چند سال پہلے کی بات ہے ۔ ایک اخباری رپورٹر خبروں کی تلاش میں نیویارک شہر کے ریلوے اسٹیشن کے گمشدہ اشیا کے مرکز میں پہنچا ۔ وہاں اس کو ایک ہزار چابیاں ، تین سو چھتریاں ، چارسو چھڑیاں ، پانچ سو عینکیں اور مصنوعی دانتوں کے آٹھ چوکے دکھائی دئیے ۔ ان کے علاوہ بے شمار دوسری چیزیں اس مرکز میں محفوظ تھیں ۔مثلا کئی درجن جوتے ، کتابیں ، اوورکوٹ ، ایک مصنوعی ٹانگ ، شادی کا ایک گاؤن اور یہاں تک کہ ایک ایش ٹرے بھی وہاں موجود تھا ۔
چند سال پہلے تک ہمارے ریلوے اسٹیشنوں پر بھی اس قسم کے مرکز ہوا کرتے تھے ، جن میں مسافروں کی بھولی ہوئی اشیا رکھی جاتی تھیں ۔ تاکہ جب ان کو یاد آئے تو وہ وہاں آکر لے جائیں ۔ بڑے اسٹیشنوں پر یہ مراکز تو خیر اب بھی ہیں مگر اب جس کو کوئی شے ملتی ہے وہ اس کو ان مراکز میں جمع کرانے کے بجائے خود استعمال کرنا زیادہ مناسب خیال کرتا ہے ۔ اس لیے گمشدہ اشیا کے یہ مراکز عموما خالی ہی رہتے ہیں ۔
بہرحال چیزیں بھولنا لوگوں کی عام سی عادت ہے ۔ ہم سب وقتا فوقتا اپنی چیزیں بھول جاتے ہیں ۔اگر وہ قیمتی یا ضروری ہوں تو پریشان بھی ہوتے ہیں ۔
ہرام سٹونز میکسم کا نام پہلی مشین گن کے موجد کے طور پر مشہور ہے ۔ میکسم کی ایک اور خوبی کا ذکر اس کے صاحب زادے ہرام پرسی میکسم نے اپنی کتاب ’’ اے جینئس ان دی فیملی ‘‘ میں کیا ہے ۔ چھوٹا میکسم لکھتا ہے کہ اس کا باپ چیزیں بھولنے کا عادی تھا ۔ یہ عادت عمر بھر اس کے ساتھ رہی ۔ اس نے کئی چھتریاں ، بنڈل ، کتابیں اور خاکے وغیرہ گم کیے ۔ یہاں تک کہ وہ اپنی اس عادت سے عاجز آگیا ۔ چنانچہ بڑے میکسم نے ایک نیا کام کیا ۔ اس نے سٹکرز چھپوائے جن پر لکھا تھا’’ یہ چیز احمق ہرام سٹونز میکسم سے گم ہوئی ہے ،جو تین سو پچیس یونین سٹریٹ ، بروک لین میں رہتا ہے ۔ یہ شے واپس کرنے والے کو مناسب انعام دیا جائے گا‘‘۔
بیٹے کا کہنا ہے کہ بڑے میکسم نے یہ سٹکر اپنی ہر شے پر چسپاں کردئیے ۔ یہاں تک کے گھر کی کوئی شے بھی اس سٹکر سے نہ بچی ۔ آخرکار تنگ آکر اس کی بیوی نے اس کے مزید استعمال پر پابندی لگا دی ۔
خوش قسمتی سے ہم اس عادت سے چھٹکارا پاسکتے ہیں ۔ ایک امریکی مصنف سموئیل اے سچرنر نے اس سلسلے میں پانچ اصول وضع کیے ہیں ۔ یہ اصول آپ کی بھی مدد کرسکتے ہیں ۔
جگہ کا تعین کریں
پہلی بات تو یہ ہے کہ ہم چیزوں کو ان کی مناسب جگہ پر رکھنے کا اصول اپنا لیں تو چیزیں بھولنے سے پیدا ہونے والی آدھی پریشانی فورا ہی ختم ہوسکتی ہے ۔ خود سے پوچھیں کہ میں اس چیز کو کہاں استعمال کرتا ہوں ،پھر جہاں کسی چیز کو استعمال کیا جاتا ہو اس کے رکھنے کی جگہ بھی وہیں ہونی چاہئے ۔ یوں اس کے گم ہونے کا امکان بہت کم رہ جائے گا۔اس کی بہترین مثال وہ لوگ ہیں جو عینکوں کو اپنے گلے کی زنجیر سے باندھے رکھتے ہیں ۔
ظاہر ہے کہ برتنوں کی جگہ باورچی خانہ ہے اور تولئے غسل خانے میں ہونے چاہئیں لیکن جوتوں کا برش کہاں رکھا جائے ؟ اس کا سیدھا سا جواب یہ ہے کہ بیڈروم میں جوتوں کی الماری یا کونے میں برش بھی رکھا جائے ۔لیکن کیا برش وہاں استعمال بھی ہوتا ہے ؟
اگر آپ وہیں برش استعمال کرتے ہیں پھر تو ٹھیک ہے وگرنہ اس کے لیے مناسب جگہ آپ کی پسندیدہ کرسی کا قریبی دراز ہوسکتا ہے ۔ الیگزینڈرا سٹوڈاڈ نے اپنی کتاب ’’ جینے کے سٹائل ‘‘ میں یہی تجویز پیش کی ہے ۔ اس سلیقہ مند خاتون کا کہنا ہے کہ جوتوں کو اس وقت برش کرنا چاہئے جب آپ آرام سے بیٹھے ہوں ۔
گھر میں بہت سی چھوٹی موٹی چیزیں ہوتی ہیں ۔ ان کی ضرورت کبھی کبھی پیش آتی ہے ۔ ان کا کیا کیا جائے ؟ ان چیزوں میں دستانے ، پین ، رسالے اور اوزار وغیرہ شامل ہیں ۔
کارکردگی بہتر بنانے کے امور کی ماہر سنی شنلگر نے ان کے لیے ایک ترکیب بیان کی ہے ۔ وہ کہتی ہیں کہ گھر کے تمام کمروں میں ایک چھوٹا سا بکس رکھنا چاہئے اور یہ سب چیزیں اس میںڈال دینی چاہئے ۔
ممکن ہے کہ جب ان میں سے کسی ایک چیز کی تلاش ہو تو آپ کو ایک سے زیادہ بکسوں میں جھانکنا پڑے ۔ لیکن چیزوں کو بے ترتیب پھینک کر ان کو تلاش کرنے کے مقابلے میں یہ کام ہرگز زیادہ مشکل نہیں ۔ اس سے آپ کے ذہن میں یہ بات رہتی ہے کہ مطلوبہ شے کہاں ہوسکتی ہے ۔
عادت ڈالیں
’’ زندگی کو منظم کیسے کیا جائے ؟‘‘یہ ایک مفید کتاب کا عنوان ہے ۔ جوسٹیفن ونسٹن نے لکھی ہے ۔ وہ اپنی موٹر کی چابیاں دروازے کے قریب ایک میز پر رکھے ہوئے پیالے میں رکھتی ہیں ۔ اور کہتی ہیں ’’ یہ پیالہ چابیوں کا گھر ہے ۔‘‘ ایک روز وہ گھر میں داخل ہورہی تھی کہ فون کی گھنٹی سنائی دی ۔ وہ بھاگ کر فون کے پاس پہنچیں ۔ یہ ایک لمبی کال تھی ۔ بعد میں ونسٹن صاحبہ نے دوبارہ باہر جانے کے لیے پیالے میں ہاتھ ڈالا تو چابیاں غائب تھیں ۔ مسلسل ایک گھنٹے کی پریشان کن تلاش کے بعد چابیاں فون کے قریب رکھی ہوئی ملیں ۔
اس واقعے کی توجیہہ بیان کرتے ہوئے ونسٹن اعتراف کرتی ہیں کہ پیالے میں چابیاں رکھنے کی عادت پختہ نہ ہوئی تھی۔ اگر عادت پختہ ہوتی تو ان کا ایک گھنٹہ ضائع نہ ہوتا اور نہ ہی پریشان ہونا پڑتا ۔
خیر ، عادت پر آنکھیں بند کرکے بھروسہ نہیں کرنا چاہئے ۔ جونز ہاپکنز یونیورسٹی کے نفسیات کے استاد نیل کوہن کا مشورہ یہی ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ اگرآپ عینک کو زنجیر سے باندھے رکھتے ہیں یا گھڑی کلائی پر باندھتے ہیں اور اس کے عادی ہوچکے ہیں تو ہوسکتا ہے کہ چیز گم ہوجائے اور آپ اس فریب میں رہیں کہ وہ اپنی جگہ پر موجود ہیں ۔ زیادہ تر اس سبب سے جیب کترے نشانہ بننے والے شخص کو خبر ہونے سے پہلے ہی بھاگ جاتے ہیں ۔ لہذا پروفیسر کوہن کی بات مانیں ۔ ان کے نزدیک آپ کو ایک اور عادت بھی بنانی چاہئے اور وہ تصدیق کرنے کی عادت ہو ۔ یعنی یہ دیکھ لینا چاہئے کہ آیا چیزیں اپنی جگہ پر موجود ہیں ۔ کوہن بتاتے ہیں کہ ان کے والد گھر سے نکلتے وقت اپنی جیبیں ٹٹول لیا کرتے تھے ۔
تعلق بنائیں
عموما آپ کی موٹر سائیکل یا گاڑی گیراج یا پارکنگ کی جگہ پر کھڑے رہتے ہیں لیکن جب کسی مصروف مارکیٹ کے کسی کونے میں موٹر کھڑی کرنی ہو تو موٹروں کے سمندر میں اس کے گم ہوجانے کا امکان رہتا ہے ۔
لاہور کے قذافی سٹیڈیم کے پارکنگ میدان میں پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والے ایک میچ میں مجھے اپنی گاڑی تلاش کرنے میں ایک گھنٹہ لگا تھا ۔ اس مصیبت کا مقابلہ کیسے کیا جائے ؟
ماہرین نے اس کا حل یہ بتایا ہے کہ اپنی چیز کے اردگرد کی چیزوں سے رشتہ جوڑ لیں ۔ چنانچہ گاڑی چھوڑنے سے پہلے گردوپیش کی کسی جامد شے کے ساتھ اس کا تعلق بنائیں ۔ مثلا قذافی سٹیڈیم میں اگر میں یہ یاد رکھتا کہ میں نے گاڑی تصویروں کی گیلری کے دائیں جانب دوسرے لیمپ پوسٹ کے ساتھ پارک کی ہے تو پھر ڈھونڈنے میں کوئی دقت نہ ہوتی ۔
ذہنی رشتے بھی بنائے جاسکتے ہیں ۔ مثلا اگر آپ عینک ٹی وی سیٹ کے پاس رکھ رہے ہیں تو ذہن میں یوں تصویر بنائیں کہ جیسے عینک کے شیشے میں ٹی وی کی جھلک نظر آرہی ہے ۔ایسا کرنے سے کئی گھنٹوں بعد بھی آپ کو یاد رہے گا کہ عینک کہاں رکھی گئی ہے ۔
غور کریں
اگر آپ اپنے افعال کا ذہنی جائزہ لیتے ہوئے قدم بہ قدم پیچھے کی طرف جائیں تو آپ گمشدہ شے تک پہنچ سکتے ہیں ۔
انتظار حسین کا ناول ’’ آگے سمندر ہے ‘‘ شائع ہوا تو میں بڑے اشتیاق سے خرید کر لایا ۔ شام کو جب پڑھنے کے لیے ناول ڈھونڈنے لگا تو اس کا کہیں نام ونشان نہ تھا ۔ کتابوں کی کئی الماریاں ، میزاور دراز چھان مارے ،مگر وہ کہیں نہ ملا ۔ تب میں آرام سے لیٹ کر سوچنے لگا کہ گھر واپسی پر میں نے کیا کچھ کیا تھا ۔ تب ذہنی طور پر قدم بہ قدم پیچھے جاتے ہوئے مجھے یاد آگیا کہ ناول میں نے کپڑون کی الماری میں رکھ دیا تھا۔
آپ بھی اس ترکیب سے کام لے سکتے ہیں۔ یہ کام نہ آئے تو ماہرین نفسیات کی تجویز کردہ ایک اور ترکیب آزمائیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ رات کو سونے سے پہلے اپنے ذہن میں دہرائیے کہ آپ کیا شے ڈھونڈتے رہے ہیں ۔ اس کا تصور ذہن میں لائیں اور خود سے اصرار کریں کہ صبح تک یہ شے مل جانی چاہئے ۔ اس طرح آپ کا لاشعوری ذہن زیادہ فعال ہوجائے گا اور مطلوبہ شے تک پہنچ جائے گا۔
نقل تیار کریں
بلاشبہ کئی چیزیں گم ہوجاتی ہیں اور ہزار جتن کرنے پر بھی نہیں ملتیں ۔لہذا ممکن ہو تو اہم چیزوں کی نقل بنوا رکھیں ۔
قیمتی دستاویزات کی نقل خاص طورپر رکھنی چاہئے ۔ لیکن اصل دستاویزات کو پوشیدہ رکھنے کی خاطر کسی ایسی پراسرار جگہ مت رکھیں ۔جہاں سے وہ آپ کو بھی ، بھول جانے کی صورت میں ، نہ ملیں ۔ ایسی جگہوں پر چیزیں رکھنے سے وہ چوروں سے تو محفوظ ہوجاتی ہیں ،مگر کبھی کبھی جب آپ وہ جگہ بھول جاتے ہیں تو پھر آپ کے ہاتھوں سے بھی نکل جاتی ہیں ۔
کوئی گمشدہ شے نہ مل رہی ہو تو تلاش کے بعد وقتی طورپر اس کو بھول جائیں ۔ اس کا خیال ذہن سے نکال دیں ۔ آپ دیکھیں گے کہ کچھ وقت گزرنے کے بعد آپ کو خود بخود یا د آجائے گا کہ آپ نے اس کو کہاں رکھا تھا ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارا لاشعور مسلسل مطلوبہ شے کا پیچھا کرتا رہتا ہے اور آخرکار اس کو جاپکڑتا ہے ۔
آخر میں یہ بات یاد رکھیں کہ اگر کوئی شے ہمیشہ کے لیے گم ہوگئی ہے اور بہت سی تلاش کے باوجود نہیں مل رہی تو اس کے لیے پریشان مت رہیں ، اس کو بھول جائیں۔