پوشیدہ توانائی سے کام لیں

کم وبیش ہم سب ان دنوں کو یاد کرسکتے ہیں جب ہماری اندر توانائی کا طوفان امڈتا محسوس ہوا کرتا تھا ۔ تب دن چھوٹے چھوٹے لگتے تھے ۔ کام اور کھیل کی سرحدیں گڈمڈ ہوجایا کرتی تھیں ۔ یہاں تک کہ ان کو الگ کرنا ممکن نہ رہتا تھا۔
ماضی کے ان ایام کو یاد کریں جب کلاس روم میں آنکھیں کھولنا وبال جان ہوتا تھا مگر سکول کے بعد کھیل کے میدان میں آپ پوری طرح چاک وچوبند ہوا کرتے تھے ۔ آغاز محبت کی توانائیاں بھی بھلا کوئی بھول سکتا ہے ۔ ان کے سہانے سپنے ساری زندگی آتے ہیں ۔ اسی طرح چیلنج پیداکرنے والی ملازمت یا کسی خطرے کے احساس کے ساتھ ہماری ساری توانائیاں کیسے فعال ہوجاتی تھیں ۔

ان خوشگوار یادوں کے باوجود اکثر اوقات ہم محسوس کرتے ہیں کہ جیسے ساری توانائی نچڑ گئی ہے ۔ رائی پہاڑ لگتی ہے ۔ چھوٹا ساکام محال نظر آنے لگتا ہے ۔ دوستوں اور عزیزوں کو ملنے کا باربار وعدہ کرتے ہیں لیکن مہینوں مل نہیں پاتے ۔ ٹیلی ویژن خراب ہوتا ہے اور دنوں تک یونہی پڑا رہتا ہے ۔ ایسے ہی روزمرہ زندگی کے چھوٹے موٹے کام رکے رہتے ہیں ۔ آخر کیوں ۔۔۔؟
بات یہ ہے کہ ہم سب میں امکانی توانائی کا بہت بڑا ذخیرہ موجود ہوتا ہے ۔ یہ ذخیرہ اس قدر بڑا ہوتا ہے کہ ہم کسی طور بھی اس کو پوری طرح استعمال نہیں کرسکتے ۔ ہاں اگر ہم اس کا صرف دسواں حصہ بھی گرفت میں لاسکیں تو ہماری زندگیاں شاندار طریقے سے بدل سکتی ہیں۔
یہاں ہم آپ کو اپنی پوشیدہ توانائی کو قابو کرنیکے چند طریقے بتائیں گے ۔

چوکس رہیں
جسمانی فٹنس ہماری زندگی کی ہر پہلو میں توانائی بڑھاتی ہے ۔ تیس منٹ کی ورزش عموما تھکا وٹ دور کرنے کا بہترین طریقہ ثابت ہوتی ہے ۔
بعض داناؤں کاخیال ہے کہ اپنی جسمانی کیفیت سے مطمئن لوگ غیر صحت مند اور کاہل افراد کے مقابلیمیں دوسروں سے زیادہ کام کرتے ہیں ۔ وہ اپنی توانائی دوسروں کی بھلائی کے لیے زیادہ استعمال کرتے ہیں۔

غصہ کو استعمال کریں
غصہ ہر کسی کو آتا ہے لیکن اکثر لوگ اس جذبے کو شدت سے دبا دیتے ہیںیوں اس سے منسلک ولولہ بھی دب جاتا ہے ۔
کبھی کبھار زندگی میں ایسا لمحہ بھی آتا ہے جب غصے سے مغلوب ہونا اور دوسروں پر اس کو ظاہر کرنا غلط نہیں ہوتا ۔ ان لمحوں کی بات اور ہے ۔ عام طور پر مناسب طرز عمل یہ ہوتا ہے کہ غصہ سے پیدا ہونیوالی توانائی کو قابو کیا جائے اور اس کو مثبت مقاصد کے لیے بروئیکار لایا جائے ۔ لہذا جب آپ کو اپنا پارہ چڑھتا ہوا محسوس ہو تو کسی اچھے کام میں جت جائیں۔

مثبت پہلوؤں پر نظر رکھیں
ماہرین نفسیات کم باتوں پر متفق ہیں ۔ان میں سے ایک یہ ہے کہ زندگی کے متعلق مثبت نقطہ نظر رکھنے والے لوگ منفی رویہ رکھنے والوں کے مقابلے میں عموما زیادہ صحت مند ہوتے ہیں ۔ ان میں توانائی بھی زیادہ ہوتی ہے ۔
ٹام پیٹر اور رابرٹ واٹر مان انتظامی امور کے دو معروف مشیر ہیں ۔ اپنے وسیع تجربے اور علم کی بنا پر وہ کہتے ہیں کہ امریکا کی کامیاب ترین کمپنیوں کے ایگزیکٹوز کی گفتگو ایک جیسی ہوتی ہے ۔ وہ سب مثبت رویہ رکھتے ہیں ۔ ان کی نظر زندگی کے اچھے پہلوؤں پررہتی ہے ۔ وہ دوسروں کو بھی اسی روئیے کی تلقین کرتے ہیں۔
ٹام پیٹر کاکہنا ہے ’’ کامیاب ترین منیجر منفی رویوں کو برداشت نہیں کرتے۔‘‘ پیٹر نے ایک ایگزیکٹو کی یہ رائے بیان کی ہے ’’ کامیاب ترین افراد کا ایک راز یہ ہے کہ بچپن میں ان کو دوسروں سے بہت تعریف ملتی ہے ۔

یہ تعریف اس قدر زیادہ ہوتی ہے کہ وہ جھنجھلاہٹ محسوس کرنے لگتے ہیں۔‘‘
زندگی کے حادثے ہمیں اضافی توانائی عطا کرتے ہیں کیونکہ وہ ہمیں سستی و کاہلی چھوڑ کر زیادہ حوصلہ مندی سے حالات کا سامنا کرنے پر اکساتے ہیں ۔ تاہم ایسا تبھی ہوتا ہے جب ہم مصائب کو حقیقی خیال کریں ۔ مصیبتوں اور زندگی کے منفی پہلوؤں کا اعتراف بزدلی نہیں ۔ اس کا مطلب حقائق کو ماننا اور پھر ان کو بدلنے پر آمادہ ہونا ہے ۔ آپ نے محسوس کیا ہوگا کہ اپنے مصائب کا کسی دوست سے ذکر کرنے سے بھی ذہن کا بوجھ کافی ہلکا ہوجاتا ہے اور زیادہ توانائی کا احساس بھی ہوتا ہے ۔ یاد رکھیں کہ مشکلات کو لٹکائے رکھنا اچھا نہیںہوتا ۔ اگر ہم ان سے بروقت نمٹ لیں تو پھر اچھے کاموںکے لیے وقت اور توانائی بچ جاتی ہے ۔

سچائی کا اظہار کریں
بڑی بڑی کمپنیوں کے مشیر ول شلز نے ایک پتے کی بات یہ کہہ رکھی ہے کہ کسی کمپنی یا ادارے کو مضبوط بنانے کے لیے بہترین ترکیب یہ ہے کہ اس سے وابستہ لوگ ایک دوسرے کے ساتھ سچ بولنا شروع کردیں ۔
سچ کا بہترین استعمال یہ نہیں کہ آپ دوسروںکی توہین کرکے اپنا الو سیدھا کریں ۔ سچ بولنے سے مراد اپنے حقیقی احساسات کی ترجمانی کرنا ہے ۔ اس میں کئی باتیں شامل ہوتی ہیں ۔ مثلا اس میں رسک ہوتا ہے ، چیلنج اور ولولہ ہوتا ہے ، سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اس سے توانائی ریلیز ہوتی ہے ۔

ترجیحات کا تعین کریں
کوئی انتخاب کرنا ایک بڑی حقیقت سے دوچار ہونا ہے ۔ انتخاب کا مطلب باقی تمام راہیں چھوڑ کر ایک راہ اختیار کرنا ہے ۔ کسی ایک ہدف کو منتخب کرنے سے مراد یہ ہے کہ آپ بے شمار دوسرے ممکنہ اہداف سے دستبردار ہوجاتے ہیں۔
میرا ایک تیس سالہ دوست ابھیتک مقصد حیات کی جستجو میں سرگرداں ہے ۔ وہ کہتا ہے’’ میری نسل کی تربیت آپشنز کو کھلا رکھنے کے تصور پر ہوتی ہے لیکن آپ تمام آپشنز کھلی رکھیں، زندگی کے لیے کوئی نصب العین نہ چنیں تو پھر آپ زندگی میں کچھ بھی نہیں کر سکتے ۔ ایسی زندگی کی حالت سمندر میںمانجھی کے بغیر کشتی جیسی ہوتی ہے ۔‘‘یہ سچ ہے ۔جب کوئی منزل طے نہ کی جائے ، کوئی ہدف مقرر نہ کیا جائے تو پھر بے عملی ، تذبذب اور مایوسی جنم لیتی ہے ۔
عمل ذہنی اور روحانی کاہلی کا علاج ہے ۔ جب آپ کوئی کام کرنے ،کسی منزل تک پہنچنے کا پختہ عزم کر لیں تو ذہنی اور روحانی کاہلی خود بخود ختم ہونے لگتی ہے ۔ہم زندگی میں سب کچھ نہیںکرسکتے ۔اس قسم کی آرزو کرنا بھی محض حماقت ہے ۔ البتہ کوئی ایک راہ چن لی جائے تو پھر ہم اس پر کافی آگے تک جاسکتے ہیں۔
لازم نہیں کہ پوری زندگی کے لیے ایک ہی ٹارگٹ رکھا جائے ۔البتہ ایک وقت پر ایک ٹارگٹ فائدہ مند ہوتا ہے ۔ یوں ایک کے بعد دوسرا اور پھر تیسرا ٹارگٹ اپنا سکتے ہیں ۔یوں زندگی کا سفر تخلیقی انداز میںجاری رہتا ہے۔
میں تو یہ کہنے پر بھی تیار ہوں کہ کوئی فیصلہ نہ کرنے سے بہتریہ ہے کہ آپ کوئی غلط فیصلہ ہی کرلیں۔ تاہم صحیح فیصلے کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ آپ اپنی ترجیحات کی فہرست بنائیں ۔ یہ ترجیحات ایک دن کے لیے،ہفتہ ، مہینہ یا ایک سال کے لیے ہوسکتی ہیں ۔ پھر ان کو پہلی ، دوسری اور تیسری اہمیت کے خانوں میں تقسیم کریں اور کم از کم ان ترجیحات کے لیے اپنی صلاحیتیں ضرور وقف کردیں جن کو آپ نے پہلے خانے میںرکھا ہے اور جو آپ کی اولین ترجیحات ہیں۔
یہی مشق طویل المیعاد مقاصد کے لیے کریں ۔البتہ یہ مت بھولیں کہ ترجیحات جامد نہیں ہوتیں ۔ آپ جب چاہیں ان کو بدل سکتے ہیں ۔ فہرست تیار کرنے سے فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ذہن میں وضاحت پیدا ہوجاتی ہے ۔ ابہام ختم ہوجاتا ہے ۔یہ وضاحت توانائی پیدا کرتی ہے ۔

ذمہ داری سے کام لیں
اگر ہم کوئی کام ختم کرنے کے لیے وقت کا تعین کر لیں تو اس سے ہماری توانائی بڑھ جاتی ہے ۔ہم اس کام کو مقررہ وقت تک ختم کرنے کے لیے زیادہ محنت کرتے ہیں ۔ وقت مقرر کرکے کام کرنیوالے لوگ ضرور اس حقیقت سے آگاہ ہوں گے ۔
اکثر صورتوں میں آپ نے خود ہی مدت کا تعین کرنا ہوتا ہے لیکن بہت سے کاموں کے لیے ڈیڈ لائن دوسرے لوگ طے کرتے ہیں ۔ خیر جب آپ نے خود ہی مدت کا تعین کرنا ہو تو بھی اس معاملے میں مکمل سنجیدگی سے کام لیں ۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ وقت کے معاملے کو دوسروں سے نہ چھپائیں ۔ قریبی لوگوں کو اس کے بارے میں بتادیں ۔وہ آپ کو یاد دلاتے رہیں گے اور خود آپ کے دل میں بھی احساس ہوگا کہ کام وقت پرمکمل کر لینا چاہئے ۔

یاد رکھیں کہ ڈیڈ لائن بوجھ نہیں ۔ وہ ذمہ داری سے کام کرنے کا سبب بنتی ہے ۔ چنانچہ ڈیڈلائن جس قدر پکی ہوگی ، اس کی خلاف ورزی اتنی ہی دشوار ہوگی ۔ یوں وہ زیادہ توانائی پیدا کرنے کا سبب بنے گی ۔

متحرک رہیں
بہتر منصوبہ بندی کے لییجلد بازی سے بچنا ضروری ہے ۔ تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ فیصلے ٹالتے رہیں ۔ اس کا مطلب بس یہ ہیکہ منصوبہ بندی کے لیے جس قدر وقت درکار ہو ، وہ ضرور لیا جائے ۔ منصوبہ بندی کے بعد وقت ضائع کئے بغیر عمل شروع کر دینا چاہئے ۔
یہ بات ذہن میں رکھیں کہ آپ توانائی ذخیرہ نہیں کرسکتے ۔ یہ نہیںہوسکتا کہ آپ توانائی استعمال نہ کریں تو آپ کے ذہن کے کسی گودام میں جمع ہوتی جائے گی بلکہ جو توانائی استعمال نہیں ہوتی وہ خود بخود ضائع ہوجاتی ہے ۔ کام کے ہر منصوبے میں آرام اور تفریح کے لیے گنجائش ہونی چاہئے لیکن کام کئے بغیر آرام اور تفریح میں وقت ضائع کرنے سے صرف ڈپریشن ہی پیدا ہوتا ہے ۔
غیر استعمال شدہ توانائی بے چینی اور مایوسی کا سبب بنتی ہے ۔ دنیا میں ہم سب کے لیے بہت سے تعمیری اور تخلیقی کام موجود ہیں ۔ اس لیے ہم سب ابھی تسمے باندھ کر میدان عمل میں کود سکتے ہیں اور اپنی توانائیاں بڑھا سکتے ہیں۔

Comments (0)
Add Comment