ماہرین نفسیات کہتے ہیں کہ موڈ ایسے جذبہ ہے جو ہمارے ذہنوں پر طاری ہو کر ٹھہر جاتا ہے ۔ گھنٹوں ، دنوں اور کبھی کبھی ہفتوں تک چھایا رہتا ہے ۔ موڈ خوشگوار ہو تو کیا ہی بات ہے مگر جب اداسی ، پریشانی ، مایوسی یا سستی کا موڈ طاری رہے تو وہ اذیت بن جاتا ہے ۔
اس قسم کے موڈ سے نمٹنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اس کے بارے میں گفتگو کی جائے لیکن بسا اوقات یوں بھی ہوتا ہے کہ ہماری بات سننے والا کوئی نہیں ہوتا۔
موڈ کا مقابلہ کرنے کے لیے آج کل بازار میں بہت سی دوائیں آگئی ہیں ۔اس سلسلے میں سکون بخش دواؤں سے کام لیا جاتا ہے تاہم بہت سے لوگوں کو معلوم نہیں ہے کہ ماہرین نے ناگوار موڈز سے نجات دلانے کے لیے کئی ایسے طریقے دریافت کر رکھے ہیں جن میں دواؤں کی ضرورت نہیں پڑتی ۔
یہ طریقے دواؤں جیسے موثر ہیں ۔ ان کا اضافی فائدہ یہ ہے کہ آپ دواؤں کے ناپسندیدہ اثرات سے محفوظ رہتے ہیں ۔ یہ طریقے استعمال کرکے آپ دواؤں کے محتاج یا عادی ہوئے بغیر ناگوار موڈز سے چھٹکارا پاسکتے ہیں ۔ لہذا آئندہ کبھی کوئی ناگوار موڈ طاری ہو تو ڈرگ سٹور کا رخ مت کریں بلکہ درج ذیل طریقوں میں سے کسی ایک کو آزما لیں ۔
ورزش
موڈ بدلنے والے ایسے تمام طریقوں میں سے بہترین ورزش ہے ۔ برے موڈ پر قابو پانے کے لیے دنیا بھر میں بہت سے لوگ ورزش کا موثر طریقہ استعمال کرتے ہیں ۔ کیتھرائن لانس نے ’’ صحت اور حسن کے لیے دوڑنا‘‘ کے عنوان سے ایک کتاب لکھی ہے ۔وہ کہتی ہیں کہ ’’ اگر ورزش کو بوتل میں بند کرکے دکانوں پر فروخت کرنا ممکن ہوتا تو دنیا کی دکانیں ان بوتلوں سے بھر جاتیں ۔‘‘
لانس کی بات میں مبالغہ نہیں ہے ۔ کئی محققین کا کہنا ہے کہ انسانی موڈز میں خوشگوار تبدیلیاں لانے کے لیے ورزش متعلقہ دوائیوں جیسی کارگر ثابت ہوتی ہے ۔ تاہم ورزش گھریلو کام کاج جیسی جسمانی محنت سے مختلف شے ہے ۔ ورزش سے مراد تیزی سے واک کرنا ، دوڑنا ، سائیکل چلانا ، تیرنا اور ایسی ہی دوسری سرگرمیاں ہیں ۔ گویا ورزش سے مراد ایسی مسلسل سرگرمی ہے جو ہارٹ ریٹ کو تقویت دے ، خون کی سرکولیشن بڑھائے اور جسم کی آکسیجن استعمال کرنے کی اہلیت میں اضافہ کرے ۔ اس قسم کی ورزش ہفتے میں تین سے پانچ بار کرنی چاہئے اور اس کا دورانیہ کم از کم بیس منٹ ہونا چاہئے ۔
رنگوں سے کام لیں
نیویارک کی کلر سائیکالوجسٹ پٹریکا سرزبہ کہتی ہیں ’’ جس طرح وٹامنز بدن کو تقویت دیتے ہیں ، اسی طرح رنگ ذہن کے لیے قوت بخش ہیں ۔ ‘‘ اس خاتون نے رنگوں کو مفید طور پر استعمال کرنے کے لیے چند مشورے بھی دئیے ہیں۔
جھنجلاہٹ اور غصے کے موڈ سے نجات پانے کے لیے سرخ رنگ سے دور رہنا ہی اچھا ہے ۔
اداسی ، مایوسی اور ناامیدی کی کیفیت کا مقابلہ کرنے کے لیے ان رنگوں کے کپڑے پہننے اور ان رنگوں کے ماحول سے دور رہیں جو آپ میں منفی احساسات پیدا کرتے ہیں ۔مثال کے طور پر کالے اور گہرے نیلے رنگ عموما منفی موڈ کا باعث بنتے ہیں ۔ لہذا ان کے بجائے چمک دار رنگ اپنائیں اور ایسے رنگ کے لباس پہنیں جو آپ کی طبیعت میں پھرتی پیدا کرتے ہیں۔
پریشانی اورکھچاؤ سے بچنے کی خاطر تسکین بخش ہلکے رنگ استعمال کریں ۔ اسی لیے مریضوں کو سکون دینے کی خاطر ہسپتالوں میں ہلکے نیلے رنگ کے مختلف شیڈز سے کام لیا جاتا ہے۔
سلیمہ جب دفتر سے لوٹتی ہے تو صرف تھکی ہوئی نہیں ہوتی ۔ وہ چڑچڑی اور کھچی کھچی سی بھی ہوتی ہے ۔ ایک بار وہ گھر آئی تو اس کی بیٹی شوخ راک میوزک سن رہی تھی ۔اچانک سلیمہ کو محسوس ہوا کہ یہ موسیقی اس کی روح کو سکون دے رہی ہے۔
یہ صرف سلیمہ کا ہی معاملہ نہیں ۔ دنیا جانتی ہے کہ موسیقی موڈ پر گہرا اثر ڈالتی ہے ۔آپ اس کو موڈ بدلنے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں ۔اس کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے تو آپ طاری موڈ کے مطابق موسیقی سنیں اور پھر رفتہ رفتہ اپنے پسندیدہ موڈ سے مناسبت رکھنے والی موسیقی کی طرف بڑھیں ۔
گویا بات یوں ہوئی کہ اگر آپ پر اداسی طاری ہے تو پہلے اداسی والے گیت سنیں ۔ بظاہر لگتا ہے کہ اس طرح اداسی کا غلبہ بڑھ جائے گا لیکن بہت سے ماہرین نفسیات کا دعویٰ ہے کہ تبدیلی کی طرف پہلا قدم یہی ہے ۔ اب اگر آپ اداسی کی کیفیت سے نکل کر خوشی کا موڈ چاہتے ہیں تو دو تین اداس گیت یا دھنیں سن کر بتدریج مسرت انگیز موسیقی کی طرف رخ کریں ۔
چند ہی لمحوں میں آپ پسندیدہ تبدیلی محسوس کرنے لگیں گے ۔
موڈ تبدیل کرنے کا یہ ایک موثر طریقہ ہے ۔ دنیامیں کم وبیش ہر جگہ اس سے کام لیا جاتا ہے ۔
خوراک درست کریں
سائنس دانوں کو اس بارے میں کوئی شبہ نہیں رہا کہ فوڈ اور موڈ صرف صوتی اعتبار سے ایک دوسرے کے قریب نہیں ہیں بلکہ دونوں میں بہت گہرا تعلق بھی ہے ۔
اچھی خوراک بدن اور ذہن کو توانائی عطا کرتی ہے ۔ ان کی کام کرنے کی صلاحیت بڑھاتی ہے اور انسان کو چاق وچوبند رکھتی ہے مگر یہاں ایک بات خاص طور پر نوٹ کرلیں ۔ وہ یہ کہ ہم لوگ اچھی خوراک سے مراد مہنگی اور بوجھل خوراک لیتے ہیں ۔ یہ تصور سراسر غلط ہے کیونکہ مرغن غذائیں کسی طور بھی ذہن و جسم کے لیے مفید نہیں ہیں ۔ اچھی خوراک سے مراد صاف ستھری اور ہلکی پھلکی غذا ہے جس میں تازہ پھل ، سبزیاں اور سفید گوشت شامل ہے ۔
کیفین کی زیادہ مقدار بھی موڈ بدل سکتی ہے ۔ مشی گن یونیورسٹی کے میڈیکل سنٹر کے نفسیاتی معالج جان ایف گریڈن نے اس ضمن میں خاصی تحقیق کی ہے ۔ گریڈن صاحب اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ کیفین کے زیادہ استعمال سے بعض لوگوں میں یاسیت ، ڈپریشن اور جھنجلاہٹ کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔
روشن ماحول میںرہیں
امریکا کے ذہنی صحت کے قومی انسٹی ٹیوٹ کے تجربوں سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ بعض لوگ موسم سرما میں ایک قسم کی مایوسی کی کیفیت میں مبتلا ہوجاتے ہیں ۔ اس کو آپ ’’ موسمی خرابی‘‘ کا نام دے سکتے ہیں ۔ یہ خرابی دراصل روشنی کی کمی کے باعث پیدا ہوتی ہے۔ سردیوں کے دن گرما کے دنوں کے مقابلے میں کم روشن ہوتے ہیں اور یہ بات بعض حساس افراد میں یاس انگیز جذبوں کو پروان چڑھاتی ہے ۔ جب موسم انگڑائی لیتا ہے اور روشن دن لوٹ آتے ہیں تو ان کی یہ کیفیت خودبخود ختم ہو جاتی ہے۔
اس خرابی کا نشانہ بننے والوں کے لیے بہترین علاج یہ ہے کہ وہ سردی کے مہینوں میں زیادہ وقت چاردیواری سے باہر گزارہ کریں ۔ اپنے کمروں میں زیادہ روشنی کا انتظام کریں اور ایسے دوسرے طریقے بھی اختیار کریں جن سے ان کا ماحول روشن رہے ۔
نیند بھی کیا خوب شے ہے وہ ہمیں تھکاوٹ سے نجات دلاتی ہے ، موسم خوشگوار نہ ہوتو نیند وقتی طور پر ہمیں اس سے بے خبر کر دیتی ہے ۔ اس طرح وہ ناگوار موڈز سے نجات دلانے کا وسیلہ بھی ہے ۔ نیند ہمیں ذہنی علاج کے ایک پرانے طریقے سے فائدہ اٹھانے کا موقع بھی دیتی ہے ۔یہ طریقہ خوابوں کا ہے ۔ اب بہت سے ماہرین اس بات سے متفق ہو چکے ہیں کہ خواب ، چاہے ہم کو یاد رہیں نہ رہیں ، وہ موڈ بدلنے والے واقعات کو قبول کرنے میں ہماری مدد کرتے ہیں ۔اس طرح وہ ناگوار موڈ کو بدل دیتے ہیں۔
ماہر نفسیات روزا لینڈ رائٹ شکاگو کے نیند کی خرابیوں سے متعلق ایک تحقیقاتی ادارے کے ڈائریکٹر ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ نیند کے دوران خواب تعمیری طور پر مسائل حل کرنے کا کام سنبھال لیتے ہیں ۔مسئلہ زیادہ الجھا ہوا نہ ہو تو پھر ایک ہی رات کی نیند سے ہم اس سے نجات پا لیتے ہیں ۔ یوں جب صبح ہم بیدار ہوتے ہیں تو ہمارا موڈ گزرے ہوئے دن کے مقابلے میںبہتر ہوتاہے ۔
سوچ مثبت رکھیں
لوگ عموما اس وقت مایوسی اور یاس کا شکار ہوتے ہیں جب ان کی سوچ کے انداز منفی اور غیر صحت مند ہوں ۔ اکثر اوقات منفی ذہنی کیفیات سوچ بچار کے لیے لچک اور غیر حقیقت پسند طریقوں کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں ۔
امریکا کی شمالی الپنائس یونیورسٹی میں تناؤ اور ڈپریشن کا شکار ہونیوالے کالج کے طلبا کے ایک گروپ کا مطالعہ کیا گیا ۔ اس مطالعے سے معلوم ہوا کہ جو طلبا اپنی موجود ہ حالت اور مستقبل کا کوئی ہلکا پھلکا پہلو تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ان کی کیفیت دوسروں سے بہتر ہوتی چلی جاتی ہے ۔
نفسیات دان سوزان لیبوٹ کا کہنا ہے کہ اپنے آپ پر ،اپنی حالت پر رونے سے گریز کرنا چاہئے ۔ اس سے آپ کا بوجھ کم نہیں ہوگا بلکہ آپ خود کو واقعی بدقسمت اور راندہ درگاہ خیال کرنے لگیں گے ۔ آپ خودرحمی کے مرض میں مبتلا ہوجائیں گے اور منفی ذہنی کیفیات آپپر طاری ہوجائیں گی۔
نفسیات کے کم وبیش سبھی ماہرین اس امر پر اتفاق کرتے ہیں کہ آپ اپنے مثبت انداز میں سوچنے لگیں تو پھر واقعی خود کو خوش باش محسوس کرنے لگیں گے ۔ جو آپ کا زندگی پر حق بھی ہے ۔