سوبروڈر نے اپنی داستان یوں سنائی ہے ۔۔۔
’’ میں ایک چھوٹے سے گاؤں میں رہتی ہوں ۔ یہاں آباد ہوئے مجھے زیادہ عرصہ نہیں گزرا۔ گاؤں کی ایک خاتون جون سے ملنے کا مجھے دوبار اتفاق ہوا تھا ۔ اچانک وہ فوت ہوگئی ۔ میرا تاثر یہ تھا کہ وہ خوش اطوار عورت تھی ، غیر معمولی بہرطور نہ تھی ۔اس لیے چرچ میں اس کی آخری رسوم کے موقع پر لوگوں کا بہت بڑا ہجوم دیکھ کر مجھے حیرت ہوئی ۔ میںنے سوچا کہ مجھے شاید مرحومہ کی خوبیوں کا علم نہیں۔ لہذا اس کے متعلق صحیح رائے قائم نہ کرسکی تھی ۔ زیادہ جاننے کے لیے میں نے چرچ کے دروازے کے پاس کھڑے ایک سوگوار شخص سے پوچھا ۔
آخر یہ جون صاحبہ تھیں کون؟ اس کی خاطر اتنے زیادہ لوگ کیوں آئے ہیں ؟
‘‘اس شخص نے قدرے حیرانی سے مجھے دیکھا پھر کہنے لگا’ ان میں سے اکثر لوگ جون کے دوست ہی
واہ۔واہ۔ پھر تو بہت سی باتیں ہوںگی ۔‘‘ ادیب نے شفقت سے جواب دیا ۔ وہ سفر کے ماحول سے نکل آیا تھا اور باتوںکے موڈ میںدکھائی دیتا تھا لیکن میں سہما ہواتھا ۔ شاید میںنے غلط بات کہہ دی تھی ۔ اپنے لکھنے کا اعلان کرکے میں نے اس کی اہمیت کم کرنی چاہی ہے ؟ اس کی انا کوٹھیس تو نہیں پہنچی ؟ کیا اس نے برا منایا ہوگا؟
اس قسم کی صورت حال سے ہم سبھی دوچار ہوتے ہیں ۔ ہم اجنبیوں سے ڈرتے ہیں۔ محفلوں میں ان کے خوف سے کوئی اچھالطیفہ ،کوئی اہم بات کہنے سے جھجکتے ہیں۔ ملازمت کے لیے انٹرویو دینے جائیں تو متاثر کرنے کی کوشش میں اوٹ پٹانگ باتیں کرنے لگتے ہیں ۔ جہاںکہیں دلچسپ یااہم نظر آنے والے اجنبیوں سے ہمارا پالا پڑتا ہے تو ہم سہم جاتے ہیں ۔خلا میں گھورنے لگتے ہیں ۔
البتہ لوگوں سے گھلنے ملنے کا سلیقہ ہمیں آجائے تو صورت حال یکسر بدل جاتی ہے ۔ اجنبی افراد سے ڈرنے کے بجائے ہم انہیں گلے لگانے لگتے ہیں ۔ ان کو دوست بناتے ہیں ۔ ہماری شناسائیکا دائرہ پھیل جاتا ہے ۔ ہمارے رابطے روز بروز بڑھنے لگتے ہیں۔ہماری زندگی زیادہ بھرپور ہوجاتی ہے ۔
میں صحافی رہا ہوں۔ اس حوالے سے مجھے ساری دنیا میں گھومنے سے مواقع ملتے رہتے تھے۔ میں ان دنوں کو یاد کرتا ہوں تو کئی اجنبیوں کے ساتھ مڈبھیڑ مجھے زندگی کے سب سے یادگار لمحات محسوس ہوتے ہیں۔
اجنبیوں سے ملنا مجھے ان گفٹ بکسوں کو کھولنے سے زیادہ پرلطف لگتاہے جن کے بارے میں ہم نہیں جانتے کہ ان میں کیا ہے ۔ دراصل کسی اجنبی سے ملاقات کا سارا لطف ہی اس امر میں ہے کہ ہم اس سے لاعلم ہوتے ہیں ۔
ایک نن سے ملاقات مجھے اکثر یا د آتی ہے ۔وہ نیک سیرت خاتون گردوپیش کی دنیا سے لاتعلق دکھائی دیتی تھی لیکن جلد ہی مجھے معلوم ہوا کہ اس خاتون نے معذور بچوں کی بحالی اور مدد کو زندگی کا مشن بنا یا ہوا ہے ۔برسوں سے وہ یہ کام کر رہی ہے ۔ میںنے سوچا واقعی آنکھیں کس قدر دھوکا کھا سکتی ہیں ۔
کینیڈا میں ٹرین کے سفرکے دوران میری ایک بزرگ خاتون سے ملاقات ہوئی ۔ وہ دورافتادہ برفانی علاقے کے ایک گاؤں جارہی تھی۔
کسی بچھڑے ہوئے عزیز سے ملنے کے لئے ؟
ارے نہیں ۔اس بزرگ خاتون کو کسی گپ باز نے بتایا تھا کہ دوردراز کے اس گاؤں کی گلیوں میں برفانی ریچھ ہی آتے جاتے ہیں ۔ اس نے سنا اور سفر پر چل نکلی ۔
میں آپ کو بتاؤں کہ شاید ہی کوئی اجنبی ہوگا کہ جس سے باتیں کرکے میرے علم میں اضافہ نہ ہوا ہو۔
بہار کے دنوں کی ایک شام کو سیر کرتے ہوئے باغ کے مالی سے ملاقات ہوئی ۔میں نے سیر ملتوی کی اور باتیں کرنے کے لئے مالی کے پاس گھاس پر بیٹھ گیا ۔ وہ تھکا ہواتھا اور اداس بھی لگ رہا تھا مگر باتیں شروع ہوئیں تو چمکنے لگا۔ اس نے پھولوں کے بارے میں مجھے اتنی باتیں بتائیں کہ لگا جیسے میں معلومات کا خزانہ لے کر اجنبی مالی سے رخصت ہورہا ہوں۔
’’ بادشاہوں کی وادی ‘‘مصر کے ایک علاقے کانام ہے ۔یہ وادی سیاحوں کے لیے بہت پرکشش ہے ۔ اس وادی میں سفر کرتے ہوئے میںنے ٹیکسی ڈرائیور سے باتیں شروع کردیں ۔ پلک جھپکتے میں ہم دوست بن گئے ۔
وہ مجھے ہوٹل پہنچانے کے بجائے چائے پلانے کے لیے گھر لے گیا ۔ وہاں میں اس کی والدہ ، بیوی اور دو پیارے پیارے بچوں سے ملا۔ مجھے زندگی کا ایسا روپ دیکھنے کو ملا جس سے میں اب تک بے خبر تھا ۔
ناروے کے شہر اوسلو میں دوسری جنگ عظیم میں حصہ لینے والا ایک بوڑھا سپاہی مجھے سمندر کے کنارے چھوٹی سی پہاڑی پر لے گیا ۔ اس پہاڑی پرسمندر کی ہوا گھاس میں سرسراتی تھی اور جنگلی پھول لہلہاتے تھے ۔ سپاہی نے مجھے ان قیدیوں کے بارے میں بتایا جن کو نازیوں نے اسی مقام پر قتل کیا تھا۔
ایسے ہزاروں واقعات ہیں جن کے بارے میں صرف ان لیے جان پایا چو نکہ میں اجنبیوں سے نہیں ڈرتا ، ان کو دوست سمجھتا ہوں اور دوست بناتا ہوں ۔
جن سے ہم کبھی نہ ملے ہوں ،وہ ہم کو زندگی سنوارنے کا گر سکھاسکتے ہیں ۔ اجنبی سے ہم بہت سی باتیں ایسی بھی کہہ ڈالتے ہیں جن کو کہنے کی خواہش برسوں ہمارے دل میں مچلتی ہے ،مگر دوستوں ، عزیزوں اور آشناؤں سے کہنے کی ہمت نہیں ہوتی ۔ ہمیں شرم آتی ہے ۔ہم ان باتوں کو اچھا نہیں سمجھتے ۔جب کسی اجنبی سے ہم وہی باتیں کہہ دیتے ہیں تو ہمیں نئے زاویوں سے خود کو دیکھنے کا موقع ملتا ہے ۔
کبھی کبھی خوش نصیبی کی دیوی یوں مہربان ہوتی ہے ۔ایسے میں ہم کسی اجنبی سے ملتے ہیں اور یہ اتفاقیہ ملاپ زندگی بھر کی دوستی کی ابتدا بن جاتا ہے ۔
چند روز ہوئے ایک خط میں نے دوبارہ پڑھا تھا ۔یہ خط ایک ایسے شخص کی طرف سے ہے جس سے میری دوستی تیس برسوں سے ہے ۔ہماری ملاقات ایک ویران دیہاتی ریلوے سٹیشن کے بنچ پرہوئی تھی ۔ ہم دونوں ٹرین کے منتظر تھے ۔ چند لمحے جو ہم نے ساتھ گزارے ،وہ ایک دوسرے سے منہ پھیر کر بیت سکتے تھے مگر ہم نے باتین شروع کردیں اور اس دورافتادہ ریلوے سٹیشن پر گزارے ہوئے وہ چند لمحے برسوں کی دوستی کا تحفہ دے گئے ۔
ذرا سوچئے ۔جو آج ہمارے دوست ہیں ،وہ کبھی ہمارے لیے انجان اور اجنبی تھے ۔ یورپ کے ایک پارک میں نصب ایک بورڈ پر اس حقیقت کو یوںبیان کیا گیا ہے ۔’’ دنیا میں کوئی اجنبی نہیں ۔ بس دوست ہیں جو ملنے کے منتظر ہیں۔
‘‘
کسی اجنبی سے ملاقات کا ہم بھرپور فائدہ کس طرح اٹھا سکتے ہیں ؟
مان لیجئے کہ اس کے لیے ’’ کھل جا سم سم ‘‘ جیسا کوئی طلسماتی فارمولہ نہیں ۔ پھر بھی چند طریقے ہیں جن کی مدد سے ہم بند دروازہ کھول سکتے ہیں ۔
منافقت سے بچیں
پہلا طریقہ یہ ہے کہ اپنے جذبوں کے اظہار میں بناوٹ سے کام نہ لیا جائے ۔ مثال کے طور پر آپ کسی ڈنر پارٹی میں جاتے ہیں ۔ آپ کے دل میں وسوسہ پیدا ہوتا ہے ’’ بھئی یہاں تو لوگوں میں گھلنے ملنے میں مجھے شرم آرہی ہے ۔‘‘ آپ کی رائے یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ’’ بہت سے لوگ ایسی دعوتوں سے دور رہتے ہیں مگر مجھے تو ان کا بہت شوق ہے ۔
‘‘
خیر ، آپ کا جوبھی احسا س ہو ،اس کا اظہار سب سے پہلے ملنے والے سے ہی کر دیجئے ۔
ہوسکتا ہے کہ اس اجنبی کی رائے مختلف نہ ہو ۔ یوں آپ کو گفتگو کا موقع مل جائے ۔یہ نہ ہو تو بھی صاف صاف یہ کہنے میں کوئی ہرج نہی کہ ’’ میںیہاں انجان ہوں یا میں شرمیلا ہوں ۔
‘‘
اس احساس کو دل میں چھپائے یا منہ لٹکائے پھرنا یا پھر غیر دوستانہ رویہ اختیار کرنا تو بالکل فضول سی بات ہے ۔ اچھی گفتگو وہی کرسکتا ہے جو سچ بولنے کا حوصلہ رکھتا ہے ۔ جب ہم دل کی بات کہیںگے تو دوسرے کو بھی حوصلہ ملے گا ۔وہ بناوٹ سے کام نہیں لے گا۔
کچھ عرصہ پہلے مجھے ایک ماہر نفسیات سے ملنے کا موقع ملا ۔اس کی ایک اچھی کتاب حال ہی میںشائع ہوئی تھی ۔عموما ایسے لوگوں سے مل کر مجھے خوشی ہوتی ہے مگر یہاں معاملہ مختلف تھا اورمیں یہ دیکھ کر پریشان ہو اکہ اس ماہرنفسیات کے روبرو میںاس قدر جھجک رہا تھا کہ بات شروع کرنا بھی دشوار ہوگیا تھا ۔
آخر میں نے اقرار کر ہی لیا ’’ پتہ نہیں جناب کیا بات ہے لیکن مجھے آپ سے خوف آرہا ہے ۔‘‘
یہ بات اس کو بھلی لگی ۔ اس کے ساتھ ہی ہماری باتیں فطری انداز میں شروع ہوگئیں ۔
گردوپیش کی باتیں کریں
آنکھیں کھلی رکھیں تو گردوپیش کوئی نہ کوئی شے مل جاتی ہے جس سے بات شروع ہوسکے ۔
ایک گارڈن پارٹی میں میرے ساتھ بیٹھے ہوئے اجنبی شخص نے چاروںطرف کا جائزہ لیا اور کہنے لگا ’’واہ کیا خوبصورت دعوت ہے ۔‘‘ یوں ہم دونوں کے لیے پرلطف گفتگو کا دروازہ کھل گیا ۔
میں ایک بار ٹرین میں سفر کررہا تھا ۔ میرے ساتھ ایک خاتون بیٹھی تھی ۔ اس نے شاید زبان کو تالا لگا رکھا تھا ۔ میں نے کئی بار کوشش کی مگر وہ بات کرنے پر آمادہ نہ ہوئی ۔کئی گھنٹے یونہی گزر گئے ۔
جب سفر ختم ہونے کے بعد صرف آدھا گھنٹہ رہ گیا تو ٹرین ساحل کے قریب ریتلے علاقے سے گزر رہی تھی ۔وہاںویرانے میں ایک تنہا گھر دکھائی دیا۔
میری ہم سفر خاتون اس گھر کو آخر تک دیکھتی رہی ۔پھر جیسے یکایک برف پگھل گئی ہو ۔ وہ اچانک بولی ’’ میرا بچپن اس قسم کی ویران جگہ پر ایک لائٹ ہاؤس میںگزرا تھا ۔‘‘ پھر وہ بچپن کی یادیں تازہ کرنے لگیں۔
دوسرے کی بات کریں
ایک بار میں نے ایک عورت کو کسی اجنبی سے یہ کہتے سنا ’’ تمہارے نین نقش بہت خوب صورت ہیں۔
‘‘
شاید ہم میں سے اکثر ایسی باتین کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتے ۔ چلئے یونہی سی ، لیکن اتنی بات تو سب کر سکتے ہیںکہ ’’ جب آپ سامنے سے آرہے تھے تو میں نے دیکھا کہ آپ اچھے لگ رہے تھے ۔
‘‘
یہ بھی مشکل ہے تو اس جملے کے بارے میں کیا خیال ہے ’’ آپ میری پسندیدہ کتاب پڑھ رہے ہیں ۔
‘‘
سوال پوچھیں
اجنبی لوگوں سے کئی ناقابل فراموش باتیں کسی نہ کسی سوال سے شروع ہوتی ہیں ۔ میںاکثر لوگوں سے پوچھتا ہوں ’’ آپ دن کیسے گزارتے ہیں ۔‘‘عام طور پراس کا ردعمل خاصا پرجوش ہوتا ہے ۔
جواب پرتوجہ دیں
اچھی گفتگو کا بڑی حد تک دارومدار توجہ سے سننے پرہے ۔ اس کے بغیر اچھے مکالمے کا تصور ہی محال ہے مگر یاد رکھیں کہ دوسرے کی بات کو توجہ سے سننا بھی ایک فن ہے ۔
کسی اجنبی سے بات کرنے کا موقع ملے تو غور سے اس کو سنئے ۔ جواب یوں دیں کہ وہ بات جاری رکھنے کی خواہش محسوس کرے ۔ اس طرح سے دوسرے کی بات سننا مجہول نہیں ، بلکہ فعال تجربہ ہے ۔
اچھی گفتگو میں آپ کیا کردار ادا کرسکتے ہیں ؟ یاد رکھیں کہ جس طرح آپ دوسرے کو جاننے کے مشتاق ہیں ، اسی طرح وہ بھی آپ کو جاننا چاہتا ہے ۔ آپ دوسروں کو کچھ دے سکتے ہیں اور وہ بھی آپ کی زندگی میں کردار ادا کرسکتے ہیں ۔یک طرفہ گفتگو ، جس میں صرف آپ یا دوسرا فرد بول رہا ہو ، بے معنی سی ہوا کرتی ہے ۔
مشکل یہ ہے کہ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ وہ دوسروں کو کیا دے سکتے ہیں ۔ بعض اوقات وہ خود کو ڈل یا شرمیلا سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں ’’ میرے پاس تو کوئی دلچسپ بات ہی نہیں ۔‘‘ مگر ان کا تاثر عموما غلط ہوتا ہے ۔
سچی بات یہ ہے کہ اکثر لوگ دلچسپ ہوتے ہیں ۔ وہ اپنی صلاحیتیں استعمال کریں تو دوسروں کو بہت کچھ دے سکتے ہیں اور بدلے میں ان سے بہت کچھ لے سکتے ہیں ۔
ڈورتھی سارنوف نے ’’ گفتگو آپ کی زندگی بدل سکتی ہے ‘‘ کے عنوان سے ایک کتاب لکھی ہے ۔
وہ کہتی ہیں کہ ہر شخص کا کوئی نہ کوئی پہلو زبردست ہوتا ہے ۔ اس میں کوئی شے ونڈر فل ہوتی ہے ۔ لہذا جب میں آپ سے گفتگو کرتا ہوں تو اصل میں یہ دلچسپ معمہ حل کررہا ہوتا ہوں کہ آپ کس قسم کے شخص ہیں؟ سنانے کے لیے آپ کے پاس کون سا قصہ ہے؟
اکثر لوگ وہ کچھ کہنا چاہتے ہیں جس کی دوسرے توقع کرتے ہیں ۔ پھر وہ پریشان ہوجاتے ہیں کیونکہ وہ خود کو دوسروں سے مختلف پاتے ہیں لیکن اس میں پریشانی کی کوئی بات نہیں ۔ یہ اختلاف ہی دراصل یہ نکتہ ہے جس پرسارے ڈرامے کی بنیاد ہے ۔اس کے بجائے جب ہم دل کی بات کہتے ہیں تو پھر پرلطف فطری گفتگو میں کوئی رکاوٹ نہیںرہتی ۔
اجنبی شخص ہمارے لیے چیلنج ہوتا ہے ۔ وہ ہمارے جیسا نہیں ہوتا ۔ مختلف مختلف سا لگتا ہے ۔ پراسرار سا لگتا ہے اور یہ پراسراریت اس کو پرکشش بنادیتی ہے ۔
کسی اجنبی سے ملنے کے بعد ہم پہلے جیسے نہیں رہتے ۔ نیا شخص ہماری زندگی میں داخل ہوجاتا ہے ۔ وہ ہماری یادوں کا حصہ بن جاتا ہے ۔
اجنبی لوگوں سے میل ملاپ ہمیں دنیا کو زیادہ خوبصورت بنانے میں اپنا حقیر کردار ادا کرنے کا حوصلہ دے سکتا ہے ۔ان سے مل کر ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ پہلی نظر میں مختلف نظر آنے والے غیرنہیں۔ اجنبی ہمارے دشمن نہیں۔ جن کو ہم نہیں جانتے وہ ہمیں نقصان پہنچانے کے درپے نہیں ہیں بلکہ وہ ہمارے جیسے انسان ہیں ۔ وہ بھی محبتیں چاہتے ہیں ۔امن ،نیکی اور اچھائی کے آرزومند ہیں۔
دنیامیں اجنبی لوگوں کی کمی نہیں ۔ لہذا بازو پھیلائیں اور لطف اٹھائیں ۔ آج ہی کسی اجنبی کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھائیں۔