فیملی ڈاکٹر کو لوگوں کی روزمرہ زندگی ، ان کی پریشانیوں اور الجھنوں کو قریب سے جاننے کا موقع ملتا ہے۔
ڈاکٹر پیٹر ہین سن ایسے ہی ایک ڈاکٹر ہیں ۔ان کے مریضوں کی تعداد چار ہزار کے لگ بھگ ہے۔ ہر روز وہ پچاس مریض دیکھتے ہیں ۔ یوں ان کو مریضوں کا علاج کرنے کے علاوہ یہ دیکھنے کا موقع بھی ملتاہے کہ کوئی مرض کسی قسم کے افراد کو شکار کرتا ہے۔
ڈاکٹر ہین سن صاحب اپنے طویل تجربے کی بنیاد پر دعویٰ کرتے ہیں کہ اکثر مریضوں میں مشترک بات یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنی زندگیوں کو صحیح طور پر منظم نہیں کرپاتے ۔اس ناکامی کے پیچھے عموما ذہنی تناؤ کا ہاتھ ہوتا ہے۔
تناؤ ایک انفرادی ردعمل ہے ۔ یہ عین ممکن ہے کہ کوئی ایک واقعہ کسی شخص کے لیے مثبت تناؤ کا سبب بن جائے اور اس پر منفی تناؤ نازل کردے ۔ تناؤ اچھا ہوسکتا ہے اور خطرناک بھی ۔ اس کا انحصار خود آپ کی شخصیت پر ہے ۔ ڈاکٹر ہین سن کا مشورہ یہ ہے کہ آپ تناؤ کے خطرات کا احساس کریں اور اس سے فائدے حاصل کرنے کی کوشش کیا کریں ۔
مثبت پہلو کی ایک عام سی مثال یہ بیان کی جاسکتی ہے کہ جب کسی طالب علم پر امتحا ن کا دباؤ ہو تو عموما اس کی کارکردگی بہتر ہوجاتی ہے ۔ تاہم ضروری بات یہ ہے کہ دباؤ ایک خاص حد سے آگے نہ بڑھنے پائے۔
زیادہ دباؤ بہرحال نقصان دہ ہوتا ہے ۔ چنانچہ امتحان کے دباؤ کے تحت تیاری کرنے والے طالب علم کو اگر محبت میںناکامی کا سانحہ پیش آجائے تو پھر امتحان میںاس کی کامیابی کا امکان بہت کم رہ جاتا ہے۔
بہت کم دباؤ بھی اچھا نہیںہوتا ۔ بھرپور زندگی بسر کرنے والے جب کسی شخص کو اچانک ریٹائرمنٹ کی خاموش زندگی گزارنا پڑے اور وہ نئی سرگرمیاں تلاش نہ کرسکے تو یہ اس کے لیے تکلیف دہ بات بن جاتی ہے ۔
بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ تناؤ سے متعلقہ بیماریاں اور حادثے بہت سا وقت ضائع کرنے کا سبب بنتے ہیں۔
اخبارات ، رسائل اور ابلاغ عامہ کے دوسرے ذریعوں سے ذہنی تناؤ کے مسائل کا خاصا چرچا ہوتا رہتا ہے ۔ تاہم لوگ عموما ان سے بے خبر ہی رہتے ہیں اور بے خبری کے عالم میں ان کی زد میں آجاتے ہیں ۔ لہذا خبردار رہیں ۔ اگر آپ نے تناؤ سے عہدہ برا ہونا نہ سیکھا تو آپ کو شکار کرسکتا ہے ، آپ کی شخصیت کو مسخ کرسکتا ہے اور بعض امراض بھی پیدا کرسکتا ہے۔
ذہنی دباؤ پر قابو پانے کی کنجی کنٹرول کرنے کی اہلیت ہے ۔
یہاں ہم آپ کو ایک دلچسپ تجربے کا حال بتاتے ہیں ۔ سائنس دانوں نے مزدوروں کے دو گروپ بنائے ۔ ان کی کام کرنے کی جگہ پر بہت شور رہتا تھا۔ شور کا سبب مشینوں کی گھرگھراہٹ ، خوانچہ فروشوںکی آوازیں ، عورتوں اور بچوں کے ہنگامے اور لوگوں کی بھیڑ تھی ۔ تاہم دونوں گروپوں میں ایک فرق رکھا گیا تھا ۔ ایک گروپ کے کمرے میں سائنس دانوں نے ایک بٹن نصب کردیا جس کو دبا کر شور سے نجات پائی جاسکتی تھی ۔ دوسرے گروپ کے پاس ایسی کوئی سہولت نہ تھی ۔
سائنس دانوں نے جب دونوں گروپوں کی کارکردگی کا جائزہ لیا تو وہ توقع کے عین مطابق تھی۔ چنانچہ کنٹرول بٹن والے گروپ کی کارکردگی اس بٹن سے محروم گروپ سے بہتر رہی تھی۔
اس تجربے میںاہم اور دلچسپ بات یہ تھی کہ کسی نے بھی درحقیقت بٹن کو استعمال نہیں کیا تھا ۔محض اس کی موجودگی ہی کارکردگی میںبہتری کا سبب بن گئی تھی۔
اس تجربے میںایک اہم سبق پوشیدہ ہے اور وہ یہ ہے کہ ہمارے کوئی نہ کوئی ’’ نجی کنٹرول بٹن ‘‘ ہونے چاہئیں ۔ وہ ہمیں ذہنی تناؤ ، کشیدگی اور دباؤ کا مقابلہ کرنے میں مدد دیتے ہیں ۔ ہماری زندگی کو آسان بناتے ہیں۔
جس شے کو ہم کنٹرول نہیں کرسکتے ، اس کو بھولنا اور جو کنٹرول میںہو،اس کو کنٹرول کرنا سیکھنا چاہئے ۔ہمیںجان لینا چاہئے کہ زندگی کے اکثر واقعات ہمارے کنٹرول میںہوتے ہیں۔
اب ہم ان سات مفید طریقوںکا ذکر کریں گے جن کے ذریعے سے ذہنی تناؤ کا مقابلہ کیاجاسکتا ہے ۔وہ آپ کو کنٹرول کی بنیاد دے سکتے ہیں اور آپ کی شخصیت کا حصہ بن کر تناؤ کے مقابلے میں آپ کی مدد کر سکتے ہیں ۔ ان پر عمل کرکے آپ ذہنی تناؤ کو خاطر میںنہ لائیں گے اور خوش باش زندگی گزار سکیں گے ۔
حس مزاح
تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ قہقہہ سے جسم میں انڈروفنز کا لیول بڑھ جاتا ہے ۔ اس کے ذریعے آپ تکلیف کو ختم کرسکتے ہیں اور مرض کا مقابلہ کرنے والی قوت کو بڑھا سکتے ہیں ۔یہی نہیں، بلکہ قہقہہ کے ذریعے ہم اپنے مسائل کا تناظر بدل سکتے ہیں ۔۔۔ خصوصا جب آپ خود پر ہنس سکتے ہوں ۔
مناسب خوراک
اچھی خوراک انسان کو چاک وچوبند رکھتی ہے ۔ جسمانی صحت عطا کرتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ذہنی صلاحیتوں کو جلا بخشتی ہے ۔ یہ دونوں خوبیاں حاصل ہوجائیں ،یعنی آپ جسمانی طورپر صحت مند اور ذہنی لحاظ سے بیدار ہوں تو پھر آپ دباؤ کے مقابلے میں بہتر پوزیشن میں ہوں گے ۔ آپ اس کو خاطر میںنہ لائیں گے اور بھرپور انداز میں اس کی مزاحمت کریں گے ۔
نئی سرگرمیاں
ذہنی تناؤ سے نجات پانے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ کوئی ایسی سرگرمی اختیار کی جائے جو خود بھی کسی قدر تناؤ پیدا کرنے والی ہو ۔ یہ متبادل سرگرمی ایسی ہونی چاہئے جو آ پ کی مکمل توجہ جذب کرسکے ۔ مثال کے طورپر ٹینس کے شوقین ذہنی کھچاؤ سے نجات پانے کے لیے سٹاک مارکیٹ کے امور میں دلچسپی شروع کرسکتا ہے۔ دوسری طرف مالیاتی امور کا پیشہ ور ماہر ٹینس میںدلچسپی لے کر اپنی کھچاؤ پیدا کرنے والی روٹین کو توڑ سکتا ہے۔
حقیقت پسندانہ مقاصد
زندگی میں ہمیں ایسے مقاصد اپنانے چاہئے جو واضح ہونے کے علاوہ حقیقت پسندانہ بھی ہوں ۔ مقاصد کا تعین کرنے کے لیے خود آگاہی بہت ضروری ہے ۔ یعنی آپ کو اپنی خوبیوں ، خامیوں ، صلاحیتوں ، کمزوریوں اور پسند وناپسند کا بخوبی علم ہونا چاہئے ۔ اگر آپ دوسرے لوگوں کے ساتھ رابطوں اور میل ملاپ کا رحجان رکھتے ہیں تو پھر کوئی ایسا کام آپ کو پسند نہیں ہو گا جو بند کمرے میںبیٹھنے کا تقاضا کرتا ہو۔
اپنے میلان کے خلاف کوئی کام منتخب کرنے سے آپ خوشیوں سے دور ہوجائیں گے ۔خوش باش زندگی کے لیے حقیقت پسندانہ مالی اہداف کا تعین بھی ضروری ہے ۔ اس امر کا جائزہ لیجئے کہ سال یا پانچ سال بعد آپ کو کہاںہونا چاہئے ۔ یوں اپنے اہداف حاصل کرنے کا ٹائم ٹیبل بنائیے ۔
سکون حاصل کرنے کی تدابیر
کیا آپ ذہنی کھچاؤ کے عالم میں آرام کرسکتے ہیں؟
اس سوال کا جواب ’ ’نہ‘‘ میں ہے تو کوئی ایسی تدبیر سیکھئے جو ذہنی کھچاؤ کی حالت میں آپ کو سکون عطا کرسکے ۔
نیند ایسی ہی ایک تدبیر ہے ۔ وہ مشکل اور حوصلہ شکن حالات سے ہمیں وقتی نجات دلاتی ہے ۔ یوں ہم اپنی صلاحیتیں دوبارہ سمیٹ سکتے ہیں اور نئے ولولے کے ساتھ حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہوسکتے ہیں۔
مناسب ملازمت
آپ کی ملازمت آپ کے میلان اور صلاحیتوں کے مطابق ہے تو اس امر کو خوش نصیبی سمجھیئے۔
اس قسم کی ملازمت ہمیں اپنی صلاحیتیں اور مہارتیں بھرپور طریقے سے استعمال کرنے کے مواقع مہیا کرتی ہے ۔ اس طرح ناصرف ذہنی تناؤ میں کمی آتی ہے بلکہ اس کا مقابلہ کرنے کی اہلیت بھی بڑھ جاتی ہے۔
مستحکم گھرانا
اگر آپ توجہ ، محنت اور وقت صرف کرکے خوش باش گھرانا بنا لیتے ہیں اور دوستوں کا ایک حلقہ پیدا کرلیتے ہیں تو پھر ذہنی تناؤ کے مقابلے کے لیے موثر ہتھیار آپ کے ہاتھ لگ جاتا ہے ۔ تناؤ کی شدت بہت کم رہ جاتی ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے کام اور زندگی کی بھاگ دوڑ کے دباؤ سے نجات ڈھونڈ لی ہے ۔ یہ اس سے کہیں بہتر ہے کہ آپ ہر سال تفریح کی غرض سے چھٹیاں منانے دوردراز کے مقامات پر چلے جائیں ۔
بہرحال یہ آپ کا اپنا انتخاب ہے ۔ہم نے صرف یہ کہنا ہے کہ آپ تناؤ کے مقابلے میںخود کو مضبوط بنا سکتے ہیں ۔یوں آپ کی زندگی زیادہ خوش گوار اور تخلیقی بن جائے گی ۔
یہاں ہم چلتے چلتے تین اور اصول درج کرتے ہیں جو آپ کو ذہنی تناؤ سے نجات حاصل کرنے میںمدد دے سکتے ہیں
پہلا اصول یہ ہے کہ اپنی قدر کیجئے ۔ اپنے دل میں اپنی قدروقیمت اور احترام برقرار رکھیئے ۔ اس پرآنچ نہ آنے دیں ۔
دوسرا اصول یہ ہے کہ زندگی کی چھوٹی موٹی رکاوٹوں کو خاطر میں نہ لائیں ۔ وہ زندگی کے کھیل کا حصہ ہیں۔
تیسرا اصول یہ ہے کہ جن معاملات پرآپ کو اختیار حاصل نہیں ، ان کے بارے میں پریشان ہونا چھوڑ دیجئے ۔