برداشت کرنا سیکھیں

بوڑھا دکاندار لرزتی انگلیوں سے ایک ایک کرکے روپے گن رہا تھا ۔ میری بے صبری کا پارہ چڑھتا جارہا تھا۔ تین منٹوں سے میں کھڑا تھا اور وہ رقم ہی نہ گن پارہا تھا۔
جہاندیدہ دکاندار میری بے صبری تاڑ گیا ۔ اس کے چہرے پرہلکی سی مسکراہٹ نمایاں ہوئی ۔ اس کی آنکھوں میں التجا تھی اور تاسف بھی ۔ بس ایک پل کی بات ہے ۔ آنکھوں ہی آنکھوں میں اس نے پیغام دیا۔
میں پشیمان ہوگیا ۔ میں خود کو اس کی جگہ محسوس کرنے لگا ۔ کبھی میری بھی یہ کیفیت ہو سکتی ہے۔ میں بھی اجنبی لوگوں کی مہربانی کا محتاج ہو سکتاہوں۔
میں نے کالر درست کیے ۔’’ جناب آپ اطمینان سے رقم گنیں‘‘ میں نے کہا ’’ مجھے کوئی جلدی نہیں۔‘‘
تب مجھے خیال آیا کہ روزانہ کئی مواقع پر میں بے صبری کا مظاہرہ کرتا ہوں۔ ٹریفک لائٹ کا رنگ سبز ہوتے ہی ہارن دینے لگتا ہوں ۔کسی کو میری بات سمجھ نہ آئے تو زور سے بولنے لگتا ہوں ۔ راہ چلتے کوئی گداگر راہ روک لے تو خون سر کی طر ف دوڑنے لگتا ہے۔

کیا یہ باتین معمولی ہیں ؟ نہیں ۔ ایسا نہیں ۔ میرے خیال میں یہ اہم باتیں ہیں ۔ برداشت کا دامن چھوڑنے سے ہمارا رویہ درشت ہوجاتا ہے ۔ مگر یہ رویہ بے فائدہ ہوتا ہے بلکہ یوں کہہ لیں کہ الٹا نقصان دہ ہوتا ہے ۔ اس سے دوسرے لوگوں کے جذبات مجروع ہوتے ہیں ۔ وہ ناراض ہوجاتے ہیں ۔ اڑ جاتے ہیں یا پھر ہمارے ساتھ تعاون کرنے سے گریز کرنے لگتے ہیں۔
اس نقصان دہ روئیے سے نجات پانے کے لیے میں نے اپنی قوت برداشت بڑھانے کا ارادہ کیا اور غصہ دلانے والے مواقع پر پرسکون رکھنے والی چند تدابیر سیکھیں ۔خیر ، میرا دعوی نہیں کہ ان پر عمل کرنے سے میں صبروتحمل کا نمونہ بن گیا ہوں ۔ پھر بھی ان کی مدد سے میں نے بے صبری پر معقول حد تک قابو پا لیا ہے ۔ یوں اپنی ذات پر میرا کنٹرول بڑھ گیا ہے۔

غلطی کی گنجائش رکھیں
میرا ایک دوست لاہور میں رہتا ہے ،وہ ایک اعلی عہدے کا امیدوار تھا۔ اس نے انٹرویو دیا۔ انٹرویو اچھا رہا ۔ کمپنی نے ملازمت کا پروانہ جاری کرنے سے پہلے امیدوار کی بیوی سے ملنے کی خواہش کی ۔ ملاقات کے لیے دوسرے روز صبح آٹھ بجے کا وقت طے ہوا۔
اس روز صبح سات بجے میرا دوست اور اس کی بیوی کمپنی کے صدر سے ملنے کے لیے گھر سے نکلے ۔ جب وہ فیروز پورروڈ پرنہر کے پل کے قریب پہنچے تو ٹریفک بلاک تھی ۔ میرے دوست کی گاڑی میں رک گئی ۔ معلوم ہوا کہ پل پر ایک ٹریکٹر ٹرالر الٹ گیا ہے اور فوری طور پر ٹریفک بحال ہونے کا کوئی امکان نہیں ۔میرے دوست نے گاڑی ریورس کرنے کی کوشش کی لیکن تب تک پیچھے مزید گاڑیاں لگ چکی تھیں ۔ یوں پل ہی پر آٹھ بج گئے ۔ خدا خدا کرکے جب دونوں میاں بیوی صدر کے ہوٹل پہنچے تو ساڑھے آٹھ بج چکے تھے ۔ ہوٹل کے استقبالیہ سے معلوم ہوا کہ صاحب انتظار کرنے کے بعد ہوٹل سے جا چکے ہیں ۔ انہوں نے کوئی پیغام بھی نہیں چھوڑا تھا۔
دوسرے روز جب میرا دوست دفتر میں کمپنی کے صدر سے ملا تو اس نے معذرت قبول کرنے سے انکار کردیا ۔ اس کا موقف تھاکہ کسی امکانی رکاوٹ سے نمٹنے کے لیے تمہیں پہلے سے ہی منصوبہ بندی کرنی چاہئے تھی۔
یہ بتانے کی شاید ضرورت نہیں کہ اس بے احتیاطی کے باعث انٹرویو میں کامیاب ہونے کے باوجود دوست اپنی پسندیدہ ملازمت حاصل نہ کرسکا تھا۔
بے صبرے لوگ وقت ضائع نہیں کرنا چاہتے ۔ اس لیے کوئی گنجائش ان کو پسند نہیں ہوتی ۔ وہ معاملات یوں طے کرتے ہیں کہ گویا ہرکام مقررہ یا مطلوبہ وقت پر ہوتا چلا جائے گا لیکن روزمرہ کی زندگی اس سے یکسر مختلف ہوتی ہے ۔ کاموں میں غیر متوقع، اور اکثر اوقات غیر ضروری رکاوٹیں پیدا ہوتی رہتی ہیں۔ وہ ان کا دھیان نہیں رکھتے اور جب کوئی رکاوٹ آتی ہے تو ان کا خون کھولنے لگتا ہے۔ حالانکہ صحیح طریقہ کار یہ ہے کہ اپنے منصوبوں میں غیر متوقع رکاوٹوں کے لیے پہلے سے گنجائش رکھی جائے۔ زیادہ ضروری کاموں یا ملاقاتوں کے لیے گنجائش بھی زیادہ رکھنی چاہئے ۔ آپ نے کسی جگہ مقررہ وقت پر لازما پہنچنا ہے تو پھر اس کے لیے مضحکہ خیز حد تک زیادہ وقت کی گنجائش رکھنا بھی مفید ثابت ہوسکتا ہے۔

معاملات کو ان کے تناظر میں رکھیں
مطلوبہ ملازمت حاصل کرنے میں ناکامی افسوسناک ہے مگر کسی رکاوٹ کا شکار ہونے کے نتائج ہمیشہ اس قدر سنگین نہیں ہوتے ۔ زندگی میں ہمیشہ یوں نہیں ہوتا کہ آپ ٹریفک میں پھنس کر پسند کی ملازمت سے ہاتھ دھو بیٹھیں ۔ عام طور پر کسی رکاوٹ کے نتائج ایسے ہوتے ہیں کہ آپ صبروتحمل سے اس کو برداشت کرسکیں۔
میں نے خود سے یہ پوچھنا سیکھ لیا ہے کہ ’’ بدترین بات کیا ہوگی ؟‘‘ اگر اس کا جواب یہ ہو کہ تھیٹر وقت پر نہ پہنچ سکوں گا یا دوستوں کی کسی محفل میں قدرے تاخیر سے پہنچوں گا تو پھر میں پرسکون ہو جاتا ہوں ۔ یہ بہرحال ایسی بات نہیں جس کے لیے پریشان ہوا جائے ۔ صرف ایک ہفتے بعد میرے وہم وگمان میں بھی نہیں رہے گا کہ آج میں دس منٹ لیٹ ہوگیا تھا۔ یوں معاملات کو ان کے تناظر میں رکھنے سے بے تابی کم ہو جاتی ہے۔

سلیم صاحب کا المیہ یہ ہے کہ وہ کبھی لمحہ موجود کو قبول نہیں کرتے ۔ہروقت آگے ہی آگے دیکھتے ہیں ۔ اب کی بجائے آئندہ میں کھوئے رہتے ہیں ۔نتیجہ یہ ہے کہ وہ زندگی کے تمام حسن ولطف سے محروم رہ گئے ہیں۔
آپ مجھ سے پوچھیں تو میں یہ کہوں گا کہ زندگی کا اپنا ایک ٹائم ٹیبل ہے۔بچہ پیدا ہونے میں نوماہ کا عرصہ لیتا ہے۔ اکیس برس میں وہ بالغ ہو جاتا ہے ۔ اچھا موسیقار یا ادیب بننے کے لیے برس ہا برس درکا رہوتے ہیں ۔ زندگی کا کوئی کام ایسا نہیں کہ جس میں نمایاں کامیابی حاصل کرنے کے لیے وقت درکار نہ ہو۔
اس حقیقت کو اچھی طرح ذہن نشین کرکے ہم بے صبری کو کم کر سکتے ہیں۔
اس سلسلے کی آخری بات یہ ہے کہ بے صبری پر قابو پانے کے لیے یہ دیکھنا چاہئے کہ اس میں ہمارا اضافہ کس قدرہے ۔ کیا ہم بچوں کو سیکھنے کے لیے وقت دینے پر آمادہ نہیں ہیں ؟ کیا ہم چاہتے ہیں کہ دوسرے لوگ مشینوں کی طرح ہمارا کام کرتے رہیں ؟ وہ ہروقت ہماری طرف متوجہ رہیں؟
اس سوالوں کا جواب ’’ ہاں‘‘ میں ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم خود کو اس قدر اہم خیال کرتے ہیں کہ کسی کو ہمیں منتظر رکھنے کی جرات نہیں ہونی چاہئے۔
خیر ، یہ سوچ سراسر حماقت ہے ۔ ہم ہرگز اس قدر اہم نہیں ہیں ۔ کوئی شخص بھی اس قدر اہم نہیں۔ یہ حقیقت ہم میں سے بعض لوگوں کے لیے ناگوار ہوسکتی ہے مگر اس کو جھٹلایا نہیں جاسکتا ۔ اگر ہم اقرار کر لیں کہ ہم اس دنیا سے لطف اندوز تو ہوسکتے ہیں لیکن وہ ہمار ے لیے وجود میں نہیں آئی ہے اور نہ ہی اس کی تمام نعمتیں ہماری سہولت کے لیے بنی ہیںتو پھر ہم یہاں اپنے دن زیادہ صبر وتحمل اور وقار سے گزار سکیں گے ۔ چھوٹی موٹی رکاوٹیں ہمیں پریشان نہ کرپائیں گی ۔ ہم بہتر زندگی گزار سکیں گے۔

Comments (0)
Add Comment