شاید آپ کو یہ بات ماننا تھوڑا مشکل لگے مگر حقیقت یہی ہے کہ انسان اپنے خوف خود تخلیق کرتاہے ۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ جس چیز کو آپ خود تخلیق کر سکتے ہیں ،اس کو ختم کرنا بھی آپ کے اختیار میں ہے ۔ خوف اوردہشت پر قابو پانے کے لیے صرف چند انتہائی آسان اقدامات کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اگر آپ بھی ان پر عمل کر لیں تو سو فیصد گارنٹی کے ساتھ آپ ہر قسم کے خوف سے چھٹکارا پا سکتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ پریشانی ،حالات سے نہیں ،خیالات سے پیدا ہوتی ہے اور خیالات کا انحصار اس بات پر ہے کہ انسان زندگی کو کس نقطہ نظر سے دیکھتا ہے ۔ آپ کی زندگی میں جب بھی کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے تو فوری طور پر اپنے تناظر کے مطابق خیالات گھڑنے لگتے ہیں ۔ اگر آپ خوف سے نکلنا چاہتے ہیں توزندگی کو دیکھنے کا اپنا نقطہ نظر بدلنا پڑے گا۔ فی الحال یہ کام مشکل لگتا ہے تو پہلے قدم کے طور پرجب بھی آپ کو کوئی واقعہ یا خیال پریشان کرے تو فوری طور پر اپنی تخیلاتی سوچ کو حقائق کی روشنی میں پرکھیں کیونکہ جب ہم ایک خاص سوچ اور نظریے کے تحت کسی واقعہ کو جانچتے ہیں تو پھرہماری وہ خاص سوچ ہی خوف پیدا کرنے کا باعث بن جاتی ہے جبکہ حقیقت اس سے ہٹ کرکچھ اور ہوتی ہے۔خوف سے نکلنا چاہتے ہیں تو پہلے یہ تسلیم کرلیں کہ خیالات اپنی جگہ ٹھوس حقیقت رکھتے ہیں اور منفی ہو یا مثبت ،خیالات کی دونوں قسمیں آپ کے شعور اور لاشعور حتی کہ آپ کی جسمانی،جذباتی اور روحانی صحت پر اپنے گہرے اثرات چھوڑتی ہیں۔اس لیے کسی بھی وجہ سے جب بھی خیالات آپ کے ذہن میں ابھرنا شروع ہوں تو ان کو حقائق کی روشنی میں پرکھیں ۔اس کے لیے ضروری ہے کہ آپ روزمرہ زندگی میں منطقی سوچ کو اپنائیں۔ صرف اور صرف حقائق پر غور کریں ،اپنے من پسند خیالات کی ان پر لیپا پوتی نہ کریں اور کسی بھی واقعہ کے بعد منطقی نتیجے تک پہنچنے سے پہلے زیادہ سے زیادہ حقائق تلاش کریں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ آپ خود سے سوالات کریں اور جانیں کہ کہیں آپ کے خیالات واقعہ کو بڑھا چڑھا کر تو پیش نہیں کررہے ۔ تحقیق کریں ، غوروخوض کریں ۔ اپنی سوچ کو حقائق کی روشنی میں جانچنے کی کوشش کریں اور پھر کوئی فیصلہ کریں۔
خوف پیدا کرنے والے عناصر کو پہچانیں۔ ایسا کرنا اس لیے ضروری ہے چونکہ انسان کے اندر خوف ہمیشہ کچھ خاص قسم کے حالات پیدا ہونے کے بعد آتا ہے ۔ان میں عدم تحفظ کا احساس سب سے اہم ہے۔ اپنے خوف کے پس منظر میں جا کر اگر آپ اس کی وجوہات بننے والے عناصر کو پہچان لیں اور ان کے بارے میں پہلے سے کوئی لائحہ عمل تیار کرلیں تو ایسے کمزور لمحات میں بھی آپ کی زندگی میں وہ دہشت کبھی پیدا نہیں ہو گی جو ماضی میں آپ کا مقدر تھی۔
یاد رکھیں !خوف باہر سے نہیں آتا بلکہ خوف کی آماجگاہ ہمارا اپنا ذہن ہے ۔ اگر آپ یہ بات جان لیں کہ قدرت نے خوف کچھ خطرات کے پیش نظر ایک مدافعتی نظام کے طور پرہمارے اندر پیدا کیا ہے اور اس کا مقصد انسان کو آنے والے خطرے کے لیے تیار کرنا ہے تو آپ کے لیے خوف پر قابو پانا بہت آسان ہو جائے گا۔ہوتا یہ ہے کہ جیسے ہی انسان کو کوئی خطرہ محسوس ہوتا ہے تو جسم ایک مخصوص انداز میں اس کا اظہار کرتا ہے۔جب آپ کو علم ہوگا کہ جسم کا یہ ردعمل قدرتی ہے تو آپ اپنی جسمانی کیفیات پر بڑی اچھی طرح قابو پاسکتے ہیں۔
خوف پر قابو پانے کا ایک اہم طریقہ یہ ہے کہ آپ محقق بن جائیں اور خوف کو پیدا کرنے والے عناصر کو کھوجنے لگ جائیں۔ جیسے ہی ایک تحقیق کار کا روپ دھاریںگے۔ آپ اپنے خوف کے بارے میں خود فیصلے کرنے کے قابل ہوجائیں گے پھر آپ اپنے دماغ کے سوچ بچار والے نظام (know system)کے تحت فیصلے کریں گے ناکہ بھاگ دوڑ والے نظام (Go system) کے تحت۔اس کے لیے ایک تجربہ کرکے دیکھ لیتے ہیں ۔مثال کے طور پر آپ اپنی زندگی میں گزرنے والے کسی پرانے واقعے کو نئی سوچ کے ساتھ غوروفکر کر کے دیکھیں ،آپ کو واضح فرق محسوس ہوگااور حقیقت بھی یہی ہے کیونکہ جب آپ اپنے آپ کو تجربہ کار نگاہوں سے دیکھتے ہیں تو سب کچھ بدل جاتا ہے۔
اگلا مرحلہ یہ ہے کہ اپنے اندراٹھنے والی آوازوں کو محسوس کریںجیسا کہ پہلے کہا خوف خود پیدا نہیں ہوتا بلکہ ہمارا زندگی کو دیکھنے کا نقطہ نظراس کو تخلیق کرتا ہے ۔ جب آپ اپنے اندر جھانک کر اپنے خیالات ، نظریات اور اپنے تخیلات پر غور کریں گے تو آپ بخوبی جان جائیں گے کہ خوف کہاں سے امڈ رہا ہے ۔دراصل ہمیں ان سوچوں کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے جو ہمیں دہشت کا شکارکرتی ہیں۔
ایک اہم کام یہ کریں کہ زندگی کے مختلف تجربات اور واقعات سے جڑی ہوئی اپنی کہانیاں تبدیل کرلیں۔ کیونکہ ہمارا خوف ان تجربات کی روشنی میں پیدا ہوتا ہے جو بچپن سے لے کر جوانی اور بڑھاپے تک ہمارے ساتھ پیش آتے رہتے ہیں۔ ہماری کہانیاںانہی تجربات کے تال میل سے ہمارے اندر سے جنم لیتی ہیں۔ ان کہانیوں کا بالواسطہ تعلق ہمارے دماغ کے اس حصے سے ہے، جہاں ہمارے پرانے واقعات کا ریکارڈ پڑا ہوتا ہے۔ ہر واقعہ پیش آتے ہی ہمارے دماغ کے ریکارڈ روم سے وہی کہانی باہر آکر ہمارے خیالوں میں ہلچل مچا دیتی ہے ۔کہ تمھیں یاد نہیں تمھارے ساتھ پہلے کیا ہوا تھا؟ سو اپنی کہانیاں بدل ڈالیں۔
خوف سے نکلنے کا انتہائی کارآمد ایک طریقہ یہ ہے کہ اپنی سوچ کو مثبت رکھیں اور ہمیشہ آدھا گلاس بھرا ہوا دیکھیں۔ اب جبکہ ہم نظریاتی سوچ کی طاقت سے اچھی طرح واقف ہوچکے ہیں کہ کس طرح وہ حقیقت کا روپ دھار کر ہمارے سامنے آکر کھڑی ہو جاتی ہے ۔تو اس کو مقابلہ کرنے کے لیے ہمیں اپنے اندر سے تمام منفی خیالات نکال دینے چاہئیے اور مثبت خیالوں کو اپنا ہم سفر مان لینا چاہیٔیے کیونکہ کامیابی اسی راہ پر ملے گی۔
خوف اور اس سے پیدا ہونے والی کیفیت کے درمیانی وقفے کو طول دینا سیکھئے۔ خوف ہمارے شعوری اور لاشعوری نظام کا حصہ ہے جو قدرت کی طرف سے ہمارے لیے ایک تحفہ ہے ۔یہ ہمیں خطرے سے آگاہ کرتا ہے لیکن ہمیں بھولنا نہیں چاہیے کہ قدرت نے اس نظام کے ساتھ ساتھ ہمیں ایک سوچ بچار کا نظام (know system) بھی دیا ہے جو حقیقت اور خیال میں فرق بتاتا ہے ۔ اگر ہم اپنے سوچ بچار کے نظام سے زیادہ کام لینا سیکھ لیں تو خوف ختم ہو جائے گا۔
آخری مگر سب سے اہم بات وہ یہ کہ اپنے آپ کو محفوظ تصور کریں۔اس کے لیے موت کی حقیقت کو تسلیم کر لیں۔انجانے خوف اور واہموں سے خود کو نکال لیں اور مستقبل کی فکر اور ماضی میں غلطاں رہنے کی بجائے اپنے حال کو سنواریں ۔آپ تہہ دل سے یہ بات تسلیم کر لیں کہ رزق اور موت اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہے۔عزت اور ذلت پر بھی وہی قادر ہے۔آپ کا کام اپنے حصے کی جستجو اور محنت کرنا ہے اور خوب سے خوب تر کی تلاش میں رہنا ہے۔ جیسے ہی آپ اپنی سوچ کو واضح شکل میں لے آئیں گے آپ اپنے اندر کے خوف سے آزاد ہو جائیں گے جس سے تحفظ کا احساس خود بخود اجاگر ہو جائے گا ۔ یاد رکھیں! تحفظ اس کرہ ارض پر بسنے والے حشرات الارض سے لے کر اشرف المخلوقات تک سب کی بڑی ضرورت ہے۔ اس کے بغیر کوئی زندہ نہیں رہ سکتا ۔
اچھی بات یہ ہے کہ خوف سے نجات پانا آپ کے اپنے ہاتھ میں ہے۔۔۔!اور اس سفر میں آپ تنہا نہیں ، ہم آپ کے ساتھ ہیں۔