’’کامیابی ‘‘ تیرا شکریہ

’’ کامیابی ڈاٹ پی کے ‘‘ پر دبئی سے محمد خالد صاحب کی اسٹوری ’’ بیٹی !آئی ایم سوری ‘‘ پڑھ کر دل بھر آیا۔ ایک عرصے بعددل میں کھٹکنے والے واقعے میں ایک بار پھر مجھے کچوکے لگانا شروع کردیئے ۔ بڑے بھائی اس واقعے کے مرکزی کردار تھے ۔

کئی سال پہلے کی بات تھی ۔بھائی جان محمد ایوب کی ایف اے کی سند کا کوئی مسئلہ تھا ۔ میں ان کے ساتھ فیصل آباد تعلیمی بورڈ گیا ۔ وہاں مطلوبہ اہلکار ایک گھنٹے کی محنت کے بعد ہاتھ لگا لیکن تب پتہ چلا کہ بھائی جان تو اپنے ساتھ کسی قسم کے ڈاکیومنٹس نہیں لے کر آئے ۔ اس شخص نے رول نمبر پوچھا ، بھائی کو وہ بھی یاد نہ آیا ۔ یہاں تک کہ وہ ایف اے پاس کرنے کا سال بھی بھول گئے ۔ بورڈ کا ملازم بے بسی سے میری طرف دیکھنے لگا ۔ وہ شخص جسے میں نے ایک گھنٹے کی مشقت کے بعد پکڑا تھا اب لگ رہا تھا جیسے میری ساری محنت ضائع جانے والی ہے اور ہمیں خالی ہاتھ گھر واپس جانا پڑے گا۔

یہ خیال آتے ہی مجھے غصے آگیا ۔ میں نے ہونٹ بھینچے اور بھائی جان پر برس پڑا ۔ غصے کی حالت میں انہیں خوب جلی کٹی سنائیں ۔ وہ خاموشی سے سرجھکائے ، نظریں نیچی کرکے بیٹھے رہے ۔ بورڈ ملازم کے سامنے ڈانٹ پلائے جانے پر وہ خفت محسوس کررہے تھے لیکن میں اپنے دل کی بھڑاس نکالتا رہا ۔ خیر کام نہیں ہوناتھا ، نہ ہوسکا اور ہم خالی ہاتھ گھر لوٹ آئے ۔

واپس آکر میں کئی دن اداس رہا ۔ ایسے لگ رہاتھا ، جیسے میرے دل پر کوئی بڑا بوجھ ہو ۔ میں نے بورڈ میں ہونے والے واقعے کا ذکر کسی سے نہ کیا ، بھائی جان بھی خاموش رہے ۔ لیکن ان کا خفت سے بھرا چہرہ بار بار سامنے آتا رہا اور مجھے شرم سے پانی پانی کرتا رہا ۔ لیکن جھوٹی اور بے تکی انا آڑے آگئی اور میں نے بھائی سے اپنے نامناسب اور ہتک آمیز سلوک پر معافی مانگی اور نہ ہی کبھی شرمندگی کا اظہار کیا ۔ لیکن سچ یہ ہے کہ اس واقعے کی چبھن ہمیشہ دل میں رہی ۔

وقت گزرنے کے ساتھ بھائی جان سے محبت ، عقیدت اور انسیت بڑھتی گئی ۔ دوستی پہلے سے زیادہ ہوگئی ۔ اب صورت حال یہ ہے کہ بعض اوقات مجھ سے کوئی بات منوانے کے لیے ابو اور چھوٹے بھائی بھی ایوب بھائی کا کندھا استعمال کرتے ہیں ۔ بورڈ میں پیش آنے والا واقعہ بھی ذہن کے نہاں گوشوں میں گم ہوگیا لیکن پچھلے دنوں ’’ کامیابی ڈاٹ پی کے ‘‘ پر خالد بھائی کا واقعہ پڑھ کر زخم پھر سے ہرے ہوگئے ۔ میں نے اسی وقت بھائی جان کا نمبر ملادیا ۔

السلام علیکم بھائی ! میرا لہجہ غیر معمولی طور پر بھاری تھا ۔
وعلیکم السلام !کیسے ہو ؟ ایوب بھائی نے محبت بھرے انداز میں پوچھا ۔
ٹھیک ہوں بھائی ۔۔۔ میرا لہجہ اور بھاری ہوگیا ۔
’’ اوئے تیری طبیعت ٹھیک ہے ‘‘ بھائی بولے ۔
جی بھائی ۔
تو پھر اتنا سیریس کیوں ہے ؟
بھائی ! مجھے آپ سے معافی مانگنی ہے ۔۔ میرا لہجہ اور آنکھیں نم ہوچکی تھیں ۔
کس بات کی معافی ؟ بھائی کے لہجے میں حیرانی تھی ۔
بھائی میں نے آپ کا دل دکھایا ۔
کب ، کس وقت ۔۔۔؟ انہوں نے حیرت سے پوچھا ۔

جواب میں ، میں نے زاروقطار رونا شروع کردیا ۔ میں انہیں فیصل آباد بورڈ کا وہ ناخوش گوار واقعہ یاد دلا رہا تھا اورآنسو میری آنکھوں سے ٹپ ٹپ گررہے تھے ۔ دوسری جانب صرف خاموشی تھی ۔بات مکمل کرتے کرتے میں ہچکی بندھ گئی ۔ میں نے روتے ہوئے کہا ’’ بھائی مجھے معاف کردیں ‘‘
’’اچھا میں نے معاف کیا ‘‘ فون کے دوسری طرف سے ایوب بھائی کی آواز ابھری ۔ لہجہ بتا رہا تھا کہ ادھر بھی محبت اور شفقت کی برسات میں آنسوؤں کی جھڑی لگی ہوئی ہے ۔’’ لیکن اب دوبارہ اس بات کا ذکر نہ کرنا اور نہ ہی معافی مانگنی ہے ‘‘ ۔

جی اچھا ۔۔۔! میں نے بڑی مشکل سے آنسو ضبط کرتے ہوئے کہا ۔

اس دن کے بعد سے میرے دل پر چھایا بوجھ ہمیشہ کے لیے ختم ہوگیا ہے ۔ بھائی ایوب سے محبت اور چاہت اور بھی گہری ہوگئی ہے ۔ اب کبھی ملاقات پر ان سے جپھی ڈال کر سرگوشی کرتے ہوئے پوچھتا ہوں ۔’’ کیا آپ نے مجھے معاف کردیا ؟‘‘ جواب میں وہ کچھ نہیں بولتے ، مجھے زور سے گلے لگا کر بھینچ لیتے ہیں ۔

برسوں پرانی دل میں ہونے والی چبھن سے نجات دلانے پر میں ’’ کامیابی ڈاٹ پی کے ‘‘ کا شکریہ ادا کرتا ہوں ۔ اس کا اظہار کے لیے مجھے یہی مناسب لگا کہ اپنی کہانی بھی لکھ بھیجوں ۔یہ ویب سائٹ اپنے موضوع کے حوالے سے منفرد تو ہے ہی لیکن اس کا یہ حصہ ’’ اچھائی شیئر کریں ‘‘ لاجواب ہے ۔ ’’ کامیابی ! تیرا شکریہ ۔‘‘

محمد ناصر زیدی ، فیصل آباد

 

Comments (0)
Add Comment