ہر قدم پر ہمیں فیصلے کرنے پڑتے ہیں ۔ بہت سے معاملات فوری فیصلوں کی مانگ کرتے ہیں۔ وہ ہمیں غوروفکر اور منصوبہ بندی کی مہلت نہیں دیتے ۔ عموما اسی قسم کے فیصلے خاصے اہم ہوتے ہیں اور ان کے نتائج ہماری اور ہمارے گردوپیش کے لوگوں کی زندگی پر اثر ڈالتے ہیں۔
امریکی بحریہ کے طیارہ بردار جہاز مڈوے کے کپتان لارنس سی چیمبرز کو اسی قسم کی صورت حال پیش آئی تھی ۔ یہ جہاز ویت نام کی جنگ کے دنوں میں امریکی فوجی کارروائیوں میں مدد دے رہا تھا۔
ایک ویت نامی افسر میجر پنگ لی اپنی بیوی اور پانچ بچوں کے ساتھ دو نشستوں والے سیسنا طیارے میں کمیونسٹوں سے جان بچانے کی خاطر بھاگ آیا تھا ۔
میجر مڈوے کے کپتان سے اس جہاز پر اترنے کی اجازت مانگ رہا تھا ۔
کپتان چیمبرز کے سامنے اب سوال یہ تھا کہ کیا وہ ویت نام کے اس فوجی افسر اور اس کے خاندان کو لے کر آنے والے چھوٹے سے طیارے کو سمندر میں اپنے طیارہ بردار جہاز پر اترنے کی اجازت دے یا نہ دے ؟
مڈوے کا سارا ڈیک ہیلی کاپٹروں سے بھرا ہوا تھا ۔ ہر ہیلی کاپٹر کی قیمت کروڑوں روپے تھی ۔ لہذا مسئلہ یہ تھا کہ سیسنا طیارے کو یا پھران مہنگے ہیلی کاپٹروں کو میں سے کسی کو سمندر ی لہروں کی نذر ہونا تھا۔
کپتان چیمبرز نے اس فیصلہ طلب لمحے پر ہوشیاری سے کام لیا ۔ اس نے فورا اپنے سپاہیوں کو حکم دیا جنہوں نے ہیلی کاپٹروں کو ڈیک کے ایک طرف دھکیل کر آخر کار سیسنا طیارے کے لیے گنجائش پیدا کردی۔
مانا کہ اس قسم کی گھمبیر صورت حال ہر روز پیش نہیں آتی مگر ماہرین نفسیات بتاتے ہیں کہ ہم سب کو روزانہ سیکڑوں فیصلے کرنے پڑتے ہیں ۔ ان کا دائرہ روزمرہ کی چھوٹی موٹی باتوں مثلا ناشتہ ڈبل روٹی سے کیا جائے یا پراٹھے سے کام چلایا جائے ؟ سے لے کر اہم معاملات کیا مجھے دوبارہ شادی کر لینی چاہئے ؟ تک پھیلا ہوتا ہے۔
اس قسم کے فیصلے ہماری پوری زندگی کو متاثر کرتے ہیں ۔ اس کے باوجود ہم فیصلے کرتے ہوئے ذہنی کرتبوں سے کام چلانا چاہتے ہیں ۔
جس ترتیب سے ہمیں حقائق تک رسائی ملتی ہے وہ ہمیں ناموزوں طور پر متاثر کرسکتی ہے ۔
اکثر اوقات ہم کسی نکتے کے حق یا مخالفت میں پیش کئے جانے والے دلائل کی تعداد ہی سے متاثر ہوجاتے ہیں اور یہ دیکھنے کی تکلیف گوارہ نہیں کرتے کہ کیا وہ دلائل معقول بھی ہیں یا نہیں ۔
اسی طرح اعدادوشمار کا چالاکی سے استعمال اکثر لوگوں کو بے وقوف بنا دیتا ہے ۔ وہ اعدد وشمار کی چالبازیوں میں الجھ جاتے ہیں ۔
شکاگو یونیورسٹی کے فیصلہ سازی کی تربیت کے مرکز کے ڈائریکٹر رابن ہوگرتھ نے اس نکتے کی وضاحت کی ہے ۔ وہ کہتے ہیں فرض کریں کہ آپ کو موٹر ریڈیو کی ضرورت نہیں ۔ آپ اس کو خریدنا نہیں چاہتے۔ لیکن جب کارڈیلر آپ کو بتاتا ہے کہ اس ریڈیو کی قیمت کار کی قیمت کے ایک فیصد سے بھی کم ہے تو آپ اس کو خریدنے پر مائل ہوجاتے ہیں ۔ اس کے برخلاف ڈیلر اگر یہ کہتا کہ ریڈیو کی قیمت تین ہزار روپے ہے توپھر زیادہ امکان یہ تھا کہ آپ وہ نہ خریدتے ۔
شاید یہ ممکن نہیں کہ کسی شخص کے تمام فیصلے درست ہوں ۔ ہم سب زندگی میں بہت سے فیصلے صحیح کرتے ہیں اور بہت سے ہمارے فیصلے غلط بھی ثابت ہوتے ہیں ۔ تاہم ماہرین نے ایسے طریقے وضع کر رکھے ہیں جن کو استعمال کرکے ہم اپنی فیصلہ سازی کی صلاحیت کو بہتر بنا سکتے ہیں ۔ یہ ترقی یافتہ صلاحیت ہمارے لئے بہت مفید ثابت ہوسکتی ہے ۔ ظاہر ہے کہ اگر ہم اچھے فیصلے کر سکیں تو یہ ہمارے حق میں اچھی بات ہی ہوگی ۔
چلیں ان چھ طریقوں کو جانتے ہیں جو آپ کی فیصلہ کرنے کی قوت کو نکھار سکتے ہیں۔
کسی منظر کا تعین اس بات سے ہوتا ہے کہ آپ اس کے کون سے حصے دیکھتے ہیں اور کن حصوں کو نظر انداز کرتے ہیں ۔ گویا آپ منظر کو کس طرح ’’ فریم ‘‘ کرتے ہیں ۔ اسی طرح کوئی فیصلہ کرتے ہوئے مختلف فریموں کو آزمانا بہت اہم ہوتا ہے۔
اس کی ایک دلچسپ مثال ایڈورڈ رسو اور پال جے ایچ شو میکر نے اپنی مشترکہ کتاب ’’ فیصلے کے پھندے ‘‘ میں بیان کی ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ جب کاروباری لوگوں کو بتایا جائے کہ کسی سودے میں فائدے کا امکان 70 فیصد ہے تو وہ سودا کرنے پر مائل ہو جاتے ہیں لیکن جب یہی بات ان سے یوں کہی جائے کہ اس سودے میں گھاٹے کا خدشہ تیس فیصد ہے تو وہ اس میں ہاتھ ڈالنے سے ڈرتے ہیں ۔
ابھی ہم نے امریکی بحریہ کے طیارہ بردار جہاز مڈوے پر اترنے والے سیسنا طیارے کا ذکر کیا تھا ۔
اس واقعے کو دہراتے ہوئے کپتان چیمبرز نے ایک بار کہا تھا کہ جب سیسنا کو مڈوے پر اتارنے کا معاملہ سامنے آیا تو ایک اعلیٰ افسرنے مشورہ دیا کہ طیارے کو سمندر میں اترنے دیا جائے اور بعد میں ویت نامی خاندان کو سمندر سے نکال کر جہاز پر لے آیا جائے لیکن کپتان کو معلوم تھا کہ طیارے میں چھوٹے بچے بھی ہیں ۔لہذا اس نے یہ مسئلہ یوں ’’ فریم ‘‘ کیا کہ جس سے فیصلہ کرنا آسان ہوگیا ۔ کپتان نے خود سے پوچھا’’ کیا چند ہیلی کاپٹروں کو عرشے کے ایک کونے میں دھکیلنے میں میرے عملے اور مشن کے لیے کوئی خطرہ پیدا ہوگا؟‘‘ اس کا جواب یہ تھا کہ ہیلی کاپٹر اپنا کام کرچکے ہیں اور وہ مڈوے کے مشن کے لیے ناگزیر نہیں رہے ۔ اس طرح چند ہیلی کاپٹروں کی قربانی کا خطرہ مول لینے کا فیصلہ آسان ہوگیا۔
یال یونیورسٹی کے ماہر نفسیات رابرٹ جے سٹرن برگ کا دعوی تو یہ ہے کہ ناقابل حل محسوس ہونے والے کسی مسئلے کو سلیقے سے ’’ ری فریم ‘‘ کیا جائے تو اس کو حل کرنا نہ صرف ممکن بلکہ آسان بھی ہوجاتا ہے ۔ اپنی ایک کتاب میں سڑن برگ صاحب نے اس نکتے کی وضاحت کرتے ہوئے ایک سیلز مین کی مثال دی ہے ۔
سیلزمین کی بیوی کو ہمیشہ شکایت رہتی تھی کہ وہ بہت زیادہ سفر کرتا ہے لیکن بیوی کے گلے شکوؤں کے باوجود ملازمت چھوڑنے پر آمادہ نہیں ۔ ملازمت اسے اچھی لگتی تھی اور وہ سفر سے بھی لطف اٹھاتا تھا۔ سڑن برگ کہتے ہیں کہ اپنا مسئلہ حل کرنے کیلئے سیلز مین اور اس کی بیوی کو سوال یہ نہیں اٹھا نا چاہئے کہ کیا وہ بہت زیادہ سفر کرتا ہے ؟ اس کے بجائے ان کو یہ سوال سامنے رکھنا چاہئے کیا اپنے بعض دوروں میں بیوی کو بھی ساتھ لے جانا چاہئے ؟
پوری تیاری کریں
اس قسم کے فیصلے بہت آسان ہوتے ہیں کہ آپ ناشتے میں فرائی انڈا چاہیں گے یا آملیٹ ۔ مگر نیا مکان منتخب کرنا ہو تو پھر آپ کو کئی معاملات کی چھان بین کرنا پڑتی ہے مثلا آپ کو جاننا ہوگا کہ مکان شہر کے کس حصے میں ہے، وہاں کے حالات کیسے ہیں ،کس قسم کے لوگ وہاں رہتے ہیں ، ٹرانسپورٹ، پانی ، بجلی اور گیس وغیرہ کی صورت حال وہاں کیسی ہے ، کیا سکول اور پارک وغیرہ ہیں، مارکیٹ کتنی دور ہے اور کیا اس علاقے میں جائیداد کی قیمتیں کم تو نہیں ہوجائیں گی؟
معلومات اکٹھی ہوجائیں اور تحقیق کی جائے تو بڑے فیصلے کرنے میںبہت مدد ملتی ہے ۔ چنانچہ ایک ماہر کا کہنا ہے کہ فیصلہ سازی میں سرزد ہونے والی اہم غلطیوں میں سے ایک یہ ہے کہ ہم پوری صورت حال سامنے نہیں رکھتے ۔
بڑے فیصلے کرنے سے پہلے مسئلے کے مختلف پہلوؤں پر غوروفکر کرنے اور متعلقہ معلومات حاصل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔لہذا اس قسم کے فیصلوں سے پہلے ضروری اطلاعات اور اعداد وشمار حاصل کرنے کی ہرممکن کوشش کریں ۔ ہم عموما آسانی سے دستیاب معلومات کی بنیاد پرفیصلے کرنے لگتے ہیں یا پھر حقائق کو نظرانداز کر دیتے ہیں ۔
پٹن برگ یونیورسٹی کے پروفیسر زالٹ مین کا کہنا ہے کہ ہم اپنے پسندیدہ تصور کو بچانے کی خاطر اس تصور کی نفی کرنے والی معلومات سے گریز کرنے لگتے ہیں ۔یوں ہم درست فیصلہ نہیں کرپاتے اور اپنی پسند وناپسند میں اٹک جاتے ہیں ۔
مختلف امکانات کا جائزہ لیں
عموما کسی مسئلے کے بہت سے حل ممکن ہوتے ہیں ۔ ان میں سے بعض پوشیدہ ہوتے ہیں اور کوشش کے بغیر ان کو جاننا دشوار ہوتا ہے ۔ لہذا کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے اپنے تخیل کو آزاد چھوڑ دیجئے ۔ مثلا مہینے کے مختلف بل ادا کرنے کے بعد آپ یہ فیصلہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ کیا بیوی بچوں کو تفریح کے لیے جانا چاہئے یا نہیں ، تو اس کا واضح جواب ہاں یا نہ میںہوگا ۔ لیکن بعض اور امکانات بھی ہوسکتے ہیں ۔ مثلا آپ مہنگی تفریح کے بجائے سستی تفریح کا انتخاب کرسکتے ہیں یا تفریح کا دورانیہ کم کر سکتے ہیں ۔ لہذا حتمی فیصلہ کرنے سے پہلے ان امکانات پر بھی نگاہ ڈالنی چاہئے ۔
باطن کی آواز سنیں
ملازمت کے لیے انٹرویو دینے جائیں تو مستقبل کا باس بہت خوش خلق اور ہنس مکھ نظر آتا ہے پھر بھی کبھی اندر سے آواز آتی ہے کہ اس شخص کے ماتحت کام کرنا غلطی ہوگی ۔
اس کی کیا وجہ ہے ؟ کیاآپ کو یہ اچھا نہیںلگا کہ انٹرویو کے وقت اس نے آپ کی درخواست میز کے وسط میں رکھی ہوئی تھی یا آپ نے اس شخص کے دوسرے ملازموں سے معلومات حاصل کی ہیں؟ خیر ،بہت سے لوگ کہیں گے کہ اس معاملے میں ان کا وجدان رہنمائی کر رہا تھا اور اسی نے ملازمت کی آفر قبول نہ کرنے کا اشارہ دیا ۔
ٹیکساس یونیورسٹی کے پروفیسر ویسٹن ایچ اگور کا کہنا یہ ہے کہ وجدان سے مراد کسی شے کو اچھی طرح جانے بوجھے بغیر اس کے بارے میں یقینی علم کا دعویٰ کرنا ہے ۔ لہذا اگور صاحب کی تنبیہ یہ ہے کہ فیصلے محض وجدان کی بنیاد پر مت کریں ۔ اس صورت میں ہوتا یہ ہے کہ آپ حقائق کی ترتیب اپنی ضرورت کے مطابق کرنے لگتے ہیں اور حقیقت سے دور ہوجاتے ہیں۔
ساڑھے تین ہزار منتظمین کی رائے حاصل کرنے کے بعد اگور نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ان میں سے کامیاب ترین افراد وہ ہیں جو اپنے وجدان پر اعتماد تو کرتے ہیں مگر معلومات حاصل کرکے اس کو پرکھتے بھی ہیں ۔ ایک ایگزیکٹو نے یہ قصہ سنایا کہ ایک بار اس نے ملازمت کے ایک امیدوار کا انٹرویو لیا ۔ انٹرویو بہت اچھا تھا اور امیدوار کا تعلیمی ریکارڈ بھی شاندار تھا مگر وہ دل سے اس کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہوریا تھا ۔ اس کا وجدان امیدوار کو مسترد کر رہا تھا۔ چنانچہ اس نے امیدوار کے بارے میں مزید معلومات حاصل کیں تو معلوم ہوا کہ اس نے پولیس ریکارڈ کی بہت سی باتیں چھپالی تھیں۔
چھوٹے قدم اٹھائیں
جہاں کہیں ممکن ہو فیصلوں پر عمل مرحلہ وار ہونا چاہئے ۔ اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ اگر کسی مرحلے پر آپ کے فیصلے سے منفی نتائج سامنے آئیں یا فیصلے کی نفی کرنے والے نئے حقائق معلوم ہوجائیں تو پھر آپ ، کم سے کم نقصان کے ساتھ ، اپنا فیصلہ بدل سکیں گے ۔
میرے دوست خالد ایسا ہی کرتے ہیں۔ گزشتہ برس انہوں نے شہر میں مکان خریدنے کی خاطر گاؤں میں اپنی کچھ اراضی فروخت کی تھی ۔ شہر میں انہوں نے مکان تلاش کر لیا لیکن معاملہ طے ہونے سے پہلے ارادہ بدل کر کرائے کے مکان میں رہنے لگے ۔ میں نے اس کی وجہ پوچھی تو انہوں نے بتایا کہ ان کو یہ فیصلہ کرنے کے لیے دو تین ماہ درکار تھے کہ کیا گاؤں سے شہر کو منتقل ہونا اچھا فیصلہ تھا یا نہیں۔
اپنے رویوں میں ہمیشہ لچک رکھیں ۔ یاد رکھیں کہ فیصلوں میں ردوبدل کرنے کا لازمی طور پر یہ مطلب نہیں کہ آپ مستقل مزاجی اور مضبوط قوت فیصلہ سے محروم ہیں ۔اگر آپ سوچ سمجھ کر فیصلوں میں ردوبدل کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے روئیے میں لچک ہے اور آپ تغیر پذیر حقائق کو قبول کرنے سے نہیں ہچکچاتے ۔
ڈیڈلائن کا تعین کریں
فیصلے کرتے ہوئے وقت کی حد ضرور مقرر کرنی چاہئے ۔ یعنی پہلے سے ہی یہ طے کر لینا چاہئے کہ جو کام آپ شروع کرنے والے ہیں اس کی تکمیل کے لیے کس قدر وقت درکار ہوگا ۔ ایسا نہ کرنے کی صورت میں کوئی کام وقت پر نہیں ہوسکے گا ۔ آپ جانتے ہی ہیں کہ وقت ہماری سب سے قیمتی متاع ہے ۔ہم اسے ضائع نہیں کرسکتے ۔
کئی مرتبہ ہمیں عارضی یا عبوری نوعیت کے فیصلے کرنے پڑتے ہیں۔ گویا زیادہ معلومات حاصل ہونے تک ہم حتمی فیصلے کو ملتوی رکھتے ہیں۔ بعض لوگوں کے نزدیک عبوری فیصلے حقیقی نہیں ہوتے لیکن لاس اینجلس کے ایک مشہور ماہر نفسیات ہیرٹ بی بریکر ایسے فیصلوں کی اہمیت کے بہت قائل ہیں اور ان کو مفید اور ضروری قرار دیتے ہیں۔
اکثر اوقات کسی نقصان کا خدشہ ہمیں فیصلہ کرنے سے روک دیتا ہے تاہم بڑے بڑے تجارتی اداروں کے اعلیٰ حکام کو فیصلے کرنے کی تربیت دینے والے بریکر کا کہنا ہے کہ فیصلے کو معطل رکھا جائے اور کسی نتیجے تک نہ پہنچا جائے تو اس سے گہری تشویش اور پریشانی پیدا ہوتی ہے۔ یہ تشویش اور پریشانی غلط فیصلے کرنے سے بھی زیادہ ہوتی ہے ۔لہذا بہتر یہی ہے کہ ہم خطرات سے گھبرا کر فیصلے نہ کرنے کی عادت چھوڑ دیں۔