسوچے سمجھے قبول کرنے سے انکار کردیں گے تو آپ کو ہر بات پر اور آخرکار کسی بھی بات پر غصہ نہیں آئے گا۔ ذرا اپنی زندگی ہی پر غور کریں تو آپ کو کئی ایسی مثالیں یاد آجائیں گی جب آپ سرپکڑے بیٹھے تھے اور پھر اچانک آپ نے سوچا کہ زیادہ سے زیادہ کیا ہوجائے گا اور آپ نارمل ہونا شروع ہوجائے ۔ ایک جملہ بھاڑ میں جائے سب کچھ ، بھی کبھی نہ کبھی آپ نے بولا ہوگا جس کے بعد معاملے کی سنگینی کم ہونا شروع ہوگئی ہوگی۔
ایک منٹ کے لیے سوچیں کہ آپ نے غصے پر قابو پالیا ہے ۔ یہ خیال ہی کتنا پرلطف ہے۔زندگی کتنی آسان اور ہلکی پھلکی لگنے لگتی ہے ، ہے ناں !چلیں پھر ایک لمبا سانس لیں اور اپنے خوف ، اندیشوں اور وہموں کا سینہ تان کر سامنا کریں۔ اپنے ساتھ ساتھ اپنے ردعمل کی بھی ذمہ داری اٹھائیں اور آہستہ آہستہ اپنے ردعمل کی اہلیت کو بہتر بناتے ہوئے غصے پر قابو پائیں۔ یاد رکھیں یہ کرنا آپ کے ہاتھ میں ہے ۔کیونکہ سوچ اور عمل کے درمیان صرف ایک قدم کا فاصلہ ہوتا ہے۔ آپ چاہیں تو ساری زندگی سوچتے ہوئے گزار دیں اور چاہیں تو اسی لمحے سے اپنے ردعمل کی ذمہ داری اٹھانا شروع کردیں اور ایک بالکل نئی زندگی کا لطف اٹھائیں۔اب فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے۔