کیا آپ ناکامی کے خوف میں مبتلا ہیں ؟

ہم اس بحث میں نہیں پڑھتے کہ ناکامی ،دراصل کسی بڑی کامیابی کا زینہ ہوتی ہے یا گرتے ہیں شہسوار ہی میدان جنگ میں اور نہ ہی کسی انتہائی ناکام شخصیت کی کہانیاں دہرائیں گے کہ ابراہم لنکن کی زندگی کو دیکھ لیں یا اپنے ہاں قائداعظم کے بچپن کو ایک مرتبہ پڑھ لیں بلکہ ہم صرف اس خوف اور دہشت کے اثرات کو جانیں گے جو ناکامی کے تصور کو ذہن میں لاتے ہی ہماری جسم وجاں میں ایک سنسنی دوڑا دیتا ہے ۔ہم زندگی میں کتنی ہی کامیابیاں حاصل کرلیں ناکامی کا خوف پیچھا ہی نہیں چھوڑتا ۔ البتہ خوش آئند بات یہ ہے کہ اگر ناکامی کا یہ خوف ہمیںزندگی میں آگے بڑھنے پر مائل کرے تو اس سے اچھی شے ہی کوئی نہیں ،لیکن اگر یہ ذہن ودل پر سوار ہوجائے تو زندگی مفلوج ہو کر ناکامیوں سے عبارت ہوجاتی ہے اور اس دنیا کی بڑی حقیقتوں میں سے ایک یہ ہے کہ کامیابی حاصل کرنے کے لیے آپ کو بہت سارے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں لیکن ناکام ہونے کے لیے آپ کو کچھ بھی نہیں کرنا پڑتا۔

 

جب ہم ناکامی نام کے خوف کا نفسیاتی جائزہ لیتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ ناکامی کا خوف دوسری تمام اقسام کے خوف کی طرح ایک نادیدہ اور خود ساختہ ہے۔ بعض اوقات زندگی میں کچھ ایسے لمحات ،مواقع اور مقام آجاتے ہیں ،جہاںسے آگے بڑھ جانے کی ضرورت ہوتی ہے لیکن بہت سے لوگ ایسے مواقع پر ہاتھ پائوں چھوڑ بیٹھتے ہیں۔ ناکامی کا خوف ان میں اس حد تک پایا جاتا ہے کہ وہ وہیں ختم ہو کر رہ جاتے ہیں، انہیں وہ ایک ناکامی ،زندگی میں ملنے والی تمام کامیابیوں پر بھاری نظر آتی ہے ۔یوں وہ اسی ناکامی کے لمحے میں ٹھہر جاتے ہیں،آگے نہیں بڑھ پاتے ،یوں زندگی اپنی معمول کی رفتار کے ساتھ آگے بڑھتی رہتی ہے اور وہ اس دوڑ میں بہت پیچھے رہ جاتے ہیں۔ ایسے لوگ کوئی بھی نیا قدم اٹھانے سے گھبراتے ہیں ، بات چاہے کوئی نیا تعلق بنانے کی ہو یا کوئی امتحان دینے کی ، یاپھر کسی نئے پراجیکٹ میں شامل ہونے کی ،ناکامی ان کے ذہن پر ہروقت سوار رہتی ہے اور انہیں کسی کام جوگا نہیں چھوڑتی ۔

ایسا عموما ان لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے جن کابچپن خوف اور دہشت میں پروان چڑھتا ہے ۔ان کے والدین میں سے کوئی ایک اور بعض اوقات دونوں ہی ضرورت سے زیادہ تنقیدی واقع ہوتے ہیں ۔ایسے والدین بچوں کا آپس میں موازنہ کرتے رہتے ہیں۔ انہیں امتحان میں ناکام ہونے سے ڈراتے ہیں جس سے بچوں کے ذہن میں یہ خوف جڑ پکڑ لیتا ہے کہ ناکامی کوئی اچھی شے نہیں ۔آپ نے بھی دیکھا ہے ۔ ان حالات میں وہ لوگ جن میں ناکامی کا خوف بیٹھا تھا انہوں نے بجائے اس ایجاد ہوگا کہ امتحانات میں ناکامی کے بعدکئی بچے گھروالوں سے سامنا کرنے کی شرمندگی سے بچنے کے لیے خودکشی تک کر لیتے ہیں۔اگر ایسا نہ بھی کریں تو انہیں یہ بات اچھی طرح سمجھا دی جاتی ہے کہ پیار اور واہ واہ صرف کامیابی کی صورت میں ملتی ہے ،کسی بھی ناکامی کی صورت میں بچے کو اولاد کہلانے کے حق سے بھی محروم کر دیا جاتاہے کہ تم ہمارے بچے ہو ہی نہیں سکتے یا ہم تب بات کریں گے جب تم کامیاب ہوگے تب تک کیلئے حقہ پانی بند۔ کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی ایک چھوٹی سی ناکامی کسی بہت بڑے ذہنی ہیجان کا شکار بنا دیتی ہے ۔ وہ ایک واقعہ ذہن کے نہاںکونے کھدروں میں چھپا بیٹھا رہتا ہے اور آپ کو خوف و دہشت میںمبتلا رکھتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ناکامی کا خوف صرف ایسے بچوں یا بڑوں میں نہیں پایا جاتا جن کو بہت زیادہ کنٹرول کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہوبلکہ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ کچھ لوگ جو اپنے ماضی میں بہت زیادہ کامیابیاں سمیٹ چکے ہوتے ہیںان کے اندر بھی ناکامی کا خوف بیٹھ جاتا ہے کیونکہ کامیابی کا مزہ چکھتے رہنے کے بعد ناکامی کا خیال بھی ان کے ناممکن ہو جاتا ہے۔

مثال کے طور پرپچھلی صدی کے آخر میں کمپیوٹر کا رواج پوری دنیا میں پھیل گیا ۔ ایسے تمام لوگ جو کمپیوٹر کے استعمال سے ناواقف ہیں ان کا آج کے دور میں کام کرنا ناممکن تصور کیا جاتا سے فائدہ اٹھانے کے ایسے کام کرنے کو ترجیح دینا شروع کر دی جن میں کمپیوٹر کا استعمال نہیں کیا جاتا۔ جس سے بہرحال ان کی ترقی متاثر ہوئی ۔ یہ سوچ ان لوگوں کے لیے مزید ناکامی لے آئی کیونکہ نئے زمانے کے ساتھ نہ چلنے والے ہمیشہ پیچھے رہ جاتے ہیں، ختم ہوجاتے ہیں۔ زمانہ صرف ان کا ساتھ دیتا ہے جو آگے بڑھنے کے قائل ہوتے ہیں اور ناکامیوں کو بھی کامیابیوں کی طرح زندگی کا حصہ سمجھتے ہیں۔

ناکامی کا خوف صرف کاروباری یا تعلیمی زندگی تک محدود نہیں بلکہ المیہ یہ ہے کہ یہ خوف سماجی تعلقات قائم کرنے میںبھی جھلکتا ہے، ایسے لوگ نئے رشتے بنانے، نئی دوستیاں کرنے یا اجنبی لوگوں سے تعلقات قائم کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ وجہ کوئی بھی ہو ایسے لوگ اپنے خودساختہ خوف کی وجہ سے زندگی کی بہت ساری خوشیاں سے محروم رہ جاتے ہیںکیونکہ جہاں خوف ہو وہاں سے پیار رخصت ہوجاتا ہے ۔ اب یہ آپ پر منحصر ہے چاہیں تو خوف اور دہشت سے بھری زندگی میں پناہ لیے رہیں اور اگر چاہیں تو اس کو چھوڑ کر محبت کارویہ اپنا لیں۔

اس خوف سے نکلنے کا آسان نسخہ یہ ہے کہ آپ سچے دل سے تسلیم کرلیں کہ کامیابی کی طرح ناکامی بھی زندگی کا ناگزیر حصہ ہے اور جب کبھی آپ کا ناکامی سے سامنا ہو تو آپ اسے اپنی زندگی کا کل سمجھنے کی بجائے ایک جز کے طور پر لیں۔اگر آپ کو ایسا سوچنا بھی مشکل لگتا ہے تو صرف اتنا کردیں تو ہمیں اس دنیا کاکوئی ایسا کامیاب شخص بتادیں جس کو زندگی میں کبھی ناکامی کا سامنا نہ کرنا پڑا ہو۔۔۔؟ مجھے آپ کے جواب کا انتظار رہے گا۔۔۔ !