سوبروڈر نے اپنی داستان یوں سنائی ہے ۔۔۔
’’ میں ایک چھوٹے سے گاؤں میں رہتی ہوں ۔ یہاں آباد ہوئے مجھے زیادہ عرصہ نہیں گزرا۔ گاؤں کی ایک خاتون جون سے ملنے کا مجھے دوبار اتفاق ہوا تھا ۔ اچانک وہ فوت ہوگئی ۔ میرا تاثر یہ تھا کہ وہ خوش اطوار عورت تھی ، غیر معمولی بہرطور نہ تھی ۔اس لیے چرچ میں اس کی آخری رسوم کے موقع پر لوگوں کا بہت بڑا ہجوم دیکھ کر مجھے حیرت ہوئی ۔ میںنے سوچا کہ مجھے شاید مرحومہ کی خوبیوں کا علم نہیں۔ لہذا اس کے متعلق صحیح رائے قائم نہ کرسکی تھی ۔ زیادہ جاننے کے لیے میں نے چرچ کے دروازے کے پاس کھڑے ایک سوگوار شخص سے پوچھا ۔
آخر یہ جون صاحبہ تھیں کون؟ اس کی خاطر اتنے زیادہ لوگ کیوں آئے ہیں ؟
‘‘اس شخص نے قدرے حیرانی سے مجھے دیکھا پھر کہنے لگا’ ان میں سے اکثر لوگ جون کے دوست ہی
جون سے معمولی شناسائی کے باوجود بہت سارے لوگوں کو اس کے لیے سوگوار دیکھ کر میں بہت متاثر ہوئی ۔اس واقعہ سے مجھے اپنے وہ دوست یاد آنے لگے جو دکھ سکھ میں میرے ساتھی رہے تھے ۔ ان میں سے بعض نامعلوم منزلوں کو روانہ ہو چکے تھے ۔
‘‘
بات یہ ہے کہ اچھا دوست مل جائے تو زندگی کے دن خوش گوار ہوجاتے ہیں ۔ تسکین سی دل کو مل جاتی ہے لیکن دوستیاں اوپر سے نازل نہیںہوتیں ۔ ان کو ویسے ہی بنانا اور سنوارنا پڑتا ہے جس طرح ہم پودے لگاتے ہیں ، ان کی دیکھ بھال کرتے ہیں اور سنوارتے ہیں ۔ دوسری مہارتوں کی طرح دوست بنانے کی مہارت بھی سیکھی جاسکتی ہے ۔اس کے بھی اصول ، قاعدے اور گرہیں ۔
جون سے ملنے کے بعد میں نے اچھی دوستیاں بنانے کے لیے کئی گر سیکھے ہیں ۔ ان میں سے بعض کے لیے تو مجھے کئی مشکلات برداشت کرنی پڑتی ہیں ۔ میں نے اس موضوع پر تحقیق کرنے والے کئی ماہرین سے مشورے بھی کیے ہیں ۔ جو کچھ میں نے سیکھا ہے ، وہ آپ کو جان لیں ، اس سے آپ کو بھی اچھے دوست بنانے میں مدد مل سکتی ہے ۔
دوستوں کو ترجیحی معاملہ بنائیں
اکثر لوگ کہا کرتے ہیں ’’ میں زیادہ دوست بنانا چاہتا ہوں لیکن کیا کروں ، وقت ہی نہیں ملتا ۔‘‘
وقت کا یہ شکوہ فضول ہے ۔ہم وہ سارے کام کرتے ہیں جو کرنا چاہتے ہیں اور جن کو ضروری یا مفید خیال کرتے ہیں ۔ لہذا دوستوں کے لیے گنجائش پیدا کرنے کی خاطر آپ کو زیادہ تخلیقی رویہ اپنانا ہوگا۔
عارف چوہدری پیشے کے اعتبار سے وکیل ہیں ۔ دوستوں کے ساتھ میل ملاپ کاانہوں نے یہ طریقہ اختیار کر رکھا ہے کہ ایک کے ساتھ وہ صبح کی سیر کرتے ہیں ، چارپانچ کے ساتھ کلب میںملتے ہیں ، پانچ سات دوست اتوار کی شام کسی ریستوران میں گزارتے ہیں اور ایک کے ساتھ ہر ماہ ہوٹل میں لنچ کرتے ہیں ۔
ایک طریقہ میری دادی اماں کا تھا ۔ انہوں نے دوستوں کی کتاب بنا رکھی تھی ۔ ہر ماہ کی پہلی تاریخ کو وہ اپنی میز کی دراز سے یہ کتاب نکالتیں اور ان دوستوں کے نام نوٹ کرتیں جن سے گزشتہ ماہ کے دوران ان کی ملاقات یا فون پر گفتگو نہ ہوئی تھی ۔پھر وہ ان سب سے رابطے کرتیں ۔
دوستوں کے لیے وقت نکالنے سے ہوسکتا ہے کہ آپ کا مطالعہ زیادہ گہرائی سے نہ کرسکیں ۔ لان کی گھاس کاٹنے کا پروگرام منسوخ کرناپڑے یا پسندیدہ ٹی وی پروگرام آپ نہ دیکھ سکیں لیکن دوستوں کی رفاقت سے ملنے والی خوشیوں کے مقابلے میں یہ بہت چھوٹی چیزیں ہیں ۔ ان کو دوستوں سے میل ملاپ میں حائل نہ ہونے دیں ۔
چھوٹی چھوٹی باتوں کا دھیان رکھیں
مشکل وقت میں دوستوں کا ساتھ دینا چاہئے ۔ اس سے دوستیاں گہری ہوتی ہیں اور مضبوط بھی ۔ تاہم تعلق ناطے کی بظاہر چھوٹی موٹی باتوں کا خیال رکھنے سے بھی دوستی کو تقویت ملتی ہے ۔ مثلا دوستوں کی سالگرہ پر مبارکباد دینے اور عید کے موقع پرعید کارڈ بھیجنے سے ان کو خوشی ہوگی ۔ وہ جان جائیں گے کہ آپ ان کو یاد رکھتے ہیں ۔ ان کی پرواہ کرتے ہیں ۔
سٹیون ڈک نے ’’زندگی بھر کے دوست‘‘ کے عنوان سے ایک عمدہ کتاب لکھی ہے ۔ ڈک نے ایک بار لوگوں سے کہا کہ وہ کسی ایک دن میں ہونے والی اہم ترین گفتگو کو یاد کریں ۔
اس سوال کے جواب میں ڈک صاحب کو جو معلومات حاصل ہوئیں ان سے یہ نتیجہ نکلا کہ اہم ترین باتیں عموما صرف دو یاتین منٹ تک جاری رہتی ہیں ۔
یوں ڈک صاحب نے لکھا ہے ’’ لمبی لمبی باتیں دوستوں کو یاد نہیں دلاتیں کہ آپ ان کی پرواہ کرتے ہیں ۔اس کے بجائے چھوٹی چھوٹی باتیں دل پر نقش ہوجاتی ہیں ۔ مثلا کوئی دوست سفر پر جارہا ہے اور آپ اس کو سلامتی کی دعا دیتے ہیں تو وہ اس بات کو کبھی نہ بھولے گا۔
‘‘
اظہار ذات سے گریز نہ کریں
بعض لوگ اپنے جذبوں کو دوستوں سے پوشیدہ رکھتے ہیں ۔ وہ اپنے خدشوں ، مایوسیوں اور منفی احساسات کے اظہار سے ڈرتے ہیں لیکن تمام دوستیوں میں کوئی نہ کوئی لمحہ ایسا بھی آجاتا ہے جب آپ کو دل کی بات ضرور زبان پر لانی چاہئے ۔
میری بیٹی سونیا کی سکول میں دو سہیلیاں ہیں۔ ایک اتوار کو وہ دونوں سونیا کے بغیر ہی شاپنگ کے لیے چلی گئیں ۔ سونیا کو علم ہوا تو یوں نظرانداز کیے جانے پر وہ بہت رنجیدہ ہوئی۔ جب دونوں سہیلیاں واپس آئیں تو سونیا نے ان سے بے رخی برتنا چاہی مگر وہ اس قدر پریشان تھی کہ خود پر قابونہ رکھ سکی ۔ چنانچہ اس نے فورا سہیلیوں کو صاف صاف بتادیاکہ ان کی اس حرکت سے اس کو بہت دکھ ہواہے ۔
پھر کیا ہوا؟ ہوا یہ کہ دونوں سہیلیوں کو احساس ہوگیا کہ سونیا ان کی دوستی کو کس قدر اہم سمجھتی ہے ۔ چنانچہ انہوں نے معذرت کی گویا بارہ سالہ سونیا نے دوستی کا ایک سنہری اصول سیکھ رکھا تھا ۔ وہ یہ ہے کہ جب آپ دوستوں کے سامنے اپنا دل کھول دیتے ہیں تو دوستی کا رشتہ اور بھی مضبوط ہوجاتا ہے۔
شاید آپ کو یہ خدشہ ہو کہ دوستوں کو آپ کی کمزوریوں کا علم ہوگیا تو وہ آپ کو کم چاہنے لگیں گے مگر یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ وہ آپ کو زیادہ چاہنے لگیں ۔ ڈک صاحب نے یہ بات نوٹ کی ہے کہ خاص طور پر دوستی کے ابتدائی مراحل پر اپنی خامیوں کا اعتراف دوستی کے رشتے کو مضبوط بناتا ہے ۔
میرے دوست جب کبھی اپنی چھوٹی موٹی کوتاہیوں اور خامیوں کا ذکر کرتے ہیں تو میں ان کو بتایا کرتا ہوںکہ ایک بار ائر پورٹ جاتے ہوئے میں راستے میں خط پوسٹ کرنے کے لیے رکا اور ۔۔۔ خط کی بجائے اپنا جہاز کا ٹکٹ لیٹر بکس میں ڈال دیا تھا۔
دوستوں کی خامیاں اور خطائیں جاننے سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ انسانی کمزوریاں صرف ہم میں نہیں ہیں ۔ ہر ایک میں کوئی نہ کوئی کسر رہ جاتی ہے ۔ لہذا اپنی سچی ذات ، اپنی حقیقت کو نہیں چھپانا چاہئے ۔
اختلافات کو قبول کریں
کسی دوست کے ساتھ بہت سا وقت گزاریں تو کبھی کبھی اس پرانی کہاوت کی سچائی کا احساس ہوتا ہے کہ ’’ قربت بے زاری پیداکرتی ہے ۔
‘‘
ہم ایک دوسرے میں نقائص تلاش کرنے لگتے ہیں ۔ مثلا یہ کہ عمران تو ہروقت اپنا ہی ڈھنڈورا پیٹتا رہتا ہے ‘‘ یا یہ کہ ’’ فاخرہ کو دوسروں کے ساتھ اس قدر فلرٹ نہیں کرنا چاہئے ۔ مگر ہمیں اس قدر ظاہر پرست ہونے سے گریز کرنا چاہئے ۔ ممکن ہے کہ دوستوں کی ہمیں نظر آنے والی ’’ خامیوں‘‘ میں خوبیاں پوشیدہ ہوں ۔
ستر سالہ آرٹسٹ این نے ایک مرتبہ اپنی اکاسی سالہ سہیلی کی شکایت یوں کی تھی کہ اس کو اپنی بزرگی کا احساس نہیں وہ عجیب وغریب حرکتیں کرتی ہے ۔
این کا کہنا تھا ’’ جب میں ستر سال کی ہوئی تو بڑھاپے کے احساس نے مجھے نڈھال کردیا لیکن میری اس بانکی سہیلی نے حد کردی ہے ۔
اس نے میرے اعزاز میں ’’ ستر برس کے شباب ‘‘ کی پارٹی دے ڈالی ۔ اس پارٹی میں رسہ کشی اور نوجوانوں کے دوسرے کھیل بھی رکھے گئے تھے ۔ ہمارے بچے تو ڈر گئے کہ ہم میں سے کسی کی ٹانگ یا بازو ہی ٹوٹ جائے گا۔ اللہ کا شکر ہے کہ ایسی بات نہیں ہوئی اور سچ تو یہ ہے کہ مجھے اس پارٹی میں ایسا لطف آیا جو پہلے کبھی نہ آیا تھا ۔
‘‘
امریکا کے ایک سوشل نفسیات دان رابرٹ ویس کے دعوے کے مطابق دوستی کا ایک نسخہ یہ ہے کہ دو افراد میں چند خصوصیات مشترک ہوں اور چند مختلف ۔ مشترک خصوصیات ایک دوسرے کو سمجھنے اور قریب آنے کے لیے ضروری ہیں ۔ رہیں مختلف خصوصیات تو وہ اس لیے ضروری ہیں کہ دوست ایک دوسرے کو کچھ سکھا سکیں ۔ ایک دوسرے سے کچھ سیکھ سکیں ۔
گنتیاں مت کریں
بہت سے لوگ دوستانہ معاملات کی گنتی کرنے کی عادت میں مبتلا ہوتے ہیں ۔ وہ یاد کرتے ہیں کہ پچھلی مرتبہ میں نے اس کو فون کیا تھا اور گزشتہ عید پر میں اس سے ملنے گیا تھا ۔ لہذا اب اس کی باری ہے ۔ وہ مجھے فون کرے اور عید کی مبارک باد دینے بھی آئے ۔ ایسا نہ ہوا تو پھر میں گھاٹے میں رہوں گا۔
یہ بری عادت ہے ۔ دوستی کے لیے تو اس کو زہر سمجھ لیں ۔ آپ اس طرح دوستی نہیں نبھا سکتے ۔ اچھے دوست اس وقت ملتے ہیں جب آپ یہ حساب کتاب نہ کریں کہ آپ نے دوستوںکو کیا دیا اور انہوں نے بدلہ کیسے چکایا۔
سٹیلا وولف نیویارک کی ایک ٹریول ایجنسی کی مالک ہیں ۔ وہ بہت سفر کرتی ہیں ۔ دنیا بھر میں انہوں نے دوست بنا رکھے ہیں ۔ کیسے ؟ یوں کہ وہ دوستی کے صلے کی تمنا سے بے نیازہیں ۔
فرانس کے مشہور ناول نگار الیگزینڈر ڈوما کی نصیحت بھی یہی ہے کہ جو آپ کسی کو دیتے ہیں اس کو بھول جائیں البتہ آپ کو کچھ ملتا ہے تو اس کو یاد رکھیں ۔
کوئی دوست ضرورت مند ہو تو سٹیلا فورا مدد کو پہنچتی ہے ۔ ایک دوست بے روزگار ہوگیا تو اس نے فورا اپنی ایجنسی میں اس کو ملازمت دے دی ۔ چند روز بعد ایک اور دوست کو روزگار سے محروم کردیا گیا ۔ سٹیلا بے حد پریشان ہوئی ۔ وہ سب دوستوں کو فون کرکے معلومات حاصل کرتی رہی یہاں تک کے رات کو اس نے دوست کے لیے روزگار کا بندوبست کردیا ۔ جب کوئی تنہا دوست اکلاپے کا گلہ کرے تو سٹیلا فورا ہی اس کے لیے ساتھی تلاش کرنے لگتی ہے ۔ پھر بھی سٹیلا نے کبھی دوستوں کے لیے اپنی خدمات کا ذکر نہیںکیا ۔ وہ بس یہی کہتی ہے کہ دوست اس کا بہت خیال رکھتے ہیں ۔ محبتوں اور رفاقتوں سے نوازتے ہیں اور مہربان رہتے ہیں۔
دوستوں کی نوازشوں سے نہ بھاگیں
کہاوت تو یہی ہے کہ ’’ دینے والا ہاتھ لینے والے ہاتھ سے بہتر ہوتا ہے ۔‘‘ مگر اس کا اطلاق دوستی کے معاملات پر نہیںہوتا ۔ دوستی کے اپنے قاعدے ،ضابطے اور اصول ہیں ۔ لہذا جب آپ کو واقعی مدد کی ضرورت ہو اور دوست مدد کرنے کی پوزیشن میں ہوں تو ان کو یہ جتلانے میں کوئی حرج نہیں ہوتا کہ آپ کو ان کی مدد کی ضرورت ہے ۔ جس طرح آپ ضرورت مند دوستوں کو مدد کرکے خوش ہوتے ہیں ۔ اسی طرح آپ ان کو بھی اپنی مدد کرنے کا موقع دے سکتے ہیں ۔
پچھلے سال کی بات ہے کہ ضروری کام سے مجھے ساہیوال جاناتھا اور میری گاڑی خراب ہوگئی ۔ حفیظ کو اطلاع ہوئی تو اس نے اپنی کار بھیجنے کی پیش کش کردی ۔ یونہی مجھے خیال آیا کہ حفیظ کو خود بھی گاڑی کی ضرورت ہوگی ۔ میں اس کے لیے بوجھ کیوں بنوں ۔ لہذا میں نے انکار کردیا۔
ٹیلی فون پر جب میں نے انکار کیا تو حفیظ کا لہجہ بجھا بجھا ساتھا ۔ میرا انکار اسے اچھا نہ لگا تھا ۔ یوں میری حماقت کے باعث دوستی میں سرد مہری سی پیدا ہوگئی ۔
چند روز گزر گئے ۔ میں نے حفیظ کو فون پر کہا ’’ بچوں کے ساتھ مری جانے کا پروگرام بنا چکا ہوں لیکن اس بار تنخواہ ملنے میں تاخیر ہوگئی ہے ،سمجھ نہیں آتا کیا کروں ؟
‘‘
حفیظ نے یہ بات سنی تو فورا ہی کچھ رقم بھیجنے کی حامی بھرلی ۔ اس کے بعد ہماری دوستی پہلے جیسی ہوگئی ۔
اس تجربے سے میں نے یہ سبق سیکھا ہے کہ جائز ضرورتوں کے لیے دوستوں سے مدد لینے میں نہ صرف کوئی عار نہیں بلکہ اس سے دوستی کا رشتہ اور بھی گہرا ہوجاتا ہے ۔
دوستوںکے ساتھ مل کر قہقہے لگائیں
ایک معزز صاحب طیارے میں میرے ساتھ بیٹھے تھے ۔ سفر شروع ہوا تو باتیں ہونے لگیں۔ تعارف ہوا اور دوستوں کا ذکر ہونے لگا ۔ انہوں نے اپنی ایک دوست کی شکایت یوں کی ’’ بیلا کو اچھی طرح معلوم ہے کہ مجھے جوئے سے نفرت ہے مگر وہ باز ہی نہیں آتی ۔ بھلا اس نے مجھے سالگرہ پرکیا تحفہ بھیجا ۔ اس نے مجھے لاٹری کے ساٹھ ٹکٹ بھیجے ہیں ۔ گویا عمر کے ہرسال کے لیے ایک ٹکٹ ۔ ہے ناں واہیات بات۔
‘‘
پھر ان صاحب نے کوٹ کی جیب میں ہاتھ ڈالا ۔ ایک سنہری ڈبیہ نکال کر مجھے دکھائی ۔ اس میں زمرد رنگ کی ایک انگوٹھی تھی۔کہنے لگے ’’ یہ بیلا کے لیے تحفہ لے جارہا ہوں ۔
‘‘
میں حیران ہوا ۔ بے تکلفی نہ ہونے کے باوجود پوچھ ہی لیا’’ جناب آپ کی دوست الٹے سیدھے تحفوں سے آپ کو تنگ کرتی ہے تو پھر آپ اس کے لیے اتنی خوبصورت انگوٹھی کیوں لے جارہے ہیں ؟‘‘
میرا سوال سن کر وہ مسکرائے ’’ بھئی بات یہ ہے کہ خوبصورت انگوٹھیاں بیلا کی کمزوری ہے مگر اس رنگ سے اس کو چڑ ہے ۔
‘‘
میں بھید جان گیا ۔ بیس برسوں سے وہ دوست تھے ۔ ہرسال کئی الٹ پلٹ تحفے دے کر وہ ایک دوسرے کو ہنسنے کا موقع دیتے تھے۔
سرولیم اوسلر اچھے ڈاکٹر ہیں اور مصنف بھی ۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’ ہنسی زندگی کی موسیقی ہے ۔‘‘
ہنسنے کھیلنے کا موقع دے کر آپ کسی دوست کا دن خوش گوار بنا سکتے ہیں ۔ اچھے دوستوں کو قریب لاسکتے ہیں ۔ زندگی کے مشکل دنوں میں ہنسی کھچاؤ کم کرتی ہے ۔ روح سے بوجھ ہٹاتی ہے ۔ یوں اندھیری راہوں میں امید کے دیپ روشن ہونے لگتے ہیں ۔
’’ امن ،محبت اور دوا‘‘ کے مصنف ڈاکٹر برنی ایس سیگل نے ایک واقعہ بیان کیا ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک روز صبح کے وقت ان کے دوست جان بل نے مرجھائی ہوئی آواز میں فون پر ان کو بتایا ’’ ڈاکٹر صاحب میں زندگی سے تنگ آچکا ہوں۔ یہ فون آپ وک الوداع کہنے کے لیے کررہا ہوں۔ میں خودکشی کرنے لگا ہوں ۔
‘‘
ڈاکٹر صاحب نے فورا ہی پھبتی کسی ۔’’ میاں تم نے اپنی جان لی تو ہماری دوستی ختم ۔میں کبھی تم سے نہیں بولوں گا۔
‘‘
یہ غیر متوقع جواب سن کر جان بل ہکا بکا رہ گیا اور دبے لہجے میں ہنسنے لگا ۔یوں اس نے اپنے ہاتھوں اپنی جان لینے کے بجائے دل کا بوجھ ہلکا کرنے کے لئے ڈاکٹر سیگل کے گھر کا رخ کیا ۔
پرانی دوستیاں تازہ کرتے رہیں
کبھی کبھی ہم سوچتے ہیں کہ پانچ ،دس یا پندرہ بیس برسوں کے طویل وقفے کے بعد کسی دوست سے ملنا واہیات سی بات ہے ۔ اتنے برسوں میں سب کچھ بدل جاتا ہے ۔ہمارا دوست بھی پہلے جیسا کہاں رہا ہوگا ۔ اس کی نئی زندگی ہوگی ،نئی مصروفیات اور نئی دلچسپیاں ہوں گی ۔ دوست بھی نئے ہوں گے ۔ میں ملنے جاؤں تو بوجھ ہی بنوں گا۔
ممکن ہے کہ یہ خدشہ درست ہو ۔ مگر یقین رکھیں کہ یہ خدشہ ہمیشہ درست نہیں ہوتا۔
میرا تجربہ یہ ہے کہ یہ خدشہ غلط ہے ۔کئی بار راہ چلتے ، کسی موڑ پر ، کسی بازار میں یا پھر کسی تقریب میں گئے وقتوں کے کسی دوست سے مڈبھیڑ ہوجاتی ہے تو میں آگے بڑھ کر اس کو گرم جوشی سے گلے لگانے میںایک پل بھی نہیں ہچکچاتا ۔
کبھی کبھی دوست مجھ کو پہچاننے میں تھوڑا سا وقت لیتا ہے لیکن اس سے مجھے گھبراہٹ یا شرمندگی نہیں ہوتی ۔ میں جانتا ہوں کہ چند لمحوں میں اس کا حافظہ پرانی یادیں شعور کی سطح پر لے آئے گا ۔پھر ہم مل بیٹھتے ہیں ۔ بیتے دنوں کو یاد کرتے ہیں ۔۔ ۔ اور میں کبھی کبھی اس کو یونہی فون کرنے ، عید کارڈ یا نئے سال کی مبارک باد بھیجنا نہیںبھولتا ۔ یوں کھویا ہوا دوست دوبارہ مل جاتا ہے ۔
بات یہ ہے کہ دوستوںکو آپ سے کئی توقعات ہوتی ہیں ۔وہ چاہتے ہیں کہ آپ ان کے مسائل سنیں ،ان کو وقت دیں اور ضرورت پڑنے پر ان کی مدد کریں ۔دوستی کی یہ قیمت بہت ہی کم ہے ۔دوستی سے حاصل ہونے والی خوشی کے مقابلے میں یہ قیمت کچھ بھی نہیں ۔ جتنے زیادہ دوست ہوں ، اتنی ہی زیادہ خوشیاںملتی ہیں ۔ رابرٹ لیوس سٹیون سن کی یہ بات پلے سے باندھ لیں ’’ دوست وہ تحفہ ہے جو ہم اپنے آپ کو دیتے ہیں ۔