آپ کا رویہ ذمہ دارانہ ہے ؟

ہم کیا ہیں ؟ ہم کیا کرتے اور کیا کہتے ہیں؟ ہماری شخصیت کیسی نظر آتی ہے ؟ ان سب پہلوئوں پر بات کریں تو ہر ایک کے پاس کئی ایک جواب ہوں گے ۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم جو کچھ بھی کرتے ، کہتے اور سمجھتے ہیں ۔وہ سب ہمارے ذہن میں آنے والے خیالات کی وجہ سے ہوتا ہے۔یوں سمجھ لیں کہ ہمیں حالات نہیں دراصل خیالات ہیں جو پریشان یا خوش رکھتے ہیں۔ ہمارے خیالات ہماری نظریاتی سوچ سے جنم لیتے ہیں۔نظریاتی سوچ کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنی زندگی کو کن تناظر میں دیکھتے ہیں۔ یہ نظریاتی سوچ نسل در نسل چل کر ہمارے تک آتی ہے۔ معاشرہ ، اردگرد بسنے والے لوگ، تہذیب اور مذہب سب مل جل کر انسان کی نظریاتی سوچ کو بناتے ہیں۔ ہر انسان کے خیالات کی جڑ اس کی نظریاتی سوچ ہے۔ اسی لیے ہمیں اپنے اندر تبدیلی لانے کے لیے صرف ظاہری سوچ یا عادات کا بدلنا کافی نہیں بلکہ اس کے لیے نظریاتی سوچ کو بدلنا پڑے گا۔

اس دور میں زندہ رہنے کے لیے آپ میں اتنی ہمت اور طاقت ہونی چاہیے کہ اپنی تازہ ترین حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی نظریاتی سوچ کو چیلنج کر سکیں ۔ انہیں جانچ سکھیں اور ان کی پرکھ کر سکیں ۔اپنی نظریاتی سوچ کو پرکھنا اس لیے ضروری ہے کہ اگر آپ کے نظریات درست ہوںگے تو آپ زندگی میں پیش آنے والے ہر چیلنج کا مقابلہ کر لیں گے لیکن اگر نظریات کی بنیادیں کمزور ہوں گی تویہ کسی بھی چھوٹے بڑے چیلنج کے مقابلے میں ڈھے جائیں گے اور ان کے ساتھ ہی آپ کی شخصیت بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجائے گی۔

 

ڈاکر سٹیفن کوی نے اپنی مشہور زمانہ کتاب ’’ کامیاب لوگوں کی سات عادات‘‘ میں نظریاتی سوچ کوہی چیلنج کیا ہے۔ ڈاکٹر سٹیفن کوی کے خیال میں نظریاتی سوچ میں تبدیلی لانے سے بڑے بڑے انقلابات آتے ہیں۔ آپ کے سامنے سوچ کے نئے در کھلتے ہیں اور نت نئے حقائق سے پردہ اٹھتا ہے۔

کامیاب لوگوں کی سات عادات میں سے پہلی عادت ’’ ذمہ دار بنئے‘‘ ہے۔ یعنی اپنے آپ کے اعمال اور نفع نقصان کی مکمل ذمہ داری لینا۔ خود کو مظلوم اور زمانے ، معاشرے اور نظام کو برا بھلا کہتے ہوئے اپنی ناکامیوں کا ذمہ دار نہ ٹھہرانا۔ خود کو ذمہ دار سمجھنے کی یہ عادت ایسی ہے جس کو ہر پس منظر میں استعمال کرکے آپ اپنے حالات پر مکمل قابو پاسکتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر کوئی شخص اپنے اعمال، اپنی سوچ اور اپنے جذبات و احساسات کی مکمل ذمہ داری لے لے گا تو اس کے مقابل کسی دوسرے شخص کو ہرگز حالات بگاڑنے کو کوئی موقع نہ ملے گا۔ ذمہ دار لوگ ،رجعت پسند لوگوں کے مقابلے میں ہر ایک آنے والی صورتحال کی پہلے سے تیاری کرکے رکھتے ہیں جبکہ رجعت پسند حالات کا سامنا ہونے پر دفاعی رویہ اختیار کرتے ہیں، دفاعی رویہ مسائل کو سلجھانے میں مدد دینے کی بجائے ان کو مزید بگاڑ دیتا ہے۔

یاد رکھیں !ہمارا دماغ دو حصوں میں بٹا ہوا ہے۔ دایاں اور بایاں حصہ۔ بایاں حصہ منطقی سوچ کے لیے ہے ۔ اس کے ذریعے آپ زبان پر عبور حاصل کرتے ہیں۔ الفاظ جوڑتے ہیں، جملے بناتے ہیں اور منطقی حل سوچتے ہیں۔ جبکہ دایاں حصہ تخیلاتی سوچ کے لیے ہے۔ اس کے ذریعے آپ جذبات ، واقعات ، تخیل اور احساسات کو جنم دیتے ہیں ، یوں سمجھ لیں کہ بایاں حصہ سائنس ہے تو بائیں حصے کا تعلق آرٹس سے ہے۔دایاں حصہ خواب دیکھتا ہے اور بایاں حصہ اس کی تعبیر کا ساماں کرتا ہے۔

اب یہ نازک بات سمجھ لیں کہ جب انسان اپنے تخیلاتی ذہن کو استعمال میں لاکر کوئی سوچ اپناتا ہے تو یہ اس کا ذمہ دارانہ رویہ ہے جبکہ اپنے ذہن کو استعمال کرنے کے بجائے جب آپ حالات کا شکار ہوکر دفاع یا فرار پر مجبور ہوتے ہیں تو یہ انسان کی رجعت پسندی ہے۔ مثال کے طور پر اگر آپ ریسٹورنٹ میں کھانے کا پروگرام بناتے ہیں اور گھر یہ طے کرکے نکلتے ہیں کہ آپ کیا کھانا چاہتے ہیں تو یہ ذمہ دارانہ سوچ ہے لیکن اگر آپ گھر والوں کے ساتھ بس نکل پڑتے ہیں کہ جو کوئی سا بھی پہلے سامنے آیا اور وہاں جو کچھ مل گیا کھا لیں گے تو یہ رجعت پسندانہ سوچ ہے۔ یہ صرف ایک مثال ہے ، اگر آپ سوچیں گے تو آپ کو اپنی زندگی میں اس سے ملتے جلتے بہت سے واقعات یا د آجائیں گے۔سو ابھی فیصلہ کریں۔۔۔۔۔

ذمہ دار بنئے ۔۔۔۔ رجعت پسند نہیں!

Comments (0)
Add Comment