زندگی میں ناکامیاں ضرور پیش آتی ہیں ، مگر جو چاہیں تو ناکامی سے بچ سکتے ہیں ۔ اس کا یقینی طریقہ یہ ہے کہ کچھ بھی نہ کیا جائے ۔ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں کسی منزل ، کسی کامیابی کے لیے جدوجہد نہ کریں ۔ جب آگے بڑھنے کی کوئی کوشش نہ کی جائے تو ناکامی کا امکان خودبخود ختم ہوجائے گا۔
مگر یہ کوئی مناسب طرز زندگی نہیں ۔ زندگی حرکت کا ، آگے بڑھنے کا نام ہے اور آگے بڑھنے کی کوشش میں ہی ناکامیاں پیش آتی ہیں ۔ گویا وہ زندگی کی جدوجہد کا لازمی حصہ ہیں ۔ بہت سے لوگ ناکامیوں کو بدقسمتی سمجھتے ہیں ۔ وہ مایوس ہوجاتے ہیں مگر ناکامیوں کا مثبت پہلو یہ ہے ۔
ہم ان سے سبق سیکھ سکتے ہیں ۔اپنی کوتاہیاں اور خامیاں تلاش کرسکتے ہیں اور ان کو دور کر سکتے ہیں ۔ تبدیلی کی قوت آپ میں موجود ہے اس کو بروئے کا ر لائیں ۔
شکست کا تجزیہ کرنا اور اس کو سمجھنے کی کوشش کرنا ضروری ہے ۔ پہلی ناکامی کو جان کر ہم دوسری ناکامی سے بچ سکتے ہیں ۔ دو امریکی ماہرین کارول ہیٹ اور لنڈا گوٹلب نے دو سو کے لگ بھگ ایسے افراد کے انٹرویوز لیے جنہوں نے اپنے کیرئیر میں شدید ناکامیوں سے دوچار ہونے کے باوجود اپنی جدوجہد جاری رکھی تھی اور بالاخر کامیابی سے ہمکنار ہوئے تھے ۔ ان انٹرویوز کی بنیاد پر دونوں ماہرین نے ناکامی کے چھ عمومی اسباب کی نشاندہی کی ہے ۔ ان کا علم آپ کے لیے مفید ہوسکتا ہے ۔
سماجی مہارتوں میں کمی
ہو سکتا ہے کہ آپ ناکام نہ ہوئے ہوں بلکہ کسی غلط جگہ پر اٹک گئے ہوں ۔ کامیابی کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ آپ کی صلاحیتیں ، دلچسپیاں ، شخصیت ، سٹائل اور اقدار سب آپ کے کام سے ہم آہنگ ہوجائیں ۔
ڈیوڈ براؤن کو امریکا کے کامیاب ترین فلم سازوں کی فہرست میں شمار کیا جاتاہے ۔ اس کو تین بار مختلف کمپنیوں نے ملازمت سے نکالا تھا ۔تب اسے احساس ہوا کہ وہ کمپنیوں کی ملازمت کے لیے نہیں بنا ۔ براؤن ہالی وڈ کے شہرہ آفاق ادارے ٹونٹی ایٹ سنچری فوکس ، میں نمبر دو کے درجے تک جاپہنچا تھا ۔پھر اس نے فلم ’’ قلوپطرہ‘‘ کی سفارش کی جو کاروباری لحاظ سے گھاٹے کا سودا ثابت ہوئی ۔ ڈیوڈ براؤن کو اس کے نتائج بھگتنے پڑے ۔ اسے ملازمت سے برخاست کردیا گیا۔
ڈیوڈ براؤن کو اس کے نتائج بھگتنے پڑے ۔ اسے ملازمت سے برخاست کردیا گیا۔نیویارک میں براؤن امریکن لائبریری کا نائب صدرمقرر ہوا ۔کچھ عرصے بعد لائبریری کے مالکان ایک اور شخص کو بھی لے آئے ۔ براؤن کی اس سے نہ بن سکی ۔ آخرکار اس کی ملازمت ختم کردی گئی ۔
تب براؤن کیلیفورنیا واپس چلا گیا ۔ ٹونٹی ایٹ سنچری فوکس والوں نے اس کو دوبارہ قبول کرلیا ۔ چھ برسوں تک وہ اس کمپنی کا سربراہ رہا پھر کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کو اس میں خامیاں نظر آنے لگیں ۔ انہوں نے طے کیا کہ براؤن کی سفارش کردہ بعض فلمیں اچھی نہ تھیں ۔ یوں ایک بار پھر براؤن کو نکال دیا گیا ۔ اس بار کمپنی کے صدر رچرڈ ڈی زانوک کو بھی ساتھ ہی نکلنا پڑا تھا۔
یہ ٹھوکریں کھانے کے بعد رچرڈ براؤن نے اپنے طرزعمل پر سوچنا شروع کیا ۔ اس نے دیکھا کہ وہ لگی لپٹی سے کام نہیں لیتا ۔ سیدھی بات کرتا ہے ۔ خطرات مول لینے سے دریغ نہیں کرتا اور یہ کہ اپنی مرضی کے مطابق کام کرنے کو ترجیح دیتا ہے ۔ انتظامی امور میں اس کو زیادہ دلچسپی نہیں اور کمپنیوں کی ذہنیت سے نفرت کرتا ہے ۔ ظاہر ہے کہ یہ سب خصوصیات مل کر کسی کو اچھا مالک بناسکتی ہیں ،اچھا ملازم نہیں بنا سکتیں ۔ لہذا یہ بات حیرت انگیز نہیں تھی کہ براؤن کو پے درپے تین بار ملازمتوں سے فارغ کیا گیا تھا۔
ناکامی کا تجزیہ کرنے اور اس کے اسباب کو اچھی طرح سمجھنے کے بعد ڈیوڈ براؤن اور زانوک نے مل کر اپنا کام شروع کرنے کا فیصلہ کیا ۔ انہوں نے تین چار فلمیں بنائیں ۔ یوں دنیا نے دیکھا کہ براؤن ناکام کارپوریٹ ایگزیکٹو نہ تھا ۔ اس کے اندر تو ایک باصلاحیت مالک چھپا ہوا تھا ۔ جب اس نے اپنا کام شروع کیا تو اس پوشیدہ مالک کو باہر آنے کا موقع مل گیا ۔ یوں ڈیوڈ براؤن کامیاب شخصیت کے روپ میں سامنے لگا۔
بعض لوگ خطرہ مول لینے کو بنیادی قدر سمجھتے ہیں ۔ وہ اس کے بغیر نہیں رہ سکتے ۔ دوسروں کی ملازمت کرتے ہوئے ان کے جوہر نہیں کھلتے ۔ کیونکہ ملازمت کا مطلب اطاعت کرنا ہے ۔ اس میں خطرہ مول لینے کو ناگوار سمجھا جاتاہے ۔ اسی طرح کئی لوگوں کے نزدیک اصل اہمیت کوئی کارنامہ سرانجام دینے کی ہوتی ہے ۔ وہ زندگی میں کوئی بڑا کام کرنا چاہتے ہیں ۔ اگر وہ ایسی ملازمت کر رہے ہوں جس میں کوئی عظمت نہ ہو تو ان کی صلاحیتیں کند ہونے لگتی ہیں ۔ وہ دلجمعی سے کام کرنے کے اہل نہیں رہتے ۔
کمٹنٹ کی عدم موجودگی
ایک وکیل سے پوچھا گیاتو اس نے فورا ہی اعتراف کر لیا کہ ’’ میری توقعات پوری نہیں ہوئیں‘‘ اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں ۔ دراصل ناکامی کے خوف سے اس نے کوئی مقصد حاصل کرنے کے لیے حقیقی معنوں میں جدوجہد ہی نہیں کی تھی۔ کاہل لوگ اکثر خود کو یوں دلاسہ دیا کرتے ہیں ۔’’ میں ان باتوں کی پرواہ نہیں کرتا۔‘‘
اس وکیل نے قانون کے ایک باوقار ادارے سے ڈگری لی تھی ۔ پھر وہ ایک بڑی کمپنی میں ملازم ہوگیا۔ وہ تفریح کے شعبے میں خصوصی مہارت حاصل کرنا چاہتا تھا مگر کسی وجہ سے یہ نہ کرسکا۔ چنانچہ وہ کہا کرتا ہے کہ ’’ میں درمیان میں لٹکتا رہتا ہوں ۔ اپنے افسروں کو ناراض کرتا ہوں اور اچھی طرح سے کام بھی نہیں کرتا ۔‘‘
کچھ عرصے بعد اس وکیل نے پہلی ملازمت چھوڑ دی اور ایک کارپوریٹ لا فرم میں چلا گیا ۔ صرف چھ ماہ بعد فرم سے اس کو فارغ کردیا گیا۔ وجہ یہ تھی کہ وہ جمود کا شکار تھا اور پیش قدمی سے گریز کرتا تھا۔ اس الزام پر تبصرہ کرتے ہوئے وہ کہتا ہے ’’ مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔مجھے خود بھی وہ فرم پسند نہ تھی ۔‘‘ آج کل وہ تفریحی امور کے متعلق قوانین کی پریکٹس کر رہا ہے اور حسب معمول غیر مطمئن ہے ۔ مجھے اس نے بتایاکہ ’’ زندگی بکواس ہے وہ بس یونہی گزر جاتی ہے ۔‘‘
کئی لوگ ناکامی کے خطروں کو بڑھا چڑھا دیتے ہیں ۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ کوئی قدم اٹھانے کے اہل نہیں رہتے ۔ ان کو ناکامی کا دھڑکا لگا رہتا ہے ۔ جو کام بھی کرتے ہیں ، نیم دلی سے کرتے ہیں ۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیںکہ نیم دلی سے شروع کیے جانے والے منصوبے شاذونادر ہی مکمل ہوا کرتے ہیں۔
ناکامی کا بنیادی سبب عزت نفس کی کمی ہے ۔ آگے بڑھنے اورکامیابی حاصل کرنے کی پہلی شرط یہ یقین ہے کہ آپ کامیابی کے اہل ہیں ۔ چنانچہ اعلی عہدوں کے لیے افراد منتخب کرتے وقت بڑے بڑے ادارے اس خصوصیت پر خاص توجہ دیتے ہیں ۔ عزت نفس سے محروم لوگ صحیح بات کہہ رہے ہوں تو بھی سوالیہ انداز میں ہی کہتے ہیں ۔ ان میں سچ بولنے کی جرات نہیں ہوتی ۔ لہذا ان سے یہ توقع ہی فضول ہے کہ وہ زندگی میں کوئی اہم کام کرسکتے ہیں۔
عزت نفس ، خودداری اور خوداعتمادی نہ ہو تو بھی کم ازکم ، ظاہرداری قائم رکھی جا سکتی ہے اور عزت نفس کا تاثر دیا جاسکتا ہے ۔ ڈرامے کے کسی ایکٹر کی طرح اپنی آواز اور حرکات پر قابو رکھیں ۔ اپنے اوپر کنٹرول حاصل کریں ۔ اپنے خیالی انٹرویو ریکارڈ کرکے سنا کریں ۔ اس طرح آپ اپنی پرفارمنس بہتر بنا سکتے ہیں ۔
توجہ مرکوز رکھیں
بعض لوگ بیک وقت کئی کام شروع کر دیتے ہیں ۔ یوں وہ کوئی کام بھی ڈھنگ سے نہیں کرپاتے ۔ ایک تحقیقی منصوبے کے دوران مختلف افراد کا انٹرویو لیتے ہوئے ہماری مڈبھیڑ ایک پراپرٹی ڈیلر سے ہوئی ۔ دیکھنے میں وہ چالاک اور ہوشیار تھا لیکن چالاکی اس کے کام نہیں آرہی تھی ۔ اس نے بیک وقت اتنے کام شروع کر رکھے تھے کہ ان کی تعداد بھی یاد نہ رہی تھی ۔ پہلے پہل اس نے ایک عمارت بنوائی تھی پھر کئی عمارتیں شروع کردیں ۔ ان کے لیے وہ بنکوں اور دوسرے اداروں سے قرض لیتا رہا ۔ کئی اور کاروبار بھی اس نے شروع کر دئیے ۔ ان ایام کو یاد کرتے ہوئے اس نے ہمیں بتایا کہ ’’ وہ بڑے زبردست دن تھے ،میں اپنی قوتوں کا امتحان لے رہا تھا۔‘‘
یکایک ایک دن بنک نے اسے اطلاع دی کہ اس کا کریڈٹ ختم ہو چکا ہے اور یہ کہ وہ پہلے ہی خاصی رقم ایڈوانس لے چکا ہے ۔ یوں پراپرٹی ڈیلر کو اپنی حماقتوں کا احساس ہوا ۔ یوں کہہ لیں کہ یہ احساس اس کو بعد میں ہوا ،پہلے اس نے دوسروں کو الزام دینا شروع کیا اس کو بنکوں ، معیشت اور اپنے سٹاف پر زیادہ ہی غصہ آرہا تھا ۔ اس کا خیال تھا کہ وہ سب اس کو ناکام بنانے کی سازش کر رہے تھے لیکن آخر میں اسے احساس ہوا کہ وہ ضرورت سے زیادہ چالاکی سے کام لے رہا تھا۔ بہت سے سودوں میں بیک وقت ہاتھ ڈالنے سے اس کی توجہ بٹ گئی تھی اور ترجیحات مرتب نہیں ہورہی تھیں۔ جو مسئلہ شدت پکڑتا ، وہ اس کی توجہ جذب کرلیتا اور باقی امور نظرانداز ہوجاتے۔
پراپرٹی ڈیلر کے مسئلے کا حل یہ تھا کہ مختلف قسم کے بزنس میں بیک وقت مہم جوئی کے بجائے وہ اپنے اصل کام ،یعنی جائیداد کی خریدوفروخت پر پوری یکسوئی سے توجہ دیتا ۔ آخرکار اس نے یہی کیا ۔ چنانچہ چند برسوں کی محنت کے بعد وہ دوبارہ کامیاب کاروباری بن چکا ہے ۔ اب وہ اپنے کام پر توجہ مرکوز رکھتا ہے ۔
اس سارے قصے کا سبق یہ ہے کہ کامیابی کے لیے ترجیحات کا تعین اور اپنی کاوشوں کو منظم کرنا ضروری ہوتا ہے ۔
پوشیدہ رکاوٹیں
کئی رکاوٹیں عموما نظر نہیں آتیں مگر وہ ہماری راہ میں حائل ہوتی رہتی ہیں ۔ ہماری ناکامی کا سبب بنتی ہیں ۔ ہم ایسی رکاوٹوں کی فہرست بنانے کا ارادہ نہیں رکھتے۔ پھر بھی عمر ، جنس اور تعصب وغیرہ کو اس قسم کی رکاوٹیں سمجھا جا سکتا ہے ۔
نیویارک کی سنگ تراش خاتون لزی کی کہانی سنئے ۔ برسوں تک لزی کے فن پاروں کی نمائش شہر کی ایک ممتاز گیلری میں ہوتی رہتی تھی مگر مالک کی وفات کے بعد گیلری بند کردی گئی ۔لزی نے نئی گیلری کی تلاش شروع کی تب وہ چالیس برس کی ہوچکی تھی ۔ اس کا خیال تھا کہ نئی گیلری آسانی سے مل جائے گی لیکن اس کا خیال غلط ثابت ہوا ۔لزی نے اپنے فن پاروں کی نمائش کے لیے شہر کی کئی گیلریوں سے رابطہ کیا مگر کسی نے حامی نہ بھری ۔ لزی کو اس ناکامی کی وجہ سمجھ نہ آتی تھی ۔ آخرکار ایک ڈیلر نے اس کی مشکل آسان کردی ۔ اس نے لزی کو بتایا’’ تمہار ا مسئلہ یہ ہے کہ تمہاری عمر بہت زیادہ ہو گئی ہے ۔‘‘
پہلے تو لزی کو اپنے کانوں پر یقین نہ آیا مگر ڈیلر جہاندیدہ تھا ۔ اس نے وضاحت کی کہ گیلریاں یا تو نئے فنکاروں کو ترجیح دیتی ہیں جن کو لوگ اور نقاد ’’ دریافت‘‘ کرنا چاہتے ہیں یا پھر وہ بڑے فنکاروں کے لیے اپنے دروازے کھولتی ہیں جن کے فن پاروں کی مانگ ہوتی ہے اور وہ بڑی بڑی قیمتوں پر فروخت ہوتے ہیں ۔ ان دونوں قسموں یعنی نئے اور پرانے فن کاروں کے مقابلے میں لزی ایک تو درمیانی عمر کی تھی اور دوسرے اس کے فن پارے بھی درمیانی قیمت پر فروخت ہوتے تھے ۔ لہذا آرٹ گیلریاں اس کو خوش آمدید کہنے پر آمادہ نہیں تھیں ۔
ڈیلر کی باتیں لزی کو اچھی نہ لگیں مگر اس نے کان کھلے رکھے ۔ غور سے باتیں سنیں اور سمجھ گئی ۔ اس نے بڑے آرٹ ڈیلروں کے چکر لگانے چھوڑ دئیے اور اپنے فن پارے خود ہی فروخت کرنے لگی۔ اس میں وہ خاصی کامیاب رہی ۔
سچ تو یہ ہے کہ پوشیدہ رکاوٹوں سے نمٹنا آسان نہیں ہوتا ۔ لزی کی طرح بہت سے لوگ ایسی رکاوٹوں کی وجہ سے اپنا بزنس شروع کرنے کا سوچنے لگتے ہیں ۔ ان کی تعداد بڑھتی جارہی ہے ۔
ایک جمے رہنے میں عافیت ہے ، آرام ہے ، سکون بھی بہت ہے مگر زندگی خراب ہوجاتی ہے ۔ اپنا مقدر خود بنانے اور پیش قدمی جاری رکھنے کی خاطر ہمیں مختلف امکانات کا جائزہ لیتے رہنا چاہئے ۔ ایک جگہ رک گئے تو زندگی جامد اور بے کیف ہوجائے گی ۔ اسی کو ناکام زندگی کہتے ہیں۔
بدقسمتی
بسااوقات ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں جو ہمیں بے بس کر دیتے ہیں ۔ اچانک کسی صبح آپ کو اطلاع ملتی ہے کہ آپ کے ادارے کی بالائی سطح پر زبردست تبدیلیاں آئی ہیںاور کوئی انجانا شخص آپ کاباس بن گیا ہے ۔وہ شخص اپنی نئی ٹیم لانا چاہتا ہے ۔یوں کسی غلطی کے بغیر ہی آپ کو ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑتے ہیں یا آپ خود کو الگ ہونے پر مجبور کردئیے جاتے ہیں ۔
آپ کیا کریں گے ؟ پہلی بات تو یہ ہے کہ جو کچھ ہوا ہے ، اس کے لیے خود کو مورد الزام مت ٹھہرائیں ۔ دوسرے یہ یاد رکھیں کہ جہاں بظاہر کوئی راہ دکھائی نہ دے وہاں بھی آپ کے لیے بہت سی راہیں ہوا کرتی ہیں ۔
نک اور لزتھامس کی مثال دیکھتے ہیں ۔ نک ائرفورس میں فائٹر پائلٹ تھا ، بعدمیں اس نے فلاڈیلفیا کی ایک انشورنس کمپنی میں ملازمت کرلی ۔ آٹھ سال گزر گئے مگر ابتدا میں نک سے جس ترقی کا وعدہ کیا گیا تھا وہ نہ ملی ۔ تنگ آکر اس نے ملازمت چھوڑ دی اور ایک چھوٹی انشورنس کمپنی میںریجنل منیجر بن گیا ۔ نوسال بعد وہاں سے بھی نک کو جواب مل گیا۔
نک نے سرمایہ کاری میں مشورے دینے والی اپنی کمپنی قائم کرنے کے لیے ہاتھ پاؤں مارے مگر ضروری سرمایہ حاصل نہ ہونیکی وجہ سے کمپنی ناکام ہوگئی ۔ نک کہتا ہے ’’ میری حالت دیدنی تھی ۔ میں سینتالیس برس کا ہوگیا تھا ،بہت سے مالی ضرورتیں تھیں اور کوئی جائے پناہ نہ تھی ۔‘‘
اس دوران مذہب کی طرف لز کا رحجان بڑھ چکا تھا ۔
’’ میں ہرروز چرچ جاتی اور کسی معجزے کے لیے دعائیں مانگتی۔ ایک دن چار الفاظ میرے کانوں میں باربار گونجنے لگے ۔ لگتا تھا کہ گزشتہ برس فوت ہونے والی میری ساس مجھ سے کچھ کہنا چاہ رہی ہے ۔ وہ چار الفاظ یہ تھے’’ رائی کی چٹنی بناؤ۔‘‘ لز کے خاندان کے پاس روس سے حاصل ہونے والا ایک نسخہ تھا جس کے مطابق وہ لوگ رائی کی چٹنی بناتے اور تحفے کے طور پر دوستوں میں تقسیم کیا کرتے تھے۔
لز نے نک کو بتایا کہ اس کی مرحوم ماں ان کو ئی نیا کام شروع کرنے کی تلقین کر رہی ہے ۔ پہلے تونک کو خیال گزرا کہ حالات کی خرابی کے باعث اس کی بیوی کا دماغ چل گیا ہے پھر اس نے سوچا کہ یہ خیال اچھا ہے ۔کیوں نہ اسے آزمایا جائے ۔چنانچہ اس نے لز سے کہا’’ میں تمہاری اور ماں کی بات نہیں ٹال سکتا ۔ چلو چٹنی بنائیں ۔‘‘ اس نے پنیر کی ایک مقامی دکان سے رابطہ کیا ۔ دکاندار نے چٹنی چکھی تو اسے پسند آئی ۔ اس نے نک کو خاصی مقدارکا آرڈر دے دیا۔
یہ نک اورلز کے نئے کاروبار کی ابتدا تھی ۔پہلے وہ مقامی ضروریات پوری کرتے رہے ۔ انشورنس کمپنی میں برسوں تک کام کرنے کی وجہ سے نک اچھا سیلز مین بن چکا تھا ۔ دونوں نے اس سے فائدہ اٹھایا اور نیویارک کے ایک سٹور میں اپنا مال رکھوانے میں کامیاب ہوگئے ۔ دیکھتے ہی دیکھتے پورے امریکا میں ان کی چٹنی کی دھوم مچ گئی ۔ اب وہ کامیاب بزنس مین ہے۔
اس کامیابی کا راز کیا ہے ؟ یہ دعاؤں کا اثر تھا ،کسی پراسرار شے کا مشورہ تھا ، اتفاق تھا یا حالات کا کرشمہ؟ ہم ان سوالوں کا کیا جواب دے سکتے ہیں ۔ یہ بات البتہ یاد رکھیں کہ جب کوئی تدبیر کام نہ آئے تو پھر ہمیں باطن کی آواز پر دھیان دینا چاہئے۔ ہوسکتا ہے کہ ہمارے وجود کی گہرائیوں میں مسئلے کا کوئی حل ، روشنی کی کوئی کرن پرورش پارہی ہو۔
مواقع آتے جاتے رہتے ہیں ۔ہمیں متاثر بھی کرتے ہیں مگر ہم اپنی ناکامیوں کا درست تجزیہ کرسکیں اور یہ یقین رکھیں کہ ہمارے سامنے بہت سی راہیں کھلی رہتی ہیں تو پھر گویا ہم ایک قیمتی سبق پلے باندھ لیتے ہیں ۔
سمارٹ لوگ کیوں ناکام ہوتے ہیں ؟ ان کی ناکامی کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں مگر اصل بات ناکامی نہیں ۔ اس سے تو ہرکوئی دوچار ہوتا ہے ۔ اصل بات ناکامی سے سبق سیکھنا ہے ۔ سمارٹ لوگوں کی خوبی یہ ہے کہ وہ ناکامی کو اعصاب پر سوار نہیں کرتے ۔ اس سے سبق سیکھتے ہیں اور آگے بڑھ جاتے ہیں۔