بہت سے لوگ وقت کی حقیقی قدروقیمت کا احساس کیے بغیر ماہ وسال گزارتے چلے جاتے ہیں۔ وہ نہیں جانتے کہ وقت فطرت کا سب سے قیمتی تحفہ ہے ۔ ہم میں سے کسی کے پاس لا محدود وقت نہیں ۔ ہم اس دنیا میں مختصر وقت گزارتے ہیں اور پھر ہمیشہ کے لیے اندھیروں میں گم ہوجاتے ہیں۔ احتیاط ، شعور اور اچھی عادتوں کے ذریعے ہم اس دنیا میں اپنا وقت بڑھا سکتے ہیں ۔ مگر یہ اضافہ بھی غیر معمولی نہیں ہوتا ۔ البتہ ہم اپنے وقت پر پڑنے والا دباؤ کم کرسکتے ہیں اور اس طرح وقت کی جو بچت ہوگی اس کو زیادہ مفید طریقوں سے بروئے کار لاسکتے ہیں ۔
ہماری فرصتوں پر کس کا قبضہ ہے ؟عام طور پر ہمیں فرصت نصیب ہی نہیں ہوتیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ آمدنی بڑھانے کی اندھی خواہش ہمیں بے چین رکھتی ہے اور ہم کسی نہ کسی وسیلے کی جستجو میں رہتے ہیں ۔ جو تھوڑا بہت وقت بچ جاتا ہے اس کو ہم دوسروں کے ایجنڈے کے رحم وکرم پرچھوڑ دیتے ہیں ۔ ہم نے کسی کی سالگرہ میں جانا ہوتا ہے ۔ کسی این جی او کی میٹنگ میں شرکت ضروری ہوتی ہے ۔ کوئی مباحثہ گروپ ہمارا منتظر ہوتا ہے یا پھر کسی پردیس سے آنے والے عزیز سے ملنا ناگزیر ہوتا ہے ۔ یہ سب دوسروں کے ایجنڈے ہیں جن میں وہ محبت ، فرض یا دوستی کا واسطہ دے کر ہمیں گھسیٹ لیتے ہیں۔ یہ سب کچھ نہ ہو تو پھر ۹ہم آنکھیں بند کرکے وہ کچھ کیے جاتے ہیں ۔جس کی مذہب ، ریاست ، معاشرہ ، خاندان یا دوسرے لوگ ہم سے توقع کرتے ہیں ۔ یوں ہمیں وہ وقت نصیب ہی نہیں ہوتا جس کو حقیقی معنوں میں ہم پنا کہہ سکیں ۔
یہ کوئی اچھی بات نہیں ہے ۔ زندگی کا ہرلمحہ دوسروں کی نذر کردنیا گویا اپنے قیمتی خزانے کو بے دریغ لٹا دینا ہے ۔ یہ محض احمقانہ طرز عمل ہے ۔ اس سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ اپنی زندگی کو قابو میں لیں ۔ اس کا مطلب اپنے وقت کو اپنی گرفت میں لینا ہے ۔ اس کے لیے وقت ضائع کرنے والی پرانی عادتیں ترک کرنی ہوں گی ۔ زندگی کے فن کے ماہرین ایمی بجروک ہریس اور تھامس اے ہریس نے ’’ ریڈرز ڈائجسٹ‘‘ میں شائع ہونے والے اپنے ایک مضمون میں وقت ضائع کرنے والے دس امور کی نشان دہی کی ہے ۔ ان دونوں کی مشترکہ کتاب ’’ آئی ایم اوکے ، یوآر اوکے ‘‘کا شمار دنیا کی سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتابوں میں ہوتا ہے ۔
اشیاء
ہمارے زمانے کے اکثر لوگ خریداری کا بہت شوق رکھتے ہیں ۔ شاید اس کے لیے شوق مناسب لفظ نہیں ۔ ہمیں یوں کہنا چاہیے کہ وہ نت نئی چیزیں خریدنے کا جنون رکھتے ہیں ۔ عام لوگوں کی یہ عادت ترقی یافتہ ممالک تک محدود نہیں بلکہ ہمارے جیسے غریب ملک میں بھی عام لوگ خریداری کے جنون میں مبتلا رہتے ہیں۔ خاص طورپر درمیانے طبقے کے لوگ تو خواب میں بھی خود کو بازار کا چکر لگاتے اور تھیلے بھربھر خریداری کرتے ہوئے دیکھتے ہیں ۔
ضروری اشیاء کی خریداری پر تو کوئی انگلی نہیں اٹھا سکتا ۔ مگر ہم جس جنون کا ذکر کررہے ہیں ، وہ اورقسم کا ہے ۔ اس سے مراد یہ ہے کہ لوگ خریداری اس لیے نہیں کرتے کہ انہوں نے اشیائے ضرورت خریدنی ہیں ۔ بلکہ وہ خریداری برائے خریداری کے عذاب میں مبتلا ہوتے ہیں۔ وہ ایسی چیزیں خریدتے رہتے ہیں جن کی ان کو کوئی حقیقی ضرورت نہیں ہوتی ۔ دوسروں پر ملکیت کا رعب جمانے یا محض اپنے ذخیرے میں اضافہ کرنے کے لیے وہ چیزوں کے ڈھیر لگاتے رہتے ہیں ۔ بازار سے گزرتے ہوئے ان کی رال ٹپکتی رہتی ہے اور وہ ہرچیز کے مالک بننے کی آرزو کرتے ہیں۔
اس عام جنون کے ماحول میں ایک لمحہ رک کر ہمیں اپنے آپ سے پوچھ لینا چاہیے کہ ’’ کس قدر چیزیں ہمارے لیے کافی ہیں ؟‘‘ جب ہم چیزیں حاصل کرتے ہیں تو ہمیں ان پر توجہ دینی پڑتی ہے ۔ ان کو صاف کرنا پڑتا ہے ۔ ان کی حفاظت کرنی پڑتی ہے اورا ن کی مرمت وغیرہ کا انتظام بھی کرنا پڑتا ہے ۔ گویا جب ہم کوئی شے حاصل کرتے ہیں تو اس کے بدلے صرف رقم ادا نہیں کرتے ۔ اس کے لیے ہمیں وقت بھی دینا پڑتا ہے ۔
’’ناں ‘‘ کر دیجئے
کئی کئی دن ہم ایسے کاموں میں ضائع کردیتے ہیں جن کو دراصل شروع ہی نہیں کرنا چاہیے تھا ۔بعض اوقات ہمیں اچھی طرح معلوم ہوتا ہے کہ پہلے ہی کئی اہم کام رکے ہوئے ہیں اور ہمارے پاس فالتو وقت بالکل نہیں ہے ، پھر بھی کوئی ہم کو نئی ذمہ داری سونپتا ہے یا کوئی دعوت دے ڈالتا ہے تو ہم قبول کرلیتے ہیں ۔ بعد میں ہم کو کبھی پریشان ہونا پڑتا ہے اور کبھی پشیمان ۔
اس نقصان دہ عادت کو ختم کرنے کا مفید طریقہ موجود ہے ۔ وہ یہ ہے کہ ہم تہیہ کرلیں کہ آئندہ کوئی دعوت موقع پر قبول نہیں کریں گے ۔ دعوت دینے والے کو مناسب انداز میں بتادینا چاہیے کہ اگرچہ اس کی دعوت سے ہماری عزت افزائی ہوئی ہے اور اس کی تقریب میں شرکت کرکے دلی مسرت حاصل ہوگی مگر اپنا پہلے سے طے شدہ پروگرام دیکھ کر ہی ہم شرکت کا فیصلہ کرسکیں گے اور اس کو موبائل فون پر اطلاع دے دیں گے ۔
ادھورے فیصلے
غیر حل شدہ مسائل ہمیں پریشان کرتے رہتے ہیں ۔ وہ ذہن پر طاری رہتے ہیں ۔ ان کی وجہ سے توانائی اور کارکردگی متاثر ہوتی ہے ۔ کام کا معیار گرجاتا ہے اور بہت ساوقت بھی ضائع ہوتا ہے ۔ سوال یہ نہیں کہ آیا آپ مسائل میں الجھے ہوئے ہیں یا نہیں ۔ بلکہ سوال یہ ہے کہ آیا آپ انہی مسئلوں میں الجھے ہوئے ہیں جن کے ہاتھوں گزشتہ ماہ یا گزشتہ برس بھی آپ پریشان تھے ؟ اگر ایسا ہے تو یہ بات واقعی افسوسناک ہے ۔ اس کا مطلب یہہے کہ آپ کے کئی قیمتی گھنٹے ان کی نذر ہوچکے ہیں ۔ گویا بہت سا وقت ضائع ہوگیا ہے جو کسی مفید کام میں صرف ہوسکتا تھا۔ اس روش کو قائم رکھنے کے بجائے کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ آپ گومگو کی عادت چھوڑ دیں اور مسائل کو خوامخواہ لٹکانے کے بجائے انہیں مناسب مدت میں حل کرنے کی عادت اپنائیں ؟
جہاں تک ممکن ، اپنے چوائس کی حدود کو نہیں پھیلانا چاہیے ۔ مثلا کیا آپ کے پاس ایسے کپڑے ہیں جوسالہا سال سے آپ نے نہیں پہنے ، مگر وہ سنبھال کر رکھے ہوئے ہیں ؟ کیا ان کو سنبھال کر رکھان ضروری ہے ۔ اس کا مطلب تو یہ ہواکہ وہ آپ کے کپڑے نہیں ہیں ، بلکہ آپ ان کے ہیں۔ وہ آپ پر حکومت کررہے ہیں ۔ آپ کے آقا بنے ہوئے ہیں ۔ اسی طرح گھروں میں ایسی کتابیں پڑی رہتی ہیں جن کو کوئی نہیں پڑھتا یا جن کے ایک بار پڑھنے کے بعد ان کی ضرورت ختم ہوجاتی ہے ۔ آپ ایسی کتابیں ، کپڑے ، جوتے اور دوسری چیزیں نکال کر ان لوگوں کو کیوں نہیں دے دیتے جن کو ان کی ضرورت ہوسکتی ہے ۔ اس طرح آپ ہلکا پھلکا محسوس کریں گے اور غیر ضروری چیزوں کی حفاظت ، دیکھ بھال اور مرمت و صفائی پر صرف ہونے والا وقت بھی بچالیں گے ۔
میں آپ کواپنی ایک عادت کے بارے میں بتاتا ہوں ۔ میں نے کتابوں کو تین قسموں میں تقسیم کررکھا ہے ۔ پہلی قسم میں وہ کتابیں شامل ہیں جن کا تعلق میرے پسندیدہ شعبوں یعنی فلسفہ اور کلاسیکی ادب سے ہے ۔ یہ کتابیں میں اپنے پاس رکھتا ہوں ۔ دوسری قسم کی کتابیں وہ ہیں جن کو ایک بار پڑھنا اچھا لگتا ہے ۔ یہ کتابیں میں پڑھتا ہوں اور پھر اپنی لائبریری کی زینت بنانے کے بجائے دوستوں کو دے دیتا ہوں ۔ تیسری قسم کی کتابیں وہ ہیں کہ جن کو سرسری دیکھنے کو بھی جی نہیں چاہتا ۔ وجہ یہ نہیں کہ وہ کوئی فضول قسم کی کتابیں ہوتی ہیں ۔ بلکہ وجہ یہ ہوتی ہے کہ ان کا تعلق میرے پسندیدہ موضوعات سے نہیں ہوتا۔ لہذا ایسی کتابیں کہیں سے مل جائیں تو فورا ہی کسی لائبریری کو عطیہ کردیتا ہوں یا دوستوں میں بانٹ دیتا ہوں۔ اس طرزعمل کا فائدہ یہ ہے کہ میری لائبریری میں صرف وہی کتابیں ہیں جو میرے کام کی ہیں اور دوسرا فائدہ یہ ہے کہ کتابوں کے ڈھیر اکھٹے کرنے ، انہیں سیٹ کرنے ، ان کی دیکھ بھال اور صفائی پر خرچ ہونے والا وقت بچ جاتا ہے ۔
دخل اندازی
خوش خلقی بسااوقات ہمارا بہت ساوقت برباد کردیتی ہے ۔ آپ کے دوچار ایسے دوست ضرور ہوں گے جو بولنا شروع کرتے ہیں تو بولتے چلے جاتے ہیں ۔ وہ ایک پل کے لیے یہ دیکھنے کے لیے بھی نہیں رکتیکہ آپ ان کی باتیں سن رہے یں یا نہیں ۔ ان کا کام صرف بولنا ہوتا ہے اور وہ بولتے چلے جاتے ہیں ۔ آپ ٹوک کران کو جتلانے کی خواہش کرتے ہیں کہ آپ کو کئی ضروری کام کرنے ہیں ، مگر ہمت نہیں پڑتی ۔ خوش خلقی آڑے ہوتی ہے ۔نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان صاحب یا صاحبہ کے بولنے کا عمل جاری رہتا ہے اور آپ دل میں کڑھتے رہتے ہیں ۔
خیر ، خوش خلقی اچھی بات ہے ، مگر اکثر اچھی باتوں کی طرح وہ بھی حد سے بڑھ جائے تو اس کی اچھائی کم ہوجاتی ہے ۔ آپ بدتمیزی یا غیر شائستگی کا مظاہرہ کیے بغیر بھی ایسے مہربانوں کو ٹوک سکتے ہیں ۔ بس ان سے یہ کہہ دیجئے ، معاف کیجئے ، میں جانا چاہتا ہوں ۔ یہ طرز عمل بے صبری سے ان کو سننے ، دل ہی دل میں کڑھنے اور وقت ضائع کرنے سے یقینا بہتر ہے ۔
ٹیلی ویژن
یہ چھوٹا سا بکس گھر بیٹھے ساری دنیا سے ہمارا رشتہ جوڑتا ہے ۔ گھر بیٹھے تفریح مہیا کرتا ہے ۔ موسیقی ، ڈرامے اور فلموں سے لطف اندوز ہونے کا موقع دیتا ہے ۔ دنیا بھر کی خبریں پہنچاتا ہے ۔ معلوماتی پروگرام پیش کرتا ہے ۔ یوں لگتا ہے کہ اس کی ایجاد سے پہلے زندگی کس قدر بے رنگ ہوگی !
یہاں تک تو ٹھیک ہے مگر اس کا دوسرا رخ یہ ہے کہ ٹیلی ویژن ہمارا بہت سا وقت لے لیتا ہے ۔ وہ ہمیں قابو میں کرلیتا ہے اور ہم اس کے غلام بن کر رہ جاتے ہیں ۔ پاکستان کے شہروں میں اوسطاً پانچ گھنٹے روزانہ گھروں میں ٹی وی دیکھا جاتا ہے ۔ یہی کیفیت ترقی یافتہ ممالک کی ہے جہاں لوگ وقت کا نسبتاً زیادہ شعور رکھتے ہیں اور جہاں تفریح کے اور کئی وسیلے بھی عام لوگوں کو میسر ہوتے ہیں ۔ چنانچہ ایک حالیہ سروے کے مطابق امریکی گھروں میں روزانہ ٹی وی سیٹ سات گھنٹے آن رہتا ہے ۔
اس سے آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ دنیا بھر میں ٹی وی انسانوں کا کس قدر وقت روزانہ جذب کرلیتا ہے ۔ ہم چاہیں تو اس وقت کا بڑا حصہ بچاسکتے ہیں ۔ اس کا طریقہ بالکل سیدھا سادا ہے ۔ بلاچوں چرا ٹی وی سکرین پر نظریں جمائے رکھنے کے بجائے اپنے پسندیدہ پروگراموں کی فہرست بنائیں ۔ ان کے اوقات اور چینلز بھی درج کریں اور ان کے مطابق ٹی وی دیکھیں ۔ آ] کا بہت سا قیمتی وقت یقینی طور پر بچ جائے گا۔ یہی نہیں بلکہ آپ اپنے پسندیدہ پروگراموں سے زیادہ لطف اندوز ہوسکیں گے ۔
ٹی وی کے ساتھ کمپیوٹر ( لیپ ٹاپ اور اسمارٹ فونز بھی ) پر خرچ ہونے والا وقت بھی ذہن میں رکھیں ، یہ نہ ہو کہ ٹی وی سے اٹھ گئے تو کمپیوٹر کھول لیااور بلاتکان ویب سائٹس یا سماجی رابطے کی سائٹس پر گھنٹوں ضائع کردیے ۔
منصوبہ بندی کا فقدان
منصوبہ بندی کا ذکر ہم چھٹے نمبر پر کررہے ہیں ۔ ہرگزاس سے یہ مراد نہیں کہ اس کی اہمیت کم ہے ۔ حقیقت اس کے برعکس ہے ۔ وقت اور توانائی بچانے اور محنت سے اچھے نتائج حاصل کرنے کے لیے زندگی میں سب سے زیادہ اہمیت منصوبہ بندی کی ہے ۔ اس سے نظم وضبط پیدا ہوتا ہے اور زندگی کا انتشار ختم ہوتا ہے ۔ اس کے بغیر کوئی بڑا کام نہیں ہوسکتا ۔ قائداعظم کو دیکھئے انہوں نے ڈسپلن کو زندگی کے تین بنیادی اصولوں ( یقین محکم ، اتحاد اور ڈسپلن ) میں شامل کیا تھا اور اپنی قوم کو اس پر کاربند رہنے کی تلقین کی تھی ۔ خود ان کی زندگی ڈسپلن کا شاہکار تھی ۔ وہ اس کی خلاف ورزی کبھی برداشت نہیں کرتے تھے ۔ سچی بات تو یہ ہے کہ کراچی کے اوسط درجے کے تاجر کے بیٹے محمد علی جناح کو جس بات نے قائد اعظم بنایا ، وہ ان کی منصوبہ بندی تھی ، ہرکام طے شدہ منصوبے کے مطابق کرنے کی ان کی عادت تھی ۔
آپ بھی منصوبہ بندی کی عادت اپنالیں ۔ یہ عادت صرف بڑے بڑے کاموں کے لیے مفید نہیں ہوتی ، بلکہ زندگی کے چھوٹے بڑے تمام امور میں مددگار ہوتی ہے ۔ موثر منصوبہ بندی کی روش اختیار کرکے ہم اپنا بہت سا وقت بچاسکتے ہیں اوراپنی کوششوں کے بہتر نتائج حاصل کرسکتے ہیں ۔
سلیقہ
ہمارے عام گھروں میں روز ہونے والا یہ تماشا آپ نے دیکھا ہوگا۔
ٹیلی فون پر وحید کا دوست اس کو اپنا نیا نمبر لکھوانا چاہ رہا ہے ۔ وحید کاغذاور قلم مانگتا ہے ۔ گھر کے سب لوگ کاغذ قلم کی تلاش شروع کردیتے ہیں ۔ کوئی الماریاں دیکھ رہا ہے ۔ کوئی صوفے کے نیچے جھانک رہا ہے۔ کوئی بچوں کے بستے ٹٹول رہا ہے ۔ اس افراتفری میں پندرہ منٹ گزر جاتے ہیں ۔ مایوس ہوکر وحید فون بند کردیتا ہے ۔ پھر گھر میں جھگڑا شروع ہوجاتاہے ۔
یہ تماشا میں نے خود دیکھا تھا ۔ میں وحید سے کہا کہ وہ کاغذ اور قلم کسی ایک جگہ پر کیوں نہیں رکھتا ؟ کئی بار رکھتا ہوں۔ خداجانے کہاں غائب ہوجاتے ہیں۔ اس نے روہانسی آواز میں جواب دیا ۔
چیزوں کو سلیقے سے نہ رکھا جائے تو گھر میں افراتفری مچ جاتی ہے ۔ گھر گھر نہیں رہتا کباڑ خانہ بن جاتا ہے ۔ ضرورت کی ہرشے تلاش کرنی پڑتی ہے اور کبھی کبھی تو بہت سی تلاش کے باوجود ہاتھ نہیں لگتی ۔ یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ تلاش کرنے کا عمل کس قدر تکلیف دہ ہوتا ہے ۔ اس میں وقت بھی صرف ہوتا ہے ، بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ وقت ضائع ہوتا ہے ۔ آپ دس کمرے کے گھر میں رہتے ہوں یا ایک کمرے کے فلیٹ میں ۔ گمشدہ چیزوں کی تلاش میں وقت کا زیاں کم نہیں ہوتا ۔ اس سے بچنے کے لیے سنہری اصول موجود ہے ۔ وہ ذہن نشین کرلیں ۔ ہرچیز کی جگہ طے کرلیں اور اس کو وہیں رکھیے ۔ یوں آپ بہت سی غیر ضروری پریشانیوں سے محفوظ رہیں گے اور وقت بھی ضائع نہیں ہوگا۔ یاد رکھیں کہ چیزوں کو مناسب جگہ رکھنے اور گھر کو منظم کرنے کا سلیقہ مہذب زندگی کے بنیادی تقاضوں میں شامل ہے ۔
دیکھ بھال
بعض اشتہار بھی کیا کمال کے ہوتے ہیں ۔ وہ ہمارے ذہن پر نقش ہوجاتے ہیں اور بھولتے نہیں ہیں ۔ ان میں کوئی نہ کوئی ایسی سچائی موجود ہوتی ہے جو عام سی بات ہونے کے باوجود ذہن نشین ہوجاتی ہے ۔ جب کوئی شوخ اشتہار ہمیں اس کی طرف متوجہ کرتا ہے تو اس کی اہمیت آشکارہ ہوتی ہے۔
ایسا ہی ایک اشتہارمیں نے چند سال پہلے غیر ملکی ٹی وی چینل پر دیکھا ۔ یہ گاڑیوں کے آئل فلٹر کا اشتہار تھا ۔ ایک حسینہ نئے ماڈل کی گاڑی کے پاس کھڑی ہوکر کہتی ہے ۔ ’’ آئل فلٹر تبدیل کرلیں تاکہ ۔۔۔ آپ کو انجن نہ تبدیل کرانا پڑے ۔ ‘‘
فلٹر اور انجن کے حوالے سے اس اشتہار میں ایک گہری سچائی پوشیدہ ہے ۔ وہ یہ ہے کہ ہم وقت پر چھوٹی موٹی چیزوں کی دیکھ بھال کرتے رہیں ، ان پر دھیان دیتے رہیں تو بڑی بڑی مشکلوں سے محفوظ رہ سکتے ہیں ۔ اس دیکھ بھال پر پیسے اور وقت دونوں صرف ہوتے ہیں ۔ مگر دیکھ بھال نہ کرنے کی صورت میں اس سے بہت زیادہ پیسے اور وقت دینا پڑتا ہے ۔ لہذا بہتر یہ ہے کہ بات کا بتنگڑ بننے سے پہلے اس پر توجہ دی جائے ۔ اشتہار کے الفاظ ہی دیکھ لیں ۔ گاڑی کا آئل فلٹر تبدیل کرنے میں تھوڑے سے پیسے اور تھوڑا ساوقت صرف ہوتا ہے مگر گاڑی کی یہ ضرورت نظرانداز کردی جاتی رہے تو پھر انجن ختم ہوجاتا ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ گاڑی کودوبارہ چالو حالت میں لانے کے لیے آپ کو ہزاروں روپے اور اس کے ساتھ کئی دن قربان کرنا پڑیں گے ۔
انتظار
انتظار کی کیفیت ہمارے شاعروں کا پسندیدہ موضوع ہے ۔ بہادر شاہ ظفر تو کہتے ہیں ’’ عمر دراز مانگ کے لائے تھے چاردن ، دو آرزو میں کٹ گئے ، دو انتظار میں ۔‘‘ گویا مانگی ہوئی آدھی زندگی انتظار میں بیت گئی ۔ کیا یہ شاعرانہ مبالغہ ہے ؟ ممکن ہے ۔ مگر اس بات میں کوئی مبالغہ نہیں کہ زندگی میں ہمارا بہت ساوقت انتظار میں گزرجاتاہے ۔
جووقت انتظار میں گزرتا ہے ، بیکار ہی گزرتا ہے ۔ کم ازکم ہمارے ہاں چلن یہی ہے مگر دنیا کے بیشتر ممالک میں لوگ انتظار کے وقت کو مفید کاموں میں صرف کرتے ہیں۔ اول تو انہیں ہمارے شاعروں کی طرح محبوباؤں کا انتظارہی نہیں کرنا پڑتا ۔ ان کی محبوباؤں نے وقت کی اہمیت جان لی ہے ۔ وہ وقت کی قدر کرتی ہیں ۔ وقت پر آتی ہیں ۔ پھر جو دوسری قسم کے انتظار ہیں ۔ ریلوے اسٹیشن یا ہوائی اڈے پر ٹرین اور طیارے کے آنے کا ۔ تو وہ انتظار کی یہ گھڑیاں کسی کتاب ، رسالے ، اخبار کے مطالعے میں گزارتے ہیں یا موبائل فون پر کام شروع کردیتے ہیں ۔ منہ اٹھائے ، آنکھیں نکال نکال کر دوسروں کو دیکھتے نہیں رہتے ۔
آپ کے لیے بھی انتظارکے لمحات زندگی کی بے پناہ مصروفیات سے چرائے ہوئے قیمتی لمحے بن سکتے ہیں ۔ آپ ان سے لطف اندوز ہوسکتے ہیں اور ان کو مفید طور پراستعمال بھی کرسکتے ہیں ۔
مظہر علی خان مرحوم لاہور کی ایک نہایت ممتاز صحافتی اور سماجی شخصیت تھے ۔ وہ صاف سوچنے اور سچ لکھنے والے دانش ور تھے ۔ ایک عرصتے تک ان کا تعلق ’’ پاکستان ٹائمز ‘‘ سے رہا ۔ بعد میں انہوں نے ’’ ویو پوائنٹ ‘‘ کے نام سے ہفت روزہ بھی نکالا ۔ برس ہابرس تک میں صبح پنجاب یونیورسٹی کے اولڈ کیمپس سے نیو کیمپس جاتے ہوئے ’’ویوپوائنٹ ‘‘ بیگ سے نکالتا اور پڑھنا شروع کردیتا۔ یہ آدھے پونے گھنٹے کا سفر ہوتا تھا اور میرا یہ سفر خوشگوار کٹ جاتا ۔
آپ بھی یہ وطیرہ اپنا سکتے ہیں ۔ ہاں مجھے یاد آیا۔ میرے ایک دوست خالد مسعود کو کارٹون بنانے کا جنون چند روز تک رہا تھا۔ وہ یونیورسٹی بس میں سفر کرتے ہوئے نوٹ بک پر کارٹون بنایا کرتا تھا۔ اس نے اس زمانے کی لگ بھگ آدھی طالبات اور آدھے اساتذہ کے کارٹون بنا ڈالے تھے ۔
اندیشے
ہماری زندگیوں کا قابل ذکر حصہ مستقبل کے ایسے اندیشوں میں بیت جاتا ہے ۔ وہ ہمیں اس طرح سے گھیر لیتے ہیں کہ ہم حال سے بے نیا زہوجاتے ہیں ۔ ہم بھول جاتے ہیں کہ جو لمحہ گزررہا ہے ، وہ اصل میں ہمارا ہے ۔ وہ گزر گیاتو کبھی لوٹ کر نہ آئے گا۔پھر ہم اس لمحے کو ، جو ہمارا ہے اور لوٹ کر نہ آنے والا ہے ، ضائع کیوں کریں ؟ کیوں اس کو اگلے ہفتے ، اگلے مہنے یا اگلے برس کی کسی تشویش کی بھینٹ چڑھائیں ؟
شاید ہم بھرپور طور پر اس وقت زندہ ہوتے ہیں جب ہم لمحہ موجود کو تھامتے ہیں ۔ اس وقت ہم بیتے ہوئے دنوں کے پچھتاؤوں اور آنے والے دنوں کے وسوسوں سے آزاد ہوتے ہیں ۔ ان کا ناگوار بوجھ ہمارے کندھوں پر نہیں ہوتا۔ جب ایسے لمحے آئیں تو یہ ضرور کہیں ۔ ’’ اے آج کے دن میں تمہارا شکرگزار ہوں ۔ ‘‘ پھر لمحہ موجود سے بھرپور فائدہ اٹھائیں۔
ہماری تلقین یہی ہے کہ اپنے وقت کی قدر کریں اور اس کے استعمال کی منصوبہ بندی کریں ۔ تب آپ اپنے لیے ، معاشرے کے لیے اور پوری انسانیت کے لیے مفید کام کرسکیں گے ۔ اپنے آپ کو چاہنے لگیں اور دوسرے بھی آپ پر ناز کریں گے۔